محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,780
- پوائنٹ
- 1,069
::: میڈیا کی بے لگام افواہیں اور مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل :::
مصنف/مقرر/مولف ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ .
ترجمہ: شفقت الرحمن مغل
دورِ حاضر کے فتنوں کا محور میڈیاکی پھیلائے جانے والی افواہیں اور اس کی زَد میں آنے والے
مسلمانوں کے لئے اس فتنے سے بچاو کالائحہ عمل اور میڈیائی افراد کے لئے خوفِ الہی اور ذمہ داریوں سے آشنائی پر مشتمل انمول نصیحتیں
پہلا خطبہ:
یقینا تمام تعریفیں اللہ عز وجل کیلئے ہیں، ہم اسکی کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیںاور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد اللہ بندے اور اسکے رسول ہیں۔
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں ہی آئے۔[آل عمران : 102]
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا}
لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے (دنیا میں) بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۔ نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بلاشبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے [النساء : 1]
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا}
ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچی بات کیا کرو۔ اللہ تعالی تمہارے اعمال درست کردیگا، اور تمہارے گناہ بھی معاف کردیگا، اور جو اللہ واسکے رسول کی اطاعت کرے وہ بڑی کامیابی کا مستحق ہے۔[الأحزاب: 70، 71]
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانو!
میڈیا کی بے لگام پھلتی پھولتی صورت حال ، اور عالمی منظر نامے میں سماجی اور دیگر تبدیلیوں نے پوری دنیا کو خطرناک سماجی صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے، اور وہ ہے افواہیں پھیلانا، جن کے ذریعے معاشرے میں انفرادی یا اجتماعی طور پر بغیر کسی ثبوت، دلیل، اور تصدیق کے بے بنیاد خبروں کو عام کیا جاتا ہے، مزید برآں کہ ان افواہوں کو شکوک و شبہات سے بھر پور حالات میں پھیلایا جاتا ہے،انہی افواہوں کی وجہ سے قوم ، ملک اور معاشروں پر منفی اثرات خوف، شور و غوغہ، اور بے چینی کی صورت میں رونما ہوتے ہیں۔
اس لئے افواہوں کے نتائج ہمیشہ برے اور غلط برآمد ہوئے ہیں، یہ کوئی تعجب والی بات نہیں ؛ کیونکہ افواہوں کی بنیاد ہی متعدد گھٹیا مقاصداور اہداف پر ہوتی ہے، جن میں خطرناک ترین یہ ہے کہ افواہیں اسلام دشمن قوتوں کا مسلمانوں کے دین و دنیا ، امان و اقتصاد،خوشحالی و ترقی، اور حالتِ امن و جنگ کے خلاف انتہائی مؤثر ہتھیار ہے، ان افواہوں کو بالخصوص عصرِ حاضر میں گھٹیا اہداف پانے کیلئے مناسب حالات، اور ذرخیز مٹی دیکھ کر ہی بویا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ افواہیں دو رُخی ، اور ڈرپوک لوگوں کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
{لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا [60] مَلْعُونِينَ }
اگر منافقین ، اور جن کے دلوں میں خرابی ہے اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اٹھا کھڑا کریں گے ، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے[60]ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہوگی۔ [الأحزاب : 60-61]
کتنی ایسی افواہیں ہیں جن کی وجہ سے امت اسلامیہ کا جسم چھنّی ہوا، اور دشمن مسلمانوں کو ضرر رسانی جیسے گھٹیا اہداف پانے میں کامیاب رہے۔
اسی لئے شریعتِ اسلامیہ نے معاشرتی تحفظ کو دوام بخشنے کیلئے ہر نقصان دہ و ضرر رساں چیز کے بارے میں واضح تعلیمات دیں،کہ ان افواہوں اور جھوٹی خبروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کیلئے قلمدان و زبان کی حفاظت کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا:
{وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا}
کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے [الإسراء : 36]
کتاب وسنت نے جھوٹ کی تمام اقسام کو سختی کیساتھ ممنوع قرار دیا ہے، مثلاً: خبر میں جھوٹ کے اندیشہ کے باوجود آگے پھیلانا، یا اندازوں اور تخمینوں کو بنیاد بنا کر نشر کرنا ، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ}
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہمیشہ سچے لوگوں کیساتھ رہو[التوبة : 119]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقینا جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتے ہیں) متفق علیہ
مسلمان بھائیو!
بغیر تصدیق خبروں کو آگے پھیلانا شرعی طور پر منع ہے، فطرت اور عرفِ عام دونوں کے اعتبار سے ناپسندیدہ بھی ہے، کتنی ہی ایسی خبریں ہیں جو بغیر کسی ثبوت و تصدیق کے پھیلائی گئی اور انکی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، اسی لئے ہر مسلمان کو تصدیق کے بغیر کوئی بھی خبر نشر کرنے سے یکسر منع کیا گیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ}
وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے[ق : 18]
ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی آدمی کے جھوٹے ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے نشر کردے) مسلم
ایک روایت میں ہے : (انسان کے گناہگار ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے نشر کرے)
مسلمانو!
اپنے آپ کو ایسی خبروں کے پھیلانے سے بچاؤ جن کا کوئی ثبوت نہیں ، جن کے درست ہونے کے کوئی شواہد نہیں؛ کیونکہ یہ بھی جھوٹ بولنے اور نشر کرنے کی ایک قسم ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے متقی بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
{وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ}
مؤمن لوگ جھوٹ میں شریک نہیں ہوتے[الفرقان : 72]
اورایک صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(کیا میں تمہیں اکبر الکبائر گناہ کے بارے میں نہ بتلاؤں)صحابہ نے کہا: کیوں نہیں ! اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: (اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا) آپ یہ بات کرتے ہوئے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے، پھر آپ سیدھے ہوگئے، اور فرمانے لگے: (جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا بھی اسی میں شامل ہے) آپ آخری جملہ بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ترس کھارتے ہوئے سوچا آپ خاموش ہوجائیں۔
چنانچہ غلط خبریں ، اور بے لگام باتیں نشر کرنا مسلمانوں کیساتھ دھوکہ اور فراڈ میں شامل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں) متفق علیہ
بے سر وپا خبریں نقل کرنا، اور پھیلانا، صحیح بخاری و مسلم کی حدیث کے مطابق ہر حالت میں ممنوع قیل وقال میں سے ہیں، جیسے کہ مسلم نے ابو ہریرہ سے مرفوعاً یہ بھی نقل کیا ہے کہ: (تمہارے لئے قیل وقال، کثرتِ سوال، اور ضیاعِ اموال منع کیا گیا ہے)
اے مسلم! اپنی زبان کی حفاظت کرو، اپنے قلم و قرطاس کو بے بنیاد خبریں نشر کرنے سے بچاؤ گے تو سلامتی پاؤ گے، وگرنہ واضح گناہ، اور عظیم بہتان کے مرتکب قرار پاؤ گے، جنکا آپکو دنیا میں کوئی فائدہ ہوگا، بلکہ دینی تشخص پامال ہوگا۔
سنن ابو داود میں صحیح سند کیساتھ فرمانِ نبوی ہے:
(بد ترین تکیہ کلام "لوگ یہ کہتے ہیں" ہے) جبکہ صحیح مسلم میں ہے: (جو شخص جان بوجھ کر کوئی مشکوک خبر بیان کرے، تو وہ بھی جھوٹے لوگوں میں شامل ہے)
اسلامی بھائیو!
ایک مسلمان کا افواہوں اور بے بنیاد خبروں کے بارے میں ٹھوس موقف اور فیصلہ یہی ہے کہ منہج الہی و طریقہ نبوی کو تھام لے، اور وہ اس آیات میں ذکر ہوا ہے:
{وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ [14] إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ}
جبکہ تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کی متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا ۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی [14]کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ " ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ! یہ تو ایک بہتان عظیم ہے!"[النور : 15-14]
اسی طرح سورہ نساء میں فرمایا:
{وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا}
اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر ان تک پہنچتی ہے تو اسے فوراً اڑا دیتے ہیں ۔ اور اگر وہ اسے رسول یا اپنے کسی ذمہ دار حاکم تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں، اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو چند لوگوں کے علاوہ سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔ [النساء : 83]
اے مسلم! آپکا ٹھوس موقف یہی ہے کہ آپ تصدیق اور تحقیق کا منہج اپناؤ، کہ آپ بے بنیاد، غیر موثوق ذرائع سے حاصل ہونے والی خبروں کو پھیلانے میں جلدی مت کریں، اسکا ذکر اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں فرمایا:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ}
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔ [الحجرات : 6]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جلد بازی کے بارے میں فرمایا: (متانت اللہ کی طرف سے ہے، اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے)
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسلمان معاملات واضح ہونے تک خاموش رہتا ہے"، چنانچہ ایک مسلمان کیلئے یہ بہت بڑی سعادت ہوگی کہ جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانے سے بچ جائے۔
پھر مسلم معاشرے پر یہ بھی ایک ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے متعلق اڑائی جانے والی بے سروپا خبروں کو مت پھیلائیں، بالخصوص نامور اور مشہور لوگوں کے بارے میں اسکا اہتمام کریں کہ قرآنی آداب اور تعلیمات کو ملحوظ خاطر رکھیں، جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ}
جب تم نے سنا تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں اچھی بات کیوں نہ سوچی! اور یوں کیوں نہ کہہ دیا! کہ ''یہ تو صریح بہتان ہے'' [النور : 12]
اسی طرح چند آیات کے بعد فرمایا:
{وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ}
کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ "ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ! یہ تو ایک بہتان عظیم ہے!" [النور : 16]
تمام مسلمان بری باتوں، اور بے آبروکرنے والی خبروں کو نشر مت کریں، اسوقت عموما ہر شخص کے پاس جدید موبائل وغیرہ موجود ہیں، جنکی وجہ سے شیطان انسان کو دین ودنیا کے نقصان میں ڈال سکتا ہے، اس لئے مسلمانوں اللہ سے ڈرو، تمہیں اللہ کی اطاعت کیلئے پیدا کیا گیا ہے۔
اور اس وقت تک انسان گناہوں سے نہیں بچ سکتا جب تک اپنے پورے جسم پر تقوی الہی نافذ نہیں کرتا، اور اپنے ذہن میں یہ بات نہیں ڈالتا کہ ایک چوکس نگران اسکی نگرانی کر رہا ہے، اس قسم کی نشر و اشاعت کے بارے میں فرمان باری تعالی ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}
جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔[النور : 19]
اہل علم کا کہنا ہے کہ: اس آیت میں فحاشی کی تمام اقسام کو کسی بھی طریقے سے نشر کرنے کے بارے میں باقاعدہ ایک ضابطہ بیان کیا گیا ہے، تا کہ ہر آنکھ، کان، اور زبان فحاشی سے محفوظ رہے، حقیقت میں انہی تعلیمات پر عمل کرنے والا معاشرہ ہی ایسا مسلم معاشرہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی چاہتا ہے کہ تمام مسلمان ایسے ہی بن جائیں۔
چنانچہ مسلمانو! اگر تم دنیا و آخرت میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اللہ سے ڈرو، اور اسلامی آداب ، طریقہ نبوی اپناؤ۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اور ہمیں اسکے معانی و مفاہیم سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔