• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں نے اپنی خواہشوں کے آگے فل اسٹاپ کیوں نہ لگایا؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میں نے اپنی خواہشوں کے آگے فل اسٹاپ کیوں نہ لگایا؟

بیٹا! آپ نے پھر مضمون لکھتے ہوئے فل اسٹاپ نہیں لگائے۔ ہر لائن ختم کرنے کے بعد فل اسٹاپ لگاتے ہیں نہیں تو آدھا نمبر کٹ جاتا ہے۔ زینب نے بڑے پیار سے بیٹے حنظلہ کو سمجھایا۔ ساتھ ساتھ ہنڈیا بھوننے کا کام بھی جاری رہا۔ حنظلہ کے چھوٹے چھوٹے سوال بھی جاری تھے۔

“امی جی! ایک نقطہ ہی تو ہے اگر میں نا لگاؤں؟”

زینب بڑی ملائمت سے اس بتانے لگی کہ ہر زبان کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور ان کے مطابق ہی چلنا پڑتا ہے۔ “چلیں ٹھیک ہے میں ادھر بیٹھ کر کام مکمل کرتا ہوں” حنظلہ کا ہوم ورک ہوتا رہا اور زینب کے ہاتھ تیزی سے گھر کے کام نمٹاتے رہے۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے بیٹے پر ممتا بھری نظر بھی ڈالتی رہی۔ آخر حنظلہ نے ایک نعرہ لگایا کہ مضمون مکمل ہو گیا ہے، گویا ہوم ورک سے چھٹی مل۔ پھر وہ کہنے لگا:

“امی جی! پندرہ فل اسٹاپ لگائے ہیں۔ اب خوش”

اس معصومانہ بات پر زینب بے ساختہ ہنس پڑی۔ مگر اچانک ہی ایک خیال نے اس مسترب کر دیا۔ کھانے کے بعد تھوڑی دیر سونے کی نیت سے لیٹی تو پھر اس سوچ نے اعصاب کو تھکا ڈالا۔

“میں نے اپنی خواہشوں کے آگے فل اسٹاپ کیوں نہ لگایا؟ زندگی گزارنے کے اصول جو رب نے متعیّن کیے ہیں میں ان سے انحراف کیوں کر بیٹھی۔ میں تو خواہش اور ضرورت کے فرق کو اچھی طرح جانتی تھی۔ مادی خواہشیں مجھ پر اتنی حاوی ہو گئیں کہ میں اپنے بچپن کے دوست اپنے غمگسار اپنے اللہ کو بھول بیٹھی۔ میں تو سارا دن اپنے خوبصورت گھر، اس کی چیزوں کی صفائی ستھرائی میں ہی لگی رہتی ہوں۔ اور ہاں اب تو فخریہ مسکراہٹ بھی اکثر چپکے سے میرے لبوں پر آ جاتی ہے۔ جسے روکنے کی کوشش بھی میں نہیں کرتی اور ۔۔۔ اور اب تو کسی کام کو کرتے ہوئے اللہ کی رضا کی نیت بھی نہیں ہوتی۔”

آنسوؤں سے زینب کا دم گھٹنے لگا مگر ضمیر کا احتجاج جاری تھا۔ دو سال غفلت کی زنگی گزارنے کے بعد آج احتساب کی عدالت لگی تھی جس نے مجرم بھی وہی تھے اور منصف بھی وہی۔ وہ رو رو کر اعترافِ جرم کر رہی تھی اور اللہ سب سن رہا تھا، دیکھ رہا تھا۔

“میں نے طلحہ کو کمانے کی مشین بنا ڈالا۔ پہلی جاب کی تنخواہ ہی ماشاءاللہ اتنی آتی تھی کہ شام کی جب کی ضرورت ہی نا تھی مگر میں نے ہی اسے دوسری جاب کرنے پر مجبور کیا۔ دو سال پہلے کتنی سکون آور ہماری شامیں ہوتی تھیں۔ ہم تینوں مل کر بیٹھتے پسند کی چیزیں بنائی جاتیں۔ پندرہ منٹ کے لیے درسِ قرآن بھی ہوتا۔ جس میں ننھا حنظلہ بھی سامع ہوتا۔ فجر سے لازم طور پر آدھا گھنٹہ پہلے اٹھ کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ قرابت داری کی نیت کر کے ہم کبھی کبھار رشتے داروں کے گھر بھی چلے جاتے یا فون پر رابطہ ضرور رکھتے۔ یوں رشتے داروں کے احوال کا پتہ چلتا رہتا اور مالی مدد کی توفیق بھی ہو جاتی۔ پھر طلحہ کو لکھنے کی عادت تھی۔ چھوٹے چھوٹے موضوع کو کہانیاں بنا کر یا کالم کی شکل دے کر اخباروں میں ارسال کرنا یہ طلحہ کا شوق تھا۔ مغرب کے بعد طلحہ کو طویل نوافل کی عادت تھی۔ مگر پھر طلحہ کے یہ سلسلے بھی موقوف ہوئے اب وہ رات کو دیر سے گھر آتے ہیں۔ ہم ایک ڈیڑھ بجے سوتے ہیں اور سات بجے اٹھتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ بچے کو سکول بھیجنا ہے۔ ہائے میں کتنے خسارے کا سودا کر بیٹھی؟”
کوڑے زینب پر برس رہے تھے اور آنسوؤں نے زینبے کی آنکھوں کا راستہ دیکھ لیا تھا۔

“میں کیسے فرمانبرداری کی راہ سے ہٹ گئی۔ اپنے اللہ سے واجبی سا تعلق رکھ کر میں خوش رہی تو کیسے؟ اللہ سے دوری کے بعد میں سانس بھی لیتی رہی۔ جیتی بھی رہی۔ میں جو سوچا کرتی تھی کہ پتہ نہیں کہ لوگ اللہ کو بھلا کر کیسے جی لیتے ہیں؟ ان مادی چیزوں کے سحر نے خود مجھے میرے رب سے دور کر دیا۔ بالکل غیر محسوس طریقے سے ان چیزوں کی محبت نے میرے دل کو اسیر کر لیا۔ پھر ہولے ہولے میں مناجات سے محروم ہوئی۔ ذکرِ اللہ سے محروم ہوئی اور پھر اللہ سے میرا تعلق واجبی رہ گیا۔ مگر اللہ مجھے نوازتا رہا۔ میری کج ادائی کے باوجود وہ مجھے بھولا نہیں مگر ۔۔۔ مگر وہ دل سے تو چلا گیا”
بے بسی سے زینب پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ دو نفل توبہ کے پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ جو پھیلائے تو آنسوؤں سے گلا رندھ گیا۔ توبہ استغفار کرتے ہوئے ہچکیوں سے لفظ بار بار ٹوٹے مگر آمین کہتے ہوئے جب زینب اُٹھی تو بہت آسودہ تھی۔ اس کے دل کے اندر چھائے سکون نے اسے بتا دیا تھا کہ اس نے اپنے رب کو منا لیا ہے۔

https://www.facebook.com/OryaMaqboolJan1/posts/846783425395864
 
Top