• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، لہذا جو چاہے کرے !

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں
کہ میں نےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا
کہ ایک بندہ گناہ کا مرتکب ہوا، کبھی آپ نے " اصاب ذنبا " فرمایا
اور کبھی آپ نے " اذنب ذنبا " ، فرمایا
اس نے کہا کہ اے میرے پروردگار میں نے گناہ کیا
(کبھی اذنبت ، فرمایا اور کبھی آپ نے اصبت، فرمایا)
تو اس کے پروردگار نے فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے
کہ اس کا کوئی پروردگار ہے جو گناہوں کو بخشتا ہے
اور اس پر مواخذہ کرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ہے
پھر جب تک اللہ کو منظور ہوا وہ بندہ ٹھہرا رہا،
پھر گناہ کو پہنچایا فرمایا گناہ کیا، تو عرض کیا
اے میرے پروردگار پھر میں گناہ کو پہنچایا (فرمایا) گناہ کیا،
تو مجھے بخش دے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ہے
جو گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس پر مواخذہ بھی کرتا ہے
میں نے اپنے بندے کو بخش دیا
جب تک کہ اللہ کو منظور ہوا وہ بندہ ٹھہرا رہا،
پھر اس نے گناہ کیا اور بعض دفعہ فرمایا کہ گناہ کو پہنچا،
اس نے کہا اے میرے رب میں گناہ کو پہنچا یا گناہ کیا،
تو مجھے بخش دے، اللہ نے فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے
کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہ کو بخشتا ہے اور اس پر مواخذہ بھی کرتا ہے،
میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، تین بار فرمایا لہذا جو چاہے کرے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر2400 کتاب اللہ کی توحید کابیان
اور جہمیہ کا رد
باب : اللہ کا قول کہ یہ لوگ اللہ کے کلام کو بدل ڈالنا چاہتے ہیں۔
قرآن کے قول فعل ہونےسے مراد یہ ہے
کہ یہ حق ہے اور کھیل کود کی چیز نہیں۔
تشریح :
حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا کلام کرنا حق ہے۔ اس حدیث میں بھی اللہ کا کلام ایک گنہگار کے متعلق مذکور ہے اوریہ بتلانا بھی مقصود ہےکہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے مگر قرآن مجید کے علاوہ بھی اللہ کلام کرتا ہے رسول اکریم صلی اللہ علیہ وسلم صادق المصدوق ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلام الہٰی نقل فرمایا ہے۔ جو لوگ اللہ کے کلام کا انکار کرتے ہیں،ان کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صادق المصدوق نہیں ہیں۔ اس حدیث سے استغفار کی بھی بڑی فضیلت ثابت ہوئی بشرطیکہ گناہوں سے تائب ہوتا جائے اور استغفار کرتا رہے تو اس کو ضرر نہ ہوگا۔ استغفار کی تین شرطیں ہیں۔ گناہ سے الگ ہوجانا،نادم ہونا،آگے کے لیے یہ نیت کرنا کہاب نہ کروں گا۔ اس نیت کے ساتھ اگر پھر گناہ ہوجائے تو پھر استغفار کرے۔ دوسری حدیث میں ہے اگر ایک دن میں ستر بار وہی گناہ کرے لیکن استغفار کرتا رہے تو اس نے اصرار نہیں کیا۔ اصرارکے معنی یہ ہیں کہ گناہ پر نادم نہ ہو اس کے پھر کرنے کی نیت رکھے۔ صرف زبان استغفار کرتا رہے کہ ایسا استغفار خود استغفار کے قابل ہے۔
اللھم انا نستغفرك و نتوب الیك فاغفرلنا یا خیر الغافرین آمین
(مولانا داؤد راز رحمہ اللہ )
 
Top