مقتدی کے لئے قرات خلف الامام نہ کرنے کا حکم
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ۔
حدیث نمبر 1 : عن ابی موسی ؓ الا شعری قال (فی حدیث) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاذاکبر الامام فکبر وا واذا قرافانصتوا۔ مسلم ج1 ص 174 ۔
ترجمہ :حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا جب امام تکبیر کہے تم بھی تکبر کہو جب امام قرات کرے تم خاموش رہو۔
حدیث نمبر 2 :عن ابی موسیٰ الاشعریؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قرا الامام فانصتوا واذا قال غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین ۔ مسند ابی عوانہ ج 2 ص 133 مکہ المکرمہ ۔
ترجمہ :حضرت ابو موسی اشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو اور جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالینکہے تو تم آمین کہو۔
حدیث نمبر 3 : عن ابی ہریرہؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما جعل الامام لیو تم بہ فاذا اکبر فکبر وا واذا قراءفانصتوا الخ۔ نسائی ج1 ص146 قدیمی کتب خانہ ۔
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداءکی جائے سو جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کا قول
وکذلک ان کان مامو ما ینصت الی قراة الامام ویفھمھا۔ غنیہ الطالبین مترجم ص 592
ترجمہ :ایسے ہی اگر نماز پڑھنے والا مقتدی ہے تو اس کو امام کی قرات کے لئے خاموش رہنا چاہئے اور قرات کو سمجھنے کی کوشش کرے
علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمد نہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں:
لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔
خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیا ہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کو نماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگر سورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآواز بلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاء رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری و جہری دونوں میں مقتدی کو پڑھنا چاہئیے۔
پس امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔
کیا کہیں گے جناب یوسف صاحب - آپ کے پیارے امام تو فاتحہ خلف امام کے قائل ہو گئے اور آپ ابھی تک ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ فاتحہ خلف امام جائز نہیں - صحیح احادیث نبوی آپ کے سامنے پیش کرنا تو ایسے ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا- اسی لئے آپ کے امام کا طرز عمل پیش کیا ہے -کیا کہتے ہیں؟؟؟ -