• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نئے سال کی آمد اور چند اہم امور

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
نئے سال کی آمد اور چند اہم امور
میاں عبد الرشید
حمدوثناءکےبعد:
الوداع اے سال رفتہ! خوش آمدید اے سال نو!
ہر سال کے آغاز پر اور نئے سال کا سورج روشن ہونے پر انفرادی و جماعتی سطح پر اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے تا کہ ماضی کا جائزہ لے کر اپنے حال کی اصلاح کی جا سکے اورصحیح منہج کے مطابق مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کی جا سکے تا کہ اغراض و مقاصد پورے ہوں اور مفادات کا حصول ممکن ہو، ہماری امت اسلامیہ جو کہ ان دنوں نئے سال کا استقبال کر رہی ہے اور سابقہ سال جو اپنے دامن میں بہت ہی بڑے بڑے حوادث و واقعات لے کر رخصت ہو گیا ہے اسے الوداع کہہ رہی ہے اسے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ ان چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور ان خطرات کا پامردی سے سامنا کرے جو اسے درپیش ہیں۔
اسی طرح امت مسلمہ کو اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ وہ صحیح موقف اختیار طریقوں کے مطابق ہوں، جن کے قواعد اور اصول اس امت کے دین اسلام کے قواعد و ضوابط ، اس کے عقیدہ کے ثوابت و امتیازات اور اس کے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و طریقہ کے عین مطابق ہوں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
بعض اہم امور ومواقف:
مسلمانو! بعض اہم امور ایسے بھی ہیں جن پر اپنی توجہ کو مرکوز کرناضروری ہے جبکہ ہم اس سال نو کے آغاز میں ہی ہیں۔ اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے لئے اور پوری امت مسلمہ کے لئے اس سال کو خیر و برکت کا سال بنادے۔
ان امور ومواقف کو ہم ان نقاط کے تحت ذ کر سکتے ہیں:

1۔دنیاقائی اور محاسبہ نفس
مسلمانوں کا اپنی زندگی کے اس نئے سال کا استقبال کرنا ہی ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو اس حقیقت کی یاد دلاتا ہے کہ یہ شب وروز مراحل اور سواریاں ہیں جو کہ ہمیں اس دنیا سے دور لئے جارہے ہیں اور ہمیں آخرت کے قریب کئے جارہے ہیں۔ قوم فرعون سے ایمان لانے والے شخص نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر جو بات کہی تھی اس کی حکایت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس نے کہا:
"اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی ( چند روز کے لئے )فائدہ اٹھانے کی چیز ہے"(سورة المومن: ۳۹)
کیا ہمارا یہ ایک سال کو الوداع کہنا اور دوسرے سال کا استقبال کرنا ہماری ہمتوں کو عالی اور ہمارے عزائم کو بیدار کرے گا ؟ صاحب توفیق وہ ہے جو اپنے حال کی اصلاح کے لئے کوشش کرے اور اپنی بقیہ زندگی کے دنوں میں کچھ کر گزرنے کی ٹھان لے تاکہ اس کاکل آج سے بہتر ہو اور اس کا آج گزشتہ کل سے افضل و اعلی ہو اور اس کا نیا سال اس کے گزشتہ سال سے اچھا ہو۔ عقلمند وہی ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اپنے حسابات کی جانچ پڑتال کرے، اعمال صالہ کا توشہ جمع کرنے اور اپنے سابقہ گناہوں اور گزشتہ خطاوں سے اپنے رب کی طرف توبہ نصوح کرے۔ الله تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
’’ جس نے ایک ذرہ برابر بھی خیر و بھلائی کی ہوگی ( قیامت کے دن) وہ اسے دیکھ لے گا ۔ اور جس نے ذرہ بھر بھی برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ ( الزلزلہ: 7،8)
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اے میرے بندو! میں تمہارے ان تمام اعمال کو گن گن کر تمہارے لئے محفوظ کروائے جارہاہوں اور پھر تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دیا جائیگا۔ جسے بھلائی ملی وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے اور جسے اس کے برعکس کچھ بھگتنا پڑا تو وہ اپنے آپ کے سوا کسی کو ملامت نہ کرے ۔ (صحیح مسلم)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
2۔ ہر فتنے کا جواب اور ہر چین کا مقابلہ
دوسرا اہم امر یہ ہے کہ ہمارا گزشتہ سال تو گزر گیا ہے جبکہ امت اسلامیہ مصائب و مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے۔ طرح طرح کے فتنوں میں مبتلا ہے اسے بہکانے کی چیزیں عام ہیں وہ طرح طرح کے امتحانات سے دوچار ہے اور یہ سب اشیاء افراد امت سے اور ابناء اسلام سے فوری حل چاہتی ہے کہ وہ عزم صادق اور پختہ ارادہ کریں کہ انفرادی طور پر بھی،معاشروں کی سطح پر بھی اور حکام و امراء کیا اور عوام و محکوم کیا ہرسطح پر اور ہر شخص اپنی اپنی اصلاح کرے گا اور یہ اس یقین کے ساتھ کہ ہم میں سے کسی کو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امت کی ناک میں دم کر دینے والوں ان بجرانوں اور تباہ کن حالات سے نجات کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم صاف ستھرے اور حقیقی اسلام کولیں، وہ خالص اسلام جو قرآن کی شکل میں نازل ہوا ہے جسے پوری کائنات کے سردار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں اور جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا۔ جی ہاں! صاف ستھر اورتعلیمات مہیا کرتا ہے، وہ شعبہ سیاسیات ہو یا اقتصادیات، اس کا تعلق کپچر و ثقافت سے ہو یا اجتماعيات و معاشروں سے، اسے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنایا جائے صرف علمی طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی حکمرانی و جهانبانی میں بھی اور اپنے متنازعہ امور میں ثالثی و فیصلے کروانے میں بھی۔ اور یہ مقاصد اسلام کی معرفت کی بنیاد پر ہو کہ اسلام مفید وصالح، عالی تہذیب یافتہ و مہذب زندگی قائم کرنا چاہتا ہے۔ جو دنیا و آخرت میں اعلی ثمرات مہیا کرے۔ اور اسلام اپنے ماننے والے کو وہ اعلی زند گی مہیا کرنا چاہتا ہے جس کے بارے میں اللہ کا ارشاد صادق آتا ہے جس میں اس نے فرمایا ہے:"تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں زمین کا حاکم بنادے گاجیساان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنادیا تھا اور خوف کے بعد انھیں امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کرینگے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائینگے۔ "( سورة النور: ۵۵)
آج جبکہ امت مسلمہ مختلف راستوں کے دورا ہے بلکہ کئی راستوں کے جنکشن پر کھڑی ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس بات کا یقین کامل اور علم یقین حاصل کر لے کہ اس کی عزت و قوت اس کے اپنے دین کے ساتھ گہرے ربط و تعلق اور اپنی شریعت پر مکمل عمل اور اپنے نبی کی اتباع سنت میں پنہاں ہے۔ یہی کار آمد وفعال اسلحہ ہے جو امت سے تمام خطرات کو دور کر سکتا ہے اور یہی وہ زبردست آہنی لباس ہےجس کے ذریعے اس سخت آویزش اور درپیش ہیں۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے: "عزت تو اللہ کے لئے یا پھر اس کے رسول کے لئے اور اہل ایمان کے لئے ہے لیکن منافق لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے"۔ (سورة المنافقوں:۸)
مسلمانوں پر واجب یہ ہے کہ وہ موجودہ ہر اس چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کریں جو انہیں دیا جارہاہے اور جو ان کے دین پر کیچڑ اچھالنے کا سبب بن رہا ہے۔
اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ منحرف افکار و نظریات ، گمراہ کن خیالات و مسالک اور بد صورت مشارب والے ان تمام لوگوں کی راہیں روکی جائیں اور ان کے لئے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں جو کہ گدلے پانی میں شکار کھیلنے کی نیت بد لئے ہوئے ہیں۔ اور ان تمام لوگوں کا بھی منہ بند کریں جو کہ ہر مسلمان کو زندگی کی صحیح ڈگر سے پھیر کر جو کہ ان کے دین سے حاصل شدہ ہے انھیں غلط راہوں پر چلانا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لئے بڑی ملمع سازی و بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں جو کہ جھوٹی چمک دمک لئے ہوئے ہیں وہ جعلی بھی اقوال اور احمقانہ افکار کو بروئے کار لارہے ہیں۔ ان سب کی راہیں روکنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
3۔ دشمنان دین کی اسلام پر الزام تراشیوں کا اپنے عمل و کردار سے دفاع
تیسرا اہم امر یہ ہے کہ آج اسلام پر دشمنان دین اور ناقدین و معاندین طرح طرح کے الزامات لگار ہے ہیں جن سے اسلام کا دامن سراسر پاک وبری ہے اور یہ الزام تراشیاں صرف اس لئے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا جا سکے اور بنی بشر کو اسلام کے روشن و تابناک منہج سے دور ہٹایا جا سکے۔ لہذا عالم اسلام کے تمام افراد سے اس دین کا یہ بھر پور مطالبہ ہے کہ وہ اپنی ڈگرکوصحیح اور ان قبلہ درست کر لیں تاکہ ان کی غلط روشوں اور کردار کی خامیوں کمزوریوں کو لیکر دشمنان دین ہمارے اسلام کاحلیہ تونہ بگاڑ کر پیش کر سکیں اور بغض و حقدسے ابلتے سینوں کے مالک لوگ اسلام کے تابناک و ضیاء افشاں حقائق کو مسخ کرنے کے لئے ہماری کوتاہیوں کو سیڑھی کے طور پر تو استعمال نہ کر سکیں۔
مسلمانوں پر اپنے دین کی طرف سے یہ واجب ہے کہ وہ صدق نیت و توجہ اور پر امن مقاصد کو پوری دنیا کے سامنے ثابت کر دیں۔ اپنے اہداف و مقاصد کی بلندی سے دنیا کو روشناس کرا دیں اور پورے عالم پر اصل وحقیقی اسلام کو واضح کر دیں۔ وہ اسلام جو کہ وسیع معنوں میں رحم و کرم کا درس دیتا ہے، تمام تر باریکیوں کے ساتھ عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے، تمام تر شکلوں سے حسن سلوک کی تاکید کرتا ہے اور ہر ممکن طریقہ سے دین ودنیا اور دنیا و آخرت کی اصلاح کی فکر مہیا کرتا ہے۔
علماء و مفکرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیش آمدہ ہر مسئلہ پر گہری نظر ڈالیں اور اس مسئلہ کو ہماری شریعت کے مسلمہ امور اور ہمارے عقیدہ کے قواعد و اصول کے منافی نہیں اور نہ ہی امت اسلامیہ کے مفادات و مصالح کے مخالف ہیں۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ تمام تر مسائی اور کوششیں باہم متفق ہو کر نہ کی جائیں گی اور کتاب و سنت سے حاصل کردہ صحیح فہم کے ساتھ اپنے مواقف میں باہم نظم و ضبط پید انہ کیا جائے، مکمل ہوش و حواس کے عالم میں اصلاح کی صدق دل سے نیت نہ ہو اور اس عالم کا پورا پورا ادراک نہ ہو جو کہ آج ایسے ایسے تغیرات و انقلابات کا موجیں مارتا سمندر بناہوا ہے اور جس کے امن و استقرار کو نت نئے تغیر وتبدل کی آندھیاں تہہ و بالا کر رہی ہیں۔ اس دنیا کا عمل ادراک ایسے مضبوط قاعدے سے ہو جس میں کسی دینی قاعدے یااصول میں کوئی کو تاہی نہ کی گئی ہو اور نہ ہی دین کے خصائص وامتیازات میں سے کسی سے دست برداری اختیار کی گئی ہو۔ ارشاد الہی ہے:
اور بیشک میر ا سیدھا راستہ یہی ہے، اس کی اتباع و پیروی کرو اور دوسری پگڈنڈیوں پر مت چلو وہ تمھیں اللہ کی راہ سے ہٹادینگی ۔ (الانعام: ۱۳۵)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
آغاز سال اور صوم عاشوراء:
مسلمانو! اللہ کے مہینوں میں سے اس کا یہ حرمت والا ماه محرم عظمت و حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے،اس کا مقام بڑ اہی بلند اور اس کی حرمت و عزت بہت ہی زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:ماہ رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے اللہ کے مہینے ماہ محرم کے دنوں کےروزےہیں۔(صحیح مسلم)
اور اس ماہ محرم کے دنوں میں سے افضل ترین دن یوم عاشوراء(۱۰ محرم) ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ و سلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس کا اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم بھی فرمایا اور صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے یوم عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ ( یوم عاشوراء کا روزہ) پچھلے پورے سال کا کفارہ ہو جائے گا۔
اور سنت یہ ہے کہ اس سے ایک دن پہلے محرم کا بھی روزہ رکھا جائے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ارشاد نبوی ہے: اگر میں آئندہ سال زندہ رہاتو نو محرم کا روزہ ضرور رکھوں گا۔ (صحیح مسلم)
اگر9 محرم کا روزہ رکھنا کسی وجہ سے ممکن نہ ہو تو اس کے ایک دن کا روزہ رکھ لیں اور مکمل شکل یہ بھی ہے کہ عاشوراء سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد روزہ رکھ لیا جائے۔
وصلى الله وسلم على نبينا محمد و علی آله و صحبه اجمعین۔
سبحان ربک رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمین
 
Top