مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 468
- پوائنٹ
- 209
ہرقوم اپنے کلینڈر کے حساب سے نئے سال کے پہلے دن کی بڑی اہمیت دیتی ہے اور اس دن کو بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ نیااور پہلا دن بھی دوسرے ایام سے کچھ الگ نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ نئے سال کے پہلے دن میں صرف خوشی ہی خوشی ہوتی ہے ۔ دیکھا جاتا ہے غم میں ڈونے لوگ آج بھی غمگین ہی ہوتے ہیں ۔ نئے سال پہ بھی لوگوں کو موت آتی ہے۔ اکسڈنٹ ہوتا ہے ۔ مصائب و مشکلات پیش آتے ہیں پھر آج کے دن خوشی کے طور پہ منانے کا سبب و محرک کیا ہے ؟
اس کے جواب سے قطع نظرنئے عیسوی سال کی آمد پہ برصغیر میں عجیب قسم کا ماحول پایا جاتا ہے ، اس ماحول کو ہم اسلامی تناظر میں دیکھتے ہیں۔
(1) نیا سال اور Happy New Year :
پہلی جنوری کی آمد سے کئی دن پہلے سے میسیج ، کارڈ اور زبانی طور پہ ہپی نیو ایئر(Happy New Year) کے کلمات جاری و ساری ہوجاتے ہیں۔ الحمد للہ عیسوی سال سے ہٹ کر مسلمانوں کا اپنا عربی کلینڈر پایا جاتا ہے اور یہ قمری /عربی کلینڈرصحابہ کرام کے زمانہ سے ہی پایا جاتا ہے ، ان کی زندگی میں بھی نیا ہجری سال آیا مگر انہوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد نہیں دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ نئے سال کی مبارکبادی دینا خلاف سنت ہے ۔ لہذا کسی مسلمان کے لئے روا نہیں کہ کسی کو ہپی نیوایئرکا کارڈ بھیجے، یا میسیج لکھ کر ہپی نیوایئر کی مبارکباد دے يا زبان سے کسی کو ہپی نیوایئر کہے ۔
(2) نیا سال اور Picnic :
پہلی جنوری کو لوگ گاؤں / شہر سے نکل کر صحراء و جنگل میں جاکر مشترکہ دعوت کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اس میں کھانے پینے کے ساتھ شراب نوشی، آتش بازی اور رقص و سرود کی محفل قائم کی جاتی ہے ۔ نیز مغربی تہذیب کی نقالی کرتے ہوئے مرد کے ساتھ نوجوان لڑکیاں بھی اس پکنک میں شامل ہوتی ہیں ۔ پکنک دراصل موج مستی کا دوسرا نام ہے ۔ اس میں پائے جانے والے امور اسلام مخالف ہیں۔ اس موقع سے میں تمام مسلمان مردوخواتین کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس قسم کی دعوت اور پکنک سے پرہیز کریں ۔ خصوصا گھر کے ذمہ دران سے التماس کرتا ہوں کہ اپنی اولاد کو پکنک میں شرکت کی اجازت نہ دیں۔
(3) نیا سال اورآتش بازی:
نئے سال کی آمد پہ آتش بازی کا بڑا ہولناک منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ گھر پہ ، گلی میں ، چوراہوں پہ ، محفلوں میں اور عام گذرگاہوں پہ اس قدر آتش بازی کی جاتی ہے کہ اس سے جابجا حادثات واقع ہوتے ہیں ۔ اس آتش بازی میں مسلمانوں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ دین محمدی کے نام لیوا کفار کی نقالی میں شانہ بشانہ کیونکر؟
آتش بازی میں فضول خرچی، جالی و مالی نقصان کا پہلو اور کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے جو نئے سال کی مناسبت سے ہی نہیں بلکہ ہر مناسبت سے یہ حرام ہے ۔
(4) نیاسال اور توہمات:
نئے سال کے تعلق سے بہت ساری توہمات پائی جاتی ہیں۔ کچھ کا تعلق تو رسم و رواج سے مگر کچھ توہمات سیدھے عقائد سے ٹکراتے ہیں ۔ اور تقریبا ہرملک میں عجیب وغریب قسم کی روایات پائی جاتی ہے ۔ ہندوستان تو عجائبات کے لئے ویسے بھی دنیا بھر میں مشہور ومعروف ہے ۔
کہیں نئے سال کی آمد پہ گھر کے پرانے فرنیچر کو نکال کر نئے فرنیچر کا اضافہ کیا جاتا ہے تو کہیں پرانے سامان سے بدفالی لی جاتی ہے اور اسے پھینک کر نیا سامان لایا جاتا ہے ۔ کہیں کچڑا گھر سے نکالنا بدقسمتی نکالنے کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ تو کہیں پہ سکہ اچھال کر قسمتوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ اسلام میں اس قسم کی روایات و توہمات اور بدفالی کی کوئی گنجائش نہیں ۔
نیاسال پہ ہم کیا کریں ؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم نئے سال کی آمد پہ مذکورہ بالا امور انجام نہیں دیں تو پھر ہمیں نئے سال کی آمد پہ کیا کرنا چاہئے؟
اس سوال کے تعلق سے میں سب پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا نیا سال عیسوی نہیں ہجری ہے ۔ گویا ہمیں پہلی جنوری سے کوئی سروکار نہیں اگر سروکار ہے تو اسلامی سال ہے ۔
اسلام میں نئے سال کی آمد محرم الحرام سے ہوتی ہے ۔ اور محرم چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے ۔
ہمیں محرم کی آمد پہ سب سے پہلے یہ فکر کرنا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے ، یہاں کی ہرشی فانی ہے ، ہمیں بھی ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ہے ۔ اس تصور سے ہمارے اندر یہ احساس جاگزیں ہوگا کہ ہم نے زندگی کا ایک قیمتی سال کھودیا ۔ ساتھ ساتھ یہ محاسبہ بھی کرنا ہے کہ گذشتہ مہینوں میں ہم سے کیا خطا ہوئی ، کیا گناہ سرزد ہوئے اور کون سا نیک کام ہم نے سوچا اور نہیں کرسکا۔ اس محاسبہ کے ساتھ آئندہ سال کے لئے نیکی کی راہ چلنے کے لئے مکمل منصوبہ بندی کریں ۔ اگر ہم نے نیکی کی راہ چلنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہ کیا تو ایک ایک سال یونہی ہماری عمر سے کم ہوتا چلا جائے گا اور دامن میں برائی کے سوا کچھ نہ ہوگا ۔ اور جب عمر تمام کرکے خالق حقیقی سے ملیں گے تو کف افسوس ملنا پڑے گا۔
قبل اس کے کہ افسوس کرنا پڑے اپنا دامن نیکیوں سے بھر لیتے ہیں ۔
اس کے جواب سے قطع نظرنئے عیسوی سال کی آمد پہ برصغیر میں عجیب قسم کا ماحول پایا جاتا ہے ، اس ماحول کو ہم اسلامی تناظر میں دیکھتے ہیں۔
(1) نیا سال اور Happy New Year :
پہلی جنوری کی آمد سے کئی دن پہلے سے میسیج ، کارڈ اور زبانی طور پہ ہپی نیو ایئر(Happy New Year) کے کلمات جاری و ساری ہوجاتے ہیں۔ الحمد للہ عیسوی سال سے ہٹ کر مسلمانوں کا اپنا عربی کلینڈر پایا جاتا ہے اور یہ قمری /عربی کلینڈرصحابہ کرام کے زمانہ سے ہی پایا جاتا ہے ، ان کی زندگی میں بھی نیا ہجری سال آیا مگر انہوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد نہیں دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ نئے سال کی مبارکبادی دینا خلاف سنت ہے ۔ لہذا کسی مسلمان کے لئے روا نہیں کہ کسی کو ہپی نیوایئرکا کارڈ بھیجے، یا میسیج لکھ کر ہپی نیوایئر کی مبارکباد دے يا زبان سے کسی کو ہپی نیوایئر کہے ۔
(2) نیا سال اور Picnic :
پہلی جنوری کو لوگ گاؤں / شہر سے نکل کر صحراء و جنگل میں جاکر مشترکہ دعوت کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اس میں کھانے پینے کے ساتھ شراب نوشی، آتش بازی اور رقص و سرود کی محفل قائم کی جاتی ہے ۔ نیز مغربی تہذیب کی نقالی کرتے ہوئے مرد کے ساتھ نوجوان لڑکیاں بھی اس پکنک میں شامل ہوتی ہیں ۔ پکنک دراصل موج مستی کا دوسرا نام ہے ۔ اس میں پائے جانے والے امور اسلام مخالف ہیں۔ اس موقع سے میں تمام مسلمان مردوخواتین کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس قسم کی دعوت اور پکنک سے پرہیز کریں ۔ خصوصا گھر کے ذمہ دران سے التماس کرتا ہوں کہ اپنی اولاد کو پکنک میں شرکت کی اجازت نہ دیں۔
(3) نیا سال اورآتش بازی:
نئے سال کی آمد پہ آتش بازی کا بڑا ہولناک منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ گھر پہ ، گلی میں ، چوراہوں پہ ، محفلوں میں اور عام گذرگاہوں پہ اس قدر آتش بازی کی جاتی ہے کہ اس سے جابجا حادثات واقع ہوتے ہیں ۔ اس آتش بازی میں مسلمانوں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ دین محمدی کے نام لیوا کفار کی نقالی میں شانہ بشانہ کیونکر؟
آتش بازی میں فضول خرچی، جالی و مالی نقصان کا پہلو اور کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے جو نئے سال کی مناسبت سے ہی نہیں بلکہ ہر مناسبت سے یہ حرام ہے ۔
(4) نیاسال اور توہمات:
نئے سال کے تعلق سے بہت ساری توہمات پائی جاتی ہیں۔ کچھ کا تعلق تو رسم و رواج سے مگر کچھ توہمات سیدھے عقائد سے ٹکراتے ہیں ۔ اور تقریبا ہرملک میں عجیب وغریب قسم کی روایات پائی جاتی ہے ۔ ہندوستان تو عجائبات کے لئے ویسے بھی دنیا بھر میں مشہور ومعروف ہے ۔
کہیں نئے سال کی آمد پہ گھر کے پرانے فرنیچر کو نکال کر نئے فرنیچر کا اضافہ کیا جاتا ہے تو کہیں پرانے سامان سے بدفالی لی جاتی ہے اور اسے پھینک کر نیا سامان لایا جاتا ہے ۔ کہیں کچڑا گھر سے نکالنا بدقسمتی نکالنے کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ تو کہیں پہ سکہ اچھال کر قسمتوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ اسلام میں اس قسم کی روایات و توہمات اور بدفالی کی کوئی گنجائش نہیں ۔
نیاسال پہ ہم کیا کریں ؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم نئے سال کی آمد پہ مذکورہ بالا امور انجام نہیں دیں تو پھر ہمیں نئے سال کی آمد پہ کیا کرنا چاہئے؟
اس سوال کے تعلق سے میں سب پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا نیا سال عیسوی نہیں ہجری ہے ۔ گویا ہمیں پہلی جنوری سے کوئی سروکار نہیں اگر سروکار ہے تو اسلامی سال ہے ۔
اسلام میں نئے سال کی آمد محرم الحرام سے ہوتی ہے ۔ اور محرم چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے ۔
ہمیں محرم کی آمد پہ سب سے پہلے یہ فکر کرنا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے ، یہاں کی ہرشی فانی ہے ، ہمیں بھی ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ہے ۔ اس تصور سے ہمارے اندر یہ احساس جاگزیں ہوگا کہ ہم نے زندگی کا ایک قیمتی سال کھودیا ۔ ساتھ ساتھ یہ محاسبہ بھی کرنا ہے کہ گذشتہ مہینوں میں ہم سے کیا خطا ہوئی ، کیا گناہ سرزد ہوئے اور کون سا نیک کام ہم نے سوچا اور نہیں کرسکا۔ اس محاسبہ کے ساتھ آئندہ سال کے لئے نیکی کی راہ چلنے کے لئے مکمل منصوبہ بندی کریں ۔ اگر ہم نے نیکی کی راہ چلنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہ کیا تو ایک ایک سال یونہی ہماری عمر سے کم ہوتا چلا جائے گا اور دامن میں برائی کے سوا کچھ نہ ہوگا ۔ اور جب عمر تمام کرکے خالق حقیقی سے ملیں گے تو کف افسوس ملنا پڑے گا۔
قبل اس کے کہ افسوس کرنا پڑے اپنا دامن نیکیوں سے بھر لیتے ہیں ۔