ناجائز اور مکروہ دعائیں
(ڈاکٹر صاحبزادہ قاری عبد الباسط جدہ)
دعا کے سلسلہ میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ناجائز اور مکروہ ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہمیں ان سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے دعا کرتے ہوئے ان امور سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہم ان امور کو الگ الگ عنوان کے تحت بیان کریں گے تاکہ اس کو سمجھنے اور پھر اس سے احتیاط کرنے میں آسانی ہو۔
غیر اللہ سے دعا
اس سلسلہ میں سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ غیراللہ سے دعا کرنا جائز نہیں۔ دعا چونکہ عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لیے خاص ہے اس لیے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے دعا مانگنا نا جائز ہے مثلاً: یہ کہے کہ اے فلاں شخص! یا اے فلاں بزرگ! تو میرا فلاں کام کردے۔ وہ شخص جس سے دعا کی جارہی ہو اور مرادیں مانگی جارہی ہوں خواہ زندہ ہو کہ مردہ، ولی و پیغمبرہو یا شہیدو صدیق، کوئی بھی ہو اللہ کے علاوہ غیراللہ سے دعا کرنا نا جائز ، حرام اورکبیرہ گناہ میں سے ہے بلکہ یہ شرک اکبر ہے جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔
بعض ملکوں میں لوگ بالخصوص عورتیں قبروں اور خانقاہوں، درباروں اور درگاہوں اور بعض دوسرے مقامات پر جا کر دعائیں کرتی ہیں، چادریں چڑھاتی ہیں یا نذرو نیاز کرتی اور منتیں مانتی ہیںیہ سب حرام اورکبیرہ گناہوں میں بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ عورتوں کے لیے تو قبرستان جانا ہی ناجائز ہے اور وہ عورتیں جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں ان پر اللہ کے حبیبﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔(ترمذی: ابواب الجنائز)
وہ عورتیں جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں وہ اللہ کے حبیبﷺ کی زبانی ملعون ہیں اور ملعون وہ ہے جو اللہ کی رحمت سے دور کیا ہوا اور دھتکارا ہواہو۔
اسی طرح وہ لوگ جو کسی قبر، درگاہ یا خانقاہ اور مزاروں کا طواف و زیارت یا ثواب کی نیت سے سفر کرتے ہیں وہاں جا کر نذر و نیاز کرتے اور منتیں مانگتے ہیں تو وہ بھی بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں۔ شریعت میں تین جگہوں کے علاوہ کسی اور مقام کا سفر بغرض زیارت و ثواب کرنا منع ہے۔ وہ تین مقامات یہ ہیں: (1) مکۃ المکرمہ میں بیت اللہ شریف (2) مدینہ منورہ میں مسجد نبوی (3)فلسطین کی مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)
ان تین جگہوں کے علاوہ کسی چوتھی جگہ زیارت یا ثواب کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں۔ متفق علیہ حدیث میں آتا ہے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تین مساجد کے علاوہ کہیں اور ثواب و زیارت کی نیت سے سفر اختیار نہ کیا جائے مسجد حرام، میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ۔ (بخاری: ابواب المحصر وجز ء الصید باب الحج النسائ)
اس صریح ممانعت کے بعد کسی قبر کی حصولِ ثواب کی نیت سے زیارت کرنا یا اس کے عرس میں شرکت کرنا اور فاتحہ پڑھنے کی غرض سے اہتمام کے ساتھ اس کا سفر اختیار کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ چاہے وہ قبر کسی بزرگ و ولی اور نبی و شہید ہی کی کیوں نہ ہو پھر وہاں جا کر جو بدعات و خرافات انجام دی جاتی ہیں اس کا گناہ اور وبال الگ ہے جن میں سر فہرست اللہ کو چھوڑ کر (جو کہ زندہ ہے جسے کبھی موت نہیں آتی ہر چیز پر قادر ہے کوئی چیز اس کے دائرۂ قدرت سے باہر نہیں) قبروں میں مدفون عاجزو بے بس مخلوق سے مددطلب کرنا، مرادیں اور دعائیں مانگنا ہے۔ اللھم احفظنا منہ
موت کی تمنا اور دعا
ناجائز دعائوں میں ایک دعا یہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی بیماری، پریشانی یا مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا اور دعا کرنے لگے۔مثلاً: کہے کہ اس بیماری اور تکلیف سے تو موت اچھی یا اے اللہ! مجھے موت دے دے وغیرہ۔ کیونکہ یہ دنیا دار العمل ہے یہاں اچھے اور نیک عمل انجام دے کر اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور یہ چیزیں زندگی ہی میں ممکن ہے اس لیے زندگی اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ مرنے کے بعد عمل کا موقع نہ ملے گا بلکہ مرنے کے بعد سے جزاء و سزا اور حساب وکتاب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس لیے کسی بیماری یا مصیبت میں بھی زندگی جیسی قیمتی نعمت سے اپنے آپ کو محروم کر لینے کی دعا سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تکلیف و پریشانی، صحت وبیماری سب کچھ اللہ ہی کی طر ف سے ہے اور اس میں ہمارے لیے بسا اوقات بے شمار خیر پوشیدہ ہوتی ہے جس کو ہم سمجھتے نہیں۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کوبھی کسی بیماری یا اس سے بھی کم تر چیز کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس شخص کے گناہوں کو اس طرح گرادیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔ (یعنی جیسے سوکھے پتے درخت سے جھڑتے ہیں اسی طرح بیماری و تکلیف کی وجہ سے مسلمان کے گناہ معاف ہوتے ہیں)(صحیح مسلم: کتاب البر والصلۃ )
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کوئی غم پہنچتا ہے یا کوئی کانٹا چبھتا ہے یا اس سے بھی معمولی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر بھی اس کی غلطیاں معاف ہوتی اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ گویا ایک صاحبِ ایمان اور مسلمان شخص کے لیے تکلیف وبیماری بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہی ہے، لہٰذا ہر تکلیف و مصیبت پر صبر کرنا چاہیے اور اس سے تنگ آکر موت کی تمنا اور دعا نہ کرنا چاہیے ہاں اگر کوئی بہت ہی زیادہ آزمائش ومصیبت میں ہوا اور اس سے صبر نہ ہو سکے تو یہ دعا مانگے کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو اور اس وقت مجھے موت دے دے جب میرے حق میں موت بہتر ہو۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی کسی تکلیف کی وجہ سے ہرگز موت کی تمنا نہ کرے اور اگر کسی کو موت کی تمنا کرناہی ہو تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میں میرے لیے خیر ہو اور اس وقت موت دے دے جب موت میرے لیے بہتر ہو۔ (بخاری: کتاب الدعوات، )
دنیا ہی میں اپنے گناہوں کی سزا طلب کرنا
یہ بھی ناجائز ہے کہ کوئی شخص اپنی کسی کمزوری یا گناہوں کی وجہ سے دعا کرے کہ اے اللہ! تو میرے گناہوں کی سزا مجھے دنیا ہی میں دے دے۔ اس کے بجائے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ ہم اس سے دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی طلب کریں: (البقرہ: 201)
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے خادمِ رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ ایسے شخص کی عیادت فرمائی جو بیماری سے چوزے کی طرح ہوگیا تھا، رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم کوئی خاص دعا یا اللہ سے سوال کیا کرتے تھے؟ اس نے عرض کیا ہاں! میں کہا کرتا تھااے اللہ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا ہے وہ دنیا میں ہی دے دے (تاکہ آخرت میں محفوظ رہوں ) یہ سن کر رسول اللہﷺ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: سبحان اللہ! تجھ میں اتنی طاقت کہاں؟ یا فرمایا تجھ میں اتنی استطاعت کہاں؟ تو نے اس طرح دعاکیوں نہ کی کہ اے اللہ! ہمیں دنیا و آخرت دونوں جگہ کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے ہمیں بچالے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اسے اچھا کر دیا۔ (بخاری)
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا ہی میں اپنے لیے گناہوں کی سزا طلب کرنا جائز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی اور عافیت کی دعا مانگنی چاہیے۔ ترمذی کی حدیث ہے رسول اللہﷺ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز بتلا ئیے جس کو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو۔ کہتے ہیں کہ میں کچھ دن کے بعد پھر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز بتلائیے جو میں اللہ سے مانگوں۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے عباس! اے رسول اللہ (ﷺ) کے چچا!اللہ سے دنیا و آخرت میں عافیت مانگو۔ (ترمذی: ابواب الدعا)
ترمذی ہی کی ایک اور حدیث میں آپﷺ نے ایک شخص کے سوال کرنے پر عافیت کی دعا کو سب سے افضل دعا قرار دیا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ سے منقول اکثر دعائوں میں ہمیں عافیت کا ذکر ملتا ہے۔ ایک مختصر سی دعا یہ منقول ہے: ’’اللہم انی اسئلک العفو والعافیۃ والمعافاۃ الدائمۃ فی الدین والدنیا والآخرۃ‘‘(ترمذی )
اے اللہ! میں تجھ سے معافی مانگتاہوں اور دین و دنیا اور آخرت میں ہمیشہ کی عافیت کا طلب گار ہوں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک دعا کے بارے میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اسے برابر صبح و شام مانگا کرتے تھے۔ اس دعا میں بھی عافیت کا ذکر موجود ہے۔ (ابو دائود)
اپنی جان و مال اور اولاد کے لیے بد دعا
ناجائزدعائوں میں یہ دعا بھی شامل ہے کہ آدمی کسی خسارے یا کسی پریشانی کی وجہ سے خود اپنے لیے یا اپنی اولاد، مال و جائیداد یا تجارت وملازمت وغیرہ کے حق میں بددعا کرے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ وقت دعا کی قبولیت کا وقت ہو اور وہ بد دعا قبول کر لی جائے پھر بعد میں آدمی پریشانی کا اظہار کرے کہ کاش ! میں نے یہ بددعا نہ کی ہوتی، اس لیے کسی بھی قسم کی بد دعا نہیں کرنی چاہیے۔ رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے، اپنے خادموں کے لیے اور اپنے مال و جائیداد کے لیے بد دعا نہ کرو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تم ایسے وقت میں یہ دعا کرو جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے نیل و عطا مقدر ہو (اور وہ تمہارے لیے قبولیت کا وقت ہو ) اور تمہاری بد دعا قبول کر لی جائے۔ (ابو دائود: کتاب الصلوۃ)
گناہ کی دعا
ناجائز دعائوں میں کسی گناہ کی دعا کرنا بھی شامل ہے، لہٰذا کسی غلط کام، غیر شرعی عمل اور گناہ کی دعا نہ کی جائے۔ اس کا ایک عظیم نقصان یہ ہو گا کہ پھر دعائیں قبول ہونا بند ہو جائیں گی، جیسا کہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ مسند احمد، صحیح مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے جسے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت تک بندے کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ صلہ رحمی کے ختم کرنے کی اور کسی گناہ کی دعا نہ کرے۔ (مسلم: کتاب الذکروالدعا)
دعا میں بے تکے جملے استعمال کرنا
اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہے۔ اس سے جب دعا کی جائے تو دعا کرتے ہوئے اچھے جملے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیے اور اس سے مانگتے ہوئے زبان کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ بے وزن، بے تکے اور پُر تکلف یا نا مناسب جملے دعا میں استعمال کرنا مکروہ اور خلافِ ادب ہے۔صحیح بخاری کی روایت ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ چند نصیحتیں کرتے ہوئے فرمایاکہ دیکھو! دعا میں نامناسب اور بے تکے جملے استعمال نہ کرو کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ہمیشہ اس سے پرہیز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (بخاری: کتاب الدعوات)
دعا میں حد سے تجاوز کرنا
اسی طرح دعا میں اعتداء یعنی حد سے تجاوز کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ بنی اسرائیل نے اپنے نبی سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ ایسی امیدیں رکھنا اور نا مناسب تمنائیں کرنا، حد سے تجاوز ہے جو صحیح نہیں۔ دعا میں اس سے پرہیزکرنا چاہیے۔
سنن ابو دائود کی ایک حدیث میں ہے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے یہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے دعا میں یہ کہتے ہوئے سنا اے اللہ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتیں، اس کی رونق (اس کی بہاریں، اس کی ٹھنڈک اور اس کے اچھے باغات)وغیرہ وغیرہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے جہنم کی آگ اس کی زنجیروں، بیڑیوں (اور اس کی گرمی و تپش) وغیرہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ میرے والد نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ عنقریب ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جو دعا میں تجاوز کرے گی اس سے بچو۔ ایسا نہ ہو کہ تم ان میں سے ہو جائو۔ اگر تمہیں جنت مل گئی تو جنت اور اس کی ساری نعمتیں وبہاریں مل گئیں اور اگر تمہیں جہنم سے پناہ مل گئی تو اس کے سارے شر اور عذاب سے پناہ مل گئی۔ (ابو دائود: کتاب الصلوۃ)
ایک اور روایت میں اسی طرح کی نصیحت سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بیٹے کوکی جب کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! جب میں جنت میں داخل ہوں تو جنت کے داہنی طرف سفید محل عطا فرما۔ سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور جہنم سے پناہ مانگو میں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: عنقریب ایسی قوم پیدا ہوگی جو دعا کرنے میں حد سے تجاوز کرے گی۔ (ابن ماجہ)
اس سے معلوم ہوا کہ خوب لمبی لمبی دعائیں بھی نہیں کرنی چاہیں جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے بلکہ جامع دعائیں کرنا بہتر ہے۔ اسی طرح دعا میں لفاظی کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے وہ دلوں میں چھپی ہر بات اور تمنا کو بھی جانتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے جب دعا کریں تو اچھے انداز میں دعا کریں۔ صاف ستھرے جملے استعمال کریں اور دعا کرتے ہوئے حد سے تجاوز نہ کریں۔
صرف اپنے لیے دعا کرنا
دعا کرتے ہوئے اپنے آپ کو خاص کرلینا اور دوسروں کو اپنی دعا میں شامل نہ کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔ ایک موقع پر ایک اعرابی نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! تو مجھ پر اور محمد(ﷺ) پر رحمت نازل فرما۔ یہ سن کر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تم نے ایک وسیع چیز (یعنی اللہ کی رحمت ) کو محدود کر دیا۔ (بخاری)
بلکہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو امامت کا حق نہیں پہنچتا جو صرف اپنے لیے دعا کرے اور دعا میں اپنے مقتدیوں کو شامل نہ کرے۔ رسول اکرمﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ مسند امام احمدبن حنبل اور ترمذی میں سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اور جو کسی قوم کی امامت کرے تو اپنے آپ کو دعا میں خاص نہ کرلے اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان لوگوں کے ساتھ خیانت کی۔ ( ترمذی)
قبولیت دعا میں جلد بازی
دعا کرتے ہوئے یہ بات بھی ناجائز ہے کہ آدمی دعا کی قبولیت کے سلسلے میں جلد بازی کرے اور یہ کہے کہ میں تو برابر دعا کر رہا ہوں لیکن قبول ہی نہیں ہو رہی ہے یا قبولیت کا نام و نشان ہی نہیں وغیرہ۔ متفق علیہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ وہ جلد بازی نہ کرے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ وہ جلد ی نہ کرے اور یہ کہے کہ میں نے دعا کی لیکن قبول نہیں ہوئی۔ (صحیح بخاری)
صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں یہ حدیث مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہیں مانگتا یا جلدی نہیں کرتا۔ (آپﷺ سے )پوچھا گیایا رسول اللہ! جلدی کرنا کیا ہے؟ فرمایا: دعا مانگنے والا کہے کہ میں نے دعا مانگی پھر مانگی لیکن دعا قبول ہوتی نظر نہیں آرہی ہے پھر وہ تنگ آکر اور نا امید ہو کر دعا کرنا ہی چھوڑدے۔ (صحیح مسلم)
موسیٰ علیہ السلام کی دعا چالیس سال بعد قبول ہوئی
سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی سیدنا ہارون علیہ السلام نے فرعون کی ہلاکت کے لیے دعا کی تھی جس کا ذکر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے ضمن میں سورت یونس آیت نمبر 88میں بھی کیا گیا ہے اور جس کے بارے میں سورت یونس آیت نمبر 89میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فرمایا تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی لہٰذا تم دونوں ثابت قدم رہو اور نادان جاہل لوگوں کی پیروی نہ کرو۔
امام محمد بن نصر سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں لکھا ہے کہ موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی یہ دعا چالیس سال بعد قبول ہوئی۔ اس لیے دعا قبول نہ ہو تو اس میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بعض اوقات دعا کے قبول نہ ہونے ہی میں ہمارا فائدہ ہوتا ہے۔ بعض چیزوں کو کبھی ہم نا پسند کرتے ہیں لیکن وہ ہمارے حق میں بہتر ہوتی ہیں اور کبھی بعض چیزوں کو پسند کرتے ہیں لیکن وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتی اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون سی چیز ہمارے لیے بہتر ہے اور کون سی چیز بہتر نہیں۔
کسی پر لعنت بھیجنا یا کسی کو برا بھلا کہنا
یہ بھی ناجائز اور مکروہ ہے کہ دعا کرتے ہوئے کسی پر لعنت بھیجی جائے یا کسی کو بد دعا دی جائے۔ اسی طرح آندھی، طوفان کو یا کسی بیماری کو برا بھلا نہ کہا جائے ہاں اس سے حفاظت کی دعا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کی جائے اور اپنے ہر قسم کے عذاب سے محفوظ رکھنے کی درخواست کی جائے لیکن اللہ کے کسی فیصلے اور تقدیر کو برا بھلا کہنا صحیح نہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ عہدِ رسالت میں ایک شخص نے ہوا پر لعنت بھیجی، نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس پر لعنت مت بھیجو کیونکہ وہ (اللہ کی طرف سے ) مامور ہے اور اگر کوئی شخص کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجے جو اس لعنت کی مستحق نہیں تو پھر لعنت اسی لعنت بھیجنے والے پر پڑتی ہے۔(ابو دائود)
البتہ مشرکین و منافقین، یہودو نصاریٰ اور اسلام کے مخالفین اور دشمنوں کے حق میں بددعا کرنا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
(ڈاکٹر صاحبزادہ قاری عبد الباسط جدہ)
دعا کے سلسلہ میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ناجائز اور مکروہ ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہمیں ان سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے دعا کرتے ہوئے ان امور سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہم ان امور کو الگ الگ عنوان کے تحت بیان کریں گے تاکہ اس کو سمجھنے اور پھر اس سے احتیاط کرنے میں آسانی ہو۔
غیر اللہ سے دعا
اس سلسلہ میں سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ غیراللہ سے دعا کرنا جائز نہیں۔ دعا چونکہ عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لیے خاص ہے اس لیے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے دعا مانگنا نا جائز ہے مثلاً: یہ کہے کہ اے فلاں شخص! یا اے فلاں بزرگ! تو میرا فلاں کام کردے۔ وہ شخص جس سے دعا کی جارہی ہو اور مرادیں مانگی جارہی ہوں خواہ زندہ ہو کہ مردہ، ولی و پیغمبرہو یا شہیدو صدیق، کوئی بھی ہو اللہ کے علاوہ غیراللہ سے دعا کرنا نا جائز ، حرام اورکبیرہ گناہ میں سے ہے بلکہ یہ شرک اکبر ہے جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔
بعض ملکوں میں لوگ بالخصوص عورتیں قبروں اور خانقاہوں، درباروں اور درگاہوں اور بعض دوسرے مقامات پر جا کر دعائیں کرتی ہیں، چادریں چڑھاتی ہیں یا نذرو نیاز کرتی اور منتیں مانتی ہیںیہ سب حرام اورکبیرہ گناہوں میں بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ عورتوں کے لیے تو قبرستان جانا ہی ناجائز ہے اور وہ عورتیں جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں ان پر اللہ کے حبیبﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔(ترمذی: ابواب الجنائز)
وہ عورتیں جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں وہ اللہ کے حبیبﷺ کی زبانی ملعون ہیں اور ملعون وہ ہے جو اللہ کی رحمت سے دور کیا ہوا اور دھتکارا ہواہو۔
اسی طرح وہ لوگ جو کسی قبر، درگاہ یا خانقاہ اور مزاروں کا طواف و زیارت یا ثواب کی نیت سے سفر کرتے ہیں وہاں جا کر نذر و نیاز کرتے اور منتیں مانگتے ہیں تو وہ بھی بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں۔ شریعت میں تین جگہوں کے علاوہ کسی اور مقام کا سفر بغرض زیارت و ثواب کرنا منع ہے۔ وہ تین مقامات یہ ہیں: (1) مکۃ المکرمہ میں بیت اللہ شریف (2) مدینہ منورہ میں مسجد نبوی (3)فلسطین کی مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)
ان تین جگہوں کے علاوہ کسی چوتھی جگہ زیارت یا ثواب کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں۔ متفق علیہ حدیث میں آتا ہے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تین مساجد کے علاوہ کہیں اور ثواب و زیارت کی نیت سے سفر اختیار نہ کیا جائے مسجد حرام، میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ۔ (بخاری: ابواب المحصر وجز ء الصید باب الحج النسائ)
اس صریح ممانعت کے بعد کسی قبر کی حصولِ ثواب کی نیت سے زیارت کرنا یا اس کے عرس میں شرکت کرنا اور فاتحہ پڑھنے کی غرض سے اہتمام کے ساتھ اس کا سفر اختیار کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ چاہے وہ قبر کسی بزرگ و ولی اور نبی و شہید ہی کی کیوں نہ ہو پھر وہاں جا کر جو بدعات و خرافات انجام دی جاتی ہیں اس کا گناہ اور وبال الگ ہے جن میں سر فہرست اللہ کو چھوڑ کر (جو کہ زندہ ہے جسے کبھی موت نہیں آتی ہر چیز پر قادر ہے کوئی چیز اس کے دائرۂ قدرت سے باہر نہیں) قبروں میں مدفون عاجزو بے بس مخلوق سے مددطلب کرنا، مرادیں اور دعائیں مانگنا ہے۔ اللھم احفظنا منہ
موت کی تمنا اور دعا
ناجائز دعائوں میں ایک دعا یہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی بیماری، پریشانی یا مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا اور دعا کرنے لگے۔مثلاً: کہے کہ اس بیماری اور تکلیف سے تو موت اچھی یا اے اللہ! مجھے موت دے دے وغیرہ۔ کیونکہ یہ دنیا دار العمل ہے یہاں اچھے اور نیک عمل انجام دے کر اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور یہ چیزیں زندگی ہی میں ممکن ہے اس لیے زندگی اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ مرنے کے بعد عمل کا موقع نہ ملے گا بلکہ مرنے کے بعد سے جزاء و سزا اور حساب وکتاب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس لیے کسی بیماری یا مصیبت میں بھی زندگی جیسی قیمتی نعمت سے اپنے آپ کو محروم کر لینے کی دعا سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تکلیف و پریشانی، صحت وبیماری سب کچھ اللہ ہی کی طر ف سے ہے اور اس میں ہمارے لیے بسا اوقات بے شمار خیر پوشیدہ ہوتی ہے جس کو ہم سمجھتے نہیں۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کوبھی کسی بیماری یا اس سے بھی کم تر چیز کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس شخص کے گناہوں کو اس طرح گرادیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔ (یعنی جیسے سوکھے پتے درخت سے جھڑتے ہیں اسی طرح بیماری و تکلیف کی وجہ سے مسلمان کے گناہ معاف ہوتے ہیں)(صحیح مسلم: کتاب البر والصلۃ )
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کوئی غم پہنچتا ہے یا کوئی کانٹا چبھتا ہے یا اس سے بھی معمولی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر بھی اس کی غلطیاں معاف ہوتی اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ گویا ایک صاحبِ ایمان اور مسلمان شخص کے لیے تکلیف وبیماری بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہی ہے، لہٰذا ہر تکلیف و مصیبت پر صبر کرنا چاہیے اور اس سے تنگ آکر موت کی تمنا اور دعا نہ کرنا چاہیے ہاں اگر کوئی بہت ہی زیادہ آزمائش ومصیبت میں ہوا اور اس سے صبر نہ ہو سکے تو یہ دعا مانگے کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو اور اس وقت مجھے موت دے دے جب میرے حق میں موت بہتر ہو۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی کسی تکلیف کی وجہ سے ہرگز موت کی تمنا نہ کرے اور اگر کسی کو موت کی تمنا کرناہی ہو تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میں میرے لیے خیر ہو اور اس وقت موت دے دے جب موت میرے لیے بہتر ہو۔ (بخاری: کتاب الدعوات، )
دنیا ہی میں اپنے گناہوں کی سزا طلب کرنا
یہ بھی ناجائز ہے کہ کوئی شخص اپنی کسی کمزوری یا گناہوں کی وجہ سے دعا کرے کہ اے اللہ! تو میرے گناہوں کی سزا مجھے دنیا ہی میں دے دے۔ اس کے بجائے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ ہم اس سے دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی طلب کریں: (البقرہ: 201)
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے خادمِ رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ ایسے شخص کی عیادت فرمائی جو بیماری سے چوزے کی طرح ہوگیا تھا، رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم کوئی خاص دعا یا اللہ سے سوال کیا کرتے تھے؟ اس نے عرض کیا ہاں! میں کہا کرتا تھااے اللہ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا ہے وہ دنیا میں ہی دے دے (تاکہ آخرت میں محفوظ رہوں ) یہ سن کر رسول اللہﷺ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: سبحان اللہ! تجھ میں اتنی طاقت کہاں؟ یا فرمایا تجھ میں اتنی استطاعت کہاں؟ تو نے اس طرح دعاکیوں نہ کی کہ اے اللہ! ہمیں دنیا و آخرت دونوں جگہ کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے ہمیں بچالے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اسے اچھا کر دیا۔ (بخاری)
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا ہی میں اپنے لیے گناہوں کی سزا طلب کرنا جائز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی اور عافیت کی دعا مانگنی چاہیے۔ ترمذی کی حدیث ہے رسول اللہﷺ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز بتلا ئیے جس کو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو۔ کہتے ہیں کہ میں کچھ دن کے بعد پھر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز بتلائیے جو میں اللہ سے مانگوں۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے عباس! اے رسول اللہ (ﷺ) کے چچا!اللہ سے دنیا و آخرت میں عافیت مانگو۔ (ترمذی: ابواب الدعا)
ترمذی ہی کی ایک اور حدیث میں آپﷺ نے ایک شخص کے سوال کرنے پر عافیت کی دعا کو سب سے افضل دعا قرار دیا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ سے منقول اکثر دعائوں میں ہمیں عافیت کا ذکر ملتا ہے۔ ایک مختصر سی دعا یہ منقول ہے: ’’اللہم انی اسئلک العفو والعافیۃ والمعافاۃ الدائمۃ فی الدین والدنیا والآخرۃ‘‘(ترمذی )
اے اللہ! میں تجھ سے معافی مانگتاہوں اور دین و دنیا اور آخرت میں ہمیشہ کی عافیت کا طلب گار ہوں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک دعا کے بارے میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اسے برابر صبح و شام مانگا کرتے تھے۔ اس دعا میں بھی عافیت کا ذکر موجود ہے۔ (ابو دائود)
اپنی جان و مال اور اولاد کے لیے بد دعا
ناجائزدعائوں میں یہ دعا بھی شامل ہے کہ آدمی کسی خسارے یا کسی پریشانی کی وجہ سے خود اپنے لیے یا اپنی اولاد، مال و جائیداد یا تجارت وملازمت وغیرہ کے حق میں بددعا کرے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ وقت دعا کی قبولیت کا وقت ہو اور وہ بد دعا قبول کر لی جائے پھر بعد میں آدمی پریشانی کا اظہار کرے کہ کاش ! میں نے یہ بددعا نہ کی ہوتی، اس لیے کسی بھی قسم کی بد دعا نہیں کرنی چاہیے۔ رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے، اپنے خادموں کے لیے اور اپنے مال و جائیداد کے لیے بد دعا نہ کرو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تم ایسے وقت میں یہ دعا کرو جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے نیل و عطا مقدر ہو (اور وہ تمہارے لیے قبولیت کا وقت ہو ) اور تمہاری بد دعا قبول کر لی جائے۔ (ابو دائود: کتاب الصلوۃ)
گناہ کی دعا
ناجائز دعائوں میں کسی گناہ کی دعا کرنا بھی شامل ہے، لہٰذا کسی غلط کام، غیر شرعی عمل اور گناہ کی دعا نہ کی جائے۔ اس کا ایک عظیم نقصان یہ ہو گا کہ پھر دعائیں قبول ہونا بند ہو جائیں گی، جیسا کہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ مسند احمد، صحیح مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے جسے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت تک بندے کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ صلہ رحمی کے ختم کرنے کی اور کسی گناہ کی دعا نہ کرے۔ (مسلم: کتاب الذکروالدعا)
دعا میں بے تکے جملے استعمال کرنا
اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہے۔ اس سے جب دعا کی جائے تو دعا کرتے ہوئے اچھے جملے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیے اور اس سے مانگتے ہوئے زبان کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ بے وزن، بے تکے اور پُر تکلف یا نا مناسب جملے دعا میں استعمال کرنا مکروہ اور خلافِ ادب ہے۔صحیح بخاری کی روایت ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ چند نصیحتیں کرتے ہوئے فرمایاکہ دیکھو! دعا میں نامناسب اور بے تکے جملے استعمال نہ کرو کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ہمیشہ اس سے پرہیز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (بخاری: کتاب الدعوات)
دعا میں حد سے تجاوز کرنا
اسی طرح دعا میں اعتداء یعنی حد سے تجاوز کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ بنی اسرائیل نے اپنے نبی سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ ایسی امیدیں رکھنا اور نا مناسب تمنائیں کرنا، حد سے تجاوز ہے جو صحیح نہیں۔ دعا میں اس سے پرہیزکرنا چاہیے۔
سنن ابو دائود کی ایک حدیث میں ہے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے یہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے دعا میں یہ کہتے ہوئے سنا اے اللہ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتیں، اس کی رونق (اس کی بہاریں، اس کی ٹھنڈک اور اس کے اچھے باغات)وغیرہ وغیرہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے جہنم کی آگ اس کی زنجیروں، بیڑیوں (اور اس کی گرمی و تپش) وغیرہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ میرے والد نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ عنقریب ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جو دعا میں تجاوز کرے گی اس سے بچو۔ ایسا نہ ہو کہ تم ان میں سے ہو جائو۔ اگر تمہیں جنت مل گئی تو جنت اور اس کی ساری نعمتیں وبہاریں مل گئیں اور اگر تمہیں جہنم سے پناہ مل گئی تو اس کے سارے شر اور عذاب سے پناہ مل گئی۔ (ابو دائود: کتاب الصلوۃ)
ایک اور روایت میں اسی طرح کی نصیحت سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بیٹے کوکی جب کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! جب میں جنت میں داخل ہوں تو جنت کے داہنی طرف سفید محل عطا فرما۔ سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور جہنم سے پناہ مانگو میں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: عنقریب ایسی قوم پیدا ہوگی جو دعا کرنے میں حد سے تجاوز کرے گی۔ (ابن ماجہ)
اس سے معلوم ہوا کہ خوب لمبی لمبی دعائیں بھی نہیں کرنی چاہیں جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے بلکہ جامع دعائیں کرنا بہتر ہے۔ اسی طرح دعا میں لفاظی کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے وہ دلوں میں چھپی ہر بات اور تمنا کو بھی جانتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے جب دعا کریں تو اچھے انداز میں دعا کریں۔ صاف ستھرے جملے استعمال کریں اور دعا کرتے ہوئے حد سے تجاوز نہ کریں۔
صرف اپنے لیے دعا کرنا
دعا کرتے ہوئے اپنے آپ کو خاص کرلینا اور دوسروں کو اپنی دعا میں شامل نہ کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔ ایک موقع پر ایک اعرابی نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! تو مجھ پر اور محمد(ﷺ) پر رحمت نازل فرما۔ یہ سن کر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تم نے ایک وسیع چیز (یعنی اللہ کی رحمت ) کو محدود کر دیا۔ (بخاری)
بلکہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو امامت کا حق نہیں پہنچتا جو صرف اپنے لیے دعا کرے اور دعا میں اپنے مقتدیوں کو شامل نہ کرے۔ رسول اکرمﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ مسند امام احمدبن حنبل اور ترمذی میں سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اور جو کسی قوم کی امامت کرے تو اپنے آپ کو دعا میں خاص نہ کرلے اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان لوگوں کے ساتھ خیانت کی۔ ( ترمذی)
قبولیت دعا میں جلد بازی
دعا کرتے ہوئے یہ بات بھی ناجائز ہے کہ آدمی دعا کی قبولیت کے سلسلے میں جلد بازی کرے اور یہ کہے کہ میں تو برابر دعا کر رہا ہوں لیکن قبول ہی نہیں ہو رہی ہے یا قبولیت کا نام و نشان ہی نہیں وغیرہ۔ متفق علیہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ وہ جلد بازی نہ کرے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ وہ جلد ی نہ کرے اور یہ کہے کہ میں نے دعا کی لیکن قبول نہیں ہوئی۔ (صحیح بخاری)
صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں یہ حدیث مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہیں مانگتا یا جلدی نہیں کرتا۔ (آپﷺ سے )پوچھا گیایا رسول اللہ! جلدی کرنا کیا ہے؟ فرمایا: دعا مانگنے والا کہے کہ میں نے دعا مانگی پھر مانگی لیکن دعا قبول ہوتی نظر نہیں آرہی ہے پھر وہ تنگ آکر اور نا امید ہو کر دعا کرنا ہی چھوڑدے۔ (صحیح مسلم)
موسیٰ علیہ السلام کی دعا چالیس سال بعد قبول ہوئی
سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی سیدنا ہارون علیہ السلام نے فرعون کی ہلاکت کے لیے دعا کی تھی جس کا ذکر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے ضمن میں سورت یونس آیت نمبر 88میں بھی کیا گیا ہے اور جس کے بارے میں سورت یونس آیت نمبر 89میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فرمایا تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی لہٰذا تم دونوں ثابت قدم رہو اور نادان جاہل لوگوں کی پیروی نہ کرو۔
امام محمد بن نصر سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں لکھا ہے کہ موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی یہ دعا چالیس سال بعد قبول ہوئی۔ اس لیے دعا قبول نہ ہو تو اس میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بعض اوقات دعا کے قبول نہ ہونے ہی میں ہمارا فائدہ ہوتا ہے۔ بعض چیزوں کو کبھی ہم نا پسند کرتے ہیں لیکن وہ ہمارے حق میں بہتر ہوتی ہیں اور کبھی بعض چیزوں کو پسند کرتے ہیں لیکن وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتی اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون سی چیز ہمارے لیے بہتر ہے اور کون سی چیز بہتر نہیں۔
کسی پر لعنت بھیجنا یا کسی کو برا بھلا کہنا
یہ بھی ناجائز اور مکروہ ہے کہ دعا کرتے ہوئے کسی پر لعنت بھیجی جائے یا کسی کو بد دعا دی جائے۔ اسی طرح آندھی، طوفان کو یا کسی بیماری کو برا بھلا نہ کہا جائے ہاں اس سے حفاظت کی دعا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کی جائے اور اپنے ہر قسم کے عذاب سے محفوظ رکھنے کی درخواست کی جائے لیکن اللہ کے کسی فیصلے اور تقدیر کو برا بھلا کہنا صحیح نہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ عہدِ رسالت میں ایک شخص نے ہوا پر لعنت بھیجی، نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس پر لعنت مت بھیجو کیونکہ وہ (اللہ کی طرف سے ) مامور ہے اور اگر کوئی شخص کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجے جو اس لعنت کی مستحق نہیں تو پھر لعنت اسی لعنت بھیجنے والے پر پڑتی ہے۔(ابو دائود)
البتہ مشرکین و منافقین، یہودو نصاریٰ اور اسلام کے مخالفین اور دشمنوں کے حق میں بددعا کرنا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔