پنج تن کی اصطلاح کے علاوہ غالی فرقے نے
"ناد علی" کے بھی دو شعر گھڑ کے "جاہل تفضیلیہ و صوفیوں" کے ذریعے عام مسلمانوں میں پھیلا دئیے، غیر اللہ کو مدد اور استعانت کے لیے اس حالت میں پکارنا کہ مرے ہوئے بھی اسے تیرہ برس سے زائد مدت گزر چکی ہو شرک اور کفر ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ مجھ سے مانگو میں تمھاری دعا کو قبول کروں گا۔ سورة غافر ۶۰، غالیہ نے عوام کو
"ناد علی" کے ذریعہ یہ سبق پڑھایا کہ اپنی مصائب میں علیؓ کو پکارو۔
نَادِ عَلِيّاً مَظْهَرَ الْعَجَائِبِ
علی کو پکارو جو عجائبات ظاہر کرتے ہیں
تَجِدْهُ عَوْناً لَكَ فِي النَّوَائِبِ
تم ان کو مصائب میں اپنا مددگار پاو گے
كُلُّ هَمٍّ وَ غَمٍّ سَيَنْجَلِي
کل درد و غم جلدی دور ہوجائیں گے
بِوَلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا عَلِی
اے محمد آپ کی نبوت اور اے علی آپ کی ولایت کی بدولت
آخری مصرعہ میں "ولایت" سے مراد "علی ولی اللہ" سے لی گئی ہے اور تفضیلیہ و متصوفہ اپنے سلسلہ کے مرشد اعلی سے لیتے ہیں، مگر اس ولایت کو نبی کریمﷺ کی نبوت کے مساوی قرار دے کر نادانوں کو فریب دیا ہے، اور تفضیلیہ متصوفہ کے توسط سے
"ناد علی" کو ناواقف عقیدت مند "سنیوں" کے گلے میں تعویز بنوا کر ڈلوادیا اور اتنا غلو کیا کہ مرتے وقت بھی ساتھ نہ چھوڑا قبروں تک پرکندہ کرادیا۔
"ناد علی" کا ہی نتیجہ ہے کہ تفضیلیہ و متصوفہ کے حلقوں میں اٹھتے بیٹھتے
"یا علی" کی آواز بلند ہوتی ہے۔ شیعہ حضرات کے نزدیک بھی
"ناد علی" کے یہ "اشعار" ثابت نہیں ہے۔
بحار الأنوار میں اس
"ناد علی" کی روایت کے متعلق اس کتاب کا محقق لکھتا ہے: آخری جملہ میں غربت پائی جاتی ہے اور سابقہ جملے سے کوئی میل نہیں رکھتا اور بظاھر یہ "جہلاء یا گمراہ صوفیوں" کا اضافہ لگتا ہے جن کا دعوی ہے کہ یہ جملے دعا ہیں اور اسی وجہ انھوں نے ان کو ذکر کیا ہے اور اس طرح کے بہت سے اضافے انھوں نے کئے ہیں جبکہ ان کے معنی سے غافل ہیں، اللہ تعالی بدعت اور خواہشات کی اتباع سے محفوظ رکھے۔
جو حضرات "مستدرک الوسائل" کتاب کا حوالہ دیتے ہیں ان کو چاہے کہ وہ شیعوں کے امام معصوم سے اس کی صحت ثابت کریں، کیونکہ "مستدرک الوسائل" میں شیعوں کے امام معصوم سے کوئی روایت نہیں لی گئی۔