دیکھئے کفایت اللہ صاحب کیاکہہ رہے ہیں کہ اگرکسی ناقد نے کوئی بات کہہ دی تو تومحض قول نقل کردیناکافی ہوگیا۔لیکن دوسری جگہ یزید کے معاملے میں وہ دلیل کا سوال کھڑاکردیتے ہیں کہ اس کی دلیل کہاں ہےامام بخاری رحمہ اللہ کا یہ اپنا قول ہے نہ کہ کسی اور کا اس لئے سند کا مطالبہ ہی مردودہے۔
یاد رہے کہ ائمہ نقاد کا یہ کہنا کہ :
فلاں نے فلاں سے سنا نہیں ۔
فلاں کی فلاں سے ملاقات نہیں ۔
یااس طرح کے فیصلے دینا حجت ودلیل کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ جب ہم کسی سندکومنقطع بتلاتے ہیں تو کسی امام سے محض یہ قول نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کہاہے کہ اس راوی نے فلاں راوی سے نہیں سنا ،وغیرہ وغیرہ۔
لہٰذا یہ روایت اس لحاظ سے منقطع ٹہری ۔رہا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو آں رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے لہٰذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پرغیرمسموع ہے ۔
دیکھئے کفایت اللہ صاحب کس خوبی اوروضاحت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ناقدین کے حکم پر سند کا مطالبہ نہیں کرناچاہئے ۔سند کا مطالبہ کرناہی اصولی لحاظ سے غلط ہے اوریہی عام طریقہ کار رہاہے۔لیکن اس کے برعکس امام احمد بن حنبل سے یزید کے لوٹ مار کے متعلق وہ سند کا مطالبہ کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ انہوں نے ان کا زمانہ نہیں پایااس لئے لوٹ مار کی بات غلط ہے۔یہاں پر یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ ناقد کے اس فیصلہ کی سند پیش کرو یعنی اس نے جو یہ کہا فلاں نے فلاں سے نہیں سنا اس کی سند پیش کرو ، کیونکہ یہ فیصلہ ایک ناقد کا ہے اورائمہ نقاد کے اس طرح کے فیصلے بجائے خود دلیل ہوتے ہیں ، خود حافظ موصوف کی تحقیقی کتب سے ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے جہاں سند میں انقطاع کا حکم لگایاگیا ہے اوردلیل میں کسی ناقد امام کا اپنا قول ہی پیش کیا گیاہے۔بلکہ عدم لقاء سے زیادہ نازک مسئلہ تدلیس کا ہے یعنی کسی راوی سے متعلق ناقد کا یہ فیصلہ کرنا کہ وہ اپنے اساتذہ سے سنے بغیر روایت کردیتاہے یہاں بھی ناقد کے قول کی سند نہیں مانگی جاتی کیونکہ ناقد کافیصلہ بجائے خود دلیل ہوتاہے۔
مثلا امام ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ موصوف نے نقل کیا:وقال ابوزرعہ العراقی مشھوربالتدلیس(کتاب المدلسین:21)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔
عرض ہے کہ رواۃ کی کسی خوبی کو مشہور کہا جائے یا معروف کہا جائے ایک ہی بات ہے، اور اگر یہ بات کوئی ناقد کہے تو اس بات کی سند کامطالبہ بجائے خود مردود ہے۔
بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی کا ایک قول حافظ موصوف الفتح المبین میں یوں نقل کرتے ہیں:
وَلَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ , وَلَا عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , وَلَا عَنْ مَنْصُورٍ. وَذَكَرَ مَشَايِخَ كَثِيرَةً لَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ هَؤُلَاءِ تَدْلِيسًا مَا أَقَلَّ تَدْلِيسَهُ.(التمہید: 1/ 18 العلل الكبير للترمذي:2/ 266)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔
سوال یہ ہے کہدراصل اس روایت میں یزید پرجرح کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق مدینہ میں لوٹ مار کی بات بھی امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نقل فرمارہے ہیں اور امام احمدبن حبنل رحمہ اللہ نے یزید کا دور نہیں پایا ہے لہٰذا روایت کا یہ حصہ منقطع السند اورغیرثابت ہے،یعنی اس حصہ کے اعتبار سے یہ روایت منقطع ہے، اوراس روایت کو صحیح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ تک سلسلہ سند صحیح ہے لیکن اس سے آگے عہدیزیدرحمہ اللہ تک سلسلہ سند مذکورہی نہیں لہٰذا یہ روایت اس لحاظ سے منقطع ٹہری ۔رہا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو آں رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے لہٰذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پرغیرمسموع ہے ۔
ایک ناقد اپنے سے دوسوسال پیشتر راوی کے بارے میں کہتاہے کہ
اس نے فلاں سے نہیں سنا ۔
اورایک ناقد کہتاہے کہ فلاں شخص ظالم تھا
تودونوں میں اصولی اعتبار سے کیافرق ہے؟
اگرراوی پر کذب صدق اورضعف حافظہ کی بات ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ چلوراوی پر حکم لگانے میں اجتہاد سے کام لیاہوگالیکن کسی کے متعلق یہ کہناکہ اس نے فلاں سے نہیں سنا اوراس نے صرف فلاں سے ہی سناہے۔اجتہادی معاملہ نہیں ہے۔
لہذا جس طرح کسی کے قول فلاں ظالم تھا میں سند ضروری ہے ۔اسی طرح فلاں نے فلاں سے نہیں سنا اس کی بھی سند چاہئے۔
یہ کہنابھی اصولی طورپر غلط ہے کہ امام احمد بن حنبل نے یزید پر جرح کیلئے لوٹ مار کو ہی دلیل بنایاہے۔یہ بات کفایت اللہ نے کہاں سے جاناکہ ان کے یزید پر جرح کیلئے فقط یہی بنیاد ہے۔ اورکوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ ایساکیون نہیں ہوسکتاکہ انہوں نے لوٹ مار کو ایک تاریخی واقعہ کے طورپر ذکر کیاہو اوراسی سیاق وسباق میں مناسبت سے جرح کی بھی بات کردی ہو؟نیزامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے یزید پرروایت کے لحاظ سے یہاں جوجرح کی ہے اس کی دلیل بھی اسی لوٹ مار والی بات کو بنایا ہے ، اور یزید رحمہ اللہ کا یہ کردار سرے سے ثابت ہی نہیں لہٰذا غیرثابت شدہ امورکی بناد پر کی گئی جرح بھی مردود ہے، اوریزیدرحمہ اللہ کی شخصیت بے داغ ہے والحمدللہ۔
محض ایک ساتھ لوٹ مار اوریزید پرجرح کو ذکرنااس کی کافی دلیل نہیں ہے کہ امام احمد کے نزدیک فقط یہی ایک جرح کی بنیاد تھی۔