- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کے بعد مردوں اور عورتیں اسلام میں جماعت درجماعت داخل ہوئیں، یہاں تک کہ مکہ میں اسلام کا ذکر پھیل گیا اور لوگوں میں اس کا چرچا ہوگیا۔ 1
یہ لوگ چھپ چھپا کر مسلمان ہوئے تھے اور رسول اللہﷺ بھی چھپ چھپا کر ہی ان کی رہنمائی اور دینی تعلیم کے لیے ان کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ کیونکہ تبلیغ کا کام ابھی تک انفرادی طور پر پسِ پردہ چل رہا تھا۔ ادھر سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات کے بعد وحی کی آمد پورے تسلسل اور گرم رفتاری کے ساتھ جاری تھی۔ اس دور میں چھوٹی چھوٹی آیتیں نازل ہورہی تھیں۔ ان آیتوں کا خاتمہ یکساں قسم کے بڑے پرُ کشش الفاظ پر ہوتا تھا اور ان میں بڑی سکون بخش اور جاذب قلب نغمگی ہوتی تھی۔ جو اس پر سکون اور رِقت آمیز فضا کے عین مطابق ہوتی تھی پھر ان آیتوں میں تزکیہ نفس کی خوبیاں اور آلائش دنیا میں لت پت ہونے کی برائیاں بیان کی جاتی تھیں اور جنت وجہنم کا نقشہ اس طرح کھینچا جاتا تھا کہ گویا وہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ آیتیں اہل ایمان کو اس وقت کے انسانی معاشرے سے بالکل الگ ایک دوسری ہی فضا کی سیر کراتی تھیں۔
نماز:
ابتدائً جو کچھ نازل ہوا اسی میں نماز کا حکم بھی تھا۔ علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اور اسی طرح آپ کے صحابہ کرامؓ واقعۂ معراج سے پہلے قطعی طور پر نماز پڑھتے تھے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ نماز پنجگانہ سے پہلے کوئی نماز فرض تھی یا نہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے ایک ایک نماز فرض تھی۔
حارث بن اسامہ نے ابن لَہِیْعَہ کے طریق سے موصولاً حضرت زید بن حارثہؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ پر ابتدائً جب وحی آئی تو آپ کے پاس حضرت جبریل تشریف لا ئے اور آپ کو وضو کا طریقہ سکھایا۔ جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چُلّو پانی لے کر شرمگاہ پر چھینٹا مارا۔ ابن ماجہ نے بھی اس مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ براء بن عازبؓ اور ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ ابن عباس ؓ کی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ (نماز) اولین فرائض میں سے تھی۔ 2
ابن ہشام کا بیان ہے کہ نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ نماز کے وقت گھاٹیوں میں چلے جاتے تھے اور اپنی قوم سے چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ ایک بار ابو طالب نے نبیﷺ اور حضرت علیؓ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ پوچھا اور حقیقت معلوم ہوئی تو کہا کہ اس پر برقرار رہیں۔ 3
یہ عبادت تھی جس کا اہل ایمان کو حکم دیا گیا تھا۔ اس وقت نماز کے علاوہ اور کسی بات کے حکم کا پتہ نہیں چلتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سیرت ابن ہشام ۱/۲۶۲
2 مختصر السیرۃ از شیخ عبد اللہ ص ۸۸
3 ابن ہشام ۱/۲۴۷
یہ لوگ چھپ چھپا کر مسلمان ہوئے تھے اور رسول اللہﷺ بھی چھپ چھپا کر ہی ان کی رہنمائی اور دینی تعلیم کے لیے ان کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ کیونکہ تبلیغ کا کام ابھی تک انفرادی طور پر پسِ پردہ چل رہا تھا۔ ادھر سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات کے بعد وحی کی آمد پورے تسلسل اور گرم رفتاری کے ساتھ جاری تھی۔ اس دور میں چھوٹی چھوٹی آیتیں نازل ہورہی تھیں۔ ان آیتوں کا خاتمہ یکساں قسم کے بڑے پرُ کشش الفاظ پر ہوتا تھا اور ان میں بڑی سکون بخش اور جاذب قلب نغمگی ہوتی تھی۔ جو اس پر سکون اور رِقت آمیز فضا کے عین مطابق ہوتی تھی پھر ان آیتوں میں تزکیہ نفس کی خوبیاں اور آلائش دنیا میں لت پت ہونے کی برائیاں بیان کی جاتی تھیں اور جنت وجہنم کا نقشہ اس طرح کھینچا جاتا تھا کہ گویا وہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ آیتیں اہل ایمان کو اس وقت کے انسانی معاشرے سے بالکل الگ ایک دوسری ہی فضا کی سیر کراتی تھیں۔
نماز:
ابتدائً جو کچھ نازل ہوا اسی میں نماز کا حکم بھی تھا۔ علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اور اسی طرح آپ کے صحابہ کرامؓ واقعۂ معراج سے پہلے قطعی طور پر نماز پڑھتے تھے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ نماز پنجگانہ سے پہلے کوئی نماز فرض تھی یا نہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے ایک ایک نماز فرض تھی۔
حارث بن اسامہ نے ابن لَہِیْعَہ کے طریق سے موصولاً حضرت زید بن حارثہؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ پر ابتدائً جب وحی آئی تو آپ کے پاس حضرت جبریل تشریف لا ئے اور آپ کو وضو کا طریقہ سکھایا۔ جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چُلّو پانی لے کر شرمگاہ پر چھینٹا مارا۔ ابن ماجہ نے بھی اس مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ براء بن عازبؓ اور ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ ابن عباس ؓ کی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ (نماز) اولین فرائض میں سے تھی۔ 2
ابن ہشام کا بیان ہے کہ نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ نماز کے وقت گھاٹیوں میں چلے جاتے تھے اور اپنی قوم سے چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ ایک بار ابو طالب نے نبیﷺ اور حضرت علیؓ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ پوچھا اور حقیقت معلوم ہوئی تو کہا کہ اس پر برقرار رہیں۔ 3
یہ عبادت تھی جس کا اہل ایمان کو حکم دیا گیا تھا۔ اس وقت نماز کے علاوہ اور کسی بات کے حکم کا پتہ نہیں چلتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سیرت ابن ہشام ۱/۲۶۲
2 مختصر السیرۃ از شیخ عبد اللہ ص ۸۸
3 ابن ہشام ۱/۲۴۷