محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
" نبوی تاریخی نصیحت اور امت مسلمہ کا کردار"
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 07-ربیع الاول- 1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " نبوی تاریخی نصیحت اور امت مسلمہ کا کردار" ارشاد فرمایا :،
جس کے اہم نکات یہ تھے:
٭امت مسلمہ کے موجودہ حالات اور تجزیے
٭سنگین مسائل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ
٭ ان حالات کیلئے مخصوص نبوی تاریخی نصیحت کی اہمیت
٭ نبوی نصیحت کی خصوصیات
٭ نبوی نصیحت
٭ اہل علم کے ہاں اس کا مقام
٭ اللہ تعالی کی حفاظت کا مطلب
٭ اللہ تعالی کی حفاظت کے نتائج
٭ اللہ تعالی کتنے انداز سے بندے کی حفاظت فرماتا ہے؟
٭ سلف صالحین کا عملی نمونہ
٭ پوری امت مسلمہ کی زبان حال کا اقرار
٭ امن و امان کب ملے گا؟
٭ امن و امان کے حصول کیلئے شرائط
٭ تاریخی حقائق
٭ اللہ کا وعدہ آج بھی قائم و دائم ہے
٭ رومی لشکر کے مقابلے میں 20 ہزار جانثار
٭ امت مسلمہ کو موجودہ صورت حال میں اللہ کی حفاظت حاصل ہوگی؟!
٭ مسلمانوں کی زبوں حالی اور عالمی اداروں کی مجرمانہ خاموشی
٭ عالمی برادری صورت حال کا جائزہ لے وگرنہ نقصان اٹھانا پڑے گا
٭ عالمی مسائل کا حل مستحقین کے حقوق ادا کر کے ہی ملے گا
٭ نوجوانوں اور حکومتی ادارے اپنے واجبات خوش اسلوبی سے ادا کریں۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو نیک لوگوں کا ولی ہے، وہی مؤمنوں کا محافظ اور متقی لوگوں کا مدد گار ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے، وہی اولین و آخرین کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ ہی مصطفی اور امین ہیں، اللہ ان پر ، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرمائے۔
مسلمانو!
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، نیز خلوت و جلوت میں اسی کی اطاعت پر زور دیں، کیونکہ اطاعت کامیابی اور تقوی کامرانی کا باعث ہے۔
مسلمانو!
امت اسلامیہ اس وقت مشکلات اور متعدد بحرانوں کی زد میں ہے، جس میں سیاسی، سماجی، اقتصادی، اور امن و امان سے متعلق بحرانوں سمیت دیگر بہت مسائل سے دو چار ہے، اس صورت حال میں دانشور مستقبل کیلئے ایسے وژن کے منتظر ہیں جو امت مسلمہ کو موجودہ صورتحال سے نکال باہر کرے، چنانچہ اس کیلئے مفکرین نے اپنی رائے پیش کی، سیاسی لوگوں نے اپنے اپنے حل سامنے رکھے، اہل قلم نے اپنے نظریات تحریر کیے، ان حالات کے اسباب سے متعلق الگ الگ تجزیے سامنے آئے، مسائل کے حل اور بحران سے نکلنے کے مختلف راستے منظر عام پر آئے، بڑی تعداد میں سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی گئیں لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، لیکن اب پوری امت کو اجتماعی ، قومی، انفرادی حیثیت سمیت حکومت و عوام سب کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کا وقت آ چکا ہے، انہیں اسلام کی روشنی میں مثبت اور کار گر حل اپنانے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ امت اسلامیہ کو مسائل ، بحرانوں، اور مشکلات سے نکلنے کا راستہ ایک ہی جگہ سے ملے گا، اور وہ ہے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کا صحیح فہم۔
اسلامی بھائیو!
یہ نصیحت سنو جو معلم انسانیت، سید الخلق ہمارے نبی محمد ﷺ کی طرف سے ملی ہے، آپ کی یہ نصیحت اس امت کیلئے سرمدی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، اسی کے ذریعے زندگی خوشحال ،تمام لوگ خوش و خرم اور ترقی یافتہ بن جائیں گے، یہ دستاویز ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہونی چاہیے، ہمارے تمام امور پر اسی دستاویز کا اختیار ہو، ہماری نقل و حرکت اسی کی روشنی میں ہو، بلکہ ہمارے ارادوں اور اہداف کی تصحیح بھی اسی کے رنگ میں ہونی چاہیے۔
یہ ایسی نصیحت ہے جس میں کسی طبقے کو ترجیح نہیں دی گئی ، اس میں کسی قسم کا تعصب نہیں ہے، اور نہ ہی وقتی مصلحت کار فرما ہے، یہ نصیحت ایسی شخصیت کی ہے جس کی زبان خواہش پرست نہیں ہے، بلکہ ان کی ہر بات وحی ہوتی ہے، یہ محمدی دستاویز اور روشن نصیحت ہے، یہ پوری امت کو خوشحال زندگی کیلئے کھڑا کر سکتی ہے، اسی طرح خیر و عافیت، عزت، صلاحیت، قوت، ترقی، خوشحالی، اتحاد اور اتفاق کی صورت میں ثمر آور بھی ہے، یہ نصیحت فرمانِ باری تعالی سے ماخوذ ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ}
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بات بانو، جب بھی وہ تمہیں زندگی بخش امور کی دعوت دیں۔ [الأنفال : 24]
مسلمان اس وقت خواب غفلت میں جس کی وجہ سے اجتماعی احیا از بس ضروری ہے، جس میں فرد، قوم، اور وسائل پر توجہ مرکوز ہو، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے ملنے والی زندگی ایک ایسی زندگی ہے جو ایمانی قوت پر قائم ہوتی ہے اور اس کے بغیر کسی بھی بحران کا سامنا کرنا ممکن نہیں ہے، یہ احیا کی کامل اور واضح ترین صورت ہوگی، اسی سے خوشحالی، پر امن زندگی، سلامتی، خیر و عافیت، اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی بھی ملے گی۔
مسلمانو!
اس نصیحت پر عمل پیرا ہونے سے عزت لازمی ملے گی، بلکہ دونوں جہانوں میں بھی شان و شوکت ملے گی، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ فرمانِ باری تعالی ہے:
{لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ}
اور ہم نے آپ کی جانب کتاب نازل کی جس میں تمہارے لیے نصیحت ہے۔[الأنبياء : 10]
اسی طرح فرمایا:
{فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ}
متقی اور اصلاح کرنے والوں پر کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہونگے [الأعراف : 35]
فرد اس نصیحت پر عمل پیرا ہوئے بغیر ضائع ہوتا رہے گا، جبکہ اس دستاویز کے مضامین سے دوری پوری قوم کیلئے تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی، اور حکمرانوں کیلئے برے نتائج بر آمد کریگی، یہ دستاویز مسلمان کو بنیادی عقائد سے جوڑ کر عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی کرتی ہے، اس پر عمل امت کو در پیش مسائل کا منفرد حل ہے انہی مسائل کی آڑ میں اس امت کے نظریات، اقدار، وسائل، اور امتیازی خصوصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"تم لوگوں سے آگے اس لیے نکلے ہو کہ تم نے اس دین کی آبیاری کی ہے"
اللہ آپ سب کی حفاظت فرمائے! آئیں ہم اس عظیم نصیحت ، اور سرمدی دستاویز کو اس پر عمل کر کے اس کا عملی نمونہ بننے کیلئے غور سے سنیں! امید ہے کہ اللہ تعالی ہم پر رحم فرماتے ہوئے ہماری اصلاح فرما دے،
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا:
(لڑکے! میں تمہیں کچھ باتیں سکھاتا ہوں: تم اللہ کی حفاظت کرو وہ تمہاری حفاظت کریگا، تم اللہ کی حفاظت کرو، تم اسے اپنی سمت میں پاؤ گے، جب بھی مانگو اللہ ہی سے مانگو، اور جب بھی مدد طلب کرو تو اللہ سے ہی مدد مانگو، یہ بات ذہن نشین کر لو کہ اگر پوری قوم تمہیں کوئی فائدہ پہنچانے کیلئے متحد ہو جائے، تو وہ تمہیں وہی فائدہ پہنچا سکتے ہیں جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کسی نقصان پہنچانے کیلئے متحد ہو جائیں تو وہی نقصان تمہیں پہنچا سکے گی جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، [اس فیصلے پر] قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور قرطاس خشک ہو چکے ہیں)
اس روایت کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے ۔
ترمذی کے علاوہ ایک جگہ یہ الفاظ ہیں:
(تم اللہ کی حفاظت کرو! تم اسے اپنے سامنے ہی پاؤ گے، تم خوشحالی میں اللہ کو پہچانو، وہ تمہیں تنگی میں پہچانے گا، یہ بات ذہن نشین کر لو کہ: جو چیز تمہیں نہیں ملنی وہ کبھی تمہیں پا نہیں سکتی، اور جو چیز تم تک پہنچ گئی وہ کبھی تم سے چوک نہیں سکتی تھی، یہ بھی یاد رکھو! غلبہ صبر سے اور فراوانی تنگی کے ساتھ آتی ہے، اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے)
اہل علم کہتے ہیں:
اس حدیث میں اہم دینی امور سے متعلق انتہائی عظیم نصیحتیں موجود ہیں، حتی کہ کچھ علمائے کرام نے یہاں تک کہہ دیا کہ:
"میں نے اس حدیث پر غور کیا تو میں مدہوش ہو گیا ، ایسا لگا کہ مجھے کچھ ہو رہا ہے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم اس حدیث کے مطلب و مفہوم سے بالکل نابلد اور اس کا معنی بہت کم سمجھتے ہیں"
حقیقت بھی ایسے ہی ہے کہ آج کل لوگوں کو اس حدیث کے الفاظ کا ہی علم نہیں ہے معنی اور مفہوم سمجھنا تو دور کی بات ہے، اور اس پر عمل پیرا ہونا تو مزید ناممکن ہے!!
جاری ہے ----
Last edited by a moderator: