محمد عاصم
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 10، 2011
- پیغامات
- 236
- ری ایکشن اسکور
- 1,027
- پوائنٹ
- 104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
اور میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔١۔ الجماعت میں رہنا۔٢۔سمع(سننا)۔٣۔اطاعت کرنا۔٤۔ دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا۔٥۔ اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔
مسند احمد، ترمذی، نسائی ،طیالسی (حارث الاشعری)
یہ جتنی اہم حدیث ہے ہم لوگوں نے اتنا ہی اس کو پس پشت ڈالا ہوا ہے میں نے یہ حدیث بہت سے لوگوں کے سامنے پیش کی ہے ان میں علماء کرام بھی ہیں مگر کوئی بھی اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہو رہا یا وہ کہتے ہیں کہ اس پر عمل ناممکن ہے، یا عمل مشکل ہے یا ہم اسی پر کوشش کر رہے ہیں یا کچھ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ہاں ہم اسی پر تو عمل کر رہے ہیں ہم جماعت کے ساتھ ہیں، سمع و اعطاعت کرتے ہیں ہجرت بھی کریں گے اور جہاد بھی مگر جب کہا کہ اس طرح تو سبھی جماعتوں والے عمل کر رہے ہیں مگر مقصد میں سبھی ناکام ہیں؟؟ اور دوسرا یہ کہ کیا اس فرمان میں یہی مقصود ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں؟ تو خاموشی چھا جاتی ہے۔
اس حدیث میں بہت اہم اصول ہیں جو کہ کسی انسان نے وضع نہیں کیئے بلکہ خالقِ کائنات نے حکم فرمائے ہیں اور انہی اصولوں کا حکم نبی ﷺ نے اپنی امت کو دیا مگر افسوس ہم ان سبھی حکموں کے خلاف چل رہے ہیں جس کی وجہ سے امت متفرق ہے اگر ان سبھی سنہری اصولوں پر عمل کیا جائے تو امت متحد ہو جائے اور اسلام غالب بھی ہو جائے کیونکہ مسلمانوں کی بقاء صرف اور صرف اتحاد میں ہے اور یہ احکامات اتحاد کا ہی درس دے رہے ہیں سب سے پہلا حکم
الجماعت کے ساتھ رہنے کا
یہ الجماعت ایسا نظم ہے جس کو خلافت کہا جاتا ہے اس سے مراد مسلمانوں کی متفرق جماعتیں ہرگز نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، اس کی وضاحت فرمانِ رسول ﷺ سے ہوتی ہے
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِي رَجَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْوِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَی مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَکْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ
ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جوا سے ناپسند ہو تو چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو آدمی جماعت سے ایک بالشت بھر بھی جدا ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
یعنی اس الجماعت سے مراد خلافت کا سسٹم ہے نہ کہ موجودہ مسلمانوں کے متفرق گروہ
سمع و اعطاعت
دوسرا حکم ہے سننے کا تیسرا حکم ہے اعطاعت کا یعنی خلیفہ کی سمع و اعطاعت اور خلیفہ کے مقرر کیئے ہوئے امیر کی سمع و اعطاعت، نہ کہ آجکل کے سینکڑوں متفرق امراء کی اعطاعت بلکہ ان متفرق امیروں سے اعتزال کا حکم ہے یعنی ان کے ساتھ شامل ہی نہیں ہونا جیسا کہ حذیفہ بن یمان والی حدیث میں حکم ہے وہ حدیث بھی پیش کردیتا ہوں تاکہ یہ حکم واضح ہوسکے
یحیی ولید ابن جابر بسر ابوادریس سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے؟ فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہو گی؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر کے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ہیں۔ عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کو دوزخ میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا مسلمانوں کی الجماعۃ:::خلافت:::کو لازم پکڑو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آ جائے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان
اتنے واضح اور بینات اصول ہونے کے باوجود مسلمان متفرق ہوچکے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ اسلام کے سنہری اصولوں کو فراموش کرچکے ہیں، حرب بن شداد بھائی کے بقول کہ
چوتھا حکم ہے ہجرت کا
یعنی جب آپ الجماعۃ کے ساتھ رہے اور سمع و اعطاعت کی تو اس کے بعد اللہ دارالاسلام عطاء فرمائیں گے جیسا کہ سورہ نور کی آیت نمبر 55 میں بھی ذکر ہے تو پھر اس کی طرف ہجرت کرنا لازمی امر قرار پاتا ہے جیسا کہ نبیﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی، مدینہ کو دارالاسلام بنایا اور اس کے بعد پانچواں حکم آتا ہے
جہاد و قتال
جہاد یعنی قتال کا، ہر دور کا طاغوت یہ نہیں چاہتا کہ اسلامی نظام کہیں رائج ہو اس لیئے وہ دارالاسلام پر حملہ کرتا ہے جیسا کہ مدینہ پر جزیر العرب کے مشرکین نے مل کر کیا تھا، آج کی بھی طاغوتی طاقتیں یہ ہرگز نہیں چاہتیں کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلامی خلافت قائم ہو اگر کہیں قائم ہوئی تو یہ سب کافر مل کر اور ان کے ساتھ ان کے ایجنٹ بھی شامل ہو کر اس اسلامی نظام پر حملہ کرتے ہیں جیسا کہ امریکہ اور اس کے طاغوتی اتحاد نے افغانستان پر حملہ کیا، اس کے بعد کا عمل ہے جہاد کا جس کو بعض لوگ پہلے 4 حکم فراموش کر کے پانچویں حکم پر عمل کر رہے ہیں تو کیا اس طرح یہ کامیابی حاصل کرلیں گے؟؟؟ ہرگز ہرگز ہرگز نہیں کیونکہ اللہ اور رسولﷺ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی، اس کی تازہ مثال روس کے خلاف جہاد ہے 1500000 مسلمانوں نے قربانیاں دیں اور 15 سال تک جہاد کیا مگر نتیجہ کیا نکلا آپس میں جنگ و قتال!!! کیا یہ جہاد کا نتیجہ ہوتا ہے؟؟؟ نہیں اللہ کی قسم یہ جہاد کا نہیں بلکہ متفرق ہونے کا نتیجہ ہے۔ جہاد و قتال کا جو حکم اللہ نے دیا اور نبی ﷺ نے اس پر عمل کرکے دیکھایا اس کے خلاف جب بھی عمل کیا جائے گا نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔
ایک بات کی وضاحت کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ جن علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہے ان علاقوں کے مسلمانوں پر جہاد و قتال کرنا لازم ہے اس کا حکم علیحدہ سے قرآن میں موجود ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی مگر اس کے باوجود کہ ان کو لڑنے کی اجازت ہے، یہ اصول یہاں بھی فراموش نہ کیا جائے کہ متحد ہو کر لڑنا ہے ناکہ متفرق ہو کر اگر اتحاد قائم کیئے بنا قتال کیا گیا تو نتیجہ افغانستان والا نکل سکتا ہے اس لیئے ایک امیر کے تحت جہاد و قتال کیا جائے گا۔
یاد رکھیں کہ امتِ مسلمہ کی بقاء صرف اور صرف اسلامی نظام حیات میں ہے اور یہ نظام امت کو متحد رکھنے کا اہم ترین زریعہ ہے اس لیئے خلافت کو قائم کریں ملکی و مسلکی دیواریں توڑیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
اور میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔١۔ الجماعت میں رہنا۔٢۔سمع(سننا)۔٣۔اطاعت کرنا۔٤۔ دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا۔٥۔ اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔
مسند احمد، ترمذی، نسائی ،طیالسی (حارث الاشعری)
یہ جتنی اہم حدیث ہے ہم لوگوں نے اتنا ہی اس کو پس پشت ڈالا ہوا ہے میں نے یہ حدیث بہت سے لوگوں کے سامنے پیش کی ہے ان میں علماء کرام بھی ہیں مگر کوئی بھی اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہو رہا یا وہ کہتے ہیں کہ اس پر عمل ناممکن ہے، یا عمل مشکل ہے یا ہم اسی پر کوشش کر رہے ہیں یا کچھ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ہاں ہم اسی پر تو عمل کر رہے ہیں ہم جماعت کے ساتھ ہیں، سمع و اعطاعت کرتے ہیں ہجرت بھی کریں گے اور جہاد بھی مگر جب کہا کہ اس طرح تو سبھی جماعتوں والے عمل کر رہے ہیں مگر مقصد میں سبھی ناکام ہیں؟؟ اور دوسرا یہ کہ کیا اس فرمان میں یہی مقصود ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں؟ تو خاموشی چھا جاتی ہے۔
اس حدیث میں بہت اہم اصول ہیں جو کہ کسی انسان نے وضع نہیں کیئے بلکہ خالقِ کائنات نے حکم فرمائے ہیں اور انہی اصولوں کا حکم نبی ﷺ نے اپنی امت کو دیا مگر افسوس ہم ان سبھی حکموں کے خلاف چل رہے ہیں جس کی وجہ سے امت متفرق ہے اگر ان سبھی سنہری اصولوں پر عمل کیا جائے تو امت متحد ہو جائے اور اسلام غالب بھی ہو جائے کیونکہ مسلمانوں کی بقاء صرف اور صرف اتحاد میں ہے اور یہ احکامات اتحاد کا ہی درس دے رہے ہیں سب سے پہلا حکم
الجماعت کے ساتھ رہنے کا
یہ الجماعت ایسا نظم ہے جس کو خلافت کہا جاتا ہے اس سے مراد مسلمانوں کی متفرق جماعتیں ہرگز نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، اس کی وضاحت فرمانِ رسول ﷺ سے ہوتی ہے
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِي رَجَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْوِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَی مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَکْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ
ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جوا سے ناپسند ہو تو چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو آدمی جماعت سے ایک بالشت بھر بھی جدا ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں
یعنی اس الجماعت سے مراد خلافت کا سسٹم ہے نہ کہ موجودہ مسلمانوں کے متفرق گروہ
سمع و اعطاعت
دوسرا حکم ہے سننے کا تیسرا حکم ہے اعطاعت کا یعنی خلیفہ کی سمع و اعطاعت اور خلیفہ کے مقرر کیئے ہوئے امیر کی سمع و اعطاعت، نہ کہ آجکل کے سینکڑوں متفرق امراء کی اعطاعت بلکہ ان متفرق امیروں سے اعتزال کا حکم ہے یعنی ان کے ساتھ شامل ہی نہیں ہونا جیسا کہ حذیفہ بن یمان والی حدیث میں حکم ہے وہ حدیث بھی پیش کردیتا ہوں تاکہ یہ حکم واضح ہوسکے
یحیی ولید ابن جابر بسر ابوادریس سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے؟ فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہو گی؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر کے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ہیں۔ عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کو دوزخ میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا مسلمانوں کی الجماعۃ:::خلافت:::کو لازم پکڑو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آ جائے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان
اتنے واضح اور بینات اصول ہونے کے باوجود مسلمان متفرق ہوچکے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ اسلام کے سنہری اصولوں کو فراموش کرچکے ہیں، حرب بن شداد بھائی کے بقول کہ
بات یہی سچ ہے کہ ہم مان کر بھی نہیں مانتے،زبان سے اقرار کر لیا تو کیا حاصل جب اس پر عمل ہی نہ کیا جائے؟؟؟ بات چل رہی تھی سمع و اعطاعت کی تو بھائیو اسلام میں اللہ اور رسول ﷺ کے بعد اگر کوئی ہستی ہے جس کی بات سنی جائے اور اس پر عمل کیا جائے وہ صرف اور صرف خلیفہ اور اس کا مقرر کیا امیر ہی ہے مگر ان کی اعطاعت مشروط ہے قرآن و حدیث کے ساتھ، رہ گے موجودہ متفرق امراء تو ان سے اعتزال کا حکم ہے یعنی ان سے بغاوت کا حکم ہے اگر کوئی ان سے بغاوت نہیں کرتا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی نافرمانی کر رہا ہے اور اس کا انجام اللہ کے نبیﷺ نے بتا دیا کہ جو بھی ان کی بات مانے گا اس کو جہنم میں پھینک دے گا، اب ہر کوئی اپنا محاسبہ کر لے۔منکر حدیث جاوید غامدی پر حملے ہوتے ہیں اور جو اس حدیث کو مانتے ہوئے عمل نہیں کررہے اُن کی شان میں قصیدے یہ کھلا تضاد کیوں ہے؟؟؟
چوتھا حکم ہے ہجرت کا
یعنی جب آپ الجماعۃ کے ساتھ رہے اور سمع و اعطاعت کی تو اس کے بعد اللہ دارالاسلام عطاء فرمائیں گے جیسا کہ سورہ نور کی آیت نمبر 55 میں بھی ذکر ہے تو پھر اس کی طرف ہجرت کرنا لازمی امر قرار پاتا ہے جیسا کہ نبیﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی، مدینہ کو دارالاسلام بنایا اور اس کے بعد پانچواں حکم آتا ہے
جہاد و قتال
جہاد یعنی قتال کا، ہر دور کا طاغوت یہ نہیں چاہتا کہ اسلامی نظام کہیں رائج ہو اس لیئے وہ دارالاسلام پر حملہ کرتا ہے جیسا کہ مدینہ پر جزیر العرب کے مشرکین نے مل کر کیا تھا، آج کی بھی طاغوتی طاقتیں یہ ہرگز نہیں چاہتیں کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلامی خلافت قائم ہو اگر کہیں قائم ہوئی تو یہ سب کافر مل کر اور ان کے ساتھ ان کے ایجنٹ بھی شامل ہو کر اس اسلامی نظام پر حملہ کرتے ہیں جیسا کہ امریکہ اور اس کے طاغوتی اتحاد نے افغانستان پر حملہ کیا، اس کے بعد کا عمل ہے جہاد کا جس کو بعض لوگ پہلے 4 حکم فراموش کر کے پانچویں حکم پر عمل کر رہے ہیں تو کیا اس طرح یہ کامیابی حاصل کرلیں گے؟؟؟ ہرگز ہرگز ہرگز نہیں کیونکہ اللہ اور رسولﷺ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی، اس کی تازہ مثال روس کے خلاف جہاد ہے 1500000 مسلمانوں نے قربانیاں دیں اور 15 سال تک جہاد کیا مگر نتیجہ کیا نکلا آپس میں جنگ و قتال!!! کیا یہ جہاد کا نتیجہ ہوتا ہے؟؟؟ نہیں اللہ کی قسم یہ جہاد کا نہیں بلکہ متفرق ہونے کا نتیجہ ہے۔ جہاد و قتال کا جو حکم اللہ نے دیا اور نبی ﷺ نے اس پر عمل کرکے دیکھایا اس کے خلاف جب بھی عمل کیا جائے گا نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔
ایک بات کی وضاحت کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ جن علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہے ان علاقوں کے مسلمانوں پر جہاد و قتال کرنا لازم ہے اس کا حکم علیحدہ سے قرآن میں موجود ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی مگر اس کے باوجود کہ ان کو لڑنے کی اجازت ہے، یہ اصول یہاں بھی فراموش نہ کیا جائے کہ متحد ہو کر لڑنا ہے ناکہ متفرق ہو کر اگر اتحاد قائم کیئے بنا قتال کیا گیا تو نتیجہ افغانستان والا نکل سکتا ہے اس لیئے ایک امیر کے تحت جہاد و قتال کیا جائے گا۔
یاد رکھیں کہ امتِ مسلمہ کی بقاء صرف اور صرف اسلامی نظام حیات میں ہے اور یہ نظام امت کو متحد رکھنے کا اہم ترین زریعہ ہے اس لیئے خلافت کو قائم کریں ملکی و مسلکی دیواریں توڑیں۔