• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا انجام

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

نبیﷺ کی شان میں گستاخی

کرنے والوں کا انجام​



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد

محترم قارئین!!

نبیوں اور رسولوں کی شان میں گستاخیاں کرنا ،ان کا مذاق اڑانا یہ کوئی نئی بات نہیں ہےبلکہ یہ ہردور کے کافروں اور مشرکوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے، قرآن کے مطالعے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام سے ہی یہ سلسلہ شروع ہے اور تا قیامت جاری رہے گا جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ‘‘اور تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی مزاق کیا گیا پس ہنسی کرنے والوں ہی کو اس چیز نے گھیر لیا جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے۔(الانبیاء:41) یعنی وقتی طور پر تو وہ رسولوں کا مذاق اڑا کر بہت خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو رسولوں کو بدنام کردیا مگران کافروں کو ڈھیل دی جاتی ہے جن کی انہیں خبر ہی نہیں ہے،فرمان باری تعالی ہے:’’ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ‘‘یقینا آپ سے پہلے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا تھا اور میں نے بھی ان کافروں کو ڈھیل دی تھی،پھر انہیں پکڑ لیا تھا،پس میرا عذاب کیسا رہا؟(الرعد:32)اور یقینا قرآن کے اوراق شاہد ہیں کہ مذاق اڑانے والوں کو رب العالمین نے دنیا میں ہی تہس ونہس کرکے ذلیل ورسوا کردیا،سیدنا نوح علیہ السلام کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو رب ذوالجلال والاکرام نے غرق آب کردیا،سیدنا ھود علیہ السلام کے ساتھ مذاق کرنے والوں کے اوپر رب ذوالجلال والاکرام نے ایسی ہوا کو مسلط کردیا جس نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی،سیدنا لوط علیہ السلام کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو ان کے بستیوں سمیت رب ذوالجلال والاکرام نے آسمان سے زمین پر دے مارا،سیدنا شعیب علیہ السلام کے ساتھ مذاق کرنے والوں کے اوپر رب ذوالجلال والاکرام نے ایسی چیخ مسلط کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب ہلاک وبرباد ہوگئے،سیدنا موسی علیہ السلام کے ساتھ مذاق کرنے والے فرعون کو الہ العالمین نے قیامت تک کے لیے نشانِ عبرت بنادیا،سیدنا عیسی علیہ السلام کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو رب ذوالجلال والاکرام نےقیامت تک کے لیے ذلیل ورسوا کرکے دربدر کی ٹھوکریں کھانا ان کا مقدر بنادیا الغرض جس جس قوم اور جس جس شخص نے بھی نبیوں اور رسولوں کے ساتھ مذاق کیا وہ دنیا ہی میں ذلیل ورسواکرکے عذاب الٰہی کا شکار ہوا اور یہ رب نے وعدہ لے رکھا ہے کہ جوبھی شخص ایسا کرے گا وہ ذلیل ورسوا ہوکر عذاب الٰہی سے دوچار ہوگا ،فرمان باری تعالی ہے:’’ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا ‘‘ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذادیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ پھٹکار ہے اور ان کے لیے نہایت ہی رسوا کن عذاب ہے۔(الاحزاب:57)

برادران اسلام!! یہ بات آپ جان لیں کہ جولوگ بھی پیارے آقامحمدﷺ کے بارے میں برائیاں کرتے ہیں ،ٹی وی شو میں بیٹھ کراول فول بک کر آپ ﷺ کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ آپﷺ کا کچھ نقصان نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود اپنا نقصان کررہے ہیں ،رب نے تو یہ اعلان کردیا ہے کہ اے نبیﷺ دنیا وجہان کے مذاق اڑانے والوں کے لئے آپ کی طرف سے میں کافی ہوں فرمان باری تعالی ہے كه اے نبیﷺ: ’’ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ‘‘ آپ کا جو بھی مذاق اڑائے گا میں ایسے بدبختوں کو سزا دینےکے لیے کافی ہوں۔(الحجر:95)

برادران اسلام!!

قرآن وحدیث اور تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جس جس نے بھی محبوب کائنات کی شان میں گستاخیاں کی رب ذوالجلال والاکرام نے انہیں دنیا ہی میں ذلیل ورسوا کرکے عذاب کا مزہ چکھایا مثال کے طور پر شہر مکہ کے اندر بھی ایک شخص ابولہب تھا جو کہنے میں تو آپ کا چچا تھا مگر ہرآن اور ہرلمحہ آپﷺ کی شان میں گستاخیاں کیا کرتا تھا ، ایک مرتبہ کی بات ہے کہ رب ذوالجلال والاکرام نے اپنے محبوبﷺ کو یہ حکم دیاکہ وہ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیں، آپ نے صفا پہاڑ پر چڑھ کر اہل مکہ کو دعوت توحید دی،اس محفل ومجمع میں ابولہب بھی تھا اس نے پیارے آقاﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ اے محمدﷺ ’’ تَبًّا لَكَ سَائِرَ اليَوْمِ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا ‘‘ اے محمد تیرے اوپر آج سارا دن تباہی نازل ہو ،تو ہلاک وبرباد ہوجا کیا تونے ہمیں اسی لیے جمع کیاتھا؟ جب ابولہب نے نبیﷺ کی شان میں ایسی گستاخی کی رب ذوالجلال والاکرام نے اعلان کیا کہ ’’ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ‘‘ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے،ابولہب خود ہلاک برباد ہوگیا، نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ہی اس کے آڑے آئی۔(بخاری:4770) دیکھئے کہ اور ذرا غور کیجئے کہ ابولہب نے پیارے آقا کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ایک دن کی بددعا کی مگر رب نے اس کی اس گستاخی کا ایسا بدلہ لیا کہ آج تک اور تا قیامت ہر مسلمان سورہ تبت کی تلاوت نماز وغیرِ نماز میں کرکے اس کے اوپر ہلاکت وبربادی کی دعا اور اعلان کرتا ہے ،صرف یہی نہیں ہوا اس گستاخ رسول کے ساتھ بلکہ اس گستاخ رسول کی موت بھی ایسی ہوئی کہ خود اس کی اولاد بھی اس گستاخ کو چھونے سے انکار کردیا ،واقعہ کچھ یوں ہے کہ یہ گستاخِ رسول اللہ کی پکڑ میں آگیا اور عدسہ بیماری سے دوچار ہوگیا،(عدسہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے ایک انسان کا ساراجسم زہرآلود ہوکر سڑاور گل جاتاہے) اس گستاخ کا بھی جسم سڑاور گل گیا اور تب جا کر یہ مرا ،مرنے کے بعد بھی کئی دنوں تک اس کی لاش ایسے ہی باہرپڑی رہی ،کوئی قریب جانے کے لیے تیار نہ تھا ،کسی نے چھوا تک نہیں خود اس کی اولاد نے بھی اس کی لاش کو نہ ہی چھوا اور نہ ہی دیکھا ،کئی دنوں تک اس کی لاش ایسے ہی سڑتی رہی بالآخر شرم وعار سے بچنے کے لیے اس کی اولاد نے لکڑیوں سے ان کی لاش کو دھکیل کر ایک گڑھے میں گرادیا اور دور سے ہی پتھر پھینک پھینک کر اسے دفن کردیا ۔یہ ہوتا ہے گستاخ رسول کا دردناک انجام۔

برادران اسلام!

ہمارے نبیﷺ کا نام ہی کچھ ایسا ہے کہ مشرک وکافر جتنی چاہے برائی کرلیں مگر آپ کی برائی ہوہی نہیں سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کا نام محمد رکھا ہے، جس کا معنی ہوتا ہے جس کی تعریف وتوصیف،جن کا ذکر جمیل تمام آسمانوں اور زمین والوں نے سب سے بڑھ کرکی ہو، اب جس بدباطن نے اپنی زبان سے محمد کہہ دیا اور پھر آپ کے حق میں گستاخی کی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ انسان جھوٹا ہے کیونکہ پہلے تو اس نے اپنی زبان سے خود محمد کہہ کر یہ اقرارکرلیا کہ یہ ایسے انسان ہیں جن کی تعریف زمین وآسمان میں سب سے زیادہ کی جاتی ہے،حافظ ابن حجرؒ محمد کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محمد وہ ہے جس کی تعریف باربار کثرت سے کی جائے اور جس کی تعریف کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو اور جو اپنے تمام صفات کے اندر کامل واکمل ہو۔کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

وَشَقَّ لَهُ مِنَ اسْمِهِ لِيُجِلَّهُ ... فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُودٌ وَهَذَا مُحَمَّدُ

اور اللہ نے اپنی نبیﷺ کی تعظیم وتوقیر کے لیے اپنے نام سے اپنے نبی کا نام نکالا پس عرش والا محمود ہے اور یہ محمد ہیں۔

گویا کہ میرے نبی کا ہرگستاخ پہلے یہ اقرار کرتا ہے کہ آپ کی ہستی قابل تعریف ہے،یہی وجہ ہے کہ مکہ کے کفار ومشرکین اور خاص طور سے ابولہب کی بیوی اپنی زبان سے محمد نہیں کہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم نے اپنی زبان سے محمد کہہ دیا تو ہم جھوٹے ہوجائیں گے،یقینا یہ آپﷺ کے نام کا ایک معجزہ ہی تو ہے کہ کوئی بدبخت،ملعون لاکھ بھونک لے مگر میرے نبیﷺ کی شان اقدس ومقدس میں کمی ہی نہیں ہوسکتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر 3533 کے اندر یہ حدیث موجود ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَلاَ تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ، يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ ‘‘ کیا تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی نے قریش کی گالیوں اور لعنت وملامت کو کس طرح سے دور کردیا ہے ،وہ مجھے مذمم کہہ کر برا بھلا کہتے ہیں حالانکہ میں تو محمد ہوں۔سبحان اللہ

برادران اسلام!

اب میں آپ کو ایک ایسے گستاخ رسولﷺ کا انجام بتانے جارہاہوں جس کو زمین نے بھی قبول نہیں کیا تھا ،صحیح بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر3617 کے اندر آنکھوں دیکھا یہ واقعہ مذکور ہے کہ مدینہ کے اندر ایک عیسائی شخص نے اسلام قبول کیا ،سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران بھی اس نے سیکھ لی صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے آپﷺ کی وحی کی کتابت بھی شروع کردی مگرکچھ ہی دنوں کےبعد وہ شخص مرتد ہوکر آپﷺ کی شان اقدس ومقدس میں گستاخی کرتے گھومتے پھرتے یہ کہنے لگا کہ ’’ مَا يَدْرِي مُحَمَّدٌ إِلَّا مَا كَتَبْتُ لَهُ ‘‘ محمدﷺ کو کچھ آتا جاتا نہیں ہے وہ تو بس وہی کہتے تھے جو میں انہیں لکھ کر دیتا تھا،اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مرتد ہونے کے کچھ ہی دنوں کے بعد اس گستاخ کی موت واقع ہوگئی ،عیسائی مذہب کے مطابق اس کی تدفین کردی گئی مگرجب دن کا اجالا ہوا تو اس کے ساتھ جو ہوا اہل مدینہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے،جب عیسائیوں نے ایسا منظر دیکھاتو مسلمانوں کے اوپر یہ کہہ کر الزام لگادیا کہ یہ محمدﷺ اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے کیونکہ اس نے ان کا دین چھوڑ دیا تھا اسی لیے انہوں نے اس کی قبر کو کھود کر اس کی لاش کو باہر نکال پھینکا ہے،چنانچہ انہوں نے پھر اس کی دوسری قبرپہلے سے کہیں زیادہ گہری کھودی اور اس کو دفن کردیا مگر اللہ کا عذاب دیکھئے کہ جب صبح ہوئی تو اس گستاخ کی لاش پھر زمین کے اوپر پڑی تھی،اب کی مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ کام محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں کا ہے،پھر انہوں نے اس کی قبرکھودی اور جتنی گہری قبر وہ لوگ کھود سکتے تھے اتنی انہوں نے اس کی قبر کھودی اور پھر اس کو دفن کردیا لیکن جب صبح ہوئی تو پھر اس گستاخ کی لاش باہر پڑی تھی ’’ فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ ‘‘ اب انہیں یقین ہوگیاکہ ایسا کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے ،چنانچہ انہوں نے اس کی لاش کو زمین کے اوپر ایسے ہی چھوڑدیا۔

محترم قارئین!!

اب آئیے ایک اور سچا واقعہ آپ کو بتاتاہوں کہ گستاخ رسول کی خاندان اور اس کی حکومت کو رب ذوالجلال والاکرام نے اینٹ سے اینٹ بجا کر تہس نہس کردیا واقعہ کچھ یوں ہے کہ 7ھ ؁ میں آپﷺ نے شاہ ایران خسروپرویز کے نام ایک خط لکھا اور وہ خط دے کر سیدنا عبداللہ بن حذافہ السہمیؓ کے دے کربھیجا ،خسروپرویز نے جب آپ ﷺ کے مبارک خط کو دیکھا تو اس نے اس خط کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے اور کہا کہ اس کی یہ ہمت کہ میرا غلام ہوکر میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھتا ہے چنانچہ اس نے آگ بگولہ ہوکر یمن کے گورنر باذان کو یہ پیغام لکھا کہ تم مدینہ جاؤ اس کا سرقلم کرکے میرے پاس لاؤ یا پھر اس کو قید کرکے لے کر کے آؤ،باذان کے ایلچی مدینہ آئے اور شاہ کسری کا فرمان سنایاتو آپﷺ نے کہا کہ تم کل میرے پاس آناچنانچہ جب وہ صبح آپ کے پاس آئے تو آپ نے کہا کہ تم مجھے قید کرنے آئے ہو سنو’’ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ ‘‘ جس طرح سے اس نے میرے پیغام کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے تھےاسی طرح سے میرے رب نےبھی انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردئے ہیں ،کیا تم کو معلوم ہے کہ آج کی رات خسرو کے گھر میں بغاوت ہوچکی ہے اور میرے رب نے اس کی حکومت کو پارہ پارہ کردیا ہے ،ہوا یہ کہ اس کی آنکھوں کے سامنے میں اس کے 18 بیٹوں کو قتل کردیا گیا، اور اس کو خوداس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا ،پھر تو کسری کی حکومت میں ہرچھ مہینے یا ایک سال میں کوئی نہ کوئی بادشاہ ضرور قتل کردیا جاتاالغرض کسری یعنی کی ایران کی پوری کی پوری سلطنت تہس نہس ہوکرکے رہ گئی،جس طرح سے اس نے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپ کے خط کو پارہ پارہ کردیا تھا اسی طرح سےرب ذوالجلال والاکرام نے خود اس کو اور اس کی نسل وسلطنت کو پارہ پارہ کردیا۔

برادران اسلام!!

تاریخ نے اپنے اوراق میں ایک اور گستاخ رسول کا دردناک واقعہ محفوظ کیا ہے ،شارح بخاری حافظ ابن حجرؒ نے الدررالکامنہ جلد3 اور صفحہ203 پر اور امام ذھبی نےصحیح سند کے ساتھ معجم الشیوخ صفحہ387 پر یہ واقعہ نقل کیاہے کہ ایک دن منگولیوں کے یہاں عیسائیوں کے بڑے بڑے پادریوں کی ایک محفل سجی ہوئی تھی اوردراصل یہ محفل ایک منگولی شہزادے کی عیسائی مذہب کو قبول کرنے کی وجہ سے منعقد کی گئی تھی،کثیر تعداد میں لوگ موجودتھے اسی درمیان ہوا یہ کہ ایک عیسائی پادری آپﷺ کو گالیاں دینی شروع کردی، قریب ہی ایک شکاری کتا بھی بندھاہواتھا،اس عیسائی پادری کے گالی بکتے ہی کتا اچھلنے اور کودنے لگااور رسی توڑکر اس بدبخت کے اوپر ٹوٹ پڑا،بہت مشکل سے لوگوں نے اس عیسائی پادری کو اس شکاری کتے سے بچایا ،تقریب میں کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ایسا محمدﷺ کے خلاف زبان کھولنے کی وجہ سے ہواہے!جب اس گستاخ نے لوگوں کو ایسا کہتے ہوئے سنا تو کہا کہ بالکل نہیں ،دراصل بات یہ ہے کہ جب اس کتے نےبات چیت کے دوران مجھے دیکھا کہ میں باربار اپنے ہاتھ کو اٹھا رہاہوں تو اس کتے نے سمجھا کہ میں اس کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا رہاہوں اسی لیے اس کتے نے میرے اوپر حملہ کردیا ہے،یہ کہہ کر اس بدبخت نے پھر سے آپﷺ کو گالیاں دینی شروع کردی ،اس بارکتے نے اپنی رسی آناًفاناً میں توڑتے ہوئے سیدھے اس ملعون پر حملہ کردیا اور اس کی گردن کو دبوچ دیا جس کی وجہ سے وہ فورا ً اسی وقت ہی ہلاک وبرباد ہوگیا،یہ واقعہ دیکھ کر اسی وقت 40 ہزار منگولیوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔اللہ اکبر کبیرا سچ کہا میرے رب نے کہ ’’ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ‘‘ آپ کا جو بھی مذاق اڑائے گا میں ایسے بدبختوں کو سزا دینےکے لیے کافی ہوں۔(الحجر:95)

برادران اسلام!!

محبوب دوجہاںﷺ کے گستاخوں کے بارے میں قرآن کا یہ اعلان سن لیں کہ جو بھی میرے نبیﷺ کا گستاخ ہوگا وہ دنیا ہی میں ذلیل ورسوا ہوگا دیکھا نہ آپ نے کہ کس طرح سے دوگستاخوں (نوپورشرما اورنوین کمار جندال)کو خود ان کےان آقاؤں نے جنہیں خوش کرنے کے لیے اس طرح کی حرکت کررہے تھے انہیں آقاؤں نے ان کو ذلیل ورسوا کرکے باہر کا راستہ دکھادیا یہ میرے رب کا کرشمہ ہے اور میرے رب نے یہ وعدہ کررکھا ہے کہ جو بھی میرے نبی کا دشمن ہوگا وہ ذلیل ورسواہوکر بے نام ونشان مرے گا،فرمان باری تعالی ہے:’’ إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ‘‘ يقينا تيرادشمن هي لاوارث اور بے نام ونشان ہے،ابتر کا ایک مطلب ہی ہوتا ہے کہ ایسا آدمی جس کو یاد کرنے والا کوئی نہ ہو اب دیکھ لیجئے کہ جتنے بھی دشمنان رسول تھے وہ سب مٹ گئے ،ان کا کوئی ذکر خیر نہیں ہوتا،کسی کے دل میں ان کے تئیں عزت واحترام نہیں جب کہ اسی کے برعکس محبوب خداﷺ ذکر خیر پوری دنیا میں ہوتاہے،ہرآن اور ہرلمحہ آپ کا نام پوری عزت واحترام کے ساتھ لیا جاتاہے،سچ فرمایا تھا رب ذوالجلال والاکرام نے کہ:’’ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ‘‘ هم نے تیرا ذکر بلند کردیاہے۔

محترم قارئین!آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپﷺ کی سیرت مبارکہ وطیبہ کو عام کریں،غیرمسلموں تک ہم آپ ﷺکی سیرت کو پہنچائیں اور ہم سب اپنی طاقت بھراپنے اپنے حساب سے اپنے نبیﷺ کا دفاع کریں کیونکہ آپﷺ کا دفاع کرنا یہ آپ ﷺ کے ان حقوق میں سے ہیں جن کے اداکرنے کاحکم رب ذوالجلال والاکرام نے ہمیں دیا ہے،فرمان باری تعالی ہے کہ:’’ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‘‘ جولوگ اس نبیﷺ پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے تو ایسے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔(الاعراف:157)

آخر میں الہ العالمین سے یہی دعا گو ہوں کہ ’’ اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ ‘‘ اے اللہ ہم تجھے ہی ان دشمنوں کے مقابلے میں لاتے ہیں اور ان کی برائیوں اور شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔آمین۔ثم آمین
 
Top