• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی اپنی امت کے لیے والدین سے بھی زیادہ رحیم و شفیق ہوتے ہیں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
نبی اپنی امت کے لیے والدین سے بھی زیادہ رحیم و شفیق ہوتے ہیں

✿ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آدابِ قضائے حاجت سکھاتے ہوئے فرمایا :
«إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ أُعَلِّمُكُمْ».
’میں آپ کے لیے اسی طرح ہوں جس طرح والد اپنے بچے کے لیے ہوتا ہے۔‘‘ (1)

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ ﷺ شفقت و محبت اور دنیوی و اخروی خیر خواہی میں ایسے ہی ہیں جیسے ایک باپ اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ مشفق و مہربان ہیں، یہاں ہرگز یہ مراد نہیں کہ آپ مقام ومرتبے میں والدین کی طرح ہیں کیونکہ آپ ﷺ کی شان و عظمت اس قدر بلند ہے کہ مخلوقات میں وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ (2)

یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح والدین اپنی اولاد کو کسی صورت بھی دنیاوی آگ میں جلنا پسند نہیں کرتے اسی طرح نبی اپنی امت کو اُخروی آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور ان کا آگ میں جلنا پسند نہیں کرتا بلکہ نبی کی حرص امت کے لیے زیادہ ہوتی ہے اور یہی مقصد ایک معلم و استاد کا ہونا چاہیے ۔ (3)

⇚ علامہ سندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یعنی میں آپ کو ہر وہ چیز بتاؤں گا جس کی ضرورت ہوتی ہے اور جس چیز کے بیان سے شرم محسوس کی جاتی ہے (اسے بیان کرنے) کے بارے میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔‘‘ (4)

⇚علامہ شرف الدین طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس حدیث میں والد کی اطاعت کے واجب ہونے کا بیان ہے اور (یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ) باپوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو آداب سکھائیں اور انہیں جن دینی امور کی ضرورت ہے اس کی تعلیم دیں۔‘‘ (5)

⇚ شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’آپ ﷺ ہمارے لیے مشفق والد کی طرح ہیں، ہمیں تعلیم دیتے ہیں، بلکہ اس قدر ہمارے ساتھ نرمی و رحم کرنے والے اور ہماری ہدایت کی حرص رکھنے والے ہیں کہ ہمیں ہر بات سکھاتے ہیں۔‘‘ (6)

✿ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا :
﴿مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ﴾.
اس کی تفسیر میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’آنحضرت ﷺ کو کفار کے ایمان نہ لانے کا بہت خیال اور غم رہتا تھا کیونکہ نبی کو طبعاً امت کی محبت مثل ماں باپ کے ہوتی ہے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی تھی۔‘‘(7)

✿ اللہ تعالی نے ذکر فرمایا کہ لوط علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو حد سے بڑھتے دیکھا تو فرمایا :
﴿يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ﴾.
’’اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں ہیں، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں۔‘‘
(8)

⇚اس کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لوط علیہ السلام انہیں راہ نمائی کر رہے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں سے نکاح وازدواج کے تعلقات جوڑیں کیونکہ نبی اپنی امت کے مردوں اور عورتوں سب کے لیے والد کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ (9)

⇚اسی طرح اشرف الحواشی میں ہے کہ ’’بیٹیوں‘‘ سے مراد ان لوگوں کو اپنی عورتیں ہیں کیونکہ نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے اور قوم کی ساری عورتیں نبی کی بیٹیاں ہوتی ہیں۔‘‘

✿ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک کرتے ہوئے فرمایا :
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾.
’’آپ کے پاس (اللہ کے) ایک رسول آ گئے ہیں جو آپ ہی میں سے ہیں، آپ کا رنج و تکلیف میں پڑنا انہیں بہت شاق گزرتا ہے، وہ آپ کی بھلائی کے بڑے ہی خواہشمند ہیں، وہ مومنوں کے لیے شفقت رکھنے والے، بڑے رحم والے ہیں۔‘‘
(10)

⇚شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’یعنی اہل ایمان کے لئے انتہائی رافت و رحمت کے حامل ہیں بلکہ وہ مومنوں کے لئے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر رحیم ہیں۔ بنا بریں آپ کا حق تمام مخلوق پر فائق اور مقدم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا، آپ کی تعظم کرنا، آپ کی عزت و توقیر کرنا تمام امت پر فرض ہے۔‘‘ (11)

تنبیہ :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«دَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ مِثْلُ دَعْوَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمَّتِهِ، وَدَعْوَةُ الْوَلَدِ لِوَالِدِهِ مِثْلُ ذَلِكَ».
’والد کی اپنے بچے کے لیے دعا اسی طرح ہے جیسے ایک نبی کی اپنی امت کے لیے ہوتی ہے اور بیٹے کی اپنے والد کے لیے دعا کی بھی یہی حیثیت ہوتی ہے۔‘‘ (12)
لیکن یہ روایت ثابت نہیں، یزید الرقاشی ضعیف ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’باطل و منکر‘‘ قرار دیا ہے ۔ (13)
البانی نے اسے ’’موضوع‘‘ کہا۔ (14)

تحریر: حافظ محمد طاھر
_____________________________

1 ۔ (سنن ابن ماجہ : 313، سنن النسائی : 40 وسندہ حسن، وصححہ ابن خزیمہ)
2۔ (المنهل العذب المورود : 1/ 45)
3۔ (احیاء علوم الدین للغزالی : 1/ 55)
4۔ (حاشیہ سندی علی ابن ماجہ : 1/ 131)
5۔ (شرح مشکاۃ المصابيح : 3/ 773)
6۔ (العذب المنیر : 3/ 622)
7۔ (تفسیر ثنائی، تفسیر طہ، آیت : 2)
8۔ (سورہ ھود : 78)
9۔ (تفسیر ابن کثیر : 4/ 337)
10۔ (سورہ التوبہ : 128)
11۔ (تفسیر سعدی، سورہ توبہ : 128)
12۔ (مکارم الأخلاق لابن ابی الدنيا : 258، الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس لابن حجر : 1528)
13۔ (مسائل ہانئ : 2371، المنتخب من علل الخلال، ص : 306)
14۔ (الضعیفہ للالبانی : 2/ 203 ح : 786)
 
Top