مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری ﷾
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے۔ یہ عقیدہ قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہراً بشر تھے اور حقیقت میں نور تھے۔ دلائل سے عاری یہ عقیدہ انتہائی گمراہ کن اور کفریہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنس بشریت سے ہونے کا کوئی انکار نہیں کر سکتا، اسی لیے رافضی اور اس دور کے جہمی صوفی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشریت کالبادہ اوڑھ رکھا تھا۔
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ مشرکین مکہ اور پہلی امتوں کے کفار کو انبیائے کرام علیہم السلام پر ایمان لانے میں مانع یہی بات تھی کہ ان کی طرف آنے والے نبی جنس بشریت سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر دور کے کفار بشریت کو نبوت و رسالت کے منافی خیال کرتے تھے۔ آج کے دور میں بھی بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکاری ہیں۔ دراصل یہ ایک بڑی حقیقت کا انکار ہے۔ جب کفار مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو بہانہ بنانا چاہا تو قرآنِ کریم نے یہ نہیں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں لہٰذا ایمان لے آؤ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات بینات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔
ایک مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَسُولًا * قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا﴾ (17-الإسراء:94،95)
’’اور لوگوں کے پاس ہدایت آ جانے کے بعد ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا کہ انہوں نے کہا: کیا اللہ نے بشر رسول بھیجا ہے ؟ کہہ دیجیے : اگر زمین میں فرشتے ہوتے جو یہاں مطمئن ہو کر چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول بنا کر نازل کرتے۔“
یعنی اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ردّ میں فرمایا کہ زمین پر انسان اور بشر بستے ہیں، لہٰذا انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے جنس بشر ہی سے نبی اور رسول ہوناچاہیے۔ ہاں اگر فرشتے زمین پر آباد ہوتے تو انہی کی نسل سے رسول ہوتا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر سے تعلق رکھتے تھے۔ ورنہ مشرکین کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرما دیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو محض بشریت کے لبادے میں ہیں، حقیقت میں نور ہی ہیں۔ یوں مشرکین کا اعتراض سرے سے ختم ہو جاتا کیونکہ ان کے بقول بشررسول نہیں ہو سکتا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سارے انبیاء علیہم السلام بشر ہی تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان ہی نبی ہو سکتا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا﴾ (33-الأحزاب:62)
’’اور آپ اللہ کے قانون کو تبدیل ہوتا نہیں پائیں گے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت بھی یہ قانونِ الٰہی نہیں بدلا۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
﴿ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ٭ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ﴾ (50-ق:1،2)
’’ق ! قسم ہے قرآنِ مجید کی، بلکہ انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا آیا، پھر کافروں نے کہا: یہ تو عجیب بات ہے۔“
’’انہی میں سے“ کے الفاظ سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے، انہی کی جنس سے تھے۔ تبھی تو مشرکین کو تعجب ہوا کہ ہم میں سے ایک انسان نبوت کا دعویدار کیسے بن گیا ؟ بشر کیسے اللہ کا رسول ہو سکتا ہے ؟
ایک مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ﴾ (10-يونس:2)
’’کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مرد کی طرف وحی بھیجی ؟“
جب مشرکین مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر رسول ہونے پر شک و شبہ کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دو طرح سے سمجھایا :
(1) ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (16-النحل:43)
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (21-الأنبياء:7)
’’اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مرد ہی (نبی ) بھیجے تھے، ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے، لہٰذا تم اہل ذکر (اہل کتاب ) سے پوچھ لو اگر تم علم نہیں رکھتے۔“
(2) ﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَسُولًا * قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا﴾ (17-الإسراء:94،95)
’’اور لوگوں کے پاس ہدایت آ جانے کے بعد ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا کہ انہوں نے کہا: کیا اللہ نے بشر رسول بھیجا ہے ؟ کہہ دیجیے : اگر زمین میں فرشتے ہوتے جو یہاں مطمئن ہو کر چلتے پھرتے تو ہم ان پرآسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول بنا کر نازل کرتے۔“
پھر فرمایا : اگر تمہیں انکار ہے کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا تو میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ :
﴿قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا﴾ (17-الإسراء:96)
’’کہہ دیجیے : میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور انہیں دیکھنے والاہے۔“
اب تمہاری مرضی ہے کہ مانو یا نہ مانو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبانی آپ کی بشریت کا اعلان کرا دیا :
﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ . . .﴾ (18-الكهف:110) (32-السجدة:6)
﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ. . .﴾ (41-فصلت:6)
’’کہہ دیجیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔“
نیز جب کفار مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی ایک معجزات کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا﴾ (17-الإسراء:93)
’’کہیے : ميرا رب پاک ہے، میں تو بس ایک بشر رسول ہوں۔“
ایک مقام پر ارشاد ہے :
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ . . .﴾ (9-التوبة:128)
’’یقینًا تمہارے پاس تمہاری جانوں میں سے ایک رسول آیا ہے۔“
مزید فرمایا :
﴿كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا﴾ (2-البقرة:151)
’’جس طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیات کی تلاوت کرتا ہے۔“
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بارے میں یوں فرمایا :
﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ . . .﴾ (6-الأنعام:91)
’’اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق ہے، جس وقت انھوں نے کہا: اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔“
پھر ان کاردّ کرتے ہوئے فرمایا :
﴿قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ﴾ (6-الأنعام:91)
’’کہہ دیجیے : پھر وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جسے موسیٰ لائے تھے، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی۔“
قومِ نوح نے نوح علیہ السلام کی نبوت کا انکار بھی اسی وجہ سے کیا تھا۔ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا﴾ (11-هود:27)
’’ہم تجھے بس اپنے ہی جیسا بشر دیکھتے ہیں۔“
سنی مفسر امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (۲۲۴۔ ۳۱۰ھ ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وجحدوا نبوّة نبيهم نوح عليه السلام : ما نراك يا نوح إلا بشرا مثلنا، يعنون بذلك أنه آدمى مثلهم فى الخلق والصورة والجنس، فإنهم كانوا منكرين أن يكون الله يرسل من البشر رسولا إلى خلقه.
’’انہوں نے اپنے نبی نوح علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیا (اور کہا) : اے نوح ! ہم تجھے اپنے جیسا بشر ہی دیکھتے ہیں۔ ان کی مراد یہ تھی کہ نوح علیہ السلام تخلیق، شکل و صورت اور جنس میں انہی کی طرح کے ایک آدمی ہیں۔ کفار اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف جنس بشر میں سے رسول بھیجے۔“ (تفسير الطبري : 36/12)
فرعون اور اس کے حواریوں نے موسیٰ اور ہارون علیہا السلام کے بارے میں کہا تھا :
﴿أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا﴾ (23-المؤمنون:47)
’’کیا ہم اپنے جیسے دو بشروں پر ایمان لائیں ؟“
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ﴾ (13-الرعد:38)
’’اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے، اور ہم نے انھیں بیوی بچوں والے بنایا۔ اور کسی رسول کو یہ اختیار نہ تھاکہ وہ کوئی نشانی (معجزہ ) لائے مگر اللہ کے اذن سے۔ ہر مقررہ وقت کے لیے ایک کتاب (لکھا ہوا وقت ) ہے۔“
اس آیت کی تفسیر میں امام طبری رحمہ اللہ (۲۲۴۔ ۳۱۰ ھ) فرماتے ہیں :
يقول تعالي ذكره : ولقد أرسلنا يا محمد ! رسلا من قبلك إلي أمم قد خلت من قبل أمّتك، فجعلناهم بشرا مثلك، لهم أزواج ينكحون وذرية أنسلوهم، ولم نجعلهم ملأئكة لا يأكلون و لا يشربون ولاينكحون، فنجعل الرسول إلي قومك من الملأئكة مثلهم ولكن أسلنا إليهم بشرا مثلهم، كما أرسلنا إلى من قبلهم من سائر الأمم بشرا مثلهم …
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! یقینًا ہم نے آپ سے پہلے ان امتوں کی طرف رسول بھیجے تھے جو آپ کی امت سے پہلے ہو گزری ہیں۔ ہم نے ان کوآپ کی طرح بشر ہی بنایا تھا، ان کی بیویاں تھیں جن سے انہوں نے نکاح کیے اور ان کی اولاد بھی تھی جن سے ان کی نسل چلی۔ ہم نے ان کو فرشتے نہیں بنایا تھا کہ وہ نہ کھاتے پیتے اور نہ نکاح کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم پہلی قوموں کی طرح آپ کی قوم کی طرف بھی فرشتوں میں سے رسول بھیجتے۔ لیکن ہم نے آپ کی قوم کی طرف ان جیسا ایک بشر بھیجا ہے جیسا کہ پہلی امتوں کی طرف ان کی طرح کے بشر ہی رسول بن کر آتے رہے۔۔۔“ (تفسير الطبري : 216/13)
مشرکین کے ایک مطالبے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ﴾ (6-الأنعام:9)
’’اور اگر ہم اس (نبی ) کو فرشتہ بنا کر بھیجتے تو بھی ہم ا سے انسان ہی کی شکل میں بھیجتے اور (تب بھی ) ہم انھیں اسی شبہے میں ڈالتے جس میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔“
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۵۴ھ ) ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
والمصطفيٰ خير البشر صلي، فسها .محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے۔ یہ عقیدہ قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہراً بشر تھے اور حقیقت میں نور تھے۔ دلائل سے عاری یہ عقیدہ انتہائی گمراہ کن اور کفریہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنس بشریت سے ہونے کا کوئی انکار نہیں کر سکتا، اسی لیے رافضی اور اس دور کے جہمی صوفی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشریت کالبادہ اوڑھ رکھا تھا۔
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ مشرکین مکہ اور پہلی امتوں کے کفار کو انبیائے کرام علیہم السلام پر ایمان لانے میں مانع یہی بات تھی کہ ان کی طرف آنے والے نبی جنس بشریت سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر دور کے کفار بشریت کو نبوت و رسالت کے منافی خیال کرتے تھے۔ آج کے دور میں بھی بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکاری ہیں۔ دراصل یہ ایک بڑی حقیقت کا انکار ہے۔ جب کفار مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو بہانہ بنانا چاہا تو قرآنِ کریم نے یہ نہیں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں لہٰذا ایمان لے آؤ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات بینات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔
ایک مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَسُولًا * قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا﴾ (17-الإسراء:94،95)
’’اور لوگوں کے پاس ہدایت آ جانے کے بعد ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا کہ انہوں نے کہا: کیا اللہ نے بشر رسول بھیجا ہے ؟ کہہ دیجیے : اگر زمین میں فرشتے ہوتے جو یہاں مطمئن ہو کر چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول بنا کر نازل کرتے۔“
یعنی اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ردّ میں فرمایا کہ زمین پر انسان اور بشر بستے ہیں، لہٰذا انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے جنس بشر ہی سے نبی اور رسول ہوناچاہیے۔ ہاں اگر فرشتے زمین پر آباد ہوتے تو انہی کی نسل سے رسول ہوتا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر سے تعلق رکھتے تھے۔ ورنہ مشرکین کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرما دیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو محض بشریت کے لبادے میں ہیں، حقیقت میں نور ہی ہیں۔ یوں مشرکین کا اعتراض سرے سے ختم ہو جاتا کیونکہ ان کے بقول بشررسول نہیں ہو سکتا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سارے انبیاء علیہم السلام بشر ہی تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان ہی نبی ہو سکتا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا﴾ (33-الأحزاب:62)
’’اور آپ اللہ کے قانون کو تبدیل ہوتا نہیں پائیں گے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت بھی یہ قانونِ الٰہی نہیں بدلا۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
﴿ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ٭ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ﴾ (50-ق:1،2)
’’ق ! قسم ہے قرآنِ مجید کی، بلکہ انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا آیا، پھر کافروں نے کہا: یہ تو عجیب بات ہے۔“
’’انہی میں سے“ کے الفاظ سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے، انہی کی جنس سے تھے۔ تبھی تو مشرکین کو تعجب ہوا کہ ہم میں سے ایک انسان نبوت کا دعویدار کیسے بن گیا ؟ بشر کیسے اللہ کا رسول ہو سکتا ہے ؟
ایک مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ﴾ (10-يونس:2)
’’کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مرد کی طرف وحی بھیجی ؟“
جب مشرکین مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر رسول ہونے پر شک و شبہ کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دو طرح سے سمجھایا :
(1) ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (16-النحل:43)
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (21-الأنبياء:7)
’’اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مرد ہی (نبی ) بھیجے تھے، ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے، لہٰذا تم اہل ذکر (اہل کتاب ) سے پوچھ لو اگر تم علم نہیں رکھتے۔“
(2) ﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَسُولًا * قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا﴾ (17-الإسراء:94،95)
’’اور لوگوں کے پاس ہدایت آ جانے کے بعد ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا کہ انہوں نے کہا: کیا اللہ نے بشر رسول بھیجا ہے ؟ کہہ دیجیے : اگر زمین میں فرشتے ہوتے جو یہاں مطمئن ہو کر چلتے پھرتے تو ہم ان پرآسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول بنا کر نازل کرتے۔“
پھر فرمایا : اگر تمہیں انکار ہے کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا تو میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ :
﴿قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا﴾ (17-الإسراء:96)
’’کہہ دیجیے : میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور انہیں دیکھنے والاہے۔“
اب تمہاری مرضی ہے کہ مانو یا نہ مانو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبانی آپ کی بشریت کا اعلان کرا دیا :
﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ . . .﴾ (18-الكهف:110) (32-السجدة:6)
﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ. . .﴾ (41-فصلت:6)
’’کہہ دیجیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔“
نیز جب کفار مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی ایک معجزات کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا﴾ (17-الإسراء:93)
’’کہیے : ميرا رب پاک ہے، میں تو بس ایک بشر رسول ہوں۔“
ایک مقام پر ارشاد ہے :
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ . . .﴾ (9-التوبة:128)
’’یقینًا تمہارے پاس تمہاری جانوں میں سے ایک رسول آیا ہے۔“
مزید فرمایا :
﴿كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا﴾ (2-البقرة:151)
’’جس طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیات کی تلاوت کرتا ہے۔“
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بارے میں یوں فرمایا :
﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ . . .﴾ (6-الأنعام:91)
’’اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق ہے، جس وقت انھوں نے کہا: اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔“
پھر ان کاردّ کرتے ہوئے فرمایا :
﴿قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ﴾ (6-الأنعام:91)
’’کہہ دیجیے : پھر وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جسے موسیٰ لائے تھے، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی۔“
قومِ نوح نے نوح علیہ السلام کی نبوت کا انکار بھی اسی وجہ سے کیا تھا۔ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا﴾ (11-هود:27)
’’ہم تجھے بس اپنے ہی جیسا بشر دیکھتے ہیں۔“
سنی مفسر امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (۲۲۴۔ ۳۱۰ھ ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وجحدوا نبوّة نبيهم نوح عليه السلام : ما نراك يا نوح إلا بشرا مثلنا، يعنون بذلك أنه آدمى مثلهم فى الخلق والصورة والجنس، فإنهم كانوا منكرين أن يكون الله يرسل من البشر رسولا إلى خلقه.
’’انہوں نے اپنے نبی نوح علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیا (اور کہا) : اے نوح ! ہم تجھے اپنے جیسا بشر ہی دیکھتے ہیں۔ ان کی مراد یہ تھی کہ نوح علیہ السلام تخلیق، شکل و صورت اور جنس میں انہی کی طرح کے ایک آدمی ہیں۔ کفار اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف جنس بشر میں سے رسول بھیجے۔“ (تفسير الطبري : 36/12)
فرعون اور اس کے حواریوں نے موسیٰ اور ہارون علیہا السلام کے بارے میں کہا تھا :
﴿أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا﴾ (23-المؤمنون:47)
’’کیا ہم اپنے جیسے دو بشروں پر ایمان لائیں ؟“
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ﴾ (13-الرعد:38)
’’اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے، اور ہم نے انھیں بیوی بچوں والے بنایا۔ اور کسی رسول کو یہ اختیار نہ تھاکہ وہ کوئی نشانی (معجزہ ) لائے مگر اللہ کے اذن سے۔ ہر مقررہ وقت کے لیے ایک کتاب (لکھا ہوا وقت ) ہے۔“
اس آیت کی تفسیر میں امام طبری رحمہ اللہ (۲۲۴۔ ۳۱۰ ھ) فرماتے ہیں :
يقول تعالي ذكره : ولقد أرسلنا يا محمد ! رسلا من قبلك إلي أمم قد خلت من قبل أمّتك، فجعلناهم بشرا مثلك، لهم أزواج ينكحون وذرية أنسلوهم، ولم نجعلهم ملأئكة لا يأكلون و لا يشربون ولاينكحون، فنجعل الرسول إلي قومك من الملأئكة مثلهم ولكن أسلنا إليهم بشرا مثلهم، كما أرسلنا إلى من قبلهم من سائر الأمم بشرا مثلهم …
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! یقینًا ہم نے آپ سے پہلے ان امتوں کی طرف رسول بھیجے تھے جو آپ کی امت سے پہلے ہو گزری ہیں۔ ہم نے ان کوآپ کی طرح بشر ہی بنایا تھا، ان کی بیویاں تھیں جن سے انہوں نے نکاح کیے اور ان کی اولاد بھی تھی جن سے ان کی نسل چلی۔ ہم نے ان کو فرشتے نہیں بنایا تھا کہ وہ نہ کھاتے پیتے اور نہ نکاح کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم پہلی قوموں کی طرح آپ کی قوم کی طرف بھی فرشتوں میں سے رسول بھیجتے۔ لیکن ہم نے آپ کی قوم کی طرف ان جیسا ایک بشر بھیجا ہے جیسا کہ پہلی امتوں کی طرف ان کی طرح کے بشر ہی رسول بن کر آتے رہے۔۔۔“ (تفسير الطبري : 216/13)
مشرکین کے ایک مطالبے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ﴾ (6-الأنعام:9)
’’اور اگر ہم اس (نبی ) کو فرشتہ بنا کر بھیجتے تو بھی ہم ا سے انسان ہی کی شکل میں بھیجتے اور (تب بھی ) ہم انھیں اسی شبہے میں ڈالتے جس میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔“
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۵۴ھ ) ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خیر البشر تھے، انہوں نے نماز پڑھی اور بھول گئے۔“ (صحیح ابن حبان، ح:4074)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) فرمانِ باری تعالیٰ : ﴿ولا أقول لكم إني ملك﴾ ”میں تمہیں یہ نہیں کہتاکہ میں فرشتہ ہوں“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أي ولا أدعي أني ملك، إنما أنا بشر من البشر، يوحي إلي من الله عزوجل، شرفني بذلك، وأنعم على به .حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) فرمانِ باری تعالیٰ : ﴿ولا أقول لكم إني ملك﴾ ”میں تمہیں یہ نہیں کہتاکہ میں فرشتہ ہوں“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’یعنی میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میری طرف اللہ عزوجل کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے مجھے شرف عطا کیا ہے اور مجھ پر خاص انعام کیا ہے۔“ (تفسير ابن كثير:41/6، مكتبة أولاد الشيخ للتراث)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ ) مشرکین مکہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
كفار قريش يستبعدون كون محمد صلي الله عليه وسلم رسولا من الله لكونه بشرا من البشر
’’کفار قریش، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہونے کو اس لیے محال سمجھتے تھےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ایک بشر تھے۔‘‘ (فتح الباري لابن حجر: 191/10)
بشکریہ توحید ڈاٹ کام
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ ) مشرکین مکہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
كفار قريش يستبعدون كون محمد صلي الله عليه وسلم رسولا من الله لكونه بشرا من البشر
’’کفار قریش، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہونے کو اس لیے محال سمجھتے تھےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ایک بشر تھے۔‘‘ (فتح الباري لابن حجر: 191/10)
بشکریہ توحید ڈاٹ کام