• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم خواب میں دیدار

شمولیت
جنوری 13، 2013
پیغامات
62
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
64
نبی ﷺ کاعالم خواب میں دیدار
ازقلم: الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی
نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے کے تقاضے میں سے ہے کہ مومن آپ ﷺ سے حد درجہ محبت کرے ، محبت کے تقاضوں میں سے ہے کہ محب اپنے محبوب سے ملاقات کی دلی خواہش رکھتا ہے اسی اصول کے تحت مومن بھی آپ ﷺ سے خواب میں یا آخرت میں ملاقات کی دلی تمناکرے ، اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے رب سے دعائیں بھی کرے۔نیز نبیﷺ کے بارے میں ثابت اوصاف وصفات کا علم رکھے ۔ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِيْ لِیْ حُبّاً: نَاسٌ یَکُوْنُوْنَ بَعْدِيْ یَوَدُّ أَحَدُھُمْ لَوْ رَاٰنِيْ بِأَھْلِہٖ وَمَالِہٖ‘‘ [صحیح مسلم: ۲۸۳۲]میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں ، جو میری وفات کے بعد آئیں گے ، ان کی خواہش ہوگی کہ مجھے دیکھنے کے بدلے اپنے اہل وعیال اور مال سب کچھ صرف کر دیں ‘‘۔
نبی ﷺ بھی ایسے لوگوں سے اپنی شدید محبت کا اظہار کرگئے ہیں ۔ ایک بار آپ ﷺ قبرستان کی طرف نکلے، قبروالوں کو سلام کیا ، اور صحابہ کرام سے کہنے لگے : ’’ ہماری خواہش ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتا !‘‘ صحابہ نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم لوگ میرے ساتھی ہو ، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے ہیں‘‘۔ [صحیح مسلم : ۲۴۹، سنن نسائی : ۱۵۰ ]
مومن کی طرف سے جب نبی ﷺ کو خواب میں یا آخرت میں دیکھنے اور ملاقات کرنے کی شدید خواہش مسلم ہوچکی تو ہمیں اس کے متعلق صحیح شرعی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ذیل میں ہم نبی ﷺ کو عالم خواب میں دیکھنے کے متعلق احادیث ، فضائل اور شرائط مع دیگر ضروری توضیح پیش کر رہے ہیں۔
ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ رَاٰنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَاٰنِي، فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَتَمَثَّلُ بِيْ ‘‘ [صحیح مسلم : ۲۲۶۶]کہ جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو واقعی اس نے مجھے ہی دیکھا ہے ، کیونکہ شیطان میری مشابہت نہیں اختیار کر سکتا۔
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کو خواب میں دیکھا جاسکتا ہے ، اور شیطان کو اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی آنکھوں کے سامنے یا خواب میں کئی طرح کی شکلیں اختیا ر کرنے کی قوت دی ہے ، لیکن رسول اکرم ﷺ جیسی شکل اختیارنہیں کرسکتا ، اﷲ تعالیٰ نے اس قوت سے اسے محروم رکھا ہے ۔
صحیح بخاری ومسلم میں نبی ﷺ کو خواب میں دیکھنے والے کی فضیلت کچھ یوں بیان ہوئی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ مَنْ رَاٰنِي فِي الْمَنَامِ فَسَیَرَانِيْ فِي الْیَقْظَۃِ ․․․․․‘‘ [صحیح بخاری: ۶۰۹۳، صحیح مسلم: ۲۲۶۶] جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ ضرور مجھے ( آخرت میں) بیداری کی حالت میں دیکھے گا․․․۔ اگر واقعی اس نے نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے تو یہ اس کے لئے خیر کی خوشخبری سمجھی جاسکتی ہے ۔بخاری کی حدیث کا قطعاً یہ مفہوم نہیں ہے کہ نبی ﷺ کو خواب میں دیکھنے والا دنیا ہی میں اپنی آنکھوں کے سامنے آپ کا دیدار نصیب کرے گا جیسا کہ صوفیہ کا عقیدہ ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس حالت بیداری میں کوئی آکے یہ کہے میں نبی ﷺ ہوں ، میں تمہیں فلاں فلاں بشارت دیتا ہوں ، فلاں چیزوں کی وصیت کرتا ہوں ․․․وغیرہ تو بلا شک وشبہ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے پاس آدمی کی شکل میں شیطان آیا تھا تاکہ اسے گمراہ کردے ۔
ایک اہم نقطہ :
بعد ازاں آئیے ایک اہم بات ذہن نشین کر لیتے ہیں کہ خواب میں شیطان عام آدمی کی شکل اختیارکر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نبی ﷺ ہوں لہذا میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں ، اب تم کوئی نیک کام نا کرو تو بھی جنت تمہارے نام لکھی جاچکی ہے وغیرہ خرافات شیطان کی طرف سے ممکن ہے ، جیسا کہ اس طرح کے کئی واقعات کتابوں میں محفوظ ہیں، اور حدیث کے الفاظ میں ایسا کہیں نہیں کہ شیطان دوسرے کی شکل اختیار کرکے اپنے آپ کوجھوٹ بولتے ہوئے نبی ﷺ نہیں بتلا سکتا ، بلکہ حدیث کے جملہ الفاظ صرف اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شیطان نبی ﷺ جیسی شکل اختیار کرکے اپنے آپ کو نبی نہیں کہہ سکتا ۔ لہذا ہمیں اس باب میں ہوشیار رہنا چاہئے مبادا شیطان ہمارے زندگی بھر کے کئے گئے اعمال برباد کراڈالے ۔
شرائط:
اکثر علماء محققین جن میں قابل ذکر عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ ، ابن سیرین ، امام بخاری اورابن باز رحمھم اﷲ نے نبی ﷺ کو چند شرائط کے ساتھ خواب میں دیکھے جانے کو صحیح قرار دیا ہے۔ اور یہی موقف درج ذیل شرائط کی موجودگی میں صحیح بھی ہے۔
۱․ جس کو خواب میں دیکھا گیا ہو اس کے سارے صفات آپ ﷺ کی صحیح سیرت میں مذکور صفات کے موافق ہوں ۔
۲․ خواب میں نظر آنے والا، خواب دیکھنے والے کو توحید ،نیکی اور بھلائی کا حکم دے ، نا کہ برائی یا بدعت وخرافات کا۔
۳․ اپنا خواب اس شخص کو بیان کرے جو نبی ﷺ کے اوصاف کے متعلق زیادہ جاننے والا ہو۔
مذکورہ شرائط کے چند دلائل پیش ہیں:
۱․ کُلیب رحمہ اﷲ بیان کرتے ہیں کہ عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے ذکر کیا کہ میں نے نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے ، ابن عباس رضی اﷲ کہتے ہیں اچھا جن کو خواب میں دیکھے ہو ان کے اوصاف بیان کرو !! کُلیب نے کہا : اس وقت مجھے حسن رضی اﷲ عنہ کا خیال آیا تو کہا کہ حسن جیسے تھے ۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں : تو سچ میں نبی ﷺ کو ہی دیکھا ہے۔ [فتح الباری: ۱۲؍ ۸۸۳، ابن حجر نے اس کی سند کو جید کہا ہے]۔
۲․ یزید الفارسی بیان کرتے ہیں : ’ عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں، میں نے نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا ، اس بات کا ذکر ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے کیا توانہوں نے نبی ﷺ کا یہ قول سنایاکہ: ’’ شیطان میری طرح شکل اختیار کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ، لہذا جس نے خواب میں مجھے دیکھا گویااس نے مجھے ہی دیکھا‘‘ ۔ پھر پوچھتے ہیں جس کو خواب میں دیکھے ہوکیا اس کے اوصاف بیان کرسکتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں ، اس آدمی کا جسم اور قد وقامت معتدل تھا (یعنی نا بہت موٹے ، نابہت دبلے، نہ بہت لمبے نا زیادہ کوتاہ قد) ۔ ان کا رنگ گندمی مائل سفید تھا ، آنکھیں سرمگیں ، خندہ دہن ، خوبصورت گول چہرہ ، داڑھی نہایت گنجان جو قریب قریب سینے کے ابتدائی حصہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ یہ سن کر عبدا ﷲ ابن عباس رضی اﷲ کہتے ہیں :ـ اگر تم نبی ﷺ کو زندگی میں دیکھے ہوتے تو اس سے زیادہ آپ ﷺ کا حلیہ اقدس نہ بتا سکتے ۔(گویا انہوں نے جس شحص کو خواب میں دیکھا تھا وہ آپ ﷺ ہی تھے، اور ان کا خواب سچا تھا ۔) [مختصر الشمائل المحمدیۃ للألبانی:۳۴۷، اس اثر کو علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے ]
۳․ ابن سیرین رحمہ اﷲ کے سامنے جب کوئی نبی ﷺ کو خواب میں دیکھنے کا ذکر کرتا تو آپ اس سے پوچھتے کہ جس کو تونے دیکھا ہے اس کے اوصاف بیان کرو کہ وہ کیسے تھے؟ ․اگر کوئی شخص ایسی صفات بیان کرتا جو نبی ﷺ کے متعلق نہ ہوتیں ۔ تو کہتے تو نے (خواب میں ) نبی ﷺ کو نہیں دیکھا۔ابن حجر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [فتح الباری: ۱۲؍ ۸۸۳]
ایک اشکال کا جواب:
یہاں ایک اشکال کا جواب دینا مناسب معلوم ہوتا ہے : جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر خواب میں نظرآنے والا اپنے آپ کو نبی بتلائے یا کوئی دوسرا بتائے کہ فلاں نبی ہیں یا خود اسے لگے کہ یہ نبی ﷺ ہیں ․․․ تو وہ واقعی نبی ﷺ ہی ہیں ، چاہے اس کے اوصاف نبی ﷺ جیسے ہوں یا نا ہوں ۔ ان کی یہ بات صحیح دلائل کی موجودگی میں لائق التفات نہیں ۔ اس بات کی تائید میں وہ جو دلیل پیش کرتے ہیں وہ ضعیف اور ناقابل تسلیم ہے ۔ حدیث اس طرح ہے: عن ابی ہریرۃ رضي اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ ﷺ : ’’ مَنْ رَاٰنِيْ فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَاٰنِيْ، فَاِنِّيْ أُرَیٰ فِيْ کُلِّ صُوْرَۃٍ‘‘جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے حقیقت میں مجھے ہی دیکھا ، کیونکہ میں کسی بھی (انسانی )شکل میں دکھایا جا سکتا ہوں‘‘ ۔ [علامہ ابن حجر ، علامہ عینی اور امام سخاوی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے: فتح: ۱۲؍ ۴۰۰، عمدۃ: ۲۴؍ ۲۱۲، الأجوبۃ المرضیۃ: ۲؍ ۸۹۰]
تنبیہ :
یہ بات یاد رہے کہ خواب میں دِکھنے والا اگر آپ کو نبی معلوم ہورہا ہے اور آپ کو بدعت کی دعوت دے یا خلاف شریعت کسی بھی کام کا حکم دے ۔ تو اس کاوہ خواب قرآن و سنت سے ثابت شدہ شریعت کے خلاف کسی بھی صورت قابل حجت قطعا تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی کسی شرعی حکم کے لئے ناسخ بن سکتا ہے ۔اس بات پر علماءِ امت کا اجماع ہے۔
اس کے درج ذیل وجوہات ہو سکتے ہیں :
۱: وہ بلا شک وشبہ شیطان ہے جو اسے خلاف شریعت باتوں کی وصیت کررہا ہے، اور خواب دیکھنے والا دھوکہ میں پڑ گیاہے ، کیونکہ نبی ﷺ خلاف شریعت حکم کبھی دے ہی نہیں سکتے ۔
۲: شریعت !نبی ﷺ کے زمانہ ہی میں مکمل ہوچکی ہے اب کسی حذف واضافہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
۳: اگر خواب کے ذریعہ شریعت کی تکمیل مشروع ہوتی تو پھر اﷲ تعالیٰ کو دنیا میں انبیاء بھیجنے کی ضرورت ہی نا ہوتی۔
۴: اس طرح جھوٹ، دورغ گوئی اورمن مانی منگھڑت شریعت سازی کا لا منتہائی سلسلہ شروع ہوجائے گا ، جس کے نتیجہ میں ہر کوئی اپنے آپ کوایک الگ خواب وخیال والی شریعت کا پابند سمجھنے لگے گا ۔ یوں دین محفوظ ہونے کے بجائے اس کا صفایا ہوجائے گا۔
آخری بات :
اگر مذکورہ شرائط کی بنا پر یہ معلوم ہوجائے کہ خواب میں دِکھے ہوئے شخص نبی ﷺ ہیں تو اس خواب کو اپنے لئے رب کی طرف سے خیر کی بشارت سمجھنی چاہئے ، اور اﷲ کا حمد بیان کرنا چاہئے ، کثرت سے ذکرو اذکار اور نیک اعمال بجا لانا چاہئے تاکہ جنت میں بھی آپ ﷺ کا دیدار مقدس نصیب ہوجائے۔نبی ﷺ کو خواب میں دیکھنے والا نہ صحابی مانا جائے گا ،نہ ہی ولی اور نہ ہی اسے متقی اور پرہیز گار کی سارٹی فیکیٹ دی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ ایسی بشارت کہیں ثابت نہیں۔
وصلی اﷲ علی نبینا محمد وآلہ و صحبہ وسلم
بتاریخ: ۹؍۵؍۱۴۳۷ھـ الموافق: ۱۸؍ ۲؍ ۲۰۱۶م
 
Top