• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اے اللہ معاویہ کو ہادی و مہدی بنا پر اعتراض کا جائزہ

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
تحریر : حافظ بلال سلفی
Pdf لنک کے لئے نیچے دیکھیں

ہادی مہدی ؛سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ
کاوش : اصلاح میڈیا ٹیم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی تھی کہ اے اللہ ان کو ھادی ومھدی بنا دے،یعنی یہ خود ہدایت یافتہ ہوں اور ان کے سبب لوگ بھی ہدایت پائیں۔ یہ کوئی چھوٹی سی سعادت یا معمولی سی فضیلت نہیں، کیونکہ مھدی ہونا بہت بڑی خوش بختی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے راشدین کو "مھدی "کا اعزاز دیا، جن کی سنت کو لازم پکڑنے کی وصیت فرمائی۔
بعض لوگ تمام محدثین کرام کے فیصلے کو چھوڑ کر صرف پانچویں صدی ہجری کے ایک محدث، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے قول کی وجہ سے اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرنے والے راوی عبدالرحمن بن ابی عمیرہ صحابی نہیں، لہذا یہ روایت منقطع(ضعیف) ہے، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
قال الامام الترمذی : حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا أبو مسهر، عن سعيد بن عبد العزيز، عن ربيعة بن يزيد، عن عبد الرحمن بن أبي عميرة، وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لمعاوية: اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به.هذا حديث حسن غريب
"عبد الرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ کے صحابی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے دعا فرمائی: اے اللہ! ان کو ہادی، ہدایت یافتہ اور ان کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت عطا فرما۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا یہ حدیث حسن غیریب ہے۔"(سنن الترمذی : 3842)
اس حدیث کو امام ترمذی(سنن الترمذی ،ح : 3823) اور امام جورقانی الاباطیل والمناکیروالصحاح والمشاھیر (تحت الحدیث : 182) حسن کہا ہے۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں یہ تین حدیثیں صحیح ترین ہیں:
وأصح ما روي في فضل معاوية حديث أبي حمزة عن ابن عباس أنه كاتب النبي (صلى الله عليه وسلم) فقد أخرجه مسلم في صحيحه وبعده حديث العرباض اللهم علمه الكتاب وبعده حديث ابن أبي عميرة اللهم اجعله هاديا مهديا تاريخ دمشق لابن عساكر (59/ 106)
مذکورہ حدیث میں صاف ذکر ہے کہ عبد الرحمن بن ابی عمیرۃ صحابی ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ انہوں نے یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاری(256ھ) نے ان کو صحابہ میں ذکر کرتے ہوئے ان کی روایت یوں درج کی ہے:
وقال لي ابن أزهر، يعني أبا الأزهر: حدثنا مروان بن محمد الدمشقي، حدثنا سعيد، حدثنا ربيعة بن يزيد، سمعت عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول، في معاوية بن أبي سفيان: اللهم اجعله هاديا مهديا، واهده، واهد به(وسندہ حسن)
(التاريخ الكبير للبخاري بحواشي محمود خليل :7/ 326)
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا ابن زنجويه نا سلمة بن شبيب نا مروان يعني ابن محمد نا سعيد يعني ابن عبد العزيزعن ربيعة بن يزيد قال: سمعت عبد الرحمن بن أبي عميرة أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لمعاوية: " اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد به(وسندہ صحیح) (معجم الصحابة للبغوي :4/ 490)
امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا محمد بن عوف، نا مروان بن محمد، وأبو مسهر قالا: نا سعيد بن عبد العزيز، عن ربيعة بن يزيد، عن عبد الرحمن بن أبي عميرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في معاوية: «اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد به»وسندہ صیح (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم :2/ 358)
امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، ثنا أَبُو مُسْهِرٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ الْمُزَنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِمُعَاوِيَةَ «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِهِ وَاهْدِ بِهِ»امام ابوزرعہ دمشقی۔وسندہ صحیح (مسند الشاميين للطبراني :1/ 190)
امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا سليمان بن أحمد، ثنا أبو زرعة الدمشقي، ثنا أبو مسهر، ثنا سعيد بن عبد العزيز، عن ربيعة بن يزيد، عن عبد الرحمن بن أبي عميرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لمعاوية: «اللهم، اجعله هاديا مهديا، واهده، واهد به»سند صحیح ہے۔(معرفة الصحابة لأبي نعيم :4/ 1836)
مذکورہ پانچ کتابوں(التاریخ الکبیر للبخاری، معجم الصحابہ للبغوی، الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم، مسند الشامیین للطبرانی اور معرفۃ الصحابہ لابی نعیم میں میں عبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کی صراحت کررکھی ہے کہ انہوں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے۔والحمد اللہ
حدیث کے الفاظ میں عبد الرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کی وضاحت اور خود یہ روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کی صراحت کے بعد اب کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔
اس کے باوجود ہم محدثین کرام کا فیصلہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں؛
1۔ اس حدیث کے راوی سعید بن عبدالعزیز التنوخی اسی حدیث میں فرماتے ہیں کہ عبد الرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں۔ دلیل درجِ ذیل ہے :
حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ، ثنا أَبُو مُسْهِرٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ الْمُزَنِيِّ، قَالَ سَعِيدٌ: وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ فِي مُعَاوِيَةَ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، وَاهْدِهِ وَاهْدِ بِهِ (حديث عباس الترقفي، ح : 44، وسندہ صحیح)
2۔ امام ابن سعد رحمہ اللہ (230ھ) فرماتے ہیں:
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أبي عَمِيرَةَ الْمُزَنِيُّ.وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم
"عبدالرحمن بن ابی عمیرہ صحابی ہیں۔"(الطبقات الكبرى ط العلمية :7/ 292)
3۔ امام بخاری (256ھ) نے ان کو صحابہ میں ذکر کیا ہے۔
(التاريخ الكبير للبخاري بحواشي المطبوع :5/ 240)
4۔ امام ابو حاتم (277ھ) نے انہیں صحابی قرار دیا ہے۔ (علل الحديث لابن أبي حاتم :6/ 382)،
5۔ امام ابوالقاسم البغوی (317ھ) نے ان کو صحابہ میں ذکر کیا ہے۔
(معجم الصحابة للبغوي :4/ 489)
6۔ عبدالرحمن بن ابی حاتم (327ھ) فرماتے ہیں: عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني، له صحبة
"عبدالرحمن بن ابی عمیرہ صحابی ہیں۔"(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم :5/ 273)
مزید لکھتے ہیں:
محمد بن ابى عميرة شامى له صحبة وهو أخو عبد الرحمن بن أبي عميرة لهما صحبة
"محمد بن ابی عمیرہ اور عبد الرحمن بن عمیرہ دونوں بھائی صحابی ہیں۔"(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم :8/ 54)
7۔ امام ابن حبان(354ھ) نے ان کو صحابہ میں ذکر کیا ہے۔
عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني سكن الشام حديثه عند أهلها (الثقات لابن حبان :3/ 252)
8۔ خطیب بغدادی (364ھ) فرماتے ہیں:
عبد الرَّحْمَن بن أبي عميرَة الْمُزنِيّ الشَّامي لَهُ صُحْبَة وَرِوَايَة عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
"عبدالرحمن بن ابی عمیرہ مزنی شامی صحابی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ سے روایت(بھی)بیان کرتے ہیں۔"(تالي تلخيص المتشابه :2/ 539)
9۔ امام ابو نعیم اصبھانی (439ھ) نے ان کو صحابہ میں ذکر کیا ہے۔
(معرفة الصحابة لأبي نعيم :4/ 1836)
10۔ حافظ ابن عساکر (571ھ) فرماتے ہیں:
عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني ويقال الأزدي أخو محمد بن أبي عميرة وله صحبة
"عبدالرحمن بن ابی عمیرہ مزنی اور ان کو ازدی بھی کہا گیا ہے محمد بن ابی عمیرہ کے بھائی اور صحابی ہیں۔"(تاريخ دمشق لابن عساكر :35/ 229)
11۔ حافظ نووی(676ھ) فرماتے ہیں:
عبد الرحمن بن أبى عميرة الصحابى، رضى الله عنه، عن النبى - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أنه قال لمعاوية: "اللهم اجعله هاديًا مهديًا". رواه الترمذى، وقال: حديث حسن
"صحابی عبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی : اے اللہ! ان کو ہادی اور ہدایت یافتہ بنا دے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن کہا ہے۔"(تهذيب الأسماء واللغات :2/ 103، 104)
12۔ حافظ مزی (742ھ) فرماتے ہیں: لهُ صُحبَةٌ
"صحابی ہیں۔"(تهذيب الكمال في أسماء الرجال :17/ 321)
13۔ حافظ ذھبی(748ھ) فرماتے ہیں:
عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني. صحابي ۔۔۔ وبعضهم يقول: هو تابعي.
"عبدالرحمن بن ابی عمیرہ صحابی ہیں۔ بعض نے کہا کہ تابعی ہیں۔"
ان بعض کا رد کرتے ہوئے دوسری جگہ فرماتے ہیں : عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني صحابي
"عبدالرحمن بن ابی عمیرہ صحابی ہیں۔"(الكاشف :1/ 638)
نیز لکھتے ہیں:
وقال أبو مسهر: حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن ربيعة بن يزيد، عن عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني، وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لمعاوية: " اللهم علمه الكتاب والحساب، وقه العذاب ". هذا الحديث رواته ثقات، لكن اختلفوا في صحبة عبد الرحمن، والأظهر أنه صحابي۔
اگرچہ بعض نے سیدنا عبد الرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے میں اختلاف کیا ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ وہ صحابی رسول ہیں۔(تاريخ الإسلام ت بشار :2/ 541)
14۔ حافظ تقی الدین محمد بن احمد الحسنی الفاسی المکی(832ھ) لکھتے ہیں:
وقال فى حقه: «اللهم اجعله هاديا مهديا». رواه الترمذى من حديث عبد الرحمن بن أبى عميرة الصحابى، عن النبی صلى الله عليه وسلم، وحسنّه الترمذى
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ کے حق میں فرمایا: اے اللہ! ان کو ہادی اور ہدایت یافتہ بنا دے۔اس کو امام ترمذی نے صحابی عبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے رویت کیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔"(العقد الثمين فى تاريخ البلد الأمين :6/ 92)
15۔ علامہ سیوطی(911ھ) انہیں صحابی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
أخرج الترمذي وحسنه عن عبد الرحمن بن أبي عميرة الصحابي عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال لمعاوية: "اللهم اجعله هاديًا مهديًّا(تاريخ الخلفاء، ص: 149)
16۔ ابن حجر ہیتمی(974ھ) نے صحابی کہتے ہوئے لکھا ہے:
عبد الرَّحْمَن بن أبي عميرَة الصَّحَابِيّ عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَنه قَالَ لمعاوية (اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هاديا مهديا
(الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة :2/ 626)
17۔ علامہ عبدالعزیزملتانی(1239ھ) انہیں مدنی صحابی لکھتے ہیں،چنانچہ فرماتے ہیں:
عبد الرحمن بن أبي عميرة الصحابي المدني أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لمعاوية: "اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به الناس" رواه الترمذي وحسنه(الناهية عن طعن أمير المؤمنين معاوية، ص: 39)
18۔ حافظ ابن حجر (852ھ) حافظ ابن عبدالبر کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فعجب من قول ابن عبد البر: حديثه منقطع الإسناد مرسل، لا تثبت أحاديثه، ولا تصحّ صحبته.وتعقبه ابن فتحون، وقال: لا أدري ما هذا، فقد رواه مروان بن محمد الطاطري، وأبو مسهر، كلاهما عن ربيعة بن يزيد- أنه سمع عبد الرحمن بن أبي عميرة أنه سمع رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلّم يقول.قلت: قد ذكر من أخرج الروايتين، وفات ابن فتحون أن يقول: هب أنّ هذا الحديث الّذي أشار إليه ابن عبد البر ظهرت له فيه علّة الانقطاع، فما يصنع في بقية الأحاديث المصرّحة بسماعه من النبيّ صلى اللَّه عليه وسلّم، فما الّذي يصحّح الصحبة زائدا على هذا؟ مع أنه ليست للحديث الأول علّة الاضطراب (الإصابة في تمييز الصحابة :4/ 288،289)
مزید لکھتے ہیں:
عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني :وقيل ابن عميرة، بالتصغير، بغير أداة كنية، وقيل ابن عمير، مثله بلا هاء، ويقال فيه القرشي.قال أبو حاتم وابن السّكن: له صحبة، ذكره البخاري، وابن سعد، وابن البرقي، وابن حبان، وعبد الصمد بن سعيد في الصحابة. وذكره أبو الحسن بن سميع في الطبقة الأولى من الصحابة الذين نزلوا حمص، وكان اختارها.وقال ابن حبان: سكن الشام، وحديثه عند أهلها.(الإصابة في تمييز الصحابة :4/ 287)
امام ابو حاتم رحمہ اللہ کا تسامح:
امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی عمیرہ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی(علل الحديث لابن أبي حاتم :6/ 382)، لیکن یہ قول مضر نہیں ، کیونکہ اس میں سیدنا عبد الرحمن بن ابی عمیرہ کا صحابی ہونا واضح طور پر بتایا گیا ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ یہ مطلب ہے کہ یہ روایت انہوں نے ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی ۔پھر بھی یہ مرسل صحابی ہو گی جو کہ حجت ہوتی ہے۔
دراصل امام ابو حاتم رحمہ اللہ کو ایک سند کی وجہ سے یہ تسامح ہوا۔علل الحدیث لابن ابی حاتم (6/381) کی سند میں ہے عن ابن ابی عمیرۃ عن معاویہ ہے ۔ امام ابو حاتم نے اس سند میں سیدنا معاویہ کے واسطے کی وجہ سے کہا ہے کہ عبدالرحمن بن ابی عمیرہ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈائریکٹ نہیں سنی، بلکہ اس میں سیدنا معاویہ کا واسطہ ہے۔لیکن سیدنا معاویہ کے واسطے والی کوئی صحیح سند موجود نہیں۔ واللہ اعلم۔
اضطراب کی حقیقت :
حافط ذھبی نے الولید بن مسلم کی ضعیف روایت کی وجہ سے اس روایت میں علت کا دعوی کیا ہے،جو کہ درست نہیں ،کیوں کہ جب یہ روایت ہی ضعیف ہے تو اضطراب نہیں بنتا۔ دوسرا سعید تنوخی سے اکثر رواۃ نے سعید عن ربیعہ بن یزید ہی بیان کیا ہے اور حافظ ابن عساکر(تاریخ دمشق : 59/84) نے بھی ولید بن مسلم کی روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
رواية الجماعة هي الصواب۔ کہ ولید بن مسلم کے مقابلے میں اکثر راویوں کا بیان ہی درست ہے۔
ولید بن مسلم نے سعید عن یونس بن میسرۃ عن عبدالرحمن بن ابی عمیرہ ذکر کیا جو کہ مرجوح ہے۔اور تاریخ دمشق (59/83) میں یہی روایت ہے لیکن اس میں ولید بن مسلم کی سند میں سعید کا استاذ ربیعہ کا زکر ہے نہ کہ یونس بن میسرہ کا ،لہذا حافظ ذہبی کی درج ذیل بات درست نہیں ہے۔
وبه حدثنا أبو زرعة، حدثنا أبو مسهر، حدثني سعيد، عن ربيعة بن يزيد، عن عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني، سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول لمعاوية: "اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد به" .
وبه حدثنا عبدان، حدثنا علي بن سهل الرملي، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا سعيد، عن يونس -هو ابن ميسرة- عن عبد الرحمن بن أبي عميرة: أنه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- وذكر معاوية، فقال: "اللهم اجعله هاديا مهديا، واهد به" . فهذه علة الحديث قبله سير أعلام النبلاء ط الحديث (7/ 143)
عین ممکن ہے کہ امام ابو حاتم کے قول کی وجہ سے ہی ابن عبدالبر نے انقطاع کا دعوی کیا ہوکیوں کہ اس سند میں ابن ابی عمیرہ کے بعد سیدنا معاویہ کا ذکر ہے اور ولید بن مسلم کی مذکورہ روایت کی وجہ سے اضطراب کا دعوی کیا ہو۔لیکن ہمارے ذکر کردہ دلائل کی وجہ سے یہ سارے شبہات ختم ہو گئے ہیں۔ الحمد للہ

سعید تنوخی کے اختلاط کا مسئلہ :
اس کے راوی سعید بن عبدالعزیز تنوخی پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ مختلط ہے۔لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیوں کہ ان کے شاگرد ابو مسھر ہی فرماتے ہیں:
كان سعيد بن عبد العزيز قد اختلط قبل موته وكان يعرض عليه قبل أن يموت وكان يقول لا أجيزها (تاريخ ابن معين - رواية الدوري : 4/ 479)
لہٰذا اختلاط کا اعتراض درست نہیں کیوں کہ انہوں نے حالت اختلاط میں کوئی روایت بیان ہی نہیں کی۔
ان پر دوسرا اعتراض تدلیس کا کیا جاتا ہے، لیکن یہ تدلیس سے بری ہیں(الفتح المبین، ص :65)
انقطاع کا شبہہ:
بعض کا کہنا ہے کہ ربیعہ بن یزید کی ابن ابی عمیرہ سے ملاقات مشکل ہے، لیکن یہ بات صحیح نہیں کیوں کہ بسند حسن و صحیح ان کے سماع کی صراحت موجود ہے۔ملاحظہ ہو:
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقال لي ابن أزهر، يعني أبا الأزهر: حدثنا مروان بن محمد الدمشقي، حدثنا سعيد، حدثنا ربيعة بن يزيد، سمعت عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول، في معاوية بن أبي سفيان: اللهم اجعله هاديا مهديا، واهده، واهد به (التاريخ الكبير للبخاري بحواشي محمود خليل :7/ 326)
ابو الازھر سے مراد احمد بن الازھر النیسابوری ہیں۔صدوق ہیں۔سند حسن ہے۔
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا ابن زنجويه نا سلمة بن شبيب نا مروان يعني ابن محمد نا سعيد يعني ابن عبد العزيزعن ربيعة بن يزيد قال: سمعت عبد الرحمن بن أبي عميرة أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لمعاوية: " اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد به (معجم الصحابة للبغوي : 4/ 490)
ابن زنجویہ سے مراد :محمد بن عبدالملک بن زنجویہ ہیں۔ثقہ ہیں۔ سند صحیح ہے۔
مذکورہ دونوں کتب میں ربیعہ بن یزید کے سماع کی صراحت کی وجہ سے حافظ ذھبی رحمہ اللہ کی درج ذیل بات درست نہیں:
أَرْسَلَهُ رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، وَيَبْعُدُ إِدْرَاكُهُ لابْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ (معجم الشيوخ الكبير للذهبي : 1/ 155)
مزید تفاصیل کے لیے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت پر ہماری زیر ترتیب کتاب کا انتظار فرمائیے۔

اس تحریر کا پی ڈی ایف لنک
https://archive.org/details/HADIMEHDIMAVIYAHEZPARAITERAZKAJAIZAH
 
شمولیت
اگست 04، 2020
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
31
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا فرماتے
ہیں
أنبأنا هبة الله بن احمد الجريرى أنبأنا محمد بن علي بن الفتح أنبأنا الدارقطني ، حدثنا أبو الحسين عبد الله بن إبراهيم بن جعفر بن نيار البزاز ، حدثنا أبو سعيد بن الحرفي، حدثنا حضرت عبدالله بن احمد بن حنبل ، قال سألت أبي فقلت : ما تقول في علي رضي الله عنه ما و معاوية ؟
فاطرق ثم قال: إيش أقول فيهما أن عليا رضي الله عنه ما كان كثير الا عداء ففتشاعداوه له عيبا فلم يجدوا ، فجاء وإلى رجل قد حاربه و قاتله فاطروه كيادا منهم
له:
عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل سے کہا: ابا جان آپ سیدنا علی اور امیر معاویہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اسکے بعد انہوں نے سر جھکا لیا، پھر اٹھا کر فرمایا:بیٹا سیدنا علی کے کثیر دشمن تھے انکے دشمنوں نے انکے عیب تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے پھر یہ لوگ اس شخص (معاویہ) کی طرف ہوگئے جس نے ان سے جنگیں کیں پھر انہوں نے سازش کے تحت اسکے فضائل بڑھانا شروع کر
دیے:

امام ابن حجر عسقلانی امام احمد بن حنبل کا یہ قول لکھنے کے بعد اسکی تشریح یوں کرتے ہیں

قال امام الحافظ ابن حجر عسقلاني بعد هذا الكلام: فأشار بهذا إلى ما اختلقوه لمعاوية من الفضائل مما لا اصل له. وقد ورد في فضائل معاوية أحاديث كثيرة لكن ليس فيها ما يصح من طريق الإسناد، وبذلك جزم إسحق بن راهويه رضي الله عنه ما و النسائي و غير هما ، و الله اعلم.
اس سے امام احمد بن حنبل نے نے ان منگھڑت روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جو لوگوں نے فضائل معاویہ میں گھڑی تھیں، فضائل معاویہ میں بکثرت روایات وارد ہوئی ہیں لیکن ان میں کوئی روایت بھی ایسی نہیں جو صحیح ہو یہی امام اسحاق بن راھویہ، امام نسائی اور دوسرے علماء حدیث کا قول ہے۔
( ذکرہ ابن حجر االعسقلاني في فتح الباري، ١٠٤/٧ )
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا فرماتے
ہیں
أنبأنا هبة الله بن احمد الجريرى أنبأنا محمد بن علي بن الفتح أنبأنا الدارقطني ، حدثنا أبو الحسين عبد الله بن إبراهيم بن جعفر بن نيار البزاز ، حدثنا أبو سعيد بن الحرفي، حدثنا حضرت عبدالله بن احمد بن حنبل ، قال سألت أبي فقلت : ما تقول في علي رضي الله عنه ما و معاوية ؟
فاطرق ثم قال: إيش أقول فيهما أن عليا رضي الله عنه ما كان كثير الا عداء ففتشاعداوه له عيبا فلم يجدوا ، فجاء وإلى رجل قد حاربه و قاتله فاطروه كيادا منهم
له:
عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل سے کہا: ابا جان آپ سیدنا علی اور امیر معاویہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اسکے بعد انہوں نے سر جھکا لیا، پھر اٹھا کر فرمایا:بیٹا سیدنا علی کے کثیر دشمن تھے انکے دشمنوں نے انکے عیب تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے پھر یہ لوگ اس شخص (معاویہ) کی طرف ہوگئے جس نے ان سے جنگیں کیں پھر انہوں نے سازش کے تحت اسکے فضائل بڑھانا شروع کر
دیے:
لکھتا تو بہت کچھ جاسکتا ہے اس پر فی الحال ان راویوں کاتعارف کروادیں۔

قال امام الحافظ ابن حجر عسقلاني بعد هذا الكلام: فأشار بهذا إلى ما اختلقوه لمعاوية من الفضائل مما لا اصل له. وقد ورد في فضائل معاوية أحاديث كثيرة لكن ليس فيها ما يصح من طريق الإسناد، وبذلك جزم إسحق بن راهويه رضي الله عنه ما و النسائي و غير هما ، و الله اعلم.
اس سے امام احمد بن حنبل نے نے ان منگھڑت روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جو لوگوں نے فضائل معاویہ میں گھڑی تھیں، فضائل معاویہ میں بکثرت روایات وارد ہوئی ہیں لیکن ان میں کوئی روایت بھی ایسی نہیں جو صحیح ہو یہی امام اسحاق بن راھویہ، امام نسائی اور دوسرے علماء حدیث کا قول ہے۔
( ذکرہ ابن حجر االعسقلاني في فتح الباري، ١٠٤/٧ )
حافظ ابن حجر ؒ کے کلام کے معنی ہرگز یہ نہیں بلکہ یہاں صحت اصطلاحی مراد ہے جس سے حسن کی نفی بھی لازم نہیں آتی ہے۔

ان ویڈیوز میں کافی جوابات دیےجاچکے ہیں۔

لنک
 
شمولیت
اگست 04، 2020
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
31
ایک انٹرویو میں ایک سائل نے ٹائیٹک میں ڈوبنے والوں کے سارےکےسارے نام بتا دیئے ، انٹرویو لینے والے ، مردہ ضمیر بے شرم اوربےحیا نے اگلا سوال کر ڈالا کہ " ڈوبنے والوں کے شناختی کارڈ کے نبمرز بتائو " امت کےلیئے " امام احمد بن حنبل " ایک حٗجت کے طور پےکافی ہے اور انہیں مانا بھی جاتاہے ، قصہ مختصر اپنے اپنےنصیب کی بات ہے
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا فرماتے
ہیں
أنبأنا هبة الله بن احمد الجريرى أنبأنا محمد بن علي بن الفتح أنبأنا الدارقطني ، حدثنا أبو الحسين عبد الله بن إبراهيم بن جعفر بن نيار البزاز ، حدثنا أبو سعيد بن الحرفي، حدثنا حضرت عبدالله بن احمد بن حنبل ، قال سألت أبي فقلت : ما تقول في علي رضي الله عنه ما و معاوية ؟
فاطرق ثم قال: إيش أقول فيهما أن عليا رضي الله عنه ما كان كثير الا عداء ففتشاعداوه له عيبا فلم يجدوا ، فجاء وإلى رجل قد حاربه و قاتله فاطروه كيادا منهم
له:
عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل سے کہا: ابا جان آپ سیدنا علی اور امیر معاویہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اسکے بعد انہوں نے سر جھکا لیا، پھر اٹھا کر فرمایا:بیٹا سیدنا علی کے کثیر دشمن تھے انکے دشمنوں نے انکے عیب تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے پھر یہ لوگ اس شخص (معاویہ) کی طرف ہوگئے جس نے ان سے جنگیں کیں پھر انہوں نے سازش کے تحت اسکے فضائل بڑھانا شروع کر
دیے:
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ اس روایت کو "الموضوعات " میں لے کر آئےہیں۔ اور اس کی سند میں ایک راوی محمد بن على بن الفتح ضعیف ہے ۔

قال الإمام الذهبي في ترجمة: مُحَمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ الفَتْحِ: «وَقَدْ أُدْخِلَ فِي سَمَاعه مَا لَمْ يَتَفَطَّنْ لَهُ» سير أعلام النبلاء (٣٥/ ٣٨)

اسی طرح ميزان الاعتدال میں فرماتے ہیں: قلت: ليس بحجة. ميزان الاعتدال(۳/۵۵۷)

اور حافظ ابن حجر العسقلانی بھی فرماتے ہیں : قلت: ليس بحجة . لسان الميزان (۵/۳۰۲)

اسی طرح اس کی سند میں أبو سعيد بن الحرفي بھی مجہول ہے۔

لہذا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے یہ قول ثابت نہیں۔

ایک انٹرویو میں ایک سائل نے ٹائیٹک میں ڈوبنے والوں کے سارےکےسارے نام بتا دیئے ، انٹرویو لینے والے ، مردہ ضمیر بے شرم اوربےحیا نے اگلا سوال کر ڈالا کہ " ڈوبنے والوں کے شناختی کارڈ کے نبمرز بتائو
جس جہاز کی آپ بات کر رہے ہو اس کا نام ٹائیٹک نہیں ٹائٹینک تھا اور اس میں تقریبا ۱۵۰۰ سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی لہذا یہ بات محل نظر ہے کہ ایک سائل ۱۵۰۰ سے زیادہ لوگوں کے نام ایک انٹرویو میں بتا دے!!! بہرحال یہ بات موضوع سے متعلق نہیں۔

" امت کےلیئے " امام احمد بن حنبل " ایک حٗجت کے طور پےکافی ہے اور انہیں مانا بھی جاتاہے
اگر آپ کے نزدیک امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ حجت کے طور پر کافی ہے تویہاں الموضوعات سے امام احمد کی طرف منسوب جعلی روایت نقل کرنے سے بہتر ہے خود امام احمد رحمہ اللہ کی فضائل صحابہ اٹھا کر دیکھو انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں پورا باب قائم کیا ہے۔

1692398689391.png

1692398916354.png


اور سیدنا علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں امام اہل السنۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کیا کہتے ہیں یہ بھی ملاحظہ فرمائیں:

قال الخلال: «أخبرنا أبو بكر المروزي قال: قيل لأبي عبد الله ونحن بالعسكر وقد جاء بعض رسل الخليفة وهو يعقوب، فقال: «يا أبا عبد الله، ما تقول فيما كان من علي ومعاوية رحمهما الله؟».فقال أبو عبد الله: «ما أقول فيها إلا الحسنى رحمهم الله أجمعين» السنة (٢/ ٤٦٠)، وإسناده صحيح.
 
Top