• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی پاک ﷺ کی وفات پہ عیسائی و دہریہ شبہات کا ازالہ

شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
ویسے تو مسیحی علماء اپنی عادت سے مجبور رہے ہیں اوربائبلى مسیح کی ذلت آمیز درد ناك موت پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمیشہ وہ رسول اکرم کی باعزت زندگی اورقابل رشك جرات آميزقبول وفات پر اسلامی تاریخ و سیرت و حدیث کی کتابوں سے سیاق و سباق کو حذف کرکے اور متن میں خیانت کرکے دل پسند موقف نکالنے کی ہمیشہ ناکام کوشش فرماتے رہتے ہیں لیکن یہ کم ظرف اتنا نہیں سمجھ پاتے کہ پوری بائبل پڑھ لی جائے اور مسیح کی زندگی کے پچاس روز کو ترتیب سے لکھنے کی کوشش کی جائے تو اتنا نہیں لکھا جاسکتا جتنا خود قران نے مسیح اور مریم کے متعلق بیان کردیا ہے
جب کہ ہمارے رسول اکرم کی پوری زندگی کا ہر ہر پہلو عیاں را چہ بیان ہے لهذا
ہماری آج تک یہ بات سمجھ نا آسکی رسول اکرم کی موت کو گھناؤنا بناکر پیش کرنے سے مسیحیت کی یا دہریت کی کون سی ترقی ممکن ہے ما سوا اس کے کہ خود کو فریب دیا جائے اور کچھ دیر کے لئے سادہ عوام کو مغالطہ اور جھانسہ دیا جائے
دنیا میں کوئی ہستی ایسی نہیں جس پہ کیچڑ نہ اچھالا گیا ہو حتی ٰ کہ سیدنا مریم کی پاکیزگی پہ بھی بہتان باندھا گیا لیکن اسلام نے ان کا بھی دفاع کیا اور حضرت عیسیٰ پر بھی بہتان لگائے گئے حتی ٰ کہ آپ کی امت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ آپ کو ذلت کی موت دی گئی جس پر بائبل کے ورق شاہد ہیں لیکن اسلام نے جس طرح ان کا دفاع کیا ہے ہر عاقل و بالغ اس بات کا ادراک رکھتا ہے ۔حال ہی میں فیس بک پر ایک مسيحى کذاب نے نبی پاک کے وصال باکمال پہ جاہلانہ طرز پر اعتراض کیے ہیں ان اعتراضات کی حقیقت کیا ہے اس پر ایک شعر ہے
مخلوق تو فنکار ہے اس درجہ کہ پل میں
سنگِ درِ کعبہ سے بھی اصنام تراشے
تو کون ہے اور کیا ہے ترا داغِ قبا بھی
لوگوں نے تو مریم پہ بھی الزام تراشے
اسلام کی اصل بنیاد قرآن و حدیث ہے اور اس کے ذریعے ہی ہم اپنے معاملات کا حل دیکھتے ہیں ۔لهذا دشمنان اسلام كى طرف سےاسلام كو نشانہ بناكر جو بھی اعتراض کیا جائے گا سب سے پہلے ہم قرآن و حدیث سے دلیل دیں گے پھر الزامی دلائل جو فریق مخالف کی دنيا سے ہیں وہ بھی دئے جائیں گے ان شاء اللہ ۔

اعتراض نمبر 1۔نبی پاک کا جسم مبارک تین دن پڑا رہا اور وہ یقینا گل سڑ گیا ہوگا کیونکہ عرب کا موسم گرم ہے اور یہ ذلت کی موت تھی ایک پیغمبر کو نہیں آ سکتی ۔تو سب سے پہلے ہم اسلامی نقطہ نطر سامنے رکھتے ہیں کہ اسلام انبیاء کے جسم کے بارے میں کیا کہتا ہے
(إنَّ اللهَ حرَّم على الأرضِ أن تأكلَ أجسادَ الأنبياءِ" (الحدیث

ترجمہ : بے شک اللہ تعالی نے مٹی پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔
1۔یہ تو اللہ نے مٹی پر حرام کیا ہے تو کیا دنیا میں تین دن ( جو کہ حقیقت نہیں ) سے جسم خراب ہو جائے گا ایسی سوچ احمقانہ ہے کہ قیامت تک تو جسم سلامت رہے لیکن تین دن میں خراب ہو جائے ۔
2۔اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا عیسائیت میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں ؟؟؟تو یقینا بائبل کے اندر یہ لکھا ہے کہ سیدنا مسيح کا جسد اطہر تین پہر سولی پہ اور تین دن تک زمین کے نیچے مردہ رہے لیکن جسم گلا سڑا نہیں بلکہ زندہ ہوگیا ۔( متی باب 27 )
اب کیا ہم یہ کہ سکتے ہیں کیا تین دن میں وہاں پر موجود کیڑے مکوڑوں نے اس جسم کے همراه کچھ تصرف وتعرض نہیں کيا ہوگا ؟؟؟اور موجوده مسيحيت کے نزدیک وہ تین دن بعد بطور معجزه زندہ بهى ہو گئے۔

الزامى سوال :
1- اگر تین دن ہوا میں لٹکے رہنے خون میں لت پت رہنے اور مٹی کے نیچے آنے کے باوجود بھی مسيحيو
ں كا رسول يابائبل كا خداوند مسيحيت جراثيم اور لاش سے خارج ہونے والى بدبو سے محفوظ رہ سكتاہے تو فقط 36 گھنٹے وه بهى غسل وكفن كے بعد ايك دوسرا نبی بغير قبر ودفن ہو تواعتراضات كى كوئى تك بنتى ہے جب كہ من وعن يهى ماجرا مسيحى رسول يا مسيحي خداوند كےساتھ بهى رونما ہوچكا ہو؟؟؟
2- ہم موصوف پادری سےلگےہاتھوں یہ بھی پوچھناچاہیں گےکہ کیا36 گھنٹے تک کسی انسان کابغیرکسی قبروکفن دفن کےرہناانسانیت کی تذلیل ہے؟؟؟
اوروہ بھی اس وقت جب اس کےقریبی رشتےداراوراس کےچاہنےوالےراضی بھی ہوں اوراس کی آخری زیارت اورالوداعی رخصتی سے پہلےاپنی آخری رسم عبادت اداکرناچاہتےہوں تب کسی معقول مزاج بنده کواعتراض کرنےکاکوئی پہلوباقی بچتاہے؟؟؟
3-پھر مزید ترقی کرکے سوچئے اگرکوئی ایسی شخصیت ہوجوہزاروں مسلمانوں کی دل وجان اور كل جہان اورمرجع عقیدت ومحور احترام ہوتوکیاانسانی فطرت اورمحبت کاتقاضا یہ نہیں بنتاکہ اپنےمحبوب کواس دنیا سےرخصت کرنےسےپہلےجی بھرکراس کا آخرى دیداراوراس کی نمازجنازہ حسب سہولت اداکرلی جائے
اب اگراس آخرى دیدار اورنمازجنازہ کےدرمیان اگرتدفین سے پہلے36 گھنٹے تاخیرہوئى تواس سےکون سى قیامت آگئی؟؟؟
جب کہ اس تاخیرکی وجہ بھی معقول تھی اورنعش کومنگل کےدن ہی غسل دےدیاگیاتھا
لہذاہمارےفیس بوکی واسکوڈی گاما"المعروف پاؤلودھنڈلکو"کایہ کہناکہ "موت کےبعد اتنامرتبہ کسی اورنبی کونصیب نہیں ہوا "-یہ ان کی پولس رسول سےملنےوالی جہالت کااعلی درجےکانمونہ ہے-
کیونکہ ہم نےاوپرالزامی جواب دیتےہوئےبائبل کےحوالہ جات سےثابت کردیاکہ اگر36 گھنٹے کسی نبی کی لاش کا بغیرکفن ودفن کےرہنا توہین نبوت ہے

توہمارےپولیسی مسیحیوں كااپنےاس خداکےمتعلق کیاخیال ہےجس كو خون میں لہولہان کرکے پوری شرافت سے سولی پرلٹکا دیا گیااورتین دن قبرمیں ٹھونک کررکھا گیا پھراسےرحم کھاکر دوبارہ باہرآنا پڑا؟؟؟
اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں- صحابہ کی تعداد اس وقت کم سے کم وہاں موجود بیس ہزار ضرور ہوگی اور وہ دس دس کی تعداد میں آکرفردافردا نمازہ جنازہ پڑھتے تھے اورعقلا یہ ممکن ہی نہیں کہ بعد از غسل نعش رسول کفن کے بغیر پڑی رہی هو کیونکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی صحابہ کی جماعت ضرور جنازہ پڑھ رہی ہوتی اور حجرہ عائشه میں جگہ بهى تنگ تھی ۔
جن کتابوں کا حوالہ دیا گیا اگر ان کو ہی پڑھ لیا جاتا تو بات سمجھ آجاتی ۔ نبی پاک کو 36 گھنٹے بعد دفن کیا گیا کیونکہ سوموار کو دن میں فوت ہوئے اور بدھ کی رات یعنی منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو جو کہ 36 گھنٹے ہی بنتے ہیں یہ عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ پہلے روزہ کی تراویح اس سے پہلے رات کو پڑھی جاتی ہے کیونکہ قمری حساب سے رات پہلے آتی ہے ۔
1۔"سیرۃ حلبیہ" کا جو سکین لگایا گیا ہے اس میں واضح ہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب لیکن اس کے باوجود بھی مسيحى پادری کو یہ سمجھ نہ آئی ۔ سوموار دن منگل دن اور بدھ کی رات جو دراصل منگل کے بعد مغرب سے شروع ہوتی ہے ۔
2۔"تاریخ ابن کثیر" کا حوالہ میں حد درجہ "شريفانہ بےایمانی" دكهائى نیچے لکھا ہے کہ یہ تین دن والا قول عجیب اور غلط ہے اس كو نقل كرنا بهى مناسب نا سمجها لیکن برا ہو اس دھوکہ دہی کا لیکن یہ دھوکہ دہی تو ان کو ان کے حواریوں سے ملی ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ کی بھی جاسوسی کی ۔
3۔" دلائل النبوة" کا حوالہ بھی وہی ہے جس کا جواب تاریخ ابن کثیر میں دیا گیا ہے کہ یہ قول غلط ہے
4۔" سیرت ابن ہشام" میں تین دن کا لکھا ہی نہیں بلکہ اس میں وہی بات ہے جو اوپر بیان ہوئی
5"۔ تاریخ ابن خلدون"کے حوالہ میں ہے کہ"" بعض کہتے ہیں لکھا گیا ہے کہ تین دن تک بے گورو کفن رہے " پادری نے یہاں یہودیوں کی طرح آ دھی عبارت لکھی اس عبارت سے پہلے والے لفظ ملاحظہ کریں " منگل کے دن دوپہر کے بعد دفن کیا گیا جیسا کہ معتبر تواریخ و سیر میں ہے کہ دفن کیے گئے اگلے دن دوپہر کے وقت بروز منگل اور یہی زیادہ صحیح ہے "" اس کے بعد موصوف پادری جى كى نقل كرده عبارت ہے
" جس میں لکھا ہے كہ" بعض کہتے ہیں اور اس کا جواب بھی اسی صفحہ پر دیا کہ" یہ غلط ہے اور آپ ایک دن اور رات کے بعد دفن ہوئے " یعنی 36 گھنٹے ۔
اور اس کے علاوہ اس "بعض" کا جواب تاریخ ابن کثیر میں دیا گیا ہے۔
اسی طرح اگر " بعض" کی بات کو دلیل سمجھا جائے تو بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ مریم نے نعوذ باللہ زنا کیا تو کیا یہ بعض مجهول افراد كا قول بھی مسيحي علماء كو قبول ہے ؟؟؟ فما هوا جوابكم فهو جوابنا
6۔ "البدایہ والنہایہ" کا صفحہ ہماری بات یعنی 36 گھنٹے کے ساتھ متفق ہے اور ان کی بات اوپر واضح ہو چکی ۔ یہ ہے حقیقت ان دلائل کی
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86

Pavlo Dondokha
نامی آئی ڈی کی طرف سے جو دھوکہ و خیانت کی گئی وہ سب پہ عیاں ہو چکی ہے ۔
یہ تو تھا ہمارا عقلی و نقلی جواب جس میں ہم نے یہ ثابت کیا کہ انبیاء کے اجسام پہ مٹی قیامت تک حرام ہے اور بے گور و کفن تین دن تک رکھا گیا اس کا جواب


اس مضمون کے زریعے
Pavlo Dondokha
یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ رسول اکرم کی وفات کے بعد صحابہ دنیا اور خلافت کے چکر میں ایسے مست ہوگئے کہ رسول اکرم کی لاش مبارک کو دفنانے کا خیال ذہن میں نا رہا اور آپ کی لاش تین دن تک ایسے ہی پڑی رہی اس مضمون کے اندر موصوف نے مختلف سیرت پر مبنی اسلامی کتابوں سے مرضی کا اسکین پیجیس لیا ہے اور آگے پیچھے کی عبارت جس سے اس کا مدعا اور دعوى کمزور پڑتا تھا اسے شربت روح افزاء سمجھ کر نوش كرليا ہے اب چونکہ اس مضمون کا ردکرنے کے لئے ان ساری کتابوں کو مع سياق سباق ديكهنا ضرورى تها –سووه كام بهى هم نے كرديا الحمدلله
اور اب ہم ذرا بائبل سے مسیح کی موت کا نقشہ بیان کرتے ہیں یاد رہے جو اس دشمن مسيحيت نام نهاد فيس بوكى "مجاهد صليب " کی طرف سے دلائل دئے گئے وہ عام تاریخ کی کتابوں سے ہیں لیکن جو ہم دے ر ہے ہیں وہ موجوده مسيحيت کی" منزل من اللہ" بائبل مقدس" سے ہیں
ذرا ملاحظہ کریں کہ ہمارے نبی پر بھونکنے والوں کا اپنے نبی يا خدا سے کیا سلوک رہا ہے ۔
1۔ مسيح کا صلیب اٹھانا اور منہ پہ تھوکا جانا ( انجیل متی باب 27 آیت 30،31)
2۔ کانٹوں کا تاج پہنایا جانا ( انجیل متی باب 27 آیت 28)
3۔ صلیب اٹھانے میں مدد کی جاتی ہے( انجیل متی باب 27 آیت 32)
4۔ ڈاکوؤں کے ساتھ مصلوب ہونا ( انجیل متی باب 27 آیت 38 )
5۔ لڑکیوں کو حوصلہ دینا ( لوقا با ب 23 آیت 28 ، 29 )
6۔کپڑے اتار لیے جاتے ہیں اور ان کا قرعہ کر کے بانٹا جاتا ہے (لوقا باب 23 آیت 35 )
7۔ چیخ چیخ کر جان دینا ( متی باب 27 آیت 51 )
8۔ مرنے کے بعد صلیب پہ لٹکے رہے ( متی باب 27 آیت 50۔57)
9۔ تین دن تک قبر میں زمین کے نیچے رہنا ( متی باب 27 )

یہ تو تھی ان عقل دشمن مسيحيوں کے نزديك اپنے خدا کی عزت اور ان کے نزدیک بدترین موت ہوئی مسيح کو تو جو خدواند كو مصلوب صليب بناديں
کیا وہ نبی پاک عليه الصلوة والسلام پر طعن نہیں کریں گے ۔؟؟؟
اتنی ذلت کی موت مسيحیوں کے بائبل كے بقول بائبلى خدايا نبى مسيح کو آئی
لیکن یہاں مسيحى مجاہدين وجانثاران صليب كو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔
تین دن تك زنده زمین کے نیچے سے بغير آب وهوا ره كر دوباره ان كا جسم زندہ ہو کر نکلے (متی باب 27 )
لیکن اس کے مقابل اگر 36 گھنٹےرسول اكرم كى نعش مبارك وه بهى غسل اور خوشبو کفن اور ہوا کی موجودگی میں تو طعن -

وجوهات تاخير تكفين وتدفين
1- اس سبب سے كيونكہ حضرت عائشہ رضى الله عنها كا كمره انتهائى تنگ تها
نبى كا انتقال جس جگہ ہوتا ہـے اس كو اسى جگہ دفن كيا جاتا ہــےـ (الحديث) -2
3-نبى كى ذات بابركات عند المسلمين مرجع عقيدت اور احترام تهى ہرفرد آخرى ديدار كا متمنى تها اور انفرادى طور پر دس دس افراد كا كمره ميں جاكر انفرادى نماز جنازه ادا كرنا ايك طويل وقفہ كا طالب تها تاكہ بحسن وخوبى تدفين كا مرحلـہ طےہو
غسل دے کر نعش رسول صحابہ كى آخرى زيارت اور بارى بارى آكر دس دس افراد كى شكل ميں نماز جنازه ادا كرنا بهر حال ايك لمبےوقت كا متقاضى تها جوكه 36 گھنٹے كے اندر مكمل ہوا – جب كہ بخارى شريف اوربعض سيرت النبى كى كتب كے مطابق بروز منگل كو ہى رسول اكرم كو غسل ديا جارہا تهااور نعش كو كفن بهى دے ديا تها۔

اب نعش رسالت بالفرض غسل اوركفن كے بعد مكمل حراست ورعايت ميں دو دن يا تين دن زمین کے اوپر بهى ہو تو دنیائے مسيحيت کی طرف سےجو اودھم كود مچایا جاتا ہےوه كم از كم مسيحيت كے خدااور مسيحيت كے نبى كے ساتھ كى جانے والى توہين كے مقابلے تين دن تاخير كےساتھ تكفين وتدفين كى آخرى الوداعى ورخصتى ميں انسانيت اور محبت اور حق دوستى كے جذبات بدرجها زياده بلند نظر آتے ہيں جو كہ بائبلى مسيح كو ان كے جانثار اصحاب كى طرف سے خراج عقيدت كے طور پر بهى موصول نا ہوسكا
تحرير وترتيب از قلم:سوئے مقتل
نظر ثانى واضافه :- سالم فريادى غفر الله له

 
Top