Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان اور غیر رمضان میں رات کو نماز پڑھنا
حدیث نمبر : 1147
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه أخبره أنه، سأل عائشة ـ رضى الله عنها ـ كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فقالت ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، قالت عائشة فقلت يا رسول الله أتنام قبل أن توتر. فقال " يا عائشة، إن عينى تنامان ولا ينام قلبي".
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؒ نے خبر دی، انہیں سعید بن ابو سعید مقبری نے خبر دی، انہیں ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں ( رات کو ) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( رات میں ) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہو تایا کوئی اور۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
تشریح : ان ہی گیارہ رکعتوں کو تراویح قرار دیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان اور غیر رمضان میں بروایات صحیحہ یہی گیارہ رکعات ثابت ہیں۔ رمضان شریف میں یہ نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیر رمضان میں تہجد کے نام سے پکاری گئی۔ پس سنت نبوی صرف آٹھ رکعات تراویح اس طرح کل گیارہ رکعات ادا کرنی ثابت ہیں۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے مزید وضاحت ہوتی ہے۔
عن جابر رضی اللہ عنہ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات والوتر علامہ محمد بن نصر مروزی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھادیا ( یعنی کل گیارہ رکعات )
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماکان یزیدفی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہوگئی ہے کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے تراویح کے بارے میں نہیں۔ لہذا معلوم ہو اکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ دو نمازیں قائم نہیں کیں وہی قیام رمضان ( تراویح ) یا بالفاظ دیگر تہجد گیارہ رکعت پڑھتے اور قیام رمضان ( تراویح ) کو حدیث شریف میں قیام اللیل ( تہجد ) بھی فرمایا ہے۔
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تراویح پڑھا کر فرمایا“مجھ کو خوف ہو اکہ تم پر صلوۃ اللیل ( تہجد ) فرض نہ ہو جائے ” دیکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کو تہجد فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں قیام رمضان ( تراویح ) اور صلوۃ اللیل ( تہجد ) ایک ہی نماز ہے۔
تراویح وتہجد کے ایک ہونے کی دوسری دلیل!
عن ابی ذر قال صمنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان فلم یقم بنا شیئا منہ حتی بقی سبع لیال فقام بنا لیلۃ السابعۃ حتی مضی نحو من ثلث اللیل ثم کانت اللیلۃ السادسۃ التی تلیھافلم یقم بنا حتی کانت خامسۃ التی تلیھا قام بنا حتی مضی نحو من شطر اللیل فقلت یا رسول اللہ لو نفلتنا بقیۃ لیلتنا ھذہ فقال انہ من قام مع الامام حتی ینصرف فانہ یعدل قیام اللیلۃ ثم کانت الرابعۃ التی تلیھا فلم یقمھا حتی کانت الثالثۃ التی تلیھا قال فجمع نسائہ واھلہ واجتمع الناس قال فقام بنا حتی خشینا ان یفوتناالفلاح قیل وما الفلاح قال السحور ثم لم یقم بنا شیئا من بقیۃ الشھر رواہ ابن ماجہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے رمضان کے روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو آخر کے ہفتہ میں تین طاق راتوں میں تراویح اس ترتیب سے پڑھائیں کہ پہلی رات کو اول وقت میں، دوسری رات کو نصف شب میں، پھر نصف بقیہ سے۔ سوال ہواکہ اور نماز پڑھائیے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کا پوری رات کا قیام ہوگا۔ پھر تیسری رات کو آخر شب میں اپنے اہل بیت کو جمع کر کے سب لوگوں کی جمعیت میں تراویح پڑھائیں، یہاں تک کہ ہم ڈرے کہ جماعت ہی میں سحری کا وقت نہ چلا جائے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور بخاری شریف میں یہ حدیث مختصر لفظوں میں کئی جگہ نقل ہوئی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے اسی ایک نماز تراویح کو رات کے تین حصوں میں پڑھایا ہے اور اس تراویح کا وقت بعد عشاءکے اخیر رات تک اپنے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے بتادیا۔ جس میں تہجد کا وقت آگیا۔ پس فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو گیا کہ بعد عشاءکے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔
نیز اس کی تائید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا والتی تنامون عنھا افضل من التی تقومون“یہ تراویح پچھلی شب میں کہ جس میں تم سوتے ہو پڑھنا بہتر ہے اول وقت پڑھنے سے ”معلوم ہوا کہ نماز تراویح وتہجد ایک ہی ہے اور یہی مطلب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا ہے۔
نیز اسی حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے کہ باب فضل من قام رمضان اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث مذکور پر یوں باب منعقد کیا ہے باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان اوراسی طرح امام محمد رحمہ اللہ شاگرد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے باب قیام شہررمضان کے تحت حدیث مذکور کو نقل کیا ہے۔ ان سب بزرگوں کی مراد بھی حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے تراویح ہی ہے اور اوپر مفصل گزر چکا کہ اول رات سے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔ اب رہا کہ ان تین راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھائی تھیں؟ سو عرض ہے کہ علاوہ وتر آٹھ ہی رکعتیں پڑھائی تھیں۔ اس کے ثبوت میں کئی روایات صحیحہ آئی ہیں جو ہدیہ ناظرین ہیں۔
علماءوفقہائے حنفیہ نے فرمادیا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے!
( 1 ) علامہ عینی رحمہ اللہ عمدہ القاری ( جلد:3 ص:597 ) میں فرماتے ہیں: فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورۃ عدد الصلوۃ التی صلھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت رواہ ابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر “اگر تو سوال کرے کہ جو نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں”۔
( 2 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ( جلد:1 ص:597 ) میں فرماتے ہیں کہ لم اری فی شئی من طرقہ بیان عدد صلوتہ فی تلک اللیالی لکن رواہ ابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر “ میں نے حدیث مذکورہ بالا کی کسی سند میں یہ نہیں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین راتوں میں کتنی رکعت پڑھائی تھیں۔ لیکن ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعت پڑھائی تھیں۔
( 3 ) علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ ( جلد :1ص: 293 ) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ عند ابن حبان فی صحیحہ عن جابر ابن عبد اللہ انہ علیہ الصلوۃ والسلام صلی بھم ثمان رکعات والوتر ابن حبان نے نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے یعنی کل گیارہ رکعات۔
( 4 ) امام محمد شاگرد امام اعظم رحمہما اللہ اپنی کتاب مؤطا امام محمد ( ص:93 ) میں باب تراویح کے تحت فرماتے ہیں عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن انہ سال عائشۃ کیف کانت صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالت ما کان رسول اللہ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدیٰ عشرۃ رکعۃ ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کیونکر تھی تو بتلایا رمضان وغیررمضان میں آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ رمضان وغیر رمضان کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔ پھر امام محمد رحمہ اللہ اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں محمد وبھذا ناخذ کلہ یعنی ہمارا بھی ان سب حدیثوں پر عمل ہے،ہم ان سب کو لیتے ہیں۔
( 5 ) ہدایہ جلد اول کے حاشیہ پر ہے السنۃ ما واظب علیہ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحسب فعلی ھذا التعریف یکون السنۃ ھو ذلک القدر المذکور وما زاد علیہ یکون مستحبا سنت صرف وہی ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو۔ پس اس تعریف کے مطابق صرف مقدار مذکور ( آٹھ رکعت ہی ) سنت ہوگی اور جو اس سے زیادہ ہو وہ نماز مستحب ہوگی۔
( 6 ) امام ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں فتحصل من ھذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدیٰ عشرۃ رکعۃ با لوتر فی جماعۃ فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کا قیام ( تراویح ) سنت مع وتر گیارہ رکعت با جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے ثابت ہے۔
( 7 ) علامہ ملا قاری حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں: ان التراویح فی الاصل احدیٰ عشرۃ رکعۃ فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر در اصل تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے۔ جن کو آپ نے پڑھا بعد میں عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
( 8 ) مولانا عبد الحی حنفی لکھنؤی رحمہ اللہ تعلیق الممجد شرح مؤطا امام محمد میں فرماتے ہیں واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی بھم ثمان رکعات ثم اوتر وھذا اصح اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ یہ حدیث بہت صحیح ہے۔
ان حدیثوں سے صاف ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعت تراویح پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ جن روایات میں آپ کا بیس رکعات پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں۔
صحابہ رضی اللہ عنہ اور صحابیات رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آٹھ رکعت تراویح پڑھنا!
( 9 ) امام محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جاءابی ابن کعب فی رمضان فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اللیلۃ شئی قال وما ذاک یا ابی قال نسوۃ داری قلن انا لا نقرءالقرآن فنصلی خلفک بصلوتک فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر فسکت عنہ شبہ الرضاء ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج رات کو ایک خاص بات ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابی! وہ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھتی ہیں اس لیے تمہارے پیچھے نماز ( تراویح ) تمہاری اقتدا میں پڑھیں گی۔ تو میں نے ان کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھا دیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت فرمایا۔ گویا اس بات کو پسند فرمایا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے زمانہ میں آٹھ رکعت ( تراویح ) پڑھتے تھے۔
حضرت عمر خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کی نماز تراویح مع وتر گیارہ رکعت!
( 10 ) عن سائب ابن یزید قال امرعمر ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما للناس فی رمضان احدیٰ عشرۃ رکعۃ الخ سائب بن یزید نے کہا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیاکہ رمضان شریف میں لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں ( مؤطا امام مالک )
واضح ہواکہ آٹھ اور گیارہ میں وتر کا فرق ہے اور علاوہ آٹھ رکعت تراویح کے وتر ایک تین اور پانچ پڑھنے حدیث شریف میں آئے ہیں اور بیس تراویح کی روایت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں اور جو روایت ان سے نقل کی جاتی ہے وہ منقطع السند ہے۔ اس لیے کہ بیس کا راوی یزید بن رومان ہے۔ اس نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ چنا نچہ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ وعلامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ عمدۃالقاری اور نصب الرایہ میں فرماتے ہیں کہ یزید ابن رومان لم یدرک عمر“یزید بن رومان نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا” اور جن لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہے ان کی روایات باتفاق گیارہ رکعت کی ہیں، ان میں حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔
اور حضرت اعرج ہیں جو کہتے ہیں کان القاری یقرءسورۃ البقرۃ فی ثمان رکعات قاری سورہ بقرہ آٹھ رکعت میں ختم کرتا تھا ( مؤطا امام مالک ) فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب وتمیم داری اور سلیمان بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہم کو مع وتر گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا ( مصنف ابن ابی شیبہ ) غرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہے۔ لہٰذا علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاءالراشدین سے بھی گیارہ پر عمل کرنا ثابت ہوا۔
فقہاءسے آٹھ کا ثبوت اور بیس کا ضعف!
( 11 ) علامہ ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح ہدایہ ( جلد:1ص:205 ) میں فرماتے ہیں بیس رکعت تراویح کی حدیث ضعیف ہے۔ انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ ابن عبد الرحمن انہ سال عائشۃ الحدیث علاوہ بریں یہ ( بیس کی روایت ) صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہ پڑھتے تھے۔
( 12 ) شیخ عبد الحق صاحب حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ فتح سرالمنان میں فرماتے ہیں ولم یثبت روایۃ عشرین منہ صلی اللہ علیہ وسلم کما ھو المتعارف الان الا فی روایۃ ابن ابی شیبۃ وھو ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ وھو حدیث صحیح جو بیس تراویح مشہور ومعروف ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور جو ابن ابی شیبہ میں بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے ( جس میں مع وتر گیارہ رکعت ثابت ہیں )
( 13 ) شیخ عبد الحق حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ماثبت با لسنۃ ( ص:217 ) میں فرماتے ہیں والصحیح ما روتہ عائشۃ انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی احدیٰ عشرۃ رکعۃ کماھو عادتہ فی قیام اللیل وروی انہ کان بعض السلف فی عھد عمر ابن عبد العزیز یصلون احدیٰ عشرۃ رکعۃ قصدا تشبیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح حدیث وہ ہے جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے کہ آپ گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعض سلف امیر المومنین عمر بن عبد العزیز کے عہد خلافت میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے مشابہت پیدا کریں۔
اس سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب رحمہ اللہ خود آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے اور سلف صالحین میں بھی یہ مشہور تھا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ خود جناب پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت تراویح پڑھیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو پڑھائیں۔ نیز ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مع وتر گیارہ رکعت تراویح پڑھنے کا حکم تھا اور لوگ اس پر عمل کرتے تھے نیز حضرت عمر بن عبد العزیز کے وقت میں لوگ آٹھ رکعت تراویح پرسنت رسول سمجھ کر عمل کرتے تھے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ نے بھی مع وتر گیا رہ رکعت ہی کو سنت کے مطابق اختیار کیا ہے، چنانچہ
( 14 ) علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احدیٰ عشرۃ رکعۃ وھو اختیار مالک لنفسہ “گیارہ رکعت کو امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے لیے اختیار کیا ہے ”۔
اسی طرح فقہاءوعلماءمثل علامہ عینی حنفی، علامہ زیلعی حنفی، حافظ ابن حجر، علامہ محمد بن نصر مروزی، شیخ عبدا لحی صاحب حنفی محدث دہلوی، مولانا عبد الحق حنفی لکھنؤی رحمہم اللہ وغیرہم نے علاوہ وتر کے آٹھ رکعت تراویح کو صحیح اور سنت نبوی فرمایا ہے جن کے حوالے پہلے گزر چکے۔ اور امام محمدشاگرد رشید امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تو فرمایا کہ وبھذا ناخذ کلہ“ہم ان سب حدیثوں کو لیتے ہیں” یعنی ان گیارہ رکعت کی حدیثوں پر ہمارا عمل ہے۔ فالحمد للہ کہ مع وتر گیارہ رکعت تراویح کی مسنونیت ثابت ہوگئی۔
اس کے بعد سلف امت میں کچھ ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو بیس رکعات اور تیس رکعات اور چالیس رکعات تک بطور نفل نماز تراویح پڑھا کرتے تھے لہٰذا یہ دعویٰ کہ بیس رکعات پر اجماع ہوگیا، باطل ہے۔ اصل سنت نبوی آٹھ رکعت تراویح تین وتر کل گیارہ رکعات ہیں۔ نفل کے لیے ہر وقت اختیار ہے کوئی جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے۔ جن حضرات نے ہر رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کو خلاف سنت کہنے کا مشغلہ بنا لیا ہے اور ایسا لکھنا یا کہنا ان کے خیال میں ضروری ہے وہ سخت غلطی میں مبتلا ہیں بلکہ اسے بھی ایک طرح سے تلبیس ابلیس کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی سب کونیک سمجھ عطاکرے۔ آمین۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جو رات کے نوافل چار چار رکعت ملا کر پڑھنا افضل کہا ہے، وہ اسی حدیث سے دلیل لیتے ہیں۔ حالانکہ اس سے استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار چار کے بعد سلام پھیرتے۔ ممکن ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ( دو سلام کے ساتھ ) بہت لمبی پڑھتے ہوں پھر دوسری چار رکعتیں ( دو سلاموں کے ساتھ ) ان سے ہلکی پڑھتے ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح ان چار چار رکعتوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ چار رکعتوں کا ایک سلام کے ساتھ پڑھنا مراد ہو۔ اسی لیے علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ واما ما سبق من انہ کان یصلی مثنی مثنی ثم واحدۃ فمحمول علی وقت اخر فالامران جائزان یعنی پچھلی روایات میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو دو رکعت پڑھنا مذکور ہوا ہے۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھنا تو وہ دوسرے وقت پر محمو ل ہے اور یہ چار چار کر کے پڑھنا پھر تین وتر پڑھنا دوسرے وقت پر محمول ہے اس لیے ہر دو امر جائز ہیں۔
حدیث نمبر : 1148
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى بن سعيد، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ في شىء من صلاة الليل جالسا، حتى إذا كبر قرأ جالسا، فإذا بقي عليه من السورة ثلاثون أو أربعون آية قام فقرأهن ثم ركع.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی کسی نماز میں بیٹھ کر قرآن پڑھتے نہیں دیکھا۔ یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہوگئے تو بیٹھ کر قرآن پڑھتے تھے لیکن جب تیس چالیس آیتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہو جاتے پھر اس کو پڑھ کر رکوع کرتے تھے۔
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان اور غیر رمضان میں رات کو نماز پڑھنا
حدیث نمبر : 1147
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه أخبره أنه، سأل عائشة ـ رضى الله عنها ـ كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فقالت ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، قالت عائشة فقلت يا رسول الله أتنام قبل أن توتر. فقال " يا عائشة، إن عينى تنامان ولا ينام قلبي".
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؒ نے خبر دی، انہیں سعید بن ابو سعید مقبری نے خبر دی، انہیں ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں ( رات کو ) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( رات میں ) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہو تایا کوئی اور۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
تشریح : ان ہی گیارہ رکعتوں کو تراویح قرار دیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان اور غیر رمضان میں بروایات صحیحہ یہی گیارہ رکعات ثابت ہیں۔ رمضان شریف میں یہ نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیر رمضان میں تہجد کے نام سے پکاری گئی۔ پس سنت نبوی صرف آٹھ رکعات تراویح اس طرح کل گیارہ رکعات ادا کرنی ثابت ہیں۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے مزید وضاحت ہوتی ہے۔
عن جابر رضی اللہ عنہ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات والوتر علامہ محمد بن نصر مروزی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھادیا ( یعنی کل گیارہ رکعات )
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماکان یزیدفی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہوگئی ہے کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے تراویح کے بارے میں نہیں۔ لہذا معلوم ہو اکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ دو نمازیں قائم نہیں کیں وہی قیام رمضان ( تراویح ) یا بالفاظ دیگر تہجد گیارہ رکعت پڑھتے اور قیام رمضان ( تراویح ) کو حدیث شریف میں قیام اللیل ( تہجد ) بھی فرمایا ہے۔
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تراویح پڑھا کر فرمایا“مجھ کو خوف ہو اکہ تم پر صلوۃ اللیل ( تہجد ) فرض نہ ہو جائے ” دیکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کو تہجد فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں قیام رمضان ( تراویح ) اور صلوۃ اللیل ( تہجد ) ایک ہی نماز ہے۔
تراویح وتہجد کے ایک ہونے کی دوسری دلیل!
عن ابی ذر قال صمنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان فلم یقم بنا شیئا منہ حتی بقی سبع لیال فقام بنا لیلۃ السابعۃ حتی مضی نحو من ثلث اللیل ثم کانت اللیلۃ السادسۃ التی تلیھافلم یقم بنا حتی کانت خامسۃ التی تلیھا قام بنا حتی مضی نحو من شطر اللیل فقلت یا رسول اللہ لو نفلتنا بقیۃ لیلتنا ھذہ فقال انہ من قام مع الامام حتی ینصرف فانہ یعدل قیام اللیلۃ ثم کانت الرابعۃ التی تلیھا فلم یقمھا حتی کانت الثالثۃ التی تلیھا قال فجمع نسائہ واھلہ واجتمع الناس قال فقام بنا حتی خشینا ان یفوتناالفلاح قیل وما الفلاح قال السحور ثم لم یقم بنا شیئا من بقیۃ الشھر رواہ ابن ماجہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے رمضان کے روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو آخر کے ہفتہ میں تین طاق راتوں میں تراویح اس ترتیب سے پڑھائیں کہ پہلی رات کو اول وقت میں، دوسری رات کو نصف شب میں، پھر نصف بقیہ سے۔ سوال ہواکہ اور نماز پڑھائیے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کا پوری رات کا قیام ہوگا۔ پھر تیسری رات کو آخر شب میں اپنے اہل بیت کو جمع کر کے سب لوگوں کی جمعیت میں تراویح پڑھائیں، یہاں تک کہ ہم ڈرے کہ جماعت ہی میں سحری کا وقت نہ چلا جائے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور بخاری شریف میں یہ حدیث مختصر لفظوں میں کئی جگہ نقل ہوئی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے اسی ایک نماز تراویح کو رات کے تین حصوں میں پڑھایا ہے اور اس تراویح کا وقت بعد عشاءکے اخیر رات تک اپنے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے بتادیا۔ جس میں تہجد کا وقت آگیا۔ پس فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو گیا کہ بعد عشاءکے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔
نیز اس کی تائید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا والتی تنامون عنھا افضل من التی تقومون“یہ تراویح پچھلی شب میں کہ جس میں تم سوتے ہو پڑھنا بہتر ہے اول وقت پڑھنے سے ”معلوم ہوا کہ نماز تراویح وتہجد ایک ہی ہے اور یہی مطلب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا ہے۔
نیز اسی حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے کہ باب فضل من قام رمضان اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث مذکور پر یوں باب منعقد کیا ہے باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان اوراسی طرح امام محمد رحمہ اللہ شاگرد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے باب قیام شہررمضان کے تحت حدیث مذکور کو نقل کیا ہے۔ ان سب بزرگوں کی مراد بھی حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے تراویح ہی ہے اور اوپر مفصل گزر چکا کہ اول رات سے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔ اب رہا کہ ان تین راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھائی تھیں؟ سو عرض ہے کہ علاوہ وتر آٹھ ہی رکعتیں پڑھائی تھیں۔ اس کے ثبوت میں کئی روایات صحیحہ آئی ہیں جو ہدیہ ناظرین ہیں۔
علماءوفقہائے حنفیہ نے فرمادیا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے!
( 1 ) علامہ عینی رحمہ اللہ عمدہ القاری ( جلد:3 ص:597 ) میں فرماتے ہیں: فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورۃ عدد الصلوۃ التی صلھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت رواہ ابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر “اگر تو سوال کرے کہ جو نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں”۔
( 2 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ( جلد:1 ص:597 ) میں فرماتے ہیں کہ لم اری فی شئی من طرقہ بیان عدد صلوتہ فی تلک اللیالی لکن رواہ ابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر “ میں نے حدیث مذکورہ بالا کی کسی سند میں یہ نہیں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین راتوں میں کتنی رکعت پڑھائی تھیں۔ لیکن ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعت پڑھائی تھیں۔
( 3 ) علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ ( جلد :1ص: 293 ) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ عند ابن حبان فی صحیحہ عن جابر ابن عبد اللہ انہ علیہ الصلوۃ والسلام صلی بھم ثمان رکعات والوتر ابن حبان نے نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے یعنی کل گیارہ رکعات۔
( 4 ) امام محمد شاگرد امام اعظم رحمہما اللہ اپنی کتاب مؤطا امام محمد ( ص:93 ) میں باب تراویح کے تحت فرماتے ہیں عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن انہ سال عائشۃ کیف کانت صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالت ما کان رسول اللہ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدیٰ عشرۃ رکعۃ ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کیونکر تھی تو بتلایا رمضان وغیررمضان میں آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ رمضان وغیر رمضان کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔ پھر امام محمد رحمہ اللہ اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں محمد وبھذا ناخذ کلہ یعنی ہمارا بھی ان سب حدیثوں پر عمل ہے،ہم ان سب کو لیتے ہیں۔
( 5 ) ہدایہ جلد اول کے حاشیہ پر ہے السنۃ ما واظب علیہ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحسب فعلی ھذا التعریف یکون السنۃ ھو ذلک القدر المذکور وما زاد علیہ یکون مستحبا سنت صرف وہی ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو۔ پس اس تعریف کے مطابق صرف مقدار مذکور ( آٹھ رکعت ہی ) سنت ہوگی اور جو اس سے زیادہ ہو وہ نماز مستحب ہوگی۔
( 6 ) امام ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں فتحصل من ھذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدیٰ عشرۃ رکعۃ با لوتر فی جماعۃ فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کا قیام ( تراویح ) سنت مع وتر گیارہ رکعت با جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے ثابت ہے۔
( 7 ) علامہ ملا قاری حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں: ان التراویح فی الاصل احدیٰ عشرۃ رکعۃ فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر در اصل تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے۔ جن کو آپ نے پڑھا بعد میں عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
( 8 ) مولانا عبد الحی حنفی لکھنؤی رحمہ اللہ تعلیق الممجد شرح مؤطا امام محمد میں فرماتے ہیں واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی بھم ثمان رکعات ثم اوتر وھذا اصح اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ یہ حدیث بہت صحیح ہے۔
ان حدیثوں سے صاف ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعت تراویح پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ جن روایات میں آپ کا بیس رکعات پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں۔
صحابہ رضی اللہ عنہ اور صحابیات رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آٹھ رکعت تراویح پڑھنا!
( 9 ) امام محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جاءابی ابن کعب فی رمضان فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اللیلۃ شئی قال وما ذاک یا ابی قال نسوۃ داری قلن انا لا نقرءالقرآن فنصلی خلفک بصلوتک فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر فسکت عنہ شبہ الرضاء ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج رات کو ایک خاص بات ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابی! وہ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھتی ہیں اس لیے تمہارے پیچھے نماز ( تراویح ) تمہاری اقتدا میں پڑھیں گی۔ تو میں نے ان کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھا دیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت فرمایا۔ گویا اس بات کو پسند فرمایا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے زمانہ میں آٹھ رکعت ( تراویح ) پڑھتے تھے۔
حضرت عمر خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کی نماز تراویح مع وتر گیارہ رکعت!
( 10 ) عن سائب ابن یزید قال امرعمر ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما للناس فی رمضان احدیٰ عشرۃ رکعۃ الخ سائب بن یزید نے کہا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیاکہ رمضان شریف میں لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں ( مؤطا امام مالک )
واضح ہواکہ آٹھ اور گیارہ میں وتر کا فرق ہے اور علاوہ آٹھ رکعت تراویح کے وتر ایک تین اور پانچ پڑھنے حدیث شریف میں آئے ہیں اور بیس تراویح کی روایت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں اور جو روایت ان سے نقل کی جاتی ہے وہ منقطع السند ہے۔ اس لیے کہ بیس کا راوی یزید بن رومان ہے۔ اس نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ چنا نچہ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ وعلامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ عمدۃالقاری اور نصب الرایہ میں فرماتے ہیں کہ یزید ابن رومان لم یدرک عمر“یزید بن رومان نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا” اور جن لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہے ان کی روایات باتفاق گیارہ رکعت کی ہیں، ان میں حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔
اور حضرت اعرج ہیں جو کہتے ہیں کان القاری یقرءسورۃ البقرۃ فی ثمان رکعات قاری سورہ بقرہ آٹھ رکعت میں ختم کرتا تھا ( مؤطا امام مالک ) فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب وتمیم داری اور سلیمان بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہم کو مع وتر گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا ( مصنف ابن ابی شیبہ ) غرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہے۔ لہٰذا علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاءالراشدین سے بھی گیارہ پر عمل کرنا ثابت ہوا۔
فقہاءسے آٹھ کا ثبوت اور بیس کا ضعف!
( 11 ) علامہ ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح ہدایہ ( جلد:1ص:205 ) میں فرماتے ہیں بیس رکعت تراویح کی حدیث ضعیف ہے۔ انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ ابن عبد الرحمن انہ سال عائشۃ الحدیث علاوہ بریں یہ ( بیس کی روایت ) صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہ پڑھتے تھے۔
( 12 ) شیخ عبد الحق صاحب حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ فتح سرالمنان میں فرماتے ہیں ولم یثبت روایۃ عشرین منہ صلی اللہ علیہ وسلم کما ھو المتعارف الان الا فی روایۃ ابن ابی شیبۃ وھو ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ وھو حدیث صحیح جو بیس تراویح مشہور ومعروف ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور جو ابن ابی شیبہ میں بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے ( جس میں مع وتر گیارہ رکعت ثابت ہیں )
( 13 ) شیخ عبد الحق حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ماثبت با لسنۃ ( ص:217 ) میں فرماتے ہیں والصحیح ما روتہ عائشۃ انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی احدیٰ عشرۃ رکعۃ کماھو عادتہ فی قیام اللیل وروی انہ کان بعض السلف فی عھد عمر ابن عبد العزیز یصلون احدیٰ عشرۃ رکعۃ قصدا تشبیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح حدیث وہ ہے جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے کہ آپ گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعض سلف امیر المومنین عمر بن عبد العزیز کے عہد خلافت میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے مشابہت پیدا کریں۔
اس سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب رحمہ اللہ خود آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے اور سلف صالحین میں بھی یہ مشہور تھا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ خود جناب پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت تراویح پڑھیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو پڑھائیں۔ نیز ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مع وتر گیارہ رکعت تراویح پڑھنے کا حکم تھا اور لوگ اس پر عمل کرتے تھے نیز حضرت عمر بن عبد العزیز کے وقت میں لوگ آٹھ رکعت تراویح پرسنت رسول سمجھ کر عمل کرتے تھے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ نے بھی مع وتر گیا رہ رکعت ہی کو سنت کے مطابق اختیار کیا ہے، چنانچہ
( 14 ) علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احدیٰ عشرۃ رکعۃ وھو اختیار مالک لنفسہ “گیارہ رکعت کو امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے لیے اختیار کیا ہے ”۔
اسی طرح فقہاءوعلماءمثل علامہ عینی حنفی، علامہ زیلعی حنفی، حافظ ابن حجر، علامہ محمد بن نصر مروزی، شیخ عبدا لحی صاحب حنفی محدث دہلوی، مولانا عبد الحق حنفی لکھنؤی رحمہم اللہ وغیرہم نے علاوہ وتر کے آٹھ رکعت تراویح کو صحیح اور سنت نبوی فرمایا ہے جن کے حوالے پہلے گزر چکے۔ اور امام محمدشاگرد رشید امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تو فرمایا کہ وبھذا ناخذ کلہ“ہم ان سب حدیثوں کو لیتے ہیں” یعنی ان گیارہ رکعت کی حدیثوں پر ہمارا عمل ہے۔ فالحمد للہ کہ مع وتر گیارہ رکعت تراویح کی مسنونیت ثابت ہوگئی۔
اس کے بعد سلف امت میں کچھ ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو بیس رکعات اور تیس رکعات اور چالیس رکعات تک بطور نفل نماز تراویح پڑھا کرتے تھے لہٰذا یہ دعویٰ کہ بیس رکعات پر اجماع ہوگیا، باطل ہے۔ اصل سنت نبوی آٹھ رکعت تراویح تین وتر کل گیارہ رکعات ہیں۔ نفل کے لیے ہر وقت اختیار ہے کوئی جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے۔ جن حضرات نے ہر رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کو خلاف سنت کہنے کا مشغلہ بنا لیا ہے اور ایسا لکھنا یا کہنا ان کے خیال میں ضروری ہے وہ سخت غلطی میں مبتلا ہیں بلکہ اسے بھی ایک طرح سے تلبیس ابلیس کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی سب کونیک سمجھ عطاکرے۔ آمین۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جو رات کے نوافل چار چار رکعت ملا کر پڑھنا افضل کہا ہے، وہ اسی حدیث سے دلیل لیتے ہیں۔ حالانکہ اس سے استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار چار کے بعد سلام پھیرتے۔ ممکن ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ( دو سلام کے ساتھ ) بہت لمبی پڑھتے ہوں پھر دوسری چار رکعتیں ( دو سلاموں کے ساتھ ) ان سے ہلکی پڑھتے ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح ان چار چار رکعتوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ چار رکعتوں کا ایک سلام کے ساتھ پڑھنا مراد ہو۔ اسی لیے علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ واما ما سبق من انہ کان یصلی مثنی مثنی ثم واحدۃ فمحمول علی وقت اخر فالامران جائزان یعنی پچھلی روایات میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو دو رکعت پڑھنا مذکور ہوا ہے۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھنا تو وہ دوسرے وقت پر محمو ل ہے اور یہ چار چار کر کے پڑھنا پھر تین وتر پڑھنا دوسرے وقت پر محمول ہے اس لیے ہر دو امر جائز ہیں۔
حدیث نمبر : 1148
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى بن سعيد، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ في شىء من صلاة الليل جالسا، حتى إذا كبر قرأ جالسا، فإذا بقي عليه من السورة ثلاثون أو أربعون آية قام فقرأهن ثم ركع.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی کسی نماز میں بیٹھ کر قرآن پڑھتے نہیں دیکھا۔ یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہوگئے تو بیٹھ کر قرآن پڑھتے تھے لیکن جب تیس چالیس آیتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہو جاتے پھر اس کو پڑھ کر رکوع کرتے تھے۔