صحیح بخاری -> کتاب المغازی
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان
وقول الله تعالى {إنك ميت وإنهم ميتون * ثم إنكم يوم القيامة عند ربكم تختصمون}
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ " آپکو بھی مرنا ہے اور انہیں بھی مرنا ہے ، پھر تم سب قیامت کے دن اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کروگے ۔ "
حدیث نمبر : 4428
وقال يونس عن الزهري، قال عروة قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول في مرضه الذي مات فيه " يا عائشة ما أزال أجد ألم الطعام الذي أكلت بخيبر، فهذا أوان وجدت انقطاع أبهري من ذلك السم ".
اور یونس نے بیان کیا ، ا ن سے زہری نے ، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں فرماتے تھے کہ خیبر میں ( زہر آلود ) لقمہ جو میں نے اپنے منہ میں رکھ لیا تھا ، اس کی تکلیف آج بھی میں محسوس کرتاہوں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری شہ رگ اس زہر کی تکلیف سے کٹ جائے گی ۔
حدیث نمبر : 4429
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن أم الفضل بنت الحارث، قالت سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ في المغرب ب ـ {المرسلات عرفا} ثم ما صلى لنا بعدها حتى قبضه الله.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہاہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبید اللہ بن عبد اللہ نے ، ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اور ان سے ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں والمرسلات عرفا کی قرات کررہے تھے ، اس کے بعد پھر آپ نے ہمیں کبھی نماز نہیں پڑھائی ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کرلی ۔
حدیث نمبر : 4430
حدثنا محمد بن عرعرة، حدثنا شعبة، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال كان عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ يدني ابن عباس فقال له عبد الرحمن بن عوف إن لنا أبناء مثله. فقال إنه من حيث تعلم. فسأل عمر ابن عباس عن هذه الآية {إذا جاء نصر الله والفتح} فقال أجل رسول الله صلى الله عليه وسلم أعلمه إياه، فقال ما أعلم منها إلا ما تعلم.
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیا ن کیا ، ان سے ابو بشر نے ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کو ( مجالس میں ) اپنے قریب بٹھاتے تھے ۔ اس پر عبد الرحمن بن عو ف رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا کہ اس جیسے تو ہمارے بچے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے یہ طرز عمل جس وجہ سے اختیا رکیا ، وہ آپ کو معلوم بھی ہے ؟ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہماسے اس آیت ( یعنی ) (( اذا جاءنصر اللہ والفتح )) کے متعلق پوچھا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تھی ، آپ کو اللہ تعالیٰ نے ( آیت میں ) اسی کی اطلاع دی ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو تم نے بتایا وہی میں بھی اس آیت کے متعلق جانتاہوں ۔
حدیث نمبر : 4431
حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان، عن سليمان الأحول، عن سعيد بن جبير، قال قال ابن عباس يوم الخميس وما يوم الخميس اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه فقال " ائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا ". فتنازعوا، ولا ينبغي عند نبي تنازع، فقالوا ما شأنه أهجر استفهموه فذهبوا يردون عليه. فقال " دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه ". وأوصاهم بثلاث قال " أخرجوا المشركين من جزيرة العرب، وأجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم ". وسكت عن الثالثة، أو قال فنسيتها.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے سلیما ن احول نے ، ان سے سعید بن جبیر نے بیا ن کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایامعلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہواتھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی ۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ لاؤ ، میں تمہارے لیے وصیت نامہ لکھ دوںکہ تم اس پر چلوگے تو اس کے بعد پھر تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑوگے لیکن یہ سن کر وہاں اختلاف پیدا ہوگیا ، حالانکہ نبی ا کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہئیے ۔ بعض لوگو ں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرمارہے ہیں ؟ ( جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے ) پھر آپ سے بات سمجھنے کی کو شش کرو ۔ پس آپ سے صحابہ پوچھنے لگے ۔ آپ نے فرمایا جاؤ ( یہاں شور وغل نہ کرو ) میں جس کام میں مشغول ہوں ، وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو ۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی ، فرمایا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو ۔ ایلچی ( جو قبائل کے تمہارے پاس آئیں ) ان کی اس طرح خاطر کیا کرناجس طرح میں کرتا آیا ہوں اور تیسری بات ابن عباس نے یا سعیدنے بیان نہیں کی یا سعید بن جبیر نے یا سلیمان نے کہا میں تیسری بات بھول گیا ۔
کہتے ہیں تیسری بات یہ تھی کہ میری قبر کو بت نہ بنا لینا۔ اسے مؤطا میں امام مالک نے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر : 4432
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال لما حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي البيت رجال، فقال النبي صلى الله عليه وسلم " هلموا أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ". فقال بعضهم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غلبه الوجع وعندكم القرآن، حسبنا كتاب الله. فاختلف أهل البيت واختصموا، فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده. ومنهم من يقول غير ذلك، فلما أكثروا اللغو والاختلاف قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " قوموا ". قال عبيد الله فكان يقول ابن عباس إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب لاختلافهم ولغطهم.
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیا ن کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عبد الرزاق بن ہمام نے بیان کیا ، انہیں معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہوا تو گھر میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لاؤ ، میں تمہارے لیے ایک دستاویز لکھ دوں ، اگر تم اس پر چلتے رہے توپھرتم گمراہ نہ ہو سکوگے ۔ اس پر ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہورہی ہے ، تمہارے پاس قرآن موجود ہے ۔ ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے ۔ پھر گھر والوں میں جھگڑا ہونے لگا ، بعض نے تو یہ کہا کہ آنحضرت کو کوئی چیز لکھنے کی دے دو کہ اس پر آپ ہدایت لکھوا دیں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو سکو ۔ بعض لوگوں نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرار کیا ۔ جب شوروغل اور نزاع زیادہ ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے جاؤ ۔ عبید اللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ مصیبت سب سے بڑی یہ تھی کہ لوگوں نے اختلاف اور شور کرکے آنحضر ت ا کو وہ ہدا یت نہیں لکھنے دی ۔
تشریح : یہ رحلت سے چار دن پہلے کی بات ہے ۔ جب مرض نے شدت اختیار کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، لاؤ تمہیں کچھ لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔ " بعض نے کہا کہ آپ پر شدت درد غالب ہے، قرآن ہمارے پاس موجود ہے اور ہم کو کافی ہے ۔ اس پر آپس میں اختلاف ہوا ۔ کوئی کہتا تھا سامان کتابت لے آؤ کہ ایسا نوشتہ لکھا جائے ، کوئی کچھ اور کہتا تھا یہ شورو شغف بڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب اٹھ جاؤ ۔ یہ پنج شنبہ کا واقعہ ہے۔ اسی روز آپ نے تین وصیتیں فرمائیں ۔ یہود کو عرب سے نکال دیا جائے ۔ وفود کی عزت ہمیشہ اسی طرح کی جائے جیسا میں کرتا رہاہوں ۔ قرآن مجید کو ہر کام میں معمول بنایا جائے۔ بعض روایات کے مطابق کتاب اللہ اور سنت پر تمسک کا حکم فرمایا ۔ آج مغرب تک کی جملہ نمازیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پڑھائی تھیں مگر عشاءمیں نہ جاسکے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ وہ نماز پڑھائےں۔ جس کے تحت حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے حیات نبوی میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ آمین۔
حدیث نمبر : 4433-4434
حدثنا يسرة بن صفوان بن جميل اللخمي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن أبيه، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت دعا النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة ـ عليها السلام ـ في شكواه الذي قبض فيه، فسارها بشىء، فبكت، ثم دعاها فسارها بشىء فضحكت فسألنا عن ذلك.
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی نے بیان کیا ، کہاہم سے ابرہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے ، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور آہستہ سے کوئی بات ان سے کہی جس پر وہ رونے لگیں ۔ پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں ۔ پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایاتھا کہ آپ کی وفات اسی مرض میں ہوجائے گی ، میں یہ سن کر رونے لگی ۔ دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ فرمایا کہ آپ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جاملوں گی تو میں ہنسی تھی ۔
حدیث نمبر : 4435
حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، عن عروة، عن عائشة، قالت كنت أسمع أنه لا يموت نبي حتى يخير بين الدنيا والآخرة، فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في مرضه الذي مات فيه وأخذته بحة يقول {مع الذين أنعم الله عليهم} الآية، فظننت أنه خير.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے سعد نے ، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں سنتی آئی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا جاتا ہے ، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سنا ، آپ اپنے مرض الموت میں فرمارہے تھے ، آپ کی آواز بھاری ہوچکی تھی ۔ آپ آیت (( مع الذین انعم اللہ علیہم الخ )) کی تلاوت فرمارہے تھے ( یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعا م کیا ہے ) مجھے یقین ہوگیا کہ آپ کو بھی اختیار دے دیا گیا ہے .
تشریح : یعنی آپ نے آخرت کو اختیا ر کیا ۔ واقدی نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آنے پر سب سے پہلے جو کلمہ زبان سے نکالا وہ اللہ اکبر تھا اور آخر کلمہ جو وفات کے وقت فرمایا ، وہ الرفیق الاعلیٰ تھا ۔ ( وحیدی )
حدیث نمبر : 4436
حدثنا مسلم، حدثنا شعبة، عن سعد، عن عروة، عن عائشة، قالت لما مرض النبي صلى الله عليه وسلم المرض الذي مات فيه جعل يقول " في الرفيق الأعلى ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے ، ان سے سعد بن ابراہیم نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے اوران سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الموت میں بار بار فرماتے تھے ۔ ( اللہم ) " الرفیق الاعلیٰ " اے اللہ ! مجھے میرے رفقاء ( انبیاءاور صدیقین ) میں پہنچا دے ( جواعلیٰ علیین میں رہتے ہیں )
حدیث نمبر : 4437
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال عروة بن الزبير إن عائشة قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو صحيح يقول " إنه لم يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة ثم يحيا أو يخير ". فلما اشتكى وحضره القبض ورأسه على فخذ عائشة غشي عليه، فلما أفاق شخص بصره نحو سقف البيت ثم قال " اللهم في الرفيق الأعلى ". فقلت إذا لا يجاورنا. فعرفت أنه حديثه الذي كان يحدثنا وهو صحيح.
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، کہاہم کو شعیب نے خبر دی ، انہیں زہری نے کہ عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تندرستی کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی گئی تو پہلے جنت میں اس کی قیا م گا ہ اسے ضرور دکھا دی گئی ، پھراسے اختیا ر دیا گیا ( راوی کو شک تھا کہ لفظ یحیا ہے یا یخیر ، دونو ں کا مفہوم ایک ہی ہے ) پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے اور وقت قریب آگیا تو سر مبارک عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر تھا اور آپ پر غشی طاری ہوگئی تھی ، جب کچھ ہوش ہوا تو آپ کی آنکھیں گھر کی چھت کی طرف اٹھ گئیں اور آپ نے فرمایا ۔ اللہم فی الرفیق الاعلیٰ ۔ میں سمجھ گئی کہ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ( یعنی دنیا وی زندگی کو ) پسند نہیں فرمائیں گے ۔ مجھے وہ حدیث یاد آ گئی جو آپ نے تندرستی کے زمانے میں فرمائی تھی ۔
حدیث نمبر : 4438
حدثنا محمد، حدثنا عفان، عن صخر بن جويرية، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، دخل عبد الرحمن بن أبي بكر على النبي صلى الله عليه وسلم وأنا مسندته إلى صدري، ومع عبد الرحمن سواك رطب يستن به، فأبده رسول الله صلى الله عليه وسلم بصره، فأخذت السواك فقصمته ونفضته وطيبته، ثم دفعته إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاستن به، فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استن استنانا قط أحسن منه، فما عدا أن فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم رفع يده أو إصبعه ثم قال " في الرفيق الأعلى ". ثلاثا ثم قضى، وكانت تقول مات بين حاقنتي وذاقنتي.
ہم سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے بیان کیا ۔ کہاہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا ، ان سے صخر بن جویریہ نے ، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے ، ان سے ان کے والد ( قاسم بن محمد ) نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ( ان کے بھائی ) عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ایک تازہ مسواک استعمال کے لیے تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسواک کی طرف دیکھتے رہے ۔ چنانچہ میں نے ان سے مسواک لے لی اور اسے اپنے دانتوں سے چباکر اچھی طرح جھاڑنے اور صاف کرنے کے بعد حضور ا کو دے دی ۔ آپ نے وہ مسواک استعمال کی جتنے عمدہ طریقہ سے حضور ا اس وقت مسواک کررہے تھے ، میں نے آپ کو اتنی اچھی طرح مسواک کرتے کبھی نہیں دیکھا ۔ مسواک سے فارغ ہونے کے بعدآپ نے اپنا ہاتھ یا اپنی انگلی اٹھا ئی اور فرمایا ۔ " فی الرفیق الاعلیٰ " تین مرتبہ ، اور آپ کا انتقال ہوگیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان میں تھا ۔
تشریح : اس میں یہ اشارہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور آخرت دونوں میں ایک جگہ رہیں گے۔ حضرت علی رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں ۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں کھانا تیا ر کرکے ایصال ثواب کے وقت آنحضرت ااور حضرت فاطمہ اورحسنین رضی اللہ عنہم کے ثواب کی نیت کیا کرتا تھا ۔ ایک شب خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا کہ آپ عتاب کی نظر سے مجھ کو دیکھ رہے ہیں ۔ میں نے سبب پوچھا ارشاد ہوا یہ امر سب کو معلوم ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں کھانا کھایا کرتا ہوں۔ ( لہٰذا تم کو بھی ایصال ثواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی شامل کرنا چاہئیے ) حضرت مجدد کہتے ہیں میں نے اس روز سے آپ کی ازواج مطہرات خصوصا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی ایصال ثواب میں شریک کرنا شروع کردیا۔ کھانا کھلانے کے لیے مطلقا ایسا ایصال ثواب جو کسی قیدیا رسم کے بغیر ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے کسی غریب مسکین یتیم کو کھلایا جائے اور اس کا ثواب بزرگوں کو بخشا جائے، اس کے جو از میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
حدیث نمبر : 4439
حدثني حبان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا يونس، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا اشتكى نفث على نفسه بالمعوذات ومسح عنه بيده فلما اشتكى وجعه الذي توفي فيه طفقت أنفث على نفسه بالمعوذات، التي كان ينفث، وأمسح بيد النبي صلى الله عليه وسلم عنه.
مجھ سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا ، کہاہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں یونس نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین ( سورۃ فلق اور سورۃ الناس ) پڑھ کردم کر لیا کرتے تھے ا وراپنے جسم پراپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے ، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معو ذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیر ا کر تی تھی ۔
حدیث نمبر : 4440
حدثنا معلى بن أسد، حدثنا عبد العزيز بن مختار، حدثنا هشام بن عروة، عن عباد بن عبد الله بن الزبير، أن عائشة، أخبرته أنها، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وأصغت إليه قبل أن يموت، وهو مسند إلى ظهره يقول " اللهم اغفر لي وارحمني، وألحقني بالرفيق ".
ہم سے معلی بن اسد نے بیا ن کیا ، کہا ہم سے عبد العزیز بن مختار نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، ان سے عباد بن عبد اللہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، وفات سے کچھ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پشت سے ان کا سہارا لیے ہوئے تھے ۔ آپ نے کا ن لگا کر سنا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعاکررہے ہیں ۔ " اے اللہ ! میری مغفرت فرما ، مجھ پر رحم کر اور میرے رفیقوں سے مجھے ملا ۔ "
حدیث نمبر : 4441
حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا أبو عوانة، عن هلال الوزان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت قال النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي لم يقم منه " لعن الله اليهود، اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد ". قالت عائشة لولا ذلك لأبرز قبره. خشي أن يتخذ مسجدا.
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا ، ان سے ہلال بن ابی حمید وزان نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو اپنی رحمت سے دور کردیا کہ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ کی قبر بھی کھلی رکھی جاتی لیکن آپ کو یہ خطرہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی سجدہ نہ کیا جانے لگے ۔
غالبا آپ کی اس مبارک دعا کی برکت تھی کہ قبر مبارک کو اب بالکل مسقف کر کے بند کردیا گیا ہے۔ یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ آج ساری دنیا میں صرف ایک ہی سچے آخری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر محفوظ ہے اور وہ بھی اس حالت میں کہ وہاں کوئی کسی بھی قسم کی پوجا پاٹ نہیں ۔ ( ا )
حدیث نمبر : 4442
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، أن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم واشتد به وجعه استأذن أزواجه أن يمرض في بيتي، فأذن له، فخرج وهو بين الرجلين تخط رجلاه في الأرض، بين عباس بن عبد المطلب وبين رجل آخر. قال عبيد الله فأخبرت عبد الله بالذي قالت عائشة، فقال لي عبد الله بن عباس هل تدري من الرجل الآخر الذي لم تسم عائشة قال قلت لا. قال ابن عباس هو علي. وكانت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم تحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما دخل بيتي واشتد به وجعه قال " هريقوا على من سبع قرب لم تحلل أوكيتهن لعلي أعهد إلى الناس ". فأجلسناه في مخضب لحفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ثم طفقنا نصب عليه من تلك القرب، حتى طفق يشير إلينا بيده أن قد فعلتن قالت ثم خرج إلى الناس فصلى لهم وخطبهم.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیا ن کیاکہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیا ن کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوگیا اور آپ کے مرض نے شدت اختیا ر کرلی تو تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے آپ نے میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کے لیے اجازت مانگی ۔ سب نے جب اجازت دے دی تو آپ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے ، آپ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے تھے اور اپ کے پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے ۔ جن دو صحابہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سہارا لیے ہوئے تھے ، ان میں ایک عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ تھے اور ایک اورصاحب ۔ عبید اللہ نے بیا ن کیا کہ پھر میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کی خبر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دی تو انھوں نے بتلایا ، معلوم ہے وہ دوسرے صاحب جن کا نا م عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہیں لیا ، کون ہیں ؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا مجھے تو نہیں معلوم ہے ۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے گھر میں آگئے اور تکلیف بہت پڑھ گئی تو آپ نے فرمایا کہ سات مشکیزے پانی کے بھر کر لاؤ اور مجھ پر ڈال دو ، ممکن ہے اس طرح میں لوگوں کو کچھ نصیحت کرنے کے قابل ہوجاؤں ۔ چنانچہ ہم نے آپ کو آپ کی زوجہ مطہرہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے ایک لگن میں بٹھا یا اور انہیں مشکیزوں سے آپ پرپانی دھار نے لگے ۔ آخر حضور انے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے روکا کہ بس ہوچکا ، بیا ن کیا کہ پھر آپ لوگوں کے مجمع میں گئے اور نماز پڑھا ئی اور لوگوں کو خطاب کیا ۔
حدیث نمبر : 4443-4444
وأخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن عائشة، وعبد الله بن عباس، رضى الله عنهم قالا لما نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم طفق يطرح خميصة له على وجهه، فإذا اغتم كشفها عن وجهه وهو كذلك يقول " لعنة الله على اليهود والنصارى، اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد ". يحذر ما صنعوا.
اور مجھے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ شدت مرض کے دنوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کھینچ کربار بار اپنے چہرے پر ڈالتے تھے ، پھر جب دم گھٹنے لگتا تو چہرے سے ہٹا دیتے ۔ آپ اسی شدت کے عالم میں فرماتے تھے ، یہود و نصاریٰ اللہ کی رحمت سے دور ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبر وں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا ۔ اس طرح آپ ( اپنی امت کو ) ان کا عمل اختیار کرنے سے بچتے رہنے کی تاکید فرمارہے تھے ۔
حدیث نمبر : 4445
أخبرني عبيد الله، أن عائشة، قالت لقد راجعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك، وما حملني على كثرة مراجعته إلا أنه لم يقع في قلبي أن يحب الناس بعده رجلا قام مقامه أبدا، ولا كنت أرى أنه لن يقوم أحد مقامه إلا تشاءم الناس به، فأردت أن يعدل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أبي بكر. رواه ابن عمر وأبو موسى وابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم.
مجھے عبید اللہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، میں نے اس معاملہ ( یعنی ایام مرض میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام بنانے ) کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار پوچھا ، میں بار بار آپ سے صرف اس لیے پوچھ رہی تھی کہ مجھے یقین تھا کہ جو شخص ( حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ) آپ کی جگہ پر کھڑا ہوگا ، لوگ اس سے کبھی محبت نہیں رکھ سکتے بلکہ میرا خیال تھا کہ لوگ اس سے بدفالی لیں گے ، اس لیے میں چاہتی تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم نہ دیں ، اس کی روایت ابن عمر ، ابو موسیٰ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے ۔
حدیث نمبر : 4446
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال حدثني ابن الهاد، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، قالت مات النبي صلى الله عليه وسلم وإنه لبين حاقنتي وذاقنتي، فلا أكره شدة الموت لأحد أبدا بعد النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہاہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یزید بن الہاد نے بیان کیا ، ا ن سے عبد الرحمن بن قاسم نے ، ان سے ان کے والد قاسم بن محمد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان ( سر رکھے ہوئے ) تھے ۔ حضور اکرم ( کی شدت سکرات ) دیکھنے کے بعد اب میں کسی کے لیے بھی نزع کی شدت کو برا نہیں سمجھتی ۔
حدیث نمبر : 4447
حدثني إسحاق، أخبرنا بشر بن شعيب بن أبي حمزة، قال حدثني أبي، عن الزهري، قال أخبرني عبد الله بن كعب بن مالك الأنصاري ـ وكان كعب بن مالك أحد الثلاثة الذين تيب عليهم أن عبد الله بن عباس أخبره أن علي بن أبي طالب ـ رضى الله عنه ـ خرج من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في وجعه الذي توفي فيه، فقال الناس يا أبا حسن، كيف أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أصبح بحمد الله بارئا، فأخذ بيده عباس بن عبد المطلب، فقال له أنت والله بعد ثلاث عبد العصا، وإني والله لأرى رسول الله صلى الله عليه وسلم سوف يتوفى من وجعه هذا، إني لأعرف وجوه بني عبد المطلب عند الموت، اذهب بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلنسأله فيمن هذا الأمر، إن كان فينا علمنا ذلك، وإن كان في غيرنا علمناه فأوصى بنا. فقال علي إنا والله لئن سألناها رسول الله صلى الله عليه وسلم فمنعناها لا يعطيناها الناس بعده، وإني والله لا أسألها رسول الله صلى الله عليه وسلم.
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو بشر بن شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی ، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہیں عبد اللہ بن کعب بن مالک انصاری نے خبر دی اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ان تین صحابہ میں سے ایک تھے جن کی ( غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے کی ) توبہ قبول ہوئی تھی ۔ انہیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے باہر آئے ۔ یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ سے پوچھا ، ابو الحسن ! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آج مزاج کیا ہے ؟ صبح انھوں نے بتایا کہ الحمد للہ اب آپ کو افاقہ ہے ۔ پھر عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کے کہا کہ تم ، خدا کی قسم تین دن کے بعد زندگی گزارنے پرتم مجبور ہوجاؤگے ۔ خدا کی قسم ، مجھے تو ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے صحت نہیں پاسکیں گے ۔ موت کے وقت بنو عبد المطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے ۔ اب ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہئیے اور آپ سے پوچھنا چاہئیے کہ ہمارے بعد خلافت کسے ملے گی ۔ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا اور اگر کوئی دوسرا مستحق ہوگا تو وہ بھی معلوم ہوجائے گا اور حضورا ہمارے متعلق اپنے خلیفہ کو ممکن ہے کچھ وصیتیںکردیں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم ! اگر ہم نے اس وقت آ پ سے اس کے متعلق کچھ پوچھا اور آپ نے انکار کردیا تو پھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کردیں گے ۔ میں تو ہر گز حضور اسے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھوں گا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کمال دانائی تھی جو انہوں نے یہ خیال ظاہر فرمایا جس سے کئی فتنون کا دروازہ بند ہوگیا، رضی اللہ عنہ۔
حدیث نمبر : 4448
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال حدثني أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن المسلمين، بينا هم في صلاة الفجر من يوم الاثنين وأبو بكر يصلي لهم لم يفجأهم إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كشف ستر حجرة عائشة، فنظر إليهم وهم في صفوف الصلاة. ثم تبسم يضحك، فنكص أبو بكر على عقبيه ليصل الصف، وظن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد أن يخرج إلى الصلاة فقال أنس وهم المسلمون أن يفتتنوا في صلاتهم فرحا برسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليهم بيده رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أتموا صلاتكم، ثم دخل الحجرة وأرخى الستر.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ، ا ن سے ابن شہاب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پیر کے دن مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے ۔ آپ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجر ہ کا پر دہ اٹھا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ رہے تھے ، صحابہ رضی للہ عنہم نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر ہنس پڑے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تاکہ صف میں آجائیں ۔ آپ نے سمجھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، قریب تھا کہ مسلمان اس خوشی کی وجہ سے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر انہیں ہوئی تھی کہ وہ اپنی نماز توڑنے ہی کو تھے لیکن حضور ا نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نماز پوری کرلو ، پھر آپ حجرہ کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ ڈال لیا ۔
تشریح : یہ حیات مبارکہ کے آخری دن دوشنبہ کی فجر کی نماز تھی، تھوڑی دیر تک آ پ اس نماز باجماعت کے پاک مظاہرہ کو ملاحظہ فرماتے رہے، جس سے رخ انور پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔ اس وقت وجہ مبارک ورق قر آن معلوم ہورہا تھا۔ اس کے بعد حضور اپر دنیا میں کسی دوسری نماز کاقت نہیں آیا۔ اسی موقع پر آپ نے حاضرین کو باربار تاکید فرمائی تھی الصلوٰۃ الصلوٰۃ وما ملکت ایمانکم یہی آپ کی آخری وصیت تھی جسے آپ نے کئی بار دہرایا ، پھر نزع کا عالم طاری ہوگیا۔ ( ا )
حدیث نمبر : 4449
حدثني محمد بن عبيد، حدثنا عيسى بن يونس، عن عمر بن سعيد، قال أخبرني ابن أبي مليكة، أن أبا عمرو، ذكوان مولى عائشة أخبره أن عائشة كانت تقول إن من نعم الله على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي في بيتي وفي يومي، وبين سحري ونحري، وأن الله جمع بين ريقي وريقه عند موته، دخل على عبد الرحمن وبيده السواك وأنا مسندة رسول الله صلى الله عليه وسلم فرأيته ينظر إليه، وعرفت أنه يحب السواك فقلت آخذه لك فأشار برأسه أن نعم، فتناولته فاشتد عليه وقلت ألينه لك فأشار برأسه أن نعم، فلينته، وبين يديه ركوة ـ أو علبة يشك عمر ـ فيها ماء، فجعل يدخل يديه في الماء فيمسح بهما وجهه يقول " لا إله إلا الله، إن للموت سكرات ". ثم نصب يده فجعل يقول " في الرفيق الأعلى ". حتى قبض ومالت يده.
مجھ سے محمد بن عبید نے بیان کیا ، کہاہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا ، ان سے عمر بن سعید نے ، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ابو عمرو ذکوان نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں ، اللہ کی بہت سی نعمتوںمیں ایک نعمت مجھ پر یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے گھر میں اور میری باری کے دن ہوئی ۔ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکی وفا ت کے وقت میرے اور آپ کے تھوک کو ایک ساتھ جمع کیا تھا کہ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ گھر میں آئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک تھی ۔ حضور امجھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ، میں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسواک کو دیکھ رہے ہیں ۔ میں سمجھ گئی کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں ، اس لیے میں نے آپ سے پوچھا ، یہ مسواک آپ کے لیے لے لوں ؟ آپ نے سرکے اشارہ سے اثبات میں جواب دیا ، میں نے وہ مسواک ان سے لے لی ۔ حضورااسے چبانہ سکے ، میںنے پوچھا آپ کے لیے میں اسے نرم کردوں ؟ آپ نے سر کے اشارہ سے اثبات میں جواب دیا ۔ میں نے مسواک نرم کردی ۔ آپ کے سامنے ایک بڑا پیالہ تھا ، چمڑے کایا لکڑی کا ( راوی حدیث ) عمر کو اس سلسلے میں شک تھا ، اس کے اندر پانی تھی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باربار اپنے ہاتھ اس کے اندر داخل کرتے اورپھر انہیں اپنے چہرے پر پھیرتے اور فرماتے لاالٰہ الا اللہ ۔ موت کے وقت شدت ہوتی ہے پھر آپ اپنا ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے " فی الرفیق الاعلیٰ " یہاں تک کہ آپ رحلت فرماگئے اور آپ کا ہاتھ جھک گیا ۔
حدیث نمبر : 4450
حدثنا إسماعيل، قال حدثني سليمان بن بلال، حدثنا هشام بن عروة، أخبرني أبي، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسأل في مرضه الذي مات فيه يقول " أين أنا غدا أين أنا غدا " يريد يوم عائشة، فأذن له أزواجه يكون حيث شاء، فكان في بيت عائشة حتى مات عندها، قالت عائشة فمات في اليوم الذي كان يدور على فيه في بيتي، فقبضه الله وإن رأسه لبين نحري وسحري، وخالط ريقه ريقي ـ ثم قالت ـ دخل عبد الرحمن بن أبي بكر ومعه سواك يستن به فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت له أعطني هذا السواك يا عبد الرحمن. فأعطانيه فقضمته، ثم مضغته فأعطيته رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستن به وهو مستند إلى صدري.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہامجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، انہیں ان کے والد نے خبر دی اورانہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے رہتے تھے کہ کل میرا قیام کہا ں ہوگا ، کل میرا قیام کہاں ہوگا ؟ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے منتظر تھے ، پھر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر قیام کی اجازت دے دی اور آپ کی وفات انہیںکے گھر میں ہوئی ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیا ن کیا کہ آپ کی وفات اسی دن ہوئی جس دن قاعدہ کے مطابق میرے یہاں آپ کے قیام کی باری تھی ۔ رحلت کے وقت سر مبارک میرے سینے پر تھا اور میرا تھوک آپ کے تھوک کے ساتھ ملا تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ عبد الرحمن بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما داخل ہوئے اور ان کے ہاتھ میں استعمال کے قابل مسواک تھی ۔ حضور ا نے اس کی طرف دیکھا تو میں نے کہا عبد الرحمن ! یہ مسواک مجھے دے دو ۔ انھوں نے مسواک مجھے دے دی ۔ میں نے اسے اچھی طرح چبایا اور جھا ڑ کر حضور اکو دی ، پھرآپ نے وہ مسواک کی ، اس وقت آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔
حدیث نمبر : 4451
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن ابن أبي مليكة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت توفي النبي صلى الله عليه وسلم في بيتي وفي يومي، وبين سحري ونحري، وكانت إحدانا تعوذه بدعاء إذا مرض، فذهبت أعوذه، فرفع رأسه إلى السماء وقال " في الرفيق الأعلى في الرفيق الأعلى ". ومر عبد الرحمن بن أبي بكر وفي يده جريدة رطبة، فنظر إليه النبي صلى الله عليه وسلم فظننت أن له بها حاجة فأخذتها، فمضغت رأسها ونفضتها فدفعتها إليه، فاستن بها كأحسن ما كان مستنا ثم ناولنيها فسقطت يده ـ أو سقطت من يده ـ فجمع الله بين ريقي وريقه في آخر يوم من الدنيا وأول يوم من الآخرة.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہاہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے ، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے گھر میں ، میری باری کے دن ہوئی ۔ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ جب آپ بیمار پڑے تو ہم آپ کی صحت کے لیے عائیں کیا کرتے تھے ۔ اس بیماری میں بھی میں آپ کے لیے دعا کر نے لگی لیکن آپ فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر آسمان کی طرف اٹھا ہواتھا فیالرفیق الاعلیٰ فی الرفیق الاعلیٰ اور عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک تازہ ٹہنی تھی ۔ حضور انے اس کی طرف دیکھا تومیں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر نا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ وہ ٹہنی میں نے ان سے لے لی ۔ پہلے میں نے اسے چبایا ، پھر صاف کرکے آپ کودے دی ۔ حضورا نے اس سے مسواک کی ، جس طرح پہلے آپ مسواک کیا کرتے تھے اس سے بھی اچھی طرح سے ، پھر حضورا نے وہ مسواک مجھے عنایت فرمائی اور آپ کاہاتھ جھک گیا ، یا ( راوی نے یہ بیان کیاکہ ) مسواک آپ کے ہاتھ سے چھوٹ گئی ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے اور حضور اکے تھوک کو اس دن جمع کردیا جو آپ کی دنیا کی زندگی کاسب سے آخر ی اور آخرت کی زندگی کا سب سے پہلا دن تھا ۔
حدیث نمبر : 4452-4453
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني أبو سلمة، أن عائشة، أخبرته أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ أقبل على فرس من مسكنه بالسنح حتى نزل، فدخل المسجد فلم يكلم الناس حتى دخل على عائشة، فتيمم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مغشى بثوب حبرة، فكشف عن وجهه ثم أكب عليه فقبله وبكى.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، انہیں ابو سلمہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ حضرت ابو بکر ر ضی اللہ عنہ اپنی قیام گاہ ، مسخ سے گھوڑے پر آئے اور آ کر اترے ، پھر مسجد کے اندر گئے ۔ کسی سے آپ نے کوئی بات نہیں کی ۔ اس کے بعد آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں آئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے ، نعش مبارک ایک یمنی چادر سے ڈھکی ہوئی تھی ۔ آپ نے چہرہ کھولا اور جھک کر چہرہ مبارک کو بوسہ دیا اور رونے لگے ، پھر کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں خدا کی قسم ، اللہ تعالیٰ آپ پر دومرتبہ موت طاری نہیں کرے گا ۔ جو ایک موت آپ کے مقدر میں تھی ، وہ آپ پر طاری ہو چکی ہے ۔
حدیث نمبر : 4454
قال الزهري وحدثني أبو سلمة، عن عبد الله بن عباس، أن أبا بكر، خرج وعمر يكلم الناس فقال اجلس يا عمر، فأبى عمر أن يجلس. فأقبل الناس إليه وتركوا عمر، فقال أبو بكر أما بعد من كان منكم يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا قد مات، ومن كان منكم يعبد الله فإن الله حى لا يموت، قال الله {وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل} إلى قوله {الشاكرين} وقال والله لكأن الناس لم يعلموا أن الله أنزل هذه الآية حتى تلاها أبو بكر، فتلقاها منه الناس كلهم فما أسمع بشرا من الناس إلا يتلوها. فأخبرني سعيد بن المسيب أن عمر قال والله ما هو إلا أن سمعت أبا بكر تلاها فعقرت حتى ما تقلني رجلاى، وحتى أهويت إلى الأرض حين سمعته تلاها أن النبي صلى الله عليه وسلم قد مات.
زہری نے بیان کیا اور ان سے ابو سلمہ نے بیان کیا ، ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا عمر ! بیٹھ جاؤ ، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکا ر کیا ۔ اتنے میں لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑکر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے اور آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا ، اما بعد ! تم میں جو بھی محمد اکی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو نا چا ہےے کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھاتو ( اس کا معبود ) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ " محمد صرف رسول ہیں ، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں " ارشاد " الشاکرین " تک ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ، خدا کی قسم ! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی ۔ اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا ۔ ( زہری نے بیان کیاکہ ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ، خدا کی قسم ! مجھے اس وقت ہوش آیا ، جب میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا ، جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے تومیں سکتے میں آگیا اور ایسا محسوس ہواکہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گرا ج اؤں گا ۔
تشریح : ایسے نازک وقت میں امت کو سنبھالنا یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کا مقام تھا ۔ اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے ہی ان کو اپناخلیفہ بنا کر امام نماز بنا دیاتھا جو ان کی خلافت حقہ کی روشن دلیل ہے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر کہ خداآپ پر دوموت طاری نہیں کرے گا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کا رد کیا جو یہ سمجھتے تھے کہ آنحضرت اپھر زندہ ہوںگے اور منافقوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے کیونکہ اگر ایسا ہوتو پھر وفات ہوگی گویا دوبارموت ہوجائے گی۔ بعضوں نے کہا دوبار موت نہ ہونے سے یہ مطلب ہے کہ پھر قبر میں آپ کوموت نہ ہوگی بلکہ آپ زندہ رہیں گے ۔ امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ، میں نے آپ کو ایک کپڑے سے ڈھانک دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اور مغیر ہ رضی اللہ عنہ آئے۔ دونوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ میں نے اجازت دے دی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعش کو دیکھ کر کہا ہائے آپ بیہوش ہوگئے ہیں۔ مغیر ہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ انتقال فرماچکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مغیر ہ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک مرنے والے نہیں ہیں جب تک سارے منافقین کا قلع قمع نہ کردیں ۔ ایک روایت میں یوں ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ یوں کہہ رہے تھے کہ خبردار! جو کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرگئے ہیں، میں تلوار سے اس کاسر اڑا دوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ کو واقعی یہ یقین تھا کہ آنحضرت امرے نہیں ہیں یا ان کا یہ فرمانابڑی مصلحت اور سیاست پر مبنی ہوگا ۔ انہوں نے یہ چاہا کہ پہلے خلافت کا انتظام ہوجائے بعد میں آپ کی وفات کو ظاہر کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ آپ کی وفات کاحال سن کر دین میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔
حدیث نمبر : 4455-4456-4457
حدثني عبد الله بن أبي شيبة، حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، عن موسى بن أبي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن عائشة، وابن، عباس أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ قبل النبي صلى الله عليه وسلم بعد موته.
مجھ سے عبد اللہ بن ابی شیبہ نے بیانکیا کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، ان سے سفیان بن عیینہ نے ، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے ، ان سے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو بوسہ دیا تھا ۔
حدیث نمبر : 4458
حدثنا علي، حدثنا يحيى، وزاد، قالت عائشة لددناه في مرضه فجعل يشير إلينا أن لا تلدوني فقلنا كراهية المريض للدواء. فلما أفاق قال " ألم أنهكم أن تلدوني ". قلنا كراهية المريض للدواء. فقال " لا يبقى أحد في البيت إلا لد ـ وأنا أنظر ـ إلا العباس، فإنه لم يشهدكم ". رواه ابن أبي الزناد عن هشام عن أبيه عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا ۔ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیاعبد اللہ بن ابی شیبہ کی حدیث کی طرح ، لیکن انھوں نے اپنی اس روایت میںیہ اضافہ کیا کہ عائشہ رضی ا للہ عنہا نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں ہم آپ کے منہ میں دوادینے لگے تو آپ نے اشارہ سے دوا دینے سے منع کیا ۔ ہم نے سمجھا کہ مریض کو دواپینے سے ( بعض اوقات ) جو نا گوار ی ہوتی ہے یہ بھی اسی کا نتیجہ ہے ( اس لیے ہم نے اصرار کیا ) تو آپ نے فرمایا کہ گھر میں جتنے آدمی ہیں سب کے منہ میں میرے سامنے دوا ڈالی جائے ۔ صرف عباس رضی اللہ عنہ اس سے الگ ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ اس کام میں شریک نہیں تھے ۔ اس کی روایت ابن ابی الزناد نے بھی کی ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ۔
حدیث نمبر : 4459
حدثنا عبد الله بن محمد، أخبرنا أزهر، أخبرنا ابن عون، عن إبراهيم، عن الأسود، قال ذكر عند عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم أوصى إلى علي، فقالت من قاله لقد رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وإني لمسندته إلى صدري، فدعا بالطست فانخنث فمات، فما شعرت، فكيف أوصى إلى علي
ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہاہم کو ازہربن سعد سمان نے خبر دی ، کہا ہم کو عبد اللہ بن عون نے خبر دی ، انہیں ابراہیم نخعی نے اور ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس کا ذکر آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوئی ( خاص ) وصیت کی تھی ؟ تو انہوں نے بتلایا کون کہتاہے ، میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھی ، آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ، آپ نے طشت منگوایا ، پھر ایک طرف جھک گئے اور آپ کی وفات ہوگئی ۔ اس وقت مجھے بھی کچھ معلوم نہیں ہوا ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ نے کب وصی بنا دیا ۔
حدیث نمبر : 4460
حدثنا أبو نعيم، حدثنا مالك بن مغول، عن طلحة، قال سألت عبد الله بن أبي أوفى ـ رضى الله عنهما ـ أوصى النبي صلى الله عليه وسلم فقال لا. فقلت كيف كتب على الناس الوصية أو أمروا بها قال أوصى بكتاب الله.
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا ، کہاہم سے مالک بن مغول نے بیا ن کیا ، ان سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو وصی بنا یا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ میں نے پوچھا کہ لوگوں پر وصیت کرنا کیسے فرض ہے یاوصیت کرنے کا کیسے حکم ہے ؟ انھوں نے بتایا کہ آپ نے کتاب اللہ کے مطابق عمل کرتے رہنے کی وصیت کی تھی ۔
حدیث نمبر : 4461
حدثنا قتيبة، حدثنا أبو الأحوص، عن أبي إسحاق، عن عمرو بن الحارث، قال ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم دينارا ولا درهما ولا عبدا ولا أمة، إلا بغلته البيضاء التي كان يركبها، وسلاحه، وأرضا جعلها لابن السبيل صدقة.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابو الاحوص ( سلام بن حکیم ) نے بیان کیا ، ا ن سے ابو اسحاق نے ، ان سے عمر وبن حارث رضی اللہ عنہ نے بیا ن کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ درہم چھوڑے تھے ، نہ دینا ر ، نہ کوئی غلام نہ باندی ، سوااپنے سفید خچر کے جس پر آپ سوار ہواکرتے تھے اور آپ کا ہتھیار اور کچھ وہ زمین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں مجاہدوں اور مسافروں کے لیے وقف کررکھی تھی ۔
حدیث نمبر : 4462
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن ثابت، عن أنس، قال لما ثقل النبي صلى الله عليه وسلم جعل يتغشاه، فقالت فاطمة ـ عليها السلام ـ واكرب أباه. فقال لها " ليس على أبيك كرب بعد اليوم ". فلما مات قالت يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه من جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه إلى جبريل ننعاه. فلما دفن قالت فاطمة ـ عليها السلام ـ يا أنس، أطابت أنفسكم أن تحثوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم التراب
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے حمادبن زید نے بیان کیا ، ان سے ثابت بنانی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ شدت مرض کے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی بہت بڑھ گئی تھی ۔ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے کہا ، آہ اباجان کو کتنی بے چینی ہے ۔ حضور انے اس پر فرمایا ، آج کے بعد تمہارے اباجان کی یہ بے چینی نہیں رہے گی ۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں ، ہائے اباجان ! آپ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے ، ہائے اباجان ! آپ جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے ۔ ہم حضرت جبریل علیہ السلام کو آپ کی وفات کی خبر سنا تے ہیں ۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دفن کردئےے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا " انس ! تمہارے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش پر مٹی ڈالنے کے لیے کس طرح آمادہ ہوگئے تھے ۔