• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مسجد نبوی میں ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اسلام کی بنیاد توحید الہی ہے ، اللہ کی ذات کے ساتھ شرک رب ذو الجلال کی توہین تو ہے ہی ، نا انصافی اور ظلم عظیم بھی ہے ، قرآن و سنت میں جگہ جگہ توحید کی اہمیت پر زور دیا گیا ، اور شرک سے بچنے کی تاکید کی گئی ، صالحین کی تعظیم میں غلو قبر پرستی کا اہم سبب ہے ، جو کہ واضح اور کھلا شرک ہے ، دین اسلام میں ایسی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ مسلمان شرک میں مبتلا ہونا تو دور کی بات اس کا ذریعہ بننے والی چیزوں سے بھی دور رہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے آخری ایام میں یہود و نصاری پر لعنت کرتے رہے کہ انہوں نے انبیاء و صالحین کو قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا تھا ، آپ کی واضح تعلیمات کی روشنی میں نہ قبر کو سجدہ گاہ بنانا درست ہے اور نہ ہی کسی سجدہ گاہ یعنی مسجد میں قبر بنانے کا کوئی جواز ہے ،امہات المؤمنین ، آپ کی اولاد ، دیگر عزیز و اقارب اور کئی جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کی حیات مبارکہ میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے ، آپ نے کسی کو مسجد کے اندر دفن کیا ، اور نہ ہی ان کے مدفن کو سجدہ گاہ بنانے کی ترغیب دی ۔
دنیا ابتلاء و آزمائش سے عبارت ہے ، شیطان کی چالیں کامیاب ہوئیں ، اور وہی دین جس کی ابتداء توحید کی آبیاری اور شرک و بدعت کی بیخ کنی سے ہوئی تھی ، بعد میں اس کے نام لیوا انہیں گمراہیوں میں گرفتار ہوگئے ، بندگان خدا نے اتباع نفس اور خواہشات کی پیروی میں خالق کائنات اور سرور کونین کے واضح ارشادات چھوڑ کر مخلوق خدا کی کمیوں کوتاہیوں کو دلائل سمجھ کر مضبوطی سے تھام لیا ۔
بدعات و شرکیات میں مبتلا لوگوں کے انہیں شبہات میں سے ایک شبہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی تو مسجد نبوی میں ہے اور لوگ وہاں نماز ادا کرتے ہیں ، لہذا جائز ہے ، کہ اسی طرح دیگر جگہوں پر بھی اولیاء و صلحاء کے احترام و اعزاز میں ان کی قبریں مساجد کے اندر بنائی جائیں ۔ جب سے یہ شبہ معرض وجود میں آیا ، اسی وقت سے اس کا جواب بھی علماء ربانی اپنے انداز میں دیتے رہے ، لیکن ضرورت تھی کہ اس موضوع پر مستقل کتابچہ تیار کیا جائے ، جس میں اس شبہے کا شرعی وتاریخی اعتبار سے جائزہ لیا جائے ، تاکہ عام لوگوں کے لیے یہ بات واضح ہو کہ کیا واقعتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مسجد نبوی میں ہے یا یہ صرف غلط فہمی ہے ؟ اور کیا اس سے قبر پرستی کے جواز پر استدلال درست ہے یا نہیں ؟
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے قابل ترین اور ذہین و فطین استاد دکتور صالح بن عبد العزیز بن عثمان سندی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور وضاحت کے ساتھ اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ، سندی صاحب کی یہ کتاب :
الجواب عن شبهة الاستدلال بالقبر النبوي على جواز اتخاذ القبور مساجد
کے عنوان سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ، کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے :
اول : قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت میں وارد احادیث اور ان کا معنی و مفہوم
یہاں سات احادیث بیان کی گئی ہیں ،جن میں قبروں کو سجدہ گاہ بنانے اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ، اور اہل علم نے ان احادیث مبارکہ کا جو معنی بیان کیا ، اس کی مختصرا وضاحت کی گئی ہے ۔
دوم : مسجد نبوی کی مختلف زمانوں میں ہونے والی توسیعات کا مختصر تعارف اور ان کا مسجد نبوی پر اثر ۔
اس باب میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے لیے حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا انتخاب کیونکر اور کن شخصیات نے کیا ؟ اور کیا حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسجد کی حدود میں تھا یا باہر ؟ اور مسجد نبوی کی مختلف توسیعات کی نوعیت کیا تھی کہ کچھ لوگ حجرہ کو مسجد کا حصہ سمجھنے لگے ۔
سوم : قبرپرستوں کے ایک شبہ ( کہ بعض صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن کرنے کی رائےدی تھی اور کسی نے ان کی بات کا انکار نہیں کیا تھا ) کا ذکر اور اس کا جواب ۔
یہاں مذکورہ شبہے کی تائید میں پیش کیے جانے والے دلائل کی استنادی حیثیت پر بحث کی گئی ہے ۔
چہارم :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد میں داخل کرنے سےقبر پرستوں کا استدلال اور اس کا جواب ۔
یہ باب کتاب کا اصل مقصود و مطلوب ہے ، اس میں قبر پرستوں کے مختلف اعتراضات و اشکالات پیش کرکے ، ان کا کئی وجوہات سے رد کیا گیا ہے ، اور ثابت کیا گیا ہے کہ ان کا یہ استدلال تار عنکبوت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔
پنجم : حجرہ عائشہ کو مسجد میں شامل کرنے کے بارے میں سلف کا موقف ۔
یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ بعد کے ادوار میں قبر اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح قریب قریب کردینا ، یہ اقدام خلاف مصلحت اور ایک واضح غلطی تھی ، جس پر علما نے اسی وقت سے نکیر کی ، اور حق بات واضح کی ۔
یہ کتابچہ چھوٹے سائز کے تقریبا 60 صفحات پر مشتمل ہے ، کتاب پہلی دفعہ 2014 میں منظر عام پر آئی ، کتاب کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر کچھ ہی دیر بعد کویت میں دوبارہ چھاپی گئی ، کتاب کے دونوں ایڈیشن انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف میں بھی دستیاب ہیں ، ذیل میں شیخ سندی کی ویب سائٹ سے اس کا ڈاؤن لوڈ لنک پیش خدمت ہے :
تھوڑی سی خوشخبری کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے ، تھوڑی سی اس لیے کیونکہ یہ ترجمہ ابھی تک غیر مطبوع ہے ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تھوڑی سی خوشخبری کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے ، تھوڑی سی اس لیے کیونکہ یہ ترجمہ ابھی تک غیر مطبوع ہے ۔
ارادہ تھا کہ اس کتابچہ کو چھپوایا جائے ، دو تین جگہ سے چھاپنے کی آفر آئی ، لیکن خود مترجم کی طرف سے سستی کی بنا پر تاحال یہ کتاب کمپیوٹر میں قید ہے ، جی چاہ رہا ہے ، جو بھی ہے ، جیسی بھی ہے ، اسے فورم پر پیش کردینا چاہیے ، آئندہ شراکتوں میں کتاب ہدیہ قارئین کی جاتی رہے گی ۔
نوٹ : تبصروں کے لیے اس تھریڈ کو استعمال کریں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الحمد لله الذي أرسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهره على الدين كله و كفى بالله شهيدا ، و أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له إقرارا به و توحيدا ، و أشهد أن محمدا عبده ورسوله ، صلى الله عليه و على آله و صحبه و سلم تسليما مزيدا . أما بعد :
قبر پرست لوگ عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف قسم کے شبہات رائج کرنے میں مصروف رہتے ہیں انہیں میں سے ایک شبہ یوں ہے :
قبروں کے پجاری لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مسجد نبوی کے اندر ہے ۔ لہذا آج بھی جائز ہے کہ قبروں پر مساجد تعمیر کی جائیں یا مساجد کے اندرقبریں بنائی جائیں یا ان جگہوں پر نماز ادا کی جائے ۔
حالانکہ ہر شخص جو دین اسلام کی درست معرفت رکھتا ہے ، یہ بات بخوبی جانتا ہےکہ اسلام ایسی چیزوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے ۔ یہ ایسا دین ہے جس نے شرک کی جڑوں کو کاٹ پھینکا اور اس کا ذریعہ بننے والے ہر قول و فعل سے منع کردیا ہے تاکہ عقيده توحید کے اندر کسی قسم کا خلل نہ آئے ۔
کسی بھی صاحب عقل شخص کے نزدیک اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا یہ شرک باللہ تک پہنچانے کا بالکل واضح ذریعہ ہے ۔
جسطرح عوام الناس کے اندر یہ شبہ کافی رائج ہے اسی طرح اس کی تردید کے لیے کتب و مقالات کا منظر عام پر آنا بھی ایک مستحسن قدم ہے ۔ چنانچہ اس شبہ کے تارو پود بکھیرنے کے لیے میں نے اس پر غور و فکر کیا اور علماء کی کتابوں کا مطالعہ کیا[1]تاکہ میں بھی اس نیکی کے کام میں حصہ ڈال سکوں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ میرے علم کے مطابق یہ شبہ ماضی قریب کی پیداوار ہے اب تك بہت سے علماء نے اس کا رد کیا ہے اس سلسلے میں مشہور علماء میں سے عصر حاضر کے تین علماء ابن باز ، ابن عثمین اور البانی رحمہم اللہ ہیں ۔ میں نے ان علماء سے استفادہ کیا ہے جیساکہ آئندہ صفحات سے واضح ہوگا۔
اس کے علاوہ دیگر مشایخ و صاحبان علم کی مولفات میں بھی اس سلسلہ میں مباحث موجود ہیں جن میں سے بعض کے مطالعہ کا موقعہ ملا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان علماء و فضلاء نے بہترین کوششیں کی ہیں لیکن میں سمجھتاہوں کہ ابھی اس موضوع پر علمی وتاریخی اعتبار سے مختلف جہات پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے ۔اسی لیے میں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور کوشش کی کہ اس میں کچھ نیا اور مفید مواد پیش کرسکوں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں نے اس گفتگو کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے :
اول : قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت میں وارد احادیث اور ان کا معنی و مفہوم
دوم : مسجد نبوی کی مختلف زمانوں میں ہونے والی توسیعات کا مختصر تعارف اور ان کا مسجد نبوی پر اثر ۔
سوم : قبرپرستوں کے ایک شبہ ( کہ بعض صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن کرنے کی رائےدی تھی اور کسی نے ان کی بات کا انکار نہیں کیا تھا ) کا ذکر اور اس کا جواب ۔
چہارم :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد میں داخل کرنے سےقبر پرستوں کا استدلال اور اس کا جواب ۔
پنجم : حجرہ عائشہ کو مسجد میں شامل کرنے کے بارے میں سلف کا موقف ۔
دوران گفتگو وارد ہونے والی آیات ، احادیث اور مختلف نقول کو باحوالہ ذکرکرنے کا اہتمام کے ساتھ ساتھ آخر میں مصادر اور موضوعات کی فہرست بھی دے دی گئی ہے ۔
اسی طرح موضوع پر گفتگوکرتےہوئے بہت زیادہ تفصیل کی بجائے اختصار ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ قاری کے لیے اس سے استفادہ کرنا آسان ہو ۔
اللہ سےدعا ہے کہ اللہ اس کو نافع بنائے کیونکہ وہی اس بات کی اہلیت اور قدرت رکھتا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اول : قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت میں وارد احادیث اور ان کا معنی و مفہوم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری احادیث ہیں جن میں قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا گیاحتی کہ یہ احادیث تواتر [1]کے درجہ کو پہنچتی ہیں ۔ احادیث کی یہ کثرت اسی لیے ہے کیونکہ اس عمل سے عقیدہ توحید پر بہت خطرناک نتائج مرتب ہوتے ہیں اور یہ وقوعِ شرک میں بہت موثر ہے ۔ کیونکہ قبروں کوسجدہ گاہ بنانا یہ شرک کے مبادی و اصول میں سے ہے[2]۔
چند احادیث :
1۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالی یہود و نصاری کو تباہ کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا ۔ [3]
2۔ حضرت عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ اپنے رومال کو چہرے پر ڈال لیتے اور جب وحی ختم ہوجاتی تو اس کو ہٹا دیتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اسی حالت میں تھے کہ آپ نے فرمایا :
یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا ۔
گویا آپ ان کے اس فعل سے ڈرا رہے تھے ۔[4]
3۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا :
اللہ یہود و نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا ۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں : اگر یہ خدشہ نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ظاہر کی جاتی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خدشہ کا اظہار فرمایا تھا کہ آپ کی قبر سجدہ گاہ بنالیا جائے گا ۔؟[5]
4۔ حضرت جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے پانچ دن قبل یہ فرماتے ہوئے سنا :
میں اللہ کی طرف اس بات سے براءت کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے کسی کو خلیل بناؤں ، بیشک اللہ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے جیساکہ ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا ہے ، اگر میں امت میں سےکسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کا انتخاب کرتا ۔ خبردار ہوجاؤ تم میں سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اورنیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا کرتے تھے ، خبردار تم قبروں کوسجدہ گاہ نہ بنانا میں تمہیں اس بات سے منع کر رہا ہوں ۔[6]
5۔حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے حضرت عائشہ کو بتایا کہ انہوں نے ایک کنیسہ جس کے اندر تصویریں تھیں ، کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ لوگ جب ان میں کوئی نیک آدمی وفات پاجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنادیتے ،اور اس میں تصویریں بنادیتے ۔ قیامت کے دن یہ لوگ اللہ کے ہاں سب مخلوقات میں سے بدترین ہوں گے ۔[7]
6۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بدترین لوگ وہ ہیں جو قیامت کے وقت زندہ ہوں گے اور وہ لوگ جو قبروں کو سجدہ گاہ بناتے ہیں ۔[8]
7۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا ، ان لوگوں پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا ۔ [9]
احادیث کے اندر جو معنی بیان ہوا ہے اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں کو مسجدیں بنانے سے منع کرنا یہ ان پر مساجد تعمیر کرنے ، اور ان کے پاس نماز پڑھنے ، دونوں باتوں کو شامل ہے چنانچہ یہ دونوں كام علماء کے ہاں بالاتفاق نا جائز ہیں ۔ [10]
شوکانی فرماتے ہیں :
جان لیجیے ! صحابہ کے دور سے لے کر آج تک تمام لوگوں کا اتفاق ہےکہ قبروں کو بلند کرنا اور ان پر تعمیر کرنا ان بدعات میں سے ایک بدعت ہے جن سے منع کیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں بہت سخت وعید فرمائی ہے ۔ اس بات میں کسی بھی مسلمان نے اختلاف رائے نہیں کیا ۔[11]
اتخاذ القبور مساجد میں تین باتیں آتی ہیں جیساکہ محققین اہل علم نے وضاحت کی ہے :
1۔ قبر کے پاس یا اس طرف منہ کرکے نماز پڑھنا ،جبکہ اس پر سجدہ کرنا یہ اس سے بھی قبیح فعل ہے ۔
2۔ کسی جگہ میت کو دفن کرکے پھر اس کی قبر پر یا اس کے ارد گرد مسجد بنادینا ۔
3۔ مسجد کی عمارت میں میت کو دفن کرنا۔ [12]
یہ تینوں صورتیں گزشتہ احادیث میں وارد ممانعت کے تحت آتی ہیں ۔ واللہ اعلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ دیکھیے : اقتضاء الصراط المستقیم ( 300 / 1 ) ، ( 672 ، 774 / 2 ) و نظم المتناثر ( 103 )
[2] ۔ مجموع الفتاوی ( 27 / 191 ) مزيد ديکھیے : اقتضاء الصراط المستقيم ( 2 / 678 – 680 ) و تيسير العزيز الحميد ( 2 / 668 – 670 )
[3] ۔ أخرجه البخاري ( 1 / 532 ) مع الفتح برقم ( 437 ) و مسلم ( 1 / 376 ) برقم ( 530 ) .
[4] ۔ أخرجه البخاري ( 1 / 532 ) مع الفتح برقم ( 435 ) و مسلم ( 1 / 377 ) برقم ( 529 ) .
[5] ۔أخرجه البخاري ( 8 / 140 ) مع الفتح برقم ( 4441 ) و مسلم ( 1 / 376 ) برقم ( 529 ) .
[6] ۔أخرجه مسلم ( 1 / 377 ) برقم ( 532 ) .
[7] ۔ أخرجه البخاري ( 7 / 187 ) مع الفتح برقم ( 3873 ) وسلم ( 1 / 375 ) برقم ( 528 ) .
[8] ۔أخرجه أحمد ( 6 / 394 ) برقم ( 3844 ) وابن حبان في صحيحه – الإحسان ( 15 / 260 ) برقم ( 6847 ) . شيخ الاسلام ابن تيميه نے اقتضاء الصراط المستقیم ( 2 / 674 ) میں اور شوکانی نے شرح الصدور ( 13 ) میں اس کی سند کو جید قرار دیا ہے ۔
[9] ۔ أخرجه أحمد في مسنده ( 12 / 314 ) برقم ( 7358 ) . شيخ البانى فرماتے ہیں بلاشبہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ أحکام الجنائز ( 217 ) . وقد رواه مالك في الموطأ ( 86 ) برقم ( 414 ) عن عطاء ابن يسار مرسلا بلفظ : أللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد .
[10] ۔ اقتضاء الصراط المستقيم ( 2 / 774 ) . مزید دیکھیے : الرد علي البكري ( 2 / 519 )
[11] ۔ شرح الصدور بتحريم رفع القبور ( 8 ) .
[12] ۔ دیکھیے : الأم ( 1 / 264 ) ، اقتضاء الصراط المستقيم ( 2 / 774 ، 677 ) ، الرد على البكري ( 2 / 519 ) ، شرح العمدة - الجزء الثاني ( 640 ) الزواجر ( 1 / 121 ) العدة للصنعاني ( 3 / 261 ) تيسير العزيز الحميد ( 2 / 666 – 667 ) ، شرح الصدور ( 14 – 15 ) ، تحذير الساجد ( 21 – 32 ) .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دوم : مسجد نبوی کی مختلف زمانوں میں ہونے والی توسیعات کا مختصر تعارف اور ان کا مسجد نبوی پر اثر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو صحابہ کے ہاں یہ بات حتمی ٹھہر ی[1] کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دفن کیا جائے ۔ اس کی دو وجہیں ہیں :
اول :
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہوا تھا کہ نبی کو جہاں موت آتی ہے وہیں دفن کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کر لی گئی اور آپ کے دفن کے بارے میں صحابہ کرام کا اختلاف ہوگیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے ایک بات سنی تھی جو مجھے ابھی تک اچھی طرح یاد ہے آپ نے فرمایا تھا : اللہ تعالی ہر نبی کو اسی جگہ فوت کرتے ہیں جس جگہ اس کو دفن کرنا ضروری ہوتا ہے ، لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی چارپائی کی جگہ پر ہی سپرد خاک کردو[2]
دوم :
خطرہ تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ لٹک جائیں لہذا شرک کے اس ذریعے سے بچنے کے لیے آپ کو جہال کی پہنچ سے دور ایسی جگہ دفنایا گیا جہاں اس طرح کی باتوں کا اندیشہ نہیں تھا چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا :
اللہ یہود و نصاری پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا ۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں : اگر یہ خدشہ نہ ہوتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ظاہر کی جاتی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خدشہ کا اظہار فرمایا تھا کہ آپ کی قبر سجدہ گاہ بنالیا جائے گا ۔؟[3]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مسجد سے الگ تھا اس کی اپنی دیواریں اور دو دروازے تھے ۔
خلفاء راشدین حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں مسجد کی توسیع کی گئی لیکن حجرہ عائشہ ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر تھی ، سمیت امہات المؤمنین کے حجروں میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ۔ [4]
ولید بن عبد الملک کے دور میں مدینہ کے گورنر عمر بن عبد العزیز کی نگرانی میں مشہور توسیع ہوئی جس میں مغرب اور شمال دونوں طرف مکمل ، جبکہ جنوب کی طرف سے کچھ حصہ بڑھا نے کے ساتھ ساتھ مشرقی جانب بھی اضافہ کیا گیا جوکہ اس طرف اب تک کی پہلی توسیع تھی ۔ [5]
چونکہ امہات المؤمنین کے حجرے مغربی جہت کے علاوہ باقی تینوں اطراف سے مسجد کو گھیرے ہوئے تھے اس لیے ان تمام کو ختم کرکے مسجد کے اندر شامل کردیا گیا ۔[6]
ہاں حضور کے مدفن یعنی حجرہ عائشہ کا ایک خاص محل وقوع تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی جگہ باقی رہا [7]البتہ عمر بن عبد العزیز نے اس کی عمارت بہترین انداز میں دوبارہ تعمیر کروائی اور اس کے ارد گرد مزید ایک بلند خماسی دیوار اس طرح بنائی کہ اس کے دو اطراف شمال کی جانب آپس میں اس طرح ملتے تھے جیسے مثلث ہوتی ہے ۔ [8]
یہ کام کرنے کی دو وجہیں تھیں :
تاکہ حجرہ کی پچھلی جانب مسجد میں نماز پڑھنے والے کے بارے میں یہ شبہ نہ ہو کہ وہ قبر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہا ہے ۔
دوسرا یہ کہ حجرہ کی ہیئت اللہ کے گھر کعبہ سے مشابہ نہ ہو ۔[9]
سلطان ظاہر بیبرس کے دور میں 667هـ میں اس دیوار کے ارد گرد مزید ایک دیوار کھینچی گئی جس میں شمال کی طرف موجود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا كا چبوترہ نما گھر بھی آگیا ۔ یہ دیوار لکڑی کی تھی اس کا نام ‘‘ درابزین ’’ بتایا جاتا ہے ۔[10]
پھر 886ھ [11]میں مسجد میں آگ لگنے کی وجہ سے ‘‘ قایتبائی ’’ کے دور میں عمارت دوبارہ تعمیر کی گئی تو حجرہ کے چاروں طرف اس دیوار کو لوہے کی سلاخوں سے مضبوط کردیا گیا سوائے قبلہ کی جانب ، کہ وہاں تانبے کی جالیاں [12]( کھڑکیاں ) بنادی گئیں جو آج بھی حجرہ کے سامنے نظر آتی ہیں ۔[13]
گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے گرد تین دیواریں ( حجرہ کی دیوار ، اس کے بعد دیوار خماسی ، اس کے بعد لوہے کی دیوار ) جن کے ذریعے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ کی قبرکو پرستش گاہ بننے سے محفوط رکھا ہے ۔ یہ سب اہتمام آپ کی اس دعا کا نتیجہ ہے جو آپ نے فرمائی تھی :
اے اللہ میری قبر کو بت نہ بننے دینا ، اللہ کی لعنت ہو ایسے لوگوں پر جو اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیتے ہیں ۔[14]
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی کہ اے اللہ میری قبر کو بت نہ بننے دینا
اللہ نے اس دعا کی قبولیت یوں فرمائی کہ قبر کے گرد تین دیواریں بنادی گئیں
چنانچہ آپ کی دعا کے باعث قبر چاروں اطراف سے اچھی طرح محفوظ اور عزت و احترام میں ہے ۔
وفات کے وقت اللہ کے رسول نے صراحت کے ساتھ با آواز بلند لعنت فرمائی تھی
یہودیوں اور صلیب کے پجاریوں پر جنہوں نے قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا ۔
اللہ کی قسم ، اگر اس بات کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر سب کے سامنے ہوتی ۔ دیواروں کے ساتھ اس کو ڈھانپنے کا مقصد یہ تھا تاکہ آپ کے حجرہ کے پاس آکر لوگ سجدے نہ کریں ۔
اور اصل مقصد اللہ کے رسول کی پیروی تھی جبکہ خود اللہ کے رسول کا مقصد توحید الہی کو خالص کرنا تھا[15]
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ شروع شروع میں اختلاف رائے ہوا تھا جیسا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں آئے گا ۔ التبہ بعد میں سب ایک بات پر متفق ہوگئے تھے ۔ مترجم
[2] ۔ أخرجه الترمذي ( 3 / 338 ) برقم ( 1018 ) و أحمد في مسنده ( 1 / 206 ) . امام ترمذی فرماتے ہیں : کہ یہ حدیث غریب ہے اس کے اندر عبد الرحمن بن ابی بکر الملیكي راوی حافظہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا جاتا ہے ۔ البتہ اس حدیث کے اور طرق بھی ہیں اس کو ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا حضرت ابن عباس نے بھی بیان کیا ہے ۔
بہر صورت اس روایت کے مرفوع اور موقوف کئی ایک شواہد ہیں جس وجہ سے یہ روایت قوی اور ثابت شدہ . دیکھیے : أحکام الجنائز ( 137 – 138 ) اور مسند احمد (1 / 207 ) پر شیخ شعیب ارناؤط کی تعلیق ۔

[3] ۔ یہ حدیث صحیحين میں ہے یہاں الفاظ مسلم کے ہیں ۔
[4] ۔ ان دونوں توسیعات کے بارے میں جاننے کےلیے دیکھیے : الدرة الثمينة في تاريخ المدينة ( 170 – 174 ) ، وفاء الوفاء ( 2 / 481 – 510 ) ، نزهة الناظرين ( 11 – 12 ) .
[5] ۔ اس توسیع کے بارے تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ فرمائیں : الدرة الثمينة في تاريخ المدينة ( 147 ) ، وفاء الوفاء ( 5 / 513 – 535 ) ، نزهة الناظرين ( 12 ) .
[6] ۔ حجروں کی بارے میں جاننے کے لیے سابقہ حوالہ جات کے علاوہ نزهة الناظرين ( 67 ) ملاحظہ فرمائیں ۔
[7] ۔ دیکھیے : مجموع الفتاوى ( 27 / 323 ) .
[8] ۔ دیکھیے : الدرة الثمينة في تاريخ المدينة ( 174 ) وفاء الوفاء ( 2 / 513 – 535 ) ، نزهة الناظرين ( 12 ، 71 ) .
[9] ۔ دیکھیے : المصدر السابق ( 27 / 141 ، 327 ) ، نزهة الناظرين ( 71 ) .
[10] ۔ دیکھیے : وفاء الوفاء ( 2 / 611 ) .
[11] ۔ دیکھیے : المصدر السابق ( 2 / 633 ) آگ لگنے کا یہ حادیہ دوسری دفعہ رونما ہوا ۔ اس سے پہلے بھی ایک دفعہ مسجد میں (654هـ ) آگ لگ چکی تھی ۔ دیکھیے المصدر السابق ( 2 / 598 ) .
[12] ۔ دیکھیے : المصدر السابق ( 2 / 612 ) . یہاں سمہودی نے ذکر کیا ہے کہ ( بیبرس کے دور میں بنائی جانے والی ) دیوار کے اندرونی جانب لوہے کی جنگلہ نما دیوار کا اضافہ کیا گیا جو حجرۃ نبویہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گہر میں حد فاصل تھی ۔
[13] ۔بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آج کل موجود جالی یہ وہی ہے جو قایتبائی کے دور میں لگائی گئی تھی اور عثمانی سلطان عبد المجید کی تعمیر میں اس میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا ۔ نزهة الناظرين ( 68 ) میں برزنجی ۔ اس کے زمانے میں یہ عمارت موجود تھی ۔ کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔
[14] ۔ اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے ۔
[15] ۔الكافية الشافية ( النونية ) ( 3 / 814 – 815 ) .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سوم : قبرپرستوں کے ایک شبہ ( کہ بعض صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن کرنے کی رائےدی تھی اور کسی نے ان کی بات کا انکار نہیں کیا تھا ) کا ذکر اور اس کا جواب

شبہ :
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کے اندر منبر کے پاس دفن کرنے کا مشورہ پیش کیا تھا ، جس پر کسی نے انکار نہیں کیا حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انکار کی وجہ بھی اس بات کا ناجائز ہونا نہ تھی بلکہ انہوں نے تو اس وجہ سے انکار کیا تاکہ حضور کو آپ کے فرمان کے مطابق اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں آپ کی روح قبض کی گئی ۔[1]
لہذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں کسی کو دفن کرنا جائز ہے ۔
جواب :
یہاں دو باتیں ہیں :
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ دیکھیے : المتشددون ، منهجهم و مناقشة أهم قضاياهم لعلي جمعة ( 48 ) . شیخ عبد اللہ رمضان موسی نے اس شبہے کا ۔ اور اس جیسے دیگر شبہات کا ۔ اپنی کتاب ( الرد علي المفتي د . علي جمعة ( 386 – 392 ) میں بہترین رد کیا ہے ۔ میں نے اس سلسلے میں بعض جگہ پر ان سے استفادہ کیا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
پہلی بات :
‘‘ صحابہ کرام نے منبر کے پاس دفن کا مشورہ دیا اور کسی نے انکار نہیں کیا ’’ اس سلسلے میں جو کچھ مروی ہے ، پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا ۔ تفصیل پیش خدمت ہے :
اس شبہ کی تائید میں موطا مالک [1]کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے :
" حدثني يحيى عن مالك أنه بلغه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي يوم الاثنين ، و دفن يوم الثلاثاء ، و صلى الناس عليه أفذاذاً لا يؤمهم أحد ، فقال ناس : يدفن عند المنبر ، وقال آخرون : يدفن بالبقيع ، فجاء أبو بكر الصديق فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " ما دفن نبي قط إلا في مكانه الذي توفي فيه " فحفر له " .
‘امام مالک کی بلاغات میں سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کو فوت ہوئے ، منگل کو دفن کیے گئے ، لوگوں نے الگ الگ ٹولیوں میں بغیر امام کے نماز جنازہ ادا کی ، پھر کچھ نے کہا : تدفین منبر کے پاس ہونی چاہیے ، بعض نے مشورہ دیا : بقیع میں دفن کریں ، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ہر نبی کو اس کی جائے وفات پر ہی دفن کیا جاتا ہے ۔ پھر اسی جگہ قبر کھودی گئی ۔’
یہ روایت جیساکہ واضح ہے کہ بلاغات مالک میں سے جوکہ منقطع ہیں کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ صحابہ میں سے کسی سے بھی شرف ملاقات نہیں پاسکےاور مالک کی ولادت اور اس حادثہ کا درمیانی عرصہ اسی سے زائد سالوں پر محیط ہے ۔ اس بنا پر یہ روایت ضعیف ہے ۔
ہاں ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس روایت میں موجود قصہ کے مختلف اجزاء کو مختلف احادیث [2] سے جمع کرکے ان کی اسانید بیان کی ہیں لیکن اس جملہ ( فقال ناس : يدفن عند المنبر ) کی انہوں نے بھی کوئی سند ذکر نہیں کی ۔
اسی طرح کا ایک اثر سنن ابن ماجہ [3]کے اندر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بایں الفاظ مروی ہے :
" لقد اختلف المسلمون في المكان الذي يحفرله ، فقال قائلون : يدفن في مسجده و قال قائلون : يدفن مع أصحابه ... "
‘مسلمانوں کا اس بارے اختلاف ہوگیا کہ حضور کی قبر کہاں کھودی جائے ، کچھ نے کہا : مسجد میں دفن کریں ، کچھ نے کہا : دیگر صحابہ کے ساتھ ( قبرستان ) میں دفن کیا جائے ۔ ’
یہ بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی حسین بن عبد اللہ کو امام احمد ، نسائی ، ابو زرعۃ اور دیگر علماء نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ [4]
امام ذہبی فرماتے ہیں : ( ضعفوہ ) کہ محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔[5]
ابن حجر نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ [6]
اسی روایت کو ابن سعد نے طبقات [7] میں بیان کیا ہے لیکن اس کی اسنادی حالت پہلے سے بھی گئی گزری ہے کہ اس کی سند میں محمد بن عمر الواقدی ہے جو بالاتفاق متروک الحدیث ہے ۔[8]
اسی طرح اس میں ایک راوی داود بن الحصین ہے جس کو علماء کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ [9] ابن حجر فرماتے ہیں ثقہ ہے لیکن عکرمہ سے روایت کرنے میں ضعیف ہے ۔[10] اور یہاں اس کی روایت عکرمہ عن ابن عباس سے ہی ہے ۔
خلاصہ کلام : یہ روایت ضعیف و غیر صحیح ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ (113)
[2] ۔ التمهيد ( 24 / 394 ) .
[3] ۔ ( 1 / 520 ) برقم ( 1628 ) .
[4] ۔ دیکھیے : ميزان الاعتدال ( 1 / 537 ) .
[5] ۔ الکاشف ( 1 / 231 ) .
[6] ۔ ( تقریب التهذيب ( 248 ) .
[7] ۔ ( 2 / 292 ) .
[8] ۔ دیکھیے : تذكرة الحفاظ ( 1 / 348 ) .
[9] ۔ دیکھیے : الكاشف ( 1 / 287 ) .
[10] ۔ ( 305 ) .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دوسری بات :
یہ دعوی کرنا کہ کسی نے آپ کو مسجد میں یا منبر کے پاس دفن کرنے کا انکار نہیں کیا ، غیردرست ہے ۔
چنانچہ إسحاق بن راہویہ اپنی مسند [1] میں حسن بصری کا بیان نقل کرتے ہیں :
مسلمانوں کا اس بارے میں اختلاف ہوگیا تھا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے ؟
ایگ گروہ نے کہا کہ آپ کو بقیع میں دفن کرنا چاہیے کیونکہ آپ نے اپنی اولاد اور دیگر مسلمانوں کے لیے یہی جگہ اختیار کی ہے ۔ حسن فرماتے ہیں لوگوں کا کہنا یہ بھی تھا کہ تم حضور کی قبر کو بالکل واضح اس لیے بنارہے ہو کہ تاکہ جب بھی کسی کو کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ یہاں آ کر پناہ مانگنا شروع کردے ؟!
ایک دوسرے گروہ نےکہا : ہم آپ کو مسجد میں دفن کریں گے ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب غشی سے افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا تھا:
اللہ تعالی ا ن قوموں کو تباہ و برباد کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا ۔
صحابہ سمجھ گئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس بات ( مسجد میں دفن کرنا ) سے منع کرنے کے لیے ہی ہے ۔ چنانچہ انہوں نے کہا : حضور کو وہیں دفن کردیا جائے گا جہاں اللہ تعالی آپ کی روح قبض فرمائیں گے لہذا آپ کی قبر حضرت عائشہ کے حجرہ میں ہی بنائی گئی ۔
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں [2] اور یہاں جو محل شاہد ہے ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مسجد میں دفن کرنے والے مشورے کا انکار کرنا ) وہ متصل ہے کیونکہ حسن بصری کا حضرت عائشہ سے لقاء اور سماع ثابت ہے ۔
لہذا یہ واضح ہوگیا کہ قصہ مذکورہ انکار کے بغیر صحیح نہیں ، جو ثابت ہے اس میں مسجد میں دفن کرنے والے مشورے کا انکار بھی ثابت ہے بلکہ حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اس کو قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
انکار کرنے والی جلیل القدر فقیہہ صحابیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔ اور جنہوں نے یہ مشورہ دیا تھا یقینا ان کے علم میں یہ حدیث نہیں ہوگی ۔
نتیجہ بحث یہ نکلتا ہےکہ جب ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ممانعت کی دلیل بیان فرمادی تو تمام صحابہ کرام اس فعل سے اجتناب پر متفق ہوگئے تھے اور انہوں نے اس کو قبروں کو سجدہ گاہ بنانا ہی سمجھا ۔ اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے باپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ وضاحت فرمادی کہ انبیاء کو کس جگہ دفن کیا جاتا ہے تو سب اس بات پر راضی ہوگئے کہ آپ کو اسی جگہ دفن کیا جائے گا جہاں آپ کی وفات ہوئی ۔
لہذا قبرپرستوں کی طرف سے پیش کردہ یہ شبہ بالکل ساقط ہو جاتا ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ ( 3 / 738 ) .
[2] ۔ مسند اسحاق کے مقام مذکور پر محقق کی تعلیق ملاحظہ فرمائیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
چہارم :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد میں داخل کرنے سےقبر پرستوں کا استدلال اور اس کا جواب
شبہ
یہ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ سلف نے قبر نبوی کو مسجد نبوی کے اندر شامل کردیا تھا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہےکہ قبروں کو سجدہ گاہ بنایا جاسکتا ہے ۔[1]
لہذا مسجد نبوی میں جب یہ موجود ہے توپھر دیگر مساجد کے اندر بھی خانقاہیں وغیرہ تعمیر کرنا جائز ہے ۔
جواب
مسجد نبوی اور قبر نبوی کی آپس میں نسبت اور علاقہ دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات بالکل فاسد ہے ۔
صورت حال کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسجد نبوی اور قبر نبوی کے ایک دوسرے سے تعلق کی تین حالتیں ہی ہوسکتی ہیں :
اول : قبر مسجد میں شامل نہیں بلکہ اس کے پڑوس میں اس کے ساتھ متصل ہے ۔
دوم : مسجد قبر کے ارد گرد ہے لیکن قبر اس کی حدود کے اندر نہیں ۔
سوم : قبر مسجد کے اند رہے ۔
اب تینوں احتمالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ دعوی کرنا بالکل باطل ٹھہرتا ۔ اور اس پر قیاس غیر صحیح قرار پاتا ہے ۔ تفصیل حسب ذیل ہے :
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ دیکھیے : أحمد الغماری کی کتاب إحياء المقبور من أدلة استحباب بناء المساجد علي القبور ( 37 – 38 ) اور اس کے بھائی عبد اللہ الغماری کی کتاب إعلام الراكع و الساجد بمعنى اتخاذ القبور مساجد ( 67 ) اور علی جمعہ کی کتاب المتشددون ( 85 – 86 ) .
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top