- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
اسلام کی بنیاد توحید الہی ہے ، اللہ کی ذات کے ساتھ شرک رب ذو الجلال کی توہین تو ہے ہی ، نا انصافی اور ظلم عظیم بھی ہے ، قرآن و سنت میں جگہ جگہ توحید کی اہمیت پر زور دیا گیا ، اور شرک سے بچنے کی تاکید کی گئی ، صالحین کی تعظیم میں غلو قبر پرستی کا اہم سبب ہے ، جو کہ واضح اور کھلا شرک ہے ، دین اسلام میں ایسی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ مسلمان شرک میں مبتلا ہونا تو دور کی بات اس کا ذریعہ بننے والی چیزوں سے بھی دور رہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے آخری ایام میں یہود و نصاری پر لعنت کرتے رہے کہ انہوں نے انبیاء و صالحین کو قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا تھا ، آپ کی واضح تعلیمات کی روشنی میں نہ قبر کو سجدہ گاہ بنانا درست ہے اور نہ ہی کسی سجدہ گاہ یعنی مسجد میں قبر بنانے کا کوئی جواز ہے ،امہات المؤمنین ، آپ کی اولاد ، دیگر عزیز و اقارب اور کئی جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کی حیات مبارکہ میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے ، آپ نے کسی کو مسجد کے اندر دفن کیا ، اور نہ ہی ان کے مدفن کو سجدہ گاہ بنانے کی ترغیب دی ۔
دنیا ابتلاء و آزمائش سے عبارت ہے ، شیطان کی چالیں کامیاب ہوئیں ، اور وہی دین جس کی ابتداء توحید کی آبیاری اور شرک و بدعت کی بیخ کنی سے ہوئی تھی ، بعد میں اس کے نام لیوا انہیں گمراہیوں میں گرفتار ہوگئے ، بندگان خدا نے اتباع نفس اور خواہشات کی پیروی میں خالق کائنات اور سرور کونین کے واضح ارشادات چھوڑ کر مخلوق خدا کی کمیوں کوتاہیوں کو دلائل سمجھ کر مضبوطی سے تھام لیا ۔
بدعات و شرکیات میں مبتلا لوگوں کے انہیں شبہات میں سے ایک شبہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی تو مسجد نبوی میں ہے اور لوگ وہاں نماز ادا کرتے ہیں ، لہذا جائز ہے ، کہ اسی طرح دیگر جگہوں پر بھی اولیاء و صلحاء کے احترام و اعزاز میں ان کی قبریں مساجد کے اندر بنائی جائیں ۔ جب سے یہ شبہ معرض وجود میں آیا ، اسی وقت سے اس کا جواب بھی علماء ربانی اپنے انداز میں دیتے رہے ، لیکن ضرورت تھی کہ اس موضوع پر مستقل کتابچہ تیار کیا جائے ، جس میں اس شبہے کا شرعی وتاریخی اعتبار سے جائزہ لیا جائے ، تاکہ عام لوگوں کے لیے یہ بات واضح ہو کہ کیا واقعتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مسجد نبوی میں ہے یا یہ صرف غلط فہمی ہے ؟ اور کیا اس سے قبر پرستی کے جواز پر استدلال درست ہے یا نہیں ؟
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے قابل ترین اور ذہین و فطین استاد دکتور صالح بن عبد العزیز بن عثمان سندی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور وضاحت کے ساتھ اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ، سندی صاحب کی یہ کتاب :
اول : قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت میں وارد احادیث اور ان کا معنی و مفہوم
یہاں سات احادیث بیان کی گئی ہیں ،جن میں قبروں کو سجدہ گاہ بنانے اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ، اور اہل علم نے ان احادیث مبارکہ کا جو معنی بیان کیا ، اس کی مختصرا وضاحت کی گئی ہے ۔
دوم : مسجد نبوی کی مختلف زمانوں میں ہونے والی توسیعات کا مختصر تعارف اور ان کا مسجد نبوی پر اثر ۔
اس باب میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے لیے حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا انتخاب کیونکر اور کن شخصیات نے کیا ؟ اور کیا حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسجد کی حدود میں تھا یا باہر ؟ اور مسجد نبوی کی مختلف توسیعات کی نوعیت کیا تھی کہ کچھ لوگ حجرہ کو مسجد کا حصہ سمجھنے لگے ۔
سوم : قبرپرستوں کے ایک شبہ ( کہ بعض صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن کرنے کی رائےدی تھی اور کسی نے ان کی بات کا انکار نہیں کیا تھا ) کا ذکر اور اس کا جواب ۔
یہاں مذکورہ شبہے کی تائید میں پیش کیے جانے والے دلائل کی استنادی حیثیت پر بحث کی گئی ہے ۔
چہارم :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد میں داخل کرنے سےقبر پرستوں کا استدلال اور اس کا جواب ۔
یہ باب کتاب کا اصل مقصود و مطلوب ہے ، اس میں قبر پرستوں کے مختلف اعتراضات و اشکالات پیش کرکے ، ان کا کئی وجوہات سے رد کیا گیا ہے ، اور ثابت کیا گیا ہے کہ ان کا یہ استدلال تار عنکبوت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔
پنجم : حجرہ عائشہ کو مسجد میں شامل کرنے کے بارے میں سلف کا موقف ۔
یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ بعد کے ادوار میں قبر اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح قریب قریب کردینا ، یہ اقدام خلاف مصلحت اور ایک واضح غلطی تھی ، جس پر علما نے اسی وقت سے نکیر کی ، اور حق بات واضح کی ۔
یہ کتابچہ چھوٹے سائز کے تقریبا 60 صفحات پر مشتمل ہے ، کتاب پہلی دفعہ 2014 میں منظر عام پر آئی ، کتاب کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر کچھ ہی دیر بعد کویت میں دوبارہ چھاپی گئی ، کتاب کے دونوں ایڈیشن انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف میں بھی دستیاب ہیں ، ذیل میں شیخ سندی کی ویب سائٹ سے اس کا ڈاؤن لوڈ لنک پیش خدمت ہے :
تھوڑی سی خوشخبری کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے ، تھوڑی سی اس لیے کیونکہ یہ ترجمہ ابھی تک غیر مطبوع ہے ۔
دنیا ابتلاء و آزمائش سے عبارت ہے ، شیطان کی چالیں کامیاب ہوئیں ، اور وہی دین جس کی ابتداء توحید کی آبیاری اور شرک و بدعت کی بیخ کنی سے ہوئی تھی ، بعد میں اس کے نام لیوا انہیں گمراہیوں میں گرفتار ہوگئے ، بندگان خدا نے اتباع نفس اور خواہشات کی پیروی میں خالق کائنات اور سرور کونین کے واضح ارشادات چھوڑ کر مخلوق خدا کی کمیوں کوتاہیوں کو دلائل سمجھ کر مضبوطی سے تھام لیا ۔
بدعات و شرکیات میں مبتلا لوگوں کے انہیں شبہات میں سے ایک شبہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی تو مسجد نبوی میں ہے اور لوگ وہاں نماز ادا کرتے ہیں ، لہذا جائز ہے ، کہ اسی طرح دیگر جگہوں پر بھی اولیاء و صلحاء کے احترام و اعزاز میں ان کی قبریں مساجد کے اندر بنائی جائیں ۔ جب سے یہ شبہ معرض وجود میں آیا ، اسی وقت سے اس کا جواب بھی علماء ربانی اپنے انداز میں دیتے رہے ، لیکن ضرورت تھی کہ اس موضوع پر مستقل کتابچہ تیار کیا جائے ، جس میں اس شبہے کا شرعی وتاریخی اعتبار سے جائزہ لیا جائے ، تاکہ عام لوگوں کے لیے یہ بات واضح ہو کہ کیا واقعتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مسجد نبوی میں ہے یا یہ صرف غلط فہمی ہے ؟ اور کیا اس سے قبر پرستی کے جواز پر استدلال درست ہے یا نہیں ؟
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے قابل ترین اور ذہین و فطین استاد دکتور صالح بن عبد العزیز بن عثمان سندی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور وضاحت کے ساتھ اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ، سندی صاحب کی یہ کتاب :
الجواب عن شبهة الاستدلال بالقبر النبوي على جواز اتخاذ القبور مساجد
کے عنوان سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ، کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے :اول : قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت میں وارد احادیث اور ان کا معنی و مفہوم
یہاں سات احادیث بیان کی گئی ہیں ،جن میں قبروں کو سجدہ گاہ بنانے اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ، اور اہل علم نے ان احادیث مبارکہ کا جو معنی بیان کیا ، اس کی مختصرا وضاحت کی گئی ہے ۔
دوم : مسجد نبوی کی مختلف زمانوں میں ہونے والی توسیعات کا مختصر تعارف اور ان کا مسجد نبوی پر اثر ۔
اس باب میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے لیے حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا انتخاب کیونکر اور کن شخصیات نے کیا ؟ اور کیا حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسجد کی حدود میں تھا یا باہر ؟ اور مسجد نبوی کی مختلف توسیعات کی نوعیت کیا تھی کہ کچھ لوگ حجرہ کو مسجد کا حصہ سمجھنے لگے ۔
سوم : قبرپرستوں کے ایک شبہ ( کہ بعض صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن کرنے کی رائےدی تھی اور کسی نے ان کی بات کا انکار نہیں کیا تھا ) کا ذکر اور اس کا جواب ۔
یہاں مذکورہ شبہے کی تائید میں پیش کیے جانے والے دلائل کی استنادی حیثیت پر بحث کی گئی ہے ۔
چہارم :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد میں داخل کرنے سےقبر پرستوں کا استدلال اور اس کا جواب ۔
یہ باب کتاب کا اصل مقصود و مطلوب ہے ، اس میں قبر پرستوں کے مختلف اعتراضات و اشکالات پیش کرکے ، ان کا کئی وجوہات سے رد کیا گیا ہے ، اور ثابت کیا گیا ہے کہ ان کا یہ استدلال تار عنکبوت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔
پنجم : حجرہ عائشہ کو مسجد میں شامل کرنے کے بارے میں سلف کا موقف ۔
یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ بعد کے ادوار میں قبر اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح قریب قریب کردینا ، یہ اقدام خلاف مصلحت اور ایک واضح غلطی تھی ، جس پر علما نے اسی وقت سے نکیر کی ، اور حق بات واضح کی ۔
یہ کتابچہ چھوٹے سائز کے تقریبا 60 صفحات پر مشتمل ہے ، کتاب پہلی دفعہ 2014 میں منظر عام پر آئی ، کتاب کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر کچھ ہی دیر بعد کویت میں دوبارہ چھاپی گئی ، کتاب کے دونوں ایڈیشن انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف میں بھی دستیاب ہیں ، ذیل میں شیخ سندی کی ویب سائٹ سے اس کا ڈاؤن لوڈ لنک پیش خدمت ہے :
تھوڑی سی خوشخبری کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے ، تھوڑی سی اس لیے کیونکہ یہ ترجمہ ابھی تک غیر مطبوع ہے ۔
Last edited: