• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مسجد نبوی میں ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
پہلا احتمال :
قبر مسجد میں شامل نہیں بلکہ اس کے پڑوس میں اس کے ساتھ متصل ہے ۔
امام صنعانی فرماتے ہیں :
تحقیقی بات یہ ہےکہ قبر پر مسجد تعمیر نہیں ہوئی کیونکہ وہ جگہ مسجد تعمیر ہونے سے پہلے حضور کے دفن ہونے سے مسجد سے مستقل ایک الگ جگہ ٹھہری تھی لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ یا بت پرستی کی جگہ بنادیا گیا ہے ۔
بلکہ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو آپ کے گھر جو آپ کی اور حضرت عائشہ کی ملکیت تھا میں دفن کیا گیا ۔ البتہ یہ جگہ مسجد کے قریب ترین تھی ۔ جب مسجدکی توسیع کی گئی تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مزید متصل ہوگئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قبر مسجد میں تبدیل ہوگئی ۔[1]
شاید شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مراد بھی یہی ہے فرماتے ہیں :
قبر نبوی مسجد نبوی کے پڑوس میں ہے ۔[2]
یہ احتمال مزید اس طرح واضح ہوجاتاہےکہ پہلے مسجد حجرہ کے ساتھ صرف غربی طرف سے ملتی تھی لیکن توسیع کے بعد غربی ، جنوبی اور شمالی تینوں اطراف سے حجرہ کے ساتھ متصل ہوگئی ۔
توسیع ولید میں حجرہ عائشہ کی جنوبی جانب (یعنی قبلہ کی طرف ) اور شمالی جانب ( جو کہ حجرہ فاطمہ کی بھی شمالی جانب بنتی ہے ) موجود حجرات کو گراکر مسجد میں شامل کردیا گیا، یوں حجرہ عائشہ مغربی، جنوبی اور شمالی تینوں اطراف سے مسجد کے ساتھ مل گیا۔
لہذا اب مسجد نبوی کی حد حجرہ عائشہ کی مغربی دیوار تک ہے اور اس سے پیچھے یعنی حجرہ کے مشرقی طرف مسجد کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔[3]
لیکن یہاں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں :
اول :

اہل علم کی کتابوں میں یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ ولید نے حجرہ کو مسجد میں شامل کردیا تھا ، جو کہ اوپر پیش کردہ تحقیق کے خلاف ہے ۔
اس کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ : علماء کی اس سے مراد بظاہر حجرہ کا مسجد میں شامل نظر آنا ہے ، حقیقتا نہیں ، کیونکہ توسیع ولید کے بعد حجرہ ایسے ہی نظر آتا تھا جیسے مسجد میں شامل ہے حالانکہ وہ تین اطراف سے مسجد کے ساتھ متصل ہے نہ کہ مسجد کے اندر داخل ہے ۔
میرے علم کے مطابق کسی بھی معتبر عالم دین نے حجرہ کو مسجد یا اس کا جزء قرار نہیں دیا ، اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ حجرہ میں نماز(اگر ممکن ہو ) پڑھنے کا ثواب بھی مسجد میں نماز پڑھنے کی طرح ہے ۔
لہذا حجرے کی اپنی ایک مستقل اور الگ حیثیت ہے ، اور زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہےکہ توسیع کے بعد وہ مسجد نبوی کے مزید قریب ہوگیا ہے ۔ جیساکہ پہلے گزر چکا ہے ۔
غور و فکر کرنے والے کے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حجرہ مبارکہ واقعتا مسجد میں شامل نہیں ، اور مسجد کی توسیع کا اہتمام کرنے والوں نے بھی اسے الگ رکھنے کا اہتمام کیا ہے ، ورنہ وہ چاہتے تو مسجد کی توسیع کی مصلحت کی غرض سے اس کو شاملِ مسجد کرسکتے تھے جیساکہ دیگر امہات المؤمنین کے حجروں کو گرا کر مسجد میں شامل کرنا پڑا حالانکہ اہل علم اور عوام الناس کی شدید خواہش تھی کہ انہیں باقی رکھا جائے[4]اسی طرح حجرہ عائشہ کو بھی شامل کرنا ممکن تھا ، کیونکہ اس طرف توسیع کے رستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں تھی ، سوائے ایک مخصوص مقام کے جو نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے تیار کیا گیا تھا ۔[5]
اسی طرح بارہ صدیاں گزر گئیں ، مسجد کی پے در پے توسیعات ہوتی رہیں ، اور ہر بار مشرقی جانب توسیع کرنے سے باوجود ضرورت کے ، اجتناب کیا گیا ، تاکہ حجرہ کی اپنی ایک الگ اور مسجد سے مستقل حیثیت باقی رہے ۔
اس بات کی مزید تائید علامہ سمہودی کے اس قول ۔ جو انہوں نے مقصورہ درابزین کے ریاض الجنۃ کا کچھ حصہ گھیر لینے پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا ہے ۔ سے بھی ہوتی ہے :
‘‘ اس جگہ کو[6]اب عوام الناس اور مسجد کے بارے میں معلومات نہ رکھنے والے لوگ ، مسجد کی بجائے حجرے کا حصہ سمجھتے ہیں ، اور اس پر غیر مسجد کے احکام لاگو کرتے ہیں ۔’’[7]
سمہودی کی یہ بات بالکل واضح ہے کہ حجرہ مسجد کا حصہ نہیں ہے ۔
دوسرا اشکال :
چبوترے کی جالی اور مسجد کی مشرقی دیوار میں آج بھی خالی جگہ موجود ہے بلکہ اس میں نماز بھی ادا کی جاتی ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حجرہ مسجد کے اندرونی حصے میں ہے ۔
جواب :
حجرہ[8]اور مسجد کی مشرقی دیوار میں موجود نماز کے لیے خالی جگہ پہلے نہیں تھی ، بلکہ یہ سلطان عبد المجید کی توسیع ، جوکہ 1277هـ میں مکمل ہوئی ، میں وجود میں آئی ہے ۔
گویا اس کی عمر صرف تقریبا ڈیڑھ صدی ہے ، جبکہ اس سے پہلے والی بارہ صدیاں اس کا کوئی وجود نہیں تھا ۔
چنانچہ برزنجی ، جنہوں نے سلطان عبد المجید کی توسیع کا زمانہ پایا ہے ، کہتے ہیں کہ 886 هـ میں مسجد کی مشرقی دیوار کو سوا دو ہاتھ باہر کی طرف بڑھا دیا گیا تھا ، اور ہمارے زمانے میں ہونے والی توسیع میں اس دیوار کو بلاط([9]) میں پانچ ہاتھ بڑھایا گیا ہے ،مشرقی جانب یہیں تک توسیع روک دی گئی ۔[10]
سمہودی نے بھی قایتبائی کے دور سلطنت 886 هـ میں ہونے والی توسیع ۔ انہوں نے یہ زمانہ پایا ہے ۔ کے بارے میں یہی ذکر کیا ہے کہ مشرقی جانب ڈیڑھ ہاتھ دیوار کو مجبورا بڑھانا پڑا ، تاکہ حجرہ مبارکہ پر مسجد کی بالائی جانب تعمیر کیے جانے والے گنبد کے ستونوں کے لیے جگہ بن سکے ۔[11]
سمہودی لکھتے ہیں :
مسجد کی مشرقی دیوار اور گنبد کے کچھ ستونوں کے درمیان تنگی کے باعث ، مشرقی دیوار کو بلاط کی طرف ڈیڑھ ہاتھ باہر نکال دیا گیا ، اور باب جبریل تک اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا ، جبکہ باب جبریل کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹایا گیا ۔(حاشیہ[12])
سمہودی کے بیان کے مطابق ڈیڑھ ہاتھ کی یہ توسیع بامر مجبوری تھی ، نہ کہ اس کو یہاں عبادت کے لیے جگہ بنانے کے وسعت دی گئی ، کیونکہ اگر ایسا معاملہ ہوتا تو مزید توسیع کی جاتی ، یا کم از کم باب جبرئیل کو ہی اس کی اصل جگہ سے ہٹا دیا جاتا تاکہ وہ دیوار کے برابر ہوجائے ۔
خلاصہ کلام :
حجرے اور مشرقی دیوار کے درمیان جس جگہ اب نماز ادا پڑھی جانے لگی ہے ،یہ سلطان عبد المجید کے دور میں وجود میں آئی ، اس سے پہلے صدیوں پر محیط زمانے میں مسلمان اس طرف توسیع سے گریز کرتے رہے ، تاکہ حجرہ کی مسجد سے الگ اور مستقل حیثیت واضح رہے ۔
بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس طرف توسیع کرکے اس جگہ کو وجود میں لانا، مسلمانوں کے عملی اجماع کے خلاف ہے ، لہذا شرعی اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں ، اور نہ ہی یہ مسجد کا حصہ ہے ۔
غالب گمان یہ ہےکہ اس جگہ کو بنانے کا مقصد بدعات و خرافات کو سر انجام دینا تھا ، چنانچہ ایک مصری ملازم محمد باشا صادق نے اس صورت کو حال کو بیان کیا ہے کہ کس طرح یہاں سے زیارت کرتے ہوئے غیر شرعی امور سر انجام دیے جاتے تھے ، مثلا : اس حصے میں آکر ایک خاص جگہ پر کھڑے ہونا ، پھر دعا مانگنا ، حجرہ کی اس جانب والی کھڑکی کو ‘‘ شباک مہبط وحی ’’ سے موسوم کرنا ، پھر اس کے بعد چند قدم کے فاصلے پر ‘‘ مقام فاطمۃ الزہراء ’’ سمجھنا ، پھر جنوب کی جانب قبلہ کی طرف بڑھنا وغیرہ ۔
ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ کی بنیاد ہی ایک غیر شرعی امر کے لیے رکھی گئی ہے ، جو کہ بارہ صدیوں سے مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے ، مزید اس جگہ با جماعت نماز ادا کرنا بھی محل نظر ہے کیونکہ صفوں کا تسلسل باقی نہیں رہتا ، ایسی صورت حال میں اس جگہ کو شرعی اعتبار سے کوئی حیثیت نہ دینا ، اور خارج مسجد سمجھنا[13]، یہ ایک وجیہ قول ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ العدة على إحكام الأحكام ( 3 / 261 )
[2] ۔ الإخنائية ( 499 ) .
[3] ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسجد کی شرقی دیوار جو کہ حجرے کا احاطے کرنے والی خماسی دیوار کے بعد ہے ، وہ فقط مسجد کی چھت کو سہارا دینے کے لیے ہے ۔ اور اس سے ہماری بیان کردہ تقریر پر کوئی اشکال لازم نہیں آتا ۔
[4] ۔ چنانچہ مدینہ کے فقہاء عشرہ ، اور اصحاب جاہ نے اس بات کی سخت مخالفت کی ، عمر بن عبد العزیز نے صورت حال خلیفہ وقت ولید کو لکھ بھیجی ، لیکن وہ حجرات کو شہید کرنے پر مصر رہا ، اور لوگوں کی آہ و بکا کے ہولناک منظر میں یہ واقعہ رونما ہوگیا ۔ دیکھیے : البداية والنهاية (12 / 413 ۔ 414 ) ، وفاء الوفاء ( 2 / 517 ) .
[5] ۔ الدرة الثمینة ( 178 )
[6] ۔ اس سے مراد ریاض الجنہ کا وہ حصہ ہے جو اس مقصورہ کے اندر آگیا ، یعنی باہر والی جالی اور دیوار خماسی کی درمیانی جگہ ۔
[7] ۔ وفاء الوفاء ( 2 / 615 ) .
[8] ۔ اس طرح کی عبارات میں حجرے سے مراد جالی سے لے کر اندورنی تمام جگہ ہے ، جو کہ حجرہ عائشہ اور حجرہ فاطمہ اور ان کے ارد گرد حصے کو شامل ہے ۔ دیکھیے : وفاء الوفاء ( 2 / 612 )
[9] ۔یہ مسجد کی مشرقی دیوار سے متصل ، قبر کے برابر میں جنازے رکھنے کی جگہ ہے ۔ دیکھیے : الدرة الثمینة (178)
[10] ۔ نزهة الناظرین في مسجد سید الأولین والآخرین ( 29 ۔ 30 ) ، ( 14 ۔ 21 ) ، علی بن موسی نے کتاب وصف المدینة (63)میں بھی تقریبا یہی ذکر کیا ہے ، البتہ ص 58 پر انہہوں نے توسیع کی مقدار چار ذراعِ عمل بتلائی ہے ۔
[11] ۔ دیکھیے : وفاء الوفاء ( 2 / 610 ) . اس سے پہلے سلطان قلاؤون نے بھی 678ہ میں قبر مبارک پر ایک گنبد تعمیر کیا تھا ، جو حجرہ کے اوپر اور مسجد کے اندر تھا ، نیچے سے مربع شکل ، جبکہ اوپر سے تقریبا گولائی ؟ میں تھا ، بعد میں قایتبائی کے دور تک اس کی اصلاح و تجدید کا کام ہوتا رہا ، اب یہ گنبد حجرہ کے پردے میں چھپا ہوا ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتا . سمہودی کے بیان میں جس گنبد کا ذکر ہے وہ بڑأ گنبد ہے جو بالکل واضح طور پر مسجد کے بالائی جانب نظر آتا ہے ، اس کو سلطان قایتبائی نے 886 ہ میں تعمیر کیا ، پھر 892 ہ میں ، پھر عثمانی خلیفہ محمود بن عبد المجید خان کے دور سلطنت میں 1233 ہ میں اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی ، اور بعد میں انہیں کے دور میں 1253ہ میں اس پر سبز رنگ کردیا گیا ، جبکہ اس سے پہلے یہ نیلگوں تھا ؟ ، دیکھیے : نزهة الناظرین ( 76 ۔ 77 ) ، بہر صورت بہت عجیب اور افسوس ناک بات ہے کہ جس ہستی مقدس نے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنے سے منع فرمایا ، ان کی قبر پر بعد والوں نے دو گنبد تعمیر کردیے ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔
[12] ۔ مصدر سابق ۔ لیکن بعد میں یعنی سلطان عبد المجید کی توسیع میں دیوار کے ساتھ ساتھ باب جبریل کو بھی مشرقی جانب پیچھے ہٹایا گیا ، ورنہ اس سے پہلے یہ مسجد کے اندر حجرے کے تقریبا برابر تھا ، باب جبریل اور اس کے ساتھ ہی شمال کی جانب باب النساء کے درمیان موازنہ کرنے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں پہلے کی طرح ایک زاویہ میں نہیں ہیں ۔
[13] ۔ التمهيد لشرح كتاب التوحيد (262).
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دوسرا احتمال :
قبر مسجد کے اندر داخل نہیں کی گئی ، البتہ توسیع کی وجہ سے مسجد قبر کے چاروں اطراف تک پھیل گئی ہے ۔
اگر یہ بات بھی تسلیم کرلی جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں یاروں کی قبریں مسجد کا حصہ بن گئی ہیں ، کیونکہ نہ تو مسجد کی عمارت ان قبروں پر تعمیر کی گئی ، اور نہ ہی قبریں مسجد کی زمین میں منتقل ہوئیں[1] ، بلکہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسجد سے بالکل علیحدہ ہے ، دونوں کے درمیان ایک سے زیادہ دیواریں اور رکاوٹیں ہیں ، البتہ توسیع کے سبب مسجد حجرے کے چاروں سمت پھیل گئی ، گویا اصلا کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ، مسجد اور حجرہ دونوں اپنی الگ لگ حیثیت سے باقی ہیں ۔ قبر مبارک بظاہر مسجد میں نظرآتی ہے ، لیکن حقیقت میں بالکل الگ ہے جیسا کہ توسیع سے پہلے تھی ۔
اس کی مثال یوں ہوسکتی ہے کہ زید اور عمرو دونوں کی زمین ساتھ ساتھ تھی ، پھر زید نے عمرو کے ارد گرد کی ساری زمین خرید لی ، درمیان میں عمرو کی زمین باقی ہے ، ایسی صورت حال میں دیکھنے والے کو یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ شاید عمرو اور زید کی زمین ایک ہی ہے ، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ۔
بالکل یہی معاملہ حجرہ نبویہ اور مسجد نبوی کا ہے ۔
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بعض جہلاء کا اس بات سے دلیل لینا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے یاروں کی قبریں مسجد میں ہیں ، بالکل غلط ہے ، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں دفن ہوئے نہ کہ مسجد میں ، پھر آپ کے دونوں صحابی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ کے ساتھ اسی جگہ ۔
جب ولید بن عبدالملک بن مروان نے مسجد کی توسیع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو مسجد میں داخل کردیا ، یہ اس کی غلطی تھی ، ضروری تھا کہ وہ ایسے نہ کرتا تاکہ جہلاء کے لیے کوئی دلیل نہ رہتی ، اہل علم نے بھی اس کے اس فعل کا انکار کیا ہے ،اس بات میں اس کی اقتدا جائز نہیں ، اور نہ ہی خیال کرنا چاہیے کہ شاید یہ قبروں پر عمارتین بنانے یا ان کو سجدہ گاہ بنانے کے مترادف ہے ، کیونکہ یہ تو ایک مستقل گھر تھا جو بعد میں توسیع کی غرض سے مسجد کے اندر آگیا ، جیساکہ کسی مسجد کے سامنے بالکل الگ تھلگ قبرستان ہو تو اس کو مسجد کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا ، اسی طرح قبر نبوی بھی دیوار وغیرہ کے ساتھ بالکل الگ حیثیت رکھتی ہے ۔[2]
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ مجموع فتاوی و مقالات متنوعۃ ( 13/242 ).
[2] ۔ مجموع فتاوی و مقالات متنوعۃ (10/306) مزید دیکھیے : فتاوى اللجنة الدائمة للإفتاء (1/420) اور مجموع و فتاوى و رسائل الشیخ ابن عثیمین (2/233).
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تیسرا احتمال :
قبر مسجد کے اندر داخل ہے ۔
اگر بفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ در حقیقت قبر مسجد کا حصہ بن چکی ہے ، جیساکہ قبر پرستوں کی منشا ہے تو پھر بھی یہاں سے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی دلیل نہیں نکل سکتی ، کیونکہ ابتدائی طور پر نہ تو قبر پر مسجد تعمیر ہوئی اور نہ ہی تدفین کا عمل مسجد میں ہوا۔
اب اس خاص اضطراری حالت کو مثال بنا کر دیگر جگہوں پر یہ کام نہیں کیا جاسکتا ، مزید وضاحت پیش خدمت ہے :
پہلی بات :
یہ بات طے ہے کہ نہ تو مسجد قبر پر تعمیر ہوئی اور نہ قبر مسجد کے احاطے میں کھودی گئی ، ان دو وصفوں کی غیر موجودگی کی بنا پر کسی اور مسجد کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ اس کے علاوہ جتنی مساجد ہیں ان میں دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوتی ہے یا تو مسجد قبر پر تعمیر ہوئی ہوتی ہے یعنی مسجد کی تاسیس ہی قبر کی وجہ سے عمل میں آتی ہے یا پھر تدفین پہلے سے موجود مسجد میں ہوتی یعنی وہاں قبر ہی مسجد کی وجہ سے بنائی جاتی ہے ۔
مسجد نبوی میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں کیونکہ مسجد قبر سے پہلے ہی موجود تھی ، در اصل قبر مسجد سے باہر ایک مستقل حجرہ یعنی حجرہ عائشہ میں آپ کی جائے وفات پر بنائی گئی لیکن بعد ازاں اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مسجد کی توسیع کی خاطر قبر کو اس میں شامل کرنا پڑا ۔
اگر کوئی کہے : اس کا مطلب ہے اگر آج بھی مسجد کے پڑوسی حجرہ میں کوئی قبر ہو ، تو مسجد کی توسیع کے وقت اس قبر کو اس میں شامل کرلیا جائے تو اس کا حکم بھی مسجد نبوی او رحجرہ نبویہ والا ہوگا ؟
تو ہم کہیں گے کہ پہلے تو گھروں میں قبریں بنانا ویسے ہی ناجائز ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر میں دفن ہونا یہ توقیفی معاملہ ہے ، یہ آپ کی خصوصیت ہے [2] اس کے علاوہ باقی تمام لوگ قبرستان میں ہی دفن کیے جائیں گے جیساکہ عہد نبوی سے لیکر اب تک کا مسلمانوں کا طریقہ رہا ہے ۔
دوسری بات :
مسجد نبوی اور حجرہ نبویہ پر دیگر مساجد و مقابر کو قیاس نہ کرنے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ مسجد نبوی میں قبر کی شمولیت مجبورا ( تبعا ) ہوئی ہے نہ کہ ارادہ سے[3] ، اور احکام کا دارو و مدار نیت و ارادہ پر ہے ۔ یعنی دوسری کسی بھی جگہ مسجد میں قبر یا قبر پر مسجد تبرک اور تعبد کے ارادہ سے بنائی جاتی ہے بر خلاف مسجد نبوی کے ، وہاں ایسی کوئی غرض و غایت نہیں تھی ، صرف حجرہ کو توسیع میں شامل کیا گیا اور قبر چونکہ اس میں موجود تھی لہذا وہ بھی ساتھ ہی شامل ہوگئی ، ایک بات ۔
ب : حجرہ کی شمولیت سے غرض مسجد کی توسیع تھی نہ کہ قبر کا مسجد میں داخل کرنا۔[4]
ج : خود حجرہ عائشہ بھی دیگر امہات المومنین کے حجروں کی وجہ سے توسیع کا حصہ بنا ورنہ بذات خود وہ بھی مقصود نہیں تھا ۔[5]
جب ثابت ہوا کہ حجرہ نبویہ اور قبر نبوی کی مسجد میں شمولیت بامر مجبوری ہوئی نہ کہ کسی خاص مقصد کے تحت تو پھر اس سے کوئی خاص دلیل نہیں لی جاسکتی ۔پھر جو اضطرار کی کیفیت مسجد نبوی اور حجرہ نبویہ کے حوالے سے ہے قبر پرستوں کی قبروں والی مساجد میں ایسا معاملہ کہاں پایا جاتا ہے ؟
لہذا یہاں سے ان کا استدلال بالکل غلط ہے ۔
تیسری بات :
مسجد نبوی کی اپنی ایک شرعی حیثیت و فضیلت ہے کہ اس میں نمازوں کاکئی گنا زیادہ ثواب ملتا ہے ، اس کی طرف سفر کرکے آنا بھی باعث اجر و ثواب ہے ، یہاں ریاض الجنۃ ہے ، اس کے علاوہ دیگر فضائل و خصوصیات کی بنا پر اس کا حکم دیگر مساجد سے بالکل الگ ہے ، کیونکہ دیگر مساجد جن میں قبریں ہوں ، میں تو صحیح قول کے مطابق نماز پڑھنا بھی ناجائز ہے ۔[6] بلکہ اگر مسجد بعد میں تعمیر ہوئی ہو تو اسے گرانا ضروری ہے اور اگر قبر بعد میں بنی ہو تو اسے اکھاڑ کر میت کسی اور جگہ منتقل کرنا واجب ہے ، جبکہ مسجد نبوی میں یہ دونوں کام نہیں ہوسکتے کیونکہ نہ تو قبرمبارک اکھاڑی جاسکتی ہے اور نہ ہی مسجد کو اس کی اس خاص جگہ سے کسی اور جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے ۔پھرجب کسی نمازی کے بس کی بات نہیں کہ یہاں کوئی کمی بیشی کرسکے تو یہاں نماز کو ممنوع قرار دے کر لوگوں کو مسجد کے فضائل سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔
جبکہ دیگر مساجد میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں لہذا انہیں اس کے ساتھ نہیں ملایا جاسکتا ۔
چوتھی بات :
مسجد نبوی کی خصوصیت کی ایک دلیل اجماع قطعی ہے کہ یہاں پر نماز ادا کرنا مشروع ہے ، جبکہ دیگر مساجد جن میں قبریں ہیں ان کےلیے اصل حکم باقی ہے کہ ایسی جگہوں پر نماز پڑھنا حرام ہے ۔ گویا مسجد نبوی کے استثناء کی دلیل اجماع ہے ، جوکہ ایک معتبر دلیل ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[2] ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین حجرہ میں ہوئی تو شرعی طور پر آس پاس والی جگہ بھی تدفین کے اہل ہوگئی ، کیونکہ قاعدہ ہے کہ’ یثبت تبعا ما لا یثبت استقلالا ’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی فہم ہے لہذا شیخین رضی اللہ عنہما کو بھی حضور کے جوار میں دفن کیا گیا ۔
[3] - دیکھیے : البیان لأخطاء بعض الکتاب ( 247 ) .
[4] ۔ دیکھئیے : مجموع الفتاوی ( 27 / 323 ،325 ) اور الدر السنية ( 5 / 140 ) .
[5] ۔ دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 27 / 424 ) .
[6] ۔ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی شرح العمدة ، الجزء الثانی (458 ۔ 463 ) .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نہ تو مسجد نبوی قبر پر تعمیر کی گئی اور نہ ہی قبر نبوی مسجد میں بنائی گئی لہذا قبر پرستوں کا یہاں سے استدلال کرنا بالکل غلط ہے ۔
سابقہ دلائل سے ہٹ کر مزید دو وجوہات پر غور و فکر کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے :
اول : اگر مسجد میں تدفین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوب فعل ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم وصیت کرکے جاتے کہ موت کے بعد میری قبر یا حجرہ کو مسجد میں شامل کردیا جائے ۔ یا پھر جب آپ کو محسوس ہوا کہ آپ کا وقت قریب ہے آپ حکم دے دیتے کہ میری تیمارداری مسجد میں کی جائے تاکہ جب آپ وفات پاتے تو وہیں دفن ہو جاتے ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس آپ مرض الموت میں قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے ڈراتے رہے ، کیا اس سے واضح بھی کوئی دلیل ہوسکتی ہے ؟
پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر مساجد میں تدفین کوئی پسندیدہ فعل ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم ، یا بیوی خدیجہ ، یا چچے حمزہ یا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کیوں نہ دفن کیا ؟
کیا کوئی مکہ مدینہ یا دیگر علاقوں میں ایسی مساجد دکھا سکتا ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فوت شدگان کو دفن کرتے رہے ہوں ؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سنت یہ ہے کہ آپ فوت شدگان کو قبرستان میں دفن کیا کرتے تھے نہ کہ مساجد میں ، اس کی دلیل بہت ساری احادیث ہیں ، جبکہ اس کے برخلاف کچھ بھی ثابت نہیں ۔
قبر پرستوں کو کیا ہوگیا ہے کہ حضور کا فعل جو شرعی حجت ہے ، چھوڑ کر ایسے افعال کا سہارا لے رہے ہیں جو حجت نہیں بن سکتے ، بلکہ وہ حضور کی وفات کے اَسّی سال بعد معرض وجود میں آئے ؟
دوم : اگر قبر نبوی کو مسجد میں شامل کرنا اللہ اور اس کے رسول کا پسندیدہ فعل ہوتا تو صحابہ کرام جو نیکی و بھلائی کو بعد والوں سے کئی درجے بہتر جانتے ہیں اس کام میں تاخیر نہ کرتے ۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں بھی یہ کام نہ ہوا ، حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کے دور میں توسیع کے وقت بھی باوجود ضرورت کے حجرہ نبویہ کو نہیں چھوا گیا ، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام امہات المومنین کے حجروں کے بارے فرمایا تھا کہ ان کوکچھ نہیں کہا جاسکتا ۔[1] حضرت علی رضی اللہ کے دو رخلافت میں بھی یہ معاملہ جوں کا توں رہا ؛ یہی خلفاء راشدین ہیں ، امت کو جن کے طریقہ کار کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ۔
اس کے بعد فقیہ اورصالح خلیفہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد بھی ایسے ہی گزرا ، صحابہ میں ان خلفا کے پاس دین کی فقاہت بھی تھی ، قوت نافذہ بھی تھی ، امانت و دیانت سے بھی متصف تھے ، ان کے دور میں قبر نبوی اور حجرہ عائشہ اپنی حالت پر برقرار رہا ، اگر قبر کو یا حجرہ کو مسجد کے ساتھ ملانا درست ہوتا تو یہ ضرور اس نیک کام میں سبقت کرتے ۔
بعد میں جب ولید کی توسیع شروع ہوئی تو مدینہ میں کوئی بھی صحابی نہیں تھا ، گویا صحابہ کرام اس کے اس فعل سے بالکل بری ہیں ، اس سے ہٹ کر کچھ بھی ثابت نہیں ۔ کیونکہ ولید کی توسیع اکانوے ہجری میں شروع ہو کر تین سال تک جاری رہی[2]، اس دوران صحابہ میں سے کوئی بھی مدینہ میں نہیں تھا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
‘ عہد صحابہ میں حجرہ مسجد سے باہر تھا ، ولید بن عبدالملک کی خلافت میں اس کو مسجد میں شامل کیا گیا ، جب عبادلہ یعنی ابن عمر ، ابن عباس ، ابن الزبیر ، ابن عمرو بلکہ مدینہ میں موجود تمام صحابہ کرام وفات پاچکے تھے ، کیونکہ مدینہ میں سب سے آخر میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تقریبا ستر ہجری میں وفات پائی ، جبکہ مسجد کی توسیع کا واقعہ تقریبا اَسی ہجری میں پیش آیا ۔’[3]
ایک جگہ فرماتے ہیں : ‘ کہا جاتا ہے کہ مدینہ میں سب سے آخر ی صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بچے ، ان کی وفات مدینہ میں ہی اٹھہتر ہجری میں ادخال حجرہ والے واقعے سے دس سال پہلے ہو چکی تھی ’ [4]۔
ابن عبد الہادی لکھتے ہیں :
‘ خلفاء راشدین اور عہد صحابہ میں حجرہ مسجد سے باہر ہی تھا ، درمیان میں صرف ایک دیوار تھی ،
پھر بعد میں ولید بن ملک کے دور خلافت میں حجرے کو مسجد میں داخل کردیا گیا ، جبکہ مدینے میں موجود تمام صحابہ وفات پاچکے تھے ، سب سے آخر میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے ، آپ کی وفات عبدالملک کی خلافت میں سن اٹھہتر ہجری میں ہوگئی تھی ، ولید نے زمام خلافت چھیاسی ہجری میں سنبھالی اور اس کی وفات چھیانوے ہجری میں ہوئی ، مسجد کی تعمیر اور حجرے کی شمولیت کا واقعہ اسی دوران پیش آیا ’[5]
صحابہ کرام نے اس توسیع کا مشاہدہ نہیں کیا ، اس کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ان سے اس سلسلے میں کچھ بھی منقول نہیں نہ اقرار نہ انکار ، بعض تابعین نے اس سلسلے میں لب کشائی کی ہے ،[6] اگر صحابہ کرام کے علم میں یہ بات ہوتی تو وہ بالاولی اس اہم مسئلے میں گفتگو فرماتے اور ضرور یہ بات ان سے نقل کی جاتی ۔
‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس بات کی کوئی قابل حجت دلیل نہیں مل سکی کہ صحابہ کرام میں سے کسی کو بھی اس تغیر و تبدل کے بارے میں علم تھا ، اگر کسی کا یہ دعوی ہے تو دلیل پیش کرنا اس کی ذمہ داری ہے ’[7]
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ الطبقات الکبری لابن سعد ( 4 / 21 )
[2] ۔ دیکھئیے : الدرة الثمینة (176) ، و فاء الوفاء ( 2 / 522 ۔ 524 ) صاحب وفاء نے لکھا ہے کہ توسیع کی ابتداء اٹھاسی ہجری کو ، اور فراغت اکانویں ہجری کو ہوئی ۔
[3] ۔ مجموع الفتاوی (27 / 399 ) .
[4] ۔ مصدر سابق ( 27 / 324 )
[5] ۔ الصارم المنکي (151) .
[6] ۔ مجموع الفتاوی ( 27 / 420 ).
[7] ۔ تحذیر الساجد (60 )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
پنجم : حجرہ عائشہ کو مسجد میں شامل کرنے کے بارے میں سلف کا موقف

شرک کی طرف لے جانے والے ظاہر و مخفی راستوں کی روک تھام کے لیے شرعی ادلہ ، قواعد و مقاصد میں غور و فکر کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حجرہ عائشہ کو مسجد نبوی میں شامل کرنا درست نہیں تھا ، حالانکہ یہ قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی قبیل سے نہیں لیکن پھر بھی ضروری تھا کہ اس سے اجتناب کیا جاتا ، تاکہ لوگوں کے اذہان میں شبہات جنم نہ لیتے ، اور جاہل لوگ قبروں پر قبےاور ان کو سجدہ گاہ بنانے کے لیے یہاں سے دلیل نہ لیتے ، چنانچہ کئی اہل علم نے اس امر کی مذمت کی ہے ۔[1]
قبر پرستوں کا یہ خیال ہے کہ حجرہ نبویہ اور قبر نبوی کو مسجد میں شامل کرنے پر تابعین کا اجماع ہوگیا تھا ، پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قبر پر مسجد تعمیر کی جاسکتی ہے ۔[2]
اس کمزور شبہے کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی بات :
اگر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ واقعہ تابعین کی مرضی سے ہوا تھا ، تو صحابہ کرام سے اس امر سے پرہیز کرنا بھی ثابت ہے(جیساکہ پہلے گزر چکا ) ، وہ تابعین سے زیادہ اتباع کاحق رکھتے ہیں ، ان کا موقف شرعی دلائل اور مقاصد شریعت سے بھی مطابقت رکھتا ہے ۔
دوسری بات :
توسیع کے وقت جب یہ واقعہ پیش آیا تو تمام تابعین وہاں موجود نہیں تھے اور نہ ہی سب کے علم میں یہ بات تھی ، بلکہ وہ مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے ،اور جو مدینہ میں اس وقت موجود تھے ، ان کی تعداد بالکل نہ ہونے کےبرابر ہے ، ایسی صورت میں ‘ اجماع تابعین ’ کا دعوی درست نہیں ہے ۔
تیسری بات :
مدینہ میں موجود کئی تابعین نے اس امر کی مذمت کی تھی ( اور ان سے یہی امید تھی ) چنانچہ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
" نازلت عمر بن عبدالعزيز في قبر النبي صلى الله عليه وسلم أن لا يجعل في المسجد أشد المنازلة فأبى و قال : كتاب أمير المؤمنين لا بد من إنفاذه ، قال فقلت : فإن كان لابد فاجعل له حوجواً [3] " [4]
ترجمہ : میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ساتھ بہت زیادہ تکرار کیا کہ قبر کو مسجد میں شامل نہ کیا جائے ، انہوں نے انکار کیا اور فرمایا : امیر المومنین نےجو کہا ہے اس کی تنفیذ ضروری ہے ، میں نے گزارش کی اگر ضروری ہی کرنا ہے تو پھر اسے ایک جانب کردیں ۔
ابن کثیر لکھتے ہیں : ‘ سعید بن مسیب کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے حجرہ عائشہ کی مسجد میں شمولیت کا انکار کیا ، اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ قبر کو سجدہ گاہ نہ بنالیا جائے واللہ اعلم۔ ’[5]
ان نقول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اجماع کا دعوی درست نہیں ۔
چوتھی بات :
اگر یہ بھی تسلیم کر لیاجائے کہ کسی تابعی سے بھی انکار منقول نہیں تو پھر بھی یہ دعوی نہیں کیا جاسکتا کہ درحقیقت کسی نے انکار نہ کیا ہو ، کیونکہ عدمِ علم علمِ عدم نہیں ہوتا ، ممکن ہے کسی نے انکار کیا ہو ، لیکن ہم تک نہ پہنچا ہو ۔ ویسے بھی ‘ سکوت ’ اور ‘ رضا ’ دونوں لازم و ملزوم نہیں ، ممکن ہے انہوں نے دلی طور پر ناپسند کیا ہو لیکن اظہار نہ کیا ہو تاکہ انہیں کوئی ذاتی مشکل نہ ہو ، یا پھر ولید کے عزم بالجزم کے مقابلے میں اظہار رائے کا فائدہ نہ سمجھا ہو ۔
صنعانی رحمہ اللہ زیر بحث مسئلہ جیسے ایک دوسرے مسئلہ میں فرماتے ہیں :
‘ لوگوں کا یہ کہنا کہ ( انکار نہیں کیا گیا ) ہوائی اڑانے کے مترادف ہے ، عین ممکن ہے بہت سارے لوگوں نے جو ہاتھ یا زبان کے ساتھ طاقت نہیں رکھتے تھے ، دل کے ساتھ اس امر کو برا جانا ہو ، عصر حاضر میں کتنے ایسے معاملات ہیں جن کو آپ دل سے برا جانتے ہیں لیکن زبان یا ہاتھ کے ساتھ اس کا اظہار نہیں کرپاتے ، اب کوئی جاہل یہاں بطور ملامت یا پیروی کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے کہ فلاں نے اس بات پر سکوت اختیار کیا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ‘ سکوت ’ سے کوئی بھی صاحب خرد شخص دلیل نہیں پکڑ سکتا ۔’[6]
پانچویں بات :
اگر یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ تابعین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا ہوگا ، تو پھر یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ : یہ قبر پرستوں کے خلاف دلیل ہے نہ کہ ان کے حق میں ، کیونکہ انکار نہ کرنے کا مطلب ہے کہ تابعین عظام حجرہ کو مسجد میں شامل کرنے کو قبر کو مسجد میں داخل کرنا نہیں سمجھتے تھے ، کیونکہ قبر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے سے منع کرنا تو ان کے ہاں مہتمم بالشان مسئلہ تھا ۔
اسی امر کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ابو العباس القرطبی یوں رقمطراز ہیں :
‘ قبر نبوی کو غیر شرعی امور سے بچانے کے لیے بہت زیادہ اہتمام کیا ہے ، ارد گرد اونچی اونچی دیواریں کھڑی کیں ، تمام راستے ختم کرکے قبر مبارک کے احاطے کو بالکل بند کردیا ، پھر قبر چونکہ اگلی طرف تھی خدشہ پیدا ہوا کہ لوگ اس کو قبلہ نہ سمجھنے لگیں تو دونوں طرف سے دیواریں کھینچ کر مثلث کی شکل میں شمال کی جانب ملادی گئیں تاکہ کوئی اس طرف منہ نہ کرسکے ۔[7]
حالانکہ قبروں کی طرف رخ کرکے نماز کی ممانعت میں وارد احادیث کم ہیں ، اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت میں احادیث زیادہ ہیں ، تو کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی چیز کا اہتمام کریں گے ،لیکن اس سے اہم اور اولی کو چھوڑ دیں گے ؟
چھٹی بات :
تابعین کا حجرہ نبویہ کو مسجد نبوی میں شامل کرنا اس بنیاد پر تھا کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا جائز ہے جیساکہ قبر پرست خیال کرتے ہیں تو پھر اسلامی ممالک میں موجود دیگر قدیم و جدید مساجد میں انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟
کہاں ہیں وہ فوت شدگان ، جنہیں انہوں نے مساجد میں دفن کیا ؟
کہاں ہیں ان کی قبریں جنہیں انہوں نے سجدہ گاہ بنالیا ہو ؟
اگر مسجد نبوی میں قبروں کی شمولیت کا مطلب ان کو سجدہ گاہ بنانا تھا تو پھر کیا مانع تھا کہ انہوں نے اللہ کے دیگر گھروں میں یہ کام سر انجام نہ دیا ؟
عمر بن عبدالعزیر رحمہ اللہ مسجد نبوی کی توسیع سے فراغت کے بعد شام واپس بلا لیے گئے ، ان کے پاس مال و جاہ ہر چیز موجود تھی ، مدینہ میں کیا گیا کام انہوں نے شام کی مساجد میں کیوں نہ کیا ؟
بلکہ مختلف علاقوں سے لوگ مدینہ منورہ حاضر ہوا کرتے تھے ، جن میں بڑے بڑے علماء ، امراء ، صاحب ثروت لوگ بھی ہوتے تھے ، آخر انہوں نے اپنے علاقوں میں جاکر اس کام کو کیوں سر انجام نہ دیا ؟
اگر ان سب کے نزدیک یہ کام درست ہوتا تو کیا وہ بعد والوں سے سبقت نہ لے جاتے ؟
سب سوالوں کا بالکل واضح جواب ہے کہ ان کے نزدیک مسجد نبوی میں جو کچھ ہوا ، اس پر دیگر مساجد کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ، اور نہ اس سے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا جواز نکلتا ہے ، اسی لیے انہوں نے ایسا کوئی کام نہ کیا ، لہذا یہ بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ ‘ صحابہ کرام و تابعین عظام کے دور میں اس طرح کا کوئی معاملہ بالکل نہیں تھا اور نہ ہی کسی قبر پر کسی مسجد کا کوئی وجود تھا ’[8]
ساتویں بات :
مسجد نبوی میں ہونے والا معاملہ اگر اسی نوعیت کا تھا جس طرح قبر پرست قبروں سے تبرک ، ان کی عبادت یا ان کے پاس عبادت کرتے ہیں ، تو پھر قبر نبوی کے ارد گرد پے در پے دیواریں کھڑی کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ قبر کو بالکل کھلا کیوں نہ چھوڑا گیا جس طرح یہ لوگ کرتے ہیں ؟
قبر کو مسجد میں داخل کرکے ، لوگوں کو اس سے روک دینا ، نہ اس کو دیکھ سکیں ، نہ چھو سکیں ، نہ تبرک لے سکیں ، اس کا فائدہ ہی کیا تھا ؟
فهذا الحق لیس به خفاء
دعونی من بنیات الطریق
[9]
بالکل واضح رستہ معلوم ہونے کے بعد مجھے ادھر ادھر کی پگڈنڈیوں کی ضرورت نہیں ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ دیکھیں : الدرر السنية ( 5 / 140 ) ، مجموع فتاوی و مقالات متنوعة للشیخ ابن باز ( 10 / 306 ) ، تحذیر الساجد (64) .
[2] ۔ دیکھیں : إحیاء المقبور ( 37 ۔ 38 )
[3] - سمهودی کہتے ہیں : اس سے مراد حجرہ کی پچھلی جانب تیار کی جانی والی جگہ ہے ۔
[4] ۔ وفاء الوفاء ( 2 / 548 )
[5] ۔ البداية والنهاية ( 12 / 548 ) مزید دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 27 / 418 )
[6] ۔ تطهير الاعتقاد ( 293 )
[7] ۔ المفهم ( 2 / 128 )
[8] ۔ مجموع الفتاوی ( 17 / 464 ) .
[9] ۔ شاعر ابو الہندی غالب بن عبدالقدوس (ت 170ھ) کے قصیدہ سے ایک شعر ہے ، کتبی نے اسے فوات الوفیات ( 3 / 171 ) میں ذکر کیا ہے ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حرف اخير

یہ چند گزارشات تھیں جو اللہ سبحانہ و تعالی کی توفیق سے اس کمزور شبہے کے جواب میں پیش کی گئیں ، گزشتہ سطور سے یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ قبر پرستوں کا قبر نبوی سے ‘ قبروں کو سجدہ گاہ ’ بنانے کے جواز پر استدلال کرنا درست نہیں ، چاہے قبر نبوی کو مسجد نبوی میں شامل تسلیم کیاجائے یا اس سے باہر ، حقیقت یہ ہے کہ قبر پرستوں نے بالکل واضح دلائل کو چھوڑ کر شبہات کا راستہ اختیار کیا ہے ، یہ بات انصاف کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس پیچیدگی کو ختم ( یا کم ) کرنے کے لیے ایسا کرنا چاہیے کہ حجرہ کے شمال مشرقی اور جنوب مشرقی جانب سے دو دیواریں کھینچ کر مسجد کی مشرقی دیوار کے ساتھ ملا دینی چاہییں ، تاکہ حجرہ کی مشرقی دیوار اور مسجد کی مشرقی دیوار کا درمیانی حصہ بند ہو جائے ، اس طرح حجرہ مکمل طور پر مسجد سے الگ ہو جائے گا ، اور زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ مسجد تین اطراف سے حجرہ کے ساتھ ملی ہوئی ہے ، لیکن حجرہ مسجد میں داخل ہے یہ بات ختم ہو جائے گی ، اس طرح معاندین کی تلبیس کا کوئی رستہ نہیں رہے گا ، اور نا سمجھ لوگ شبہات سے بچ سکیں گے ۔
باقی اللہ تعالی بہتر جانتا ہے ، تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں ، اسی کی ذمہ داری ہے کہ پرچم و لشکر ِ توحید کو بلندیوں سےنوازے ، اور شرک کی جھنڈیوں اور اہل شرک کو نیست و نابود کرے ، بیشک وہ سننے والا ہے ، قریب ہے ۔
وصلی الله علی عبده و رسوله نبینا محمد و علی آله و صحبه أجمعین .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں نے کہیں ذکر کیا تھا کہ اسی کتابچے کا ترجمہ ہمارے جامعہ اسلامیہ کے ایک اور ساتھی نےبھی کیا ہے۔
یہ ترجمہ انڈیا سےطبع ہوچکاہے۔
جبکہ اس کی پی ڈی ایف فائل یہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top