- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
پہلا احتمال :
قبر مسجد میں شامل نہیں بلکہ اس کے پڑوس میں اس کے ساتھ متصل ہے ۔
امام صنعانی فرماتے ہیں :
تحقیقی بات یہ ہےکہ قبر پر مسجد تعمیر نہیں ہوئی کیونکہ وہ جگہ مسجد تعمیر ہونے سے پہلے حضور کے دفن ہونے سے مسجد سے مستقل ایک الگ جگہ ٹھہری تھی لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ یا بت پرستی کی جگہ بنادیا گیا ہے ۔
بلکہ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو آپ کے گھر جو آپ کی اور حضرت عائشہ کی ملکیت تھا میں دفن کیا گیا ۔ البتہ یہ جگہ مسجد کے قریب ترین تھی ۔ جب مسجدکی توسیع کی گئی تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مزید متصل ہوگئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قبر مسجد میں تبدیل ہوگئی ۔[1]
شاید شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مراد بھی یہی ہے فرماتے ہیں :
قبر نبوی مسجد نبوی کے پڑوس میں ہے ۔[2]
یہ احتمال مزید اس طرح واضح ہوجاتاہےکہ پہلے مسجد حجرہ کے ساتھ صرف غربی طرف سے ملتی تھی لیکن توسیع کے بعد غربی ، جنوبی اور شمالی تینوں اطراف سے حجرہ کے ساتھ متصل ہوگئی ۔
توسیع ولید میں حجرہ عائشہ کی جنوبی جانب (یعنی قبلہ کی طرف ) اور شمالی جانب ( جو کہ حجرہ فاطمہ کی بھی شمالی جانب بنتی ہے ) موجود حجرات کو گراکر مسجد میں شامل کردیا گیا، یوں حجرہ عائشہ مغربی، جنوبی اور شمالی تینوں اطراف سے مسجد کے ساتھ مل گیا۔
لہذا اب مسجد نبوی کی حد حجرہ عائشہ کی مغربی دیوار تک ہے اور اس سے پیچھے یعنی حجرہ کے مشرقی طرف مسجد کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔[3]
لیکن یہاں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں :
اول :
اہل علم کی کتابوں میں یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ ولید نے حجرہ کو مسجد میں شامل کردیا تھا ، جو کہ اوپر پیش کردہ تحقیق کے خلاف ہے ۔
اس کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ : علماء کی اس سے مراد بظاہر حجرہ کا مسجد میں شامل نظر آنا ہے ، حقیقتا نہیں ، کیونکہ توسیع ولید کے بعد حجرہ ایسے ہی نظر آتا تھا جیسے مسجد میں شامل ہے حالانکہ وہ تین اطراف سے مسجد کے ساتھ متصل ہے نہ کہ مسجد کے اندر داخل ہے ۔
میرے علم کے مطابق کسی بھی معتبر عالم دین نے حجرہ کو مسجد یا اس کا جزء قرار نہیں دیا ، اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ حجرہ میں نماز(اگر ممکن ہو ) پڑھنے کا ثواب بھی مسجد میں نماز پڑھنے کی طرح ہے ۔
لہذا حجرے کی اپنی ایک مستقل اور الگ حیثیت ہے ، اور زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہےکہ توسیع کے بعد وہ مسجد نبوی کے مزید قریب ہوگیا ہے ۔ جیساکہ پہلے گزر چکا ہے ۔
غور و فکر کرنے والے کے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حجرہ مبارکہ واقعتا مسجد میں شامل نہیں ، اور مسجد کی توسیع کا اہتمام کرنے والوں نے بھی اسے الگ رکھنے کا اہتمام کیا ہے ، ورنہ وہ چاہتے تو مسجد کی توسیع کی مصلحت کی غرض سے اس کو شاملِ مسجد کرسکتے تھے جیساکہ دیگر امہات المؤمنین کے حجروں کو گرا کر مسجد میں شامل کرنا پڑا حالانکہ اہل علم اور عوام الناس کی شدید خواہش تھی کہ انہیں باقی رکھا جائے[4]اسی طرح حجرہ عائشہ کو بھی شامل کرنا ممکن تھا ، کیونکہ اس طرف توسیع کے رستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں تھی ، سوائے ایک مخصوص مقام کے جو نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے تیار کیا گیا تھا ۔[5]
اسی طرح بارہ صدیاں گزر گئیں ، مسجد کی پے در پے توسیعات ہوتی رہیں ، اور ہر بار مشرقی جانب توسیع کرنے سے باوجود ضرورت کے ، اجتناب کیا گیا ، تاکہ حجرہ کی اپنی ایک الگ اور مسجد سے مستقل حیثیت باقی رہے ۔
اس بات کی مزید تائید علامہ سمہودی کے اس قول ۔ جو انہوں نے مقصورہ درابزین کے ریاض الجنۃ کا کچھ حصہ گھیر لینے پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا ہے ۔ سے بھی ہوتی ہے :
‘‘ اس جگہ کو[6]اب عوام الناس اور مسجد کے بارے میں معلومات نہ رکھنے والے لوگ ، مسجد کی بجائے حجرے کا حصہ سمجھتے ہیں ، اور اس پر غیر مسجد کے احکام لاگو کرتے ہیں ۔’’[7]
سمہودی کی یہ بات بالکل واضح ہے کہ حجرہ مسجد کا حصہ نہیں ہے ۔
دوسرا اشکال :
چبوترے کی جالی اور مسجد کی مشرقی دیوار میں آج بھی خالی جگہ موجود ہے بلکہ اس میں نماز بھی ادا کی جاتی ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حجرہ مسجد کے اندرونی حصے میں ہے ۔
جواب :
حجرہ[8]اور مسجد کی مشرقی دیوار میں موجود نماز کے لیے خالی جگہ پہلے نہیں تھی ، بلکہ یہ سلطان عبد المجید کی توسیع ، جوکہ 1277هـ میں مکمل ہوئی ، میں وجود میں آئی ہے ۔
گویا اس کی عمر صرف تقریبا ڈیڑھ صدی ہے ، جبکہ اس سے پہلے والی بارہ صدیاں اس کا کوئی وجود نہیں تھا ۔
چنانچہ برزنجی ، جنہوں نے سلطان عبد المجید کی توسیع کا زمانہ پایا ہے ، کہتے ہیں کہ 886 هـ میں مسجد کی مشرقی دیوار کو سوا دو ہاتھ باہر کی طرف بڑھا دیا گیا تھا ، اور ہمارے زمانے میں ہونے والی توسیع میں اس دیوار کو بلاط([9]) میں پانچ ہاتھ بڑھایا گیا ہے ،مشرقی جانب یہیں تک توسیع روک دی گئی ۔[10]
سمہودی نے بھی قایتبائی کے دور سلطنت 886 هـ میں ہونے والی توسیع ۔ انہوں نے یہ زمانہ پایا ہے ۔ کے بارے میں یہی ذکر کیا ہے کہ مشرقی جانب ڈیڑھ ہاتھ دیوار کو مجبورا بڑھانا پڑا ، تاکہ حجرہ مبارکہ پر مسجد کی بالائی جانب تعمیر کیے جانے والے گنبد کے ستونوں کے لیے جگہ بن سکے ۔[11]
سمہودی لکھتے ہیں :
مسجد کی مشرقی دیوار اور گنبد کے کچھ ستونوں کے درمیان تنگی کے باعث ، مشرقی دیوار کو بلاط کی طرف ڈیڑھ ہاتھ باہر نکال دیا گیا ، اور باب جبریل تک اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا ، جبکہ باب جبریل کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹایا گیا ۔(حاشیہ[12])
سمہودی کے بیان کے مطابق ڈیڑھ ہاتھ کی یہ توسیع بامر مجبوری تھی ، نہ کہ اس کو یہاں عبادت کے لیے جگہ بنانے کے وسعت دی گئی ، کیونکہ اگر ایسا معاملہ ہوتا تو مزید توسیع کی جاتی ، یا کم از کم باب جبرئیل کو ہی اس کی اصل جگہ سے ہٹا دیا جاتا تاکہ وہ دیوار کے برابر ہوجائے ۔
خلاصہ کلام :
حجرے اور مشرقی دیوار کے درمیان جس جگہ اب نماز ادا پڑھی جانے لگی ہے ،یہ سلطان عبد المجید کے دور میں وجود میں آئی ، اس سے پہلے صدیوں پر محیط زمانے میں مسلمان اس طرف توسیع سے گریز کرتے رہے ، تاکہ حجرہ کی مسجد سے الگ اور مستقل حیثیت واضح رہے ۔
بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس طرف توسیع کرکے اس جگہ کو وجود میں لانا، مسلمانوں کے عملی اجماع کے خلاف ہے ، لہذا شرعی اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں ، اور نہ ہی یہ مسجد کا حصہ ہے ۔
غالب گمان یہ ہےکہ اس جگہ کو بنانے کا مقصد بدعات و خرافات کو سر انجام دینا تھا ، چنانچہ ایک مصری ملازم محمد باشا صادق نے اس صورت کو حال کو بیان کیا ہے کہ کس طرح یہاں سے زیارت کرتے ہوئے غیر شرعی امور سر انجام دیے جاتے تھے ، مثلا : اس حصے میں آکر ایک خاص جگہ پر کھڑے ہونا ، پھر دعا مانگنا ، حجرہ کی اس جانب والی کھڑکی کو ‘‘ شباک مہبط وحی ’’ سے موسوم کرنا ، پھر اس کے بعد چند قدم کے فاصلے پر ‘‘ مقام فاطمۃ الزہراء ’’ سمجھنا ، پھر جنوب کی جانب قبلہ کی طرف بڑھنا وغیرہ ۔
ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ کی بنیاد ہی ایک غیر شرعی امر کے لیے رکھی گئی ہے ، جو کہ بارہ صدیوں سے مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے ، مزید اس جگہ با جماعت نماز ادا کرنا بھی محل نظر ہے کیونکہ صفوں کا تسلسل باقی نہیں رہتا ، ایسی صورت حال میں اس جگہ کو شرعی اعتبار سے کوئی حیثیت نہ دینا ، اور خارج مسجد سمجھنا[13]، یہ ایک وجیہ قول ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ العدة على إحكام الأحكام ( 3 / 261 )
[2] ۔ الإخنائية ( 499 ) .
[3] ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسجد کی شرقی دیوار جو کہ حجرے کا احاطے کرنے والی خماسی دیوار کے بعد ہے ، وہ فقط مسجد کی چھت کو سہارا دینے کے لیے ہے ۔ اور اس سے ہماری بیان کردہ تقریر پر کوئی اشکال لازم نہیں آتا ۔
[4] ۔ چنانچہ مدینہ کے فقہاء عشرہ ، اور اصحاب جاہ نے اس بات کی سخت مخالفت کی ، عمر بن عبد العزیز نے صورت حال خلیفہ وقت ولید کو لکھ بھیجی ، لیکن وہ حجرات کو شہید کرنے پر مصر رہا ، اور لوگوں کی آہ و بکا کے ہولناک منظر میں یہ واقعہ رونما ہوگیا ۔ دیکھیے : البداية والنهاية (12 / 413 ۔ 414 ) ، وفاء الوفاء ( 2 / 517 ) .
[5] ۔ الدرة الثمینة ( 178 )
[6] ۔ اس سے مراد ریاض الجنہ کا وہ حصہ ہے جو اس مقصورہ کے اندر آگیا ، یعنی باہر والی جالی اور دیوار خماسی کی درمیانی جگہ ۔
[7] ۔ وفاء الوفاء ( 2 / 615 ) .
[8] ۔ اس طرح کی عبارات میں حجرے سے مراد جالی سے لے کر اندورنی تمام جگہ ہے ، جو کہ حجرہ عائشہ اور حجرہ فاطمہ اور ان کے ارد گرد حصے کو شامل ہے ۔ دیکھیے : وفاء الوفاء ( 2 / 612 )
[9] ۔یہ مسجد کی مشرقی دیوار سے متصل ، قبر کے برابر میں جنازے رکھنے کی جگہ ہے ۔ دیکھیے : الدرة الثمینة (178)
[10] ۔ نزهة الناظرین في مسجد سید الأولین والآخرین ( 29 ۔ 30 ) ، ( 14 ۔ 21 ) ، علی بن موسی نے کتاب وصف المدینة (63)میں بھی تقریبا یہی ذکر کیا ہے ، البتہ ص 58 پر انہہوں نے توسیع کی مقدار چار ذراعِ عمل بتلائی ہے ۔
[11] ۔ دیکھیے : وفاء الوفاء ( 2 / 610 ) . اس سے پہلے سلطان قلاؤون نے بھی 678ہ میں قبر مبارک پر ایک گنبد تعمیر کیا تھا ، جو حجرہ کے اوپر اور مسجد کے اندر تھا ، نیچے سے مربع شکل ، جبکہ اوپر سے تقریبا گولائی ؟ میں تھا ، بعد میں قایتبائی کے دور تک اس کی اصلاح و تجدید کا کام ہوتا رہا ، اب یہ گنبد حجرہ کے پردے میں چھپا ہوا ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتا . سمہودی کے بیان میں جس گنبد کا ذکر ہے وہ بڑأ گنبد ہے جو بالکل واضح طور پر مسجد کے بالائی جانب نظر آتا ہے ، اس کو سلطان قایتبائی نے 886 ہ میں تعمیر کیا ، پھر 892 ہ میں ، پھر عثمانی خلیفہ محمود بن عبد المجید خان کے دور سلطنت میں 1233 ہ میں اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی ، اور بعد میں انہیں کے دور میں 1253ہ میں اس پر سبز رنگ کردیا گیا ، جبکہ اس سے پہلے یہ نیلگوں تھا ؟ ، دیکھیے : نزهة الناظرین ( 76 ۔ 77 ) ، بہر صورت بہت عجیب اور افسوس ناک بات ہے کہ جس ہستی مقدس نے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنے سے منع فرمایا ، ان کی قبر پر بعد والوں نے دو گنبد تعمیر کردیے ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔
[12] ۔ مصدر سابق ۔ لیکن بعد میں یعنی سلطان عبد المجید کی توسیع میں دیوار کے ساتھ ساتھ باب جبریل کو بھی مشرقی جانب پیچھے ہٹایا گیا ، ورنہ اس سے پہلے یہ مسجد کے اندر حجرے کے تقریبا برابر تھا ، باب جبریل اور اس کے ساتھ ہی شمال کی جانب باب النساء کے درمیان موازنہ کرنے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں پہلے کی طرح ایک زاویہ میں نہیں ہیں ۔
[13] ۔ التمهيد لشرح كتاب التوحيد (262).
قبر مسجد میں شامل نہیں بلکہ اس کے پڑوس میں اس کے ساتھ متصل ہے ۔
امام صنعانی فرماتے ہیں :
تحقیقی بات یہ ہےکہ قبر پر مسجد تعمیر نہیں ہوئی کیونکہ وہ جگہ مسجد تعمیر ہونے سے پہلے حضور کے دفن ہونے سے مسجد سے مستقل ایک الگ جگہ ٹھہری تھی لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ یا بت پرستی کی جگہ بنادیا گیا ہے ۔
بلکہ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو آپ کے گھر جو آپ کی اور حضرت عائشہ کی ملکیت تھا میں دفن کیا گیا ۔ البتہ یہ جگہ مسجد کے قریب ترین تھی ۔ جب مسجدکی توسیع کی گئی تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مزید متصل ہوگئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قبر مسجد میں تبدیل ہوگئی ۔[1]
شاید شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مراد بھی یہی ہے فرماتے ہیں :
قبر نبوی مسجد نبوی کے پڑوس میں ہے ۔[2]
یہ احتمال مزید اس طرح واضح ہوجاتاہےکہ پہلے مسجد حجرہ کے ساتھ صرف غربی طرف سے ملتی تھی لیکن توسیع کے بعد غربی ، جنوبی اور شمالی تینوں اطراف سے حجرہ کے ساتھ متصل ہوگئی ۔
توسیع ولید میں حجرہ عائشہ کی جنوبی جانب (یعنی قبلہ کی طرف ) اور شمالی جانب ( جو کہ حجرہ فاطمہ کی بھی شمالی جانب بنتی ہے ) موجود حجرات کو گراکر مسجد میں شامل کردیا گیا، یوں حجرہ عائشہ مغربی، جنوبی اور شمالی تینوں اطراف سے مسجد کے ساتھ مل گیا۔
لہذا اب مسجد نبوی کی حد حجرہ عائشہ کی مغربی دیوار تک ہے اور اس سے پیچھے یعنی حجرہ کے مشرقی طرف مسجد کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔[3]
لیکن یہاں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں :
اول :
اہل علم کی کتابوں میں یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ ولید نے حجرہ کو مسجد میں شامل کردیا تھا ، جو کہ اوپر پیش کردہ تحقیق کے خلاف ہے ۔
اس کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ : علماء کی اس سے مراد بظاہر حجرہ کا مسجد میں شامل نظر آنا ہے ، حقیقتا نہیں ، کیونکہ توسیع ولید کے بعد حجرہ ایسے ہی نظر آتا تھا جیسے مسجد میں شامل ہے حالانکہ وہ تین اطراف سے مسجد کے ساتھ متصل ہے نہ کہ مسجد کے اندر داخل ہے ۔
میرے علم کے مطابق کسی بھی معتبر عالم دین نے حجرہ کو مسجد یا اس کا جزء قرار نہیں دیا ، اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ حجرہ میں نماز(اگر ممکن ہو ) پڑھنے کا ثواب بھی مسجد میں نماز پڑھنے کی طرح ہے ۔
لہذا حجرے کی اپنی ایک مستقل اور الگ حیثیت ہے ، اور زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہےکہ توسیع کے بعد وہ مسجد نبوی کے مزید قریب ہوگیا ہے ۔ جیساکہ پہلے گزر چکا ہے ۔
غور و فکر کرنے والے کے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حجرہ مبارکہ واقعتا مسجد میں شامل نہیں ، اور مسجد کی توسیع کا اہتمام کرنے والوں نے بھی اسے الگ رکھنے کا اہتمام کیا ہے ، ورنہ وہ چاہتے تو مسجد کی توسیع کی مصلحت کی غرض سے اس کو شاملِ مسجد کرسکتے تھے جیساکہ دیگر امہات المؤمنین کے حجروں کو گرا کر مسجد میں شامل کرنا پڑا حالانکہ اہل علم اور عوام الناس کی شدید خواہش تھی کہ انہیں باقی رکھا جائے[4]اسی طرح حجرہ عائشہ کو بھی شامل کرنا ممکن تھا ، کیونکہ اس طرف توسیع کے رستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں تھی ، سوائے ایک مخصوص مقام کے جو نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے تیار کیا گیا تھا ۔[5]
اسی طرح بارہ صدیاں گزر گئیں ، مسجد کی پے در پے توسیعات ہوتی رہیں ، اور ہر بار مشرقی جانب توسیع کرنے سے باوجود ضرورت کے ، اجتناب کیا گیا ، تاکہ حجرہ کی اپنی ایک الگ اور مسجد سے مستقل حیثیت باقی رہے ۔
اس بات کی مزید تائید علامہ سمہودی کے اس قول ۔ جو انہوں نے مقصورہ درابزین کے ریاض الجنۃ کا کچھ حصہ گھیر لینے پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا ہے ۔ سے بھی ہوتی ہے :
‘‘ اس جگہ کو[6]اب عوام الناس اور مسجد کے بارے میں معلومات نہ رکھنے والے لوگ ، مسجد کی بجائے حجرے کا حصہ سمجھتے ہیں ، اور اس پر غیر مسجد کے احکام لاگو کرتے ہیں ۔’’[7]
سمہودی کی یہ بات بالکل واضح ہے کہ حجرہ مسجد کا حصہ نہیں ہے ۔
دوسرا اشکال :
چبوترے کی جالی اور مسجد کی مشرقی دیوار میں آج بھی خالی جگہ موجود ہے بلکہ اس میں نماز بھی ادا کی جاتی ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حجرہ مسجد کے اندرونی حصے میں ہے ۔
جواب :
حجرہ[8]اور مسجد کی مشرقی دیوار میں موجود نماز کے لیے خالی جگہ پہلے نہیں تھی ، بلکہ یہ سلطان عبد المجید کی توسیع ، جوکہ 1277هـ میں مکمل ہوئی ، میں وجود میں آئی ہے ۔
گویا اس کی عمر صرف تقریبا ڈیڑھ صدی ہے ، جبکہ اس سے پہلے والی بارہ صدیاں اس کا کوئی وجود نہیں تھا ۔
چنانچہ برزنجی ، جنہوں نے سلطان عبد المجید کی توسیع کا زمانہ پایا ہے ، کہتے ہیں کہ 886 هـ میں مسجد کی مشرقی دیوار کو سوا دو ہاتھ باہر کی طرف بڑھا دیا گیا تھا ، اور ہمارے زمانے میں ہونے والی توسیع میں اس دیوار کو بلاط([9]) میں پانچ ہاتھ بڑھایا گیا ہے ،مشرقی جانب یہیں تک توسیع روک دی گئی ۔[10]
سمہودی نے بھی قایتبائی کے دور سلطنت 886 هـ میں ہونے والی توسیع ۔ انہوں نے یہ زمانہ پایا ہے ۔ کے بارے میں یہی ذکر کیا ہے کہ مشرقی جانب ڈیڑھ ہاتھ دیوار کو مجبورا بڑھانا پڑا ، تاکہ حجرہ مبارکہ پر مسجد کی بالائی جانب تعمیر کیے جانے والے گنبد کے ستونوں کے لیے جگہ بن سکے ۔[11]
سمہودی لکھتے ہیں :
مسجد کی مشرقی دیوار اور گنبد کے کچھ ستونوں کے درمیان تنگی کے باعث ، مشرقی دیوار کو بلاط کی طرف ڈیڑھ ہاتھ باہر نکال دیا گیا ، اور باب جبریل تک اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا ، جبکہ باب جبریل کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹایا گیا ۔(حاشیہ[12])
سمہودی کے بیان کے مطابق ڈیڑھ ہاتھ کی یہ توسیع بامر مجبوری تھی ، نہ کہ اس کو یہاں عبادت کے لیے جگہ بنانے کے وسعت دی گئی ، کیونکہ اگر ایسا معاملہ ہوتا تو مزید توسیع کی جاتی ، یا کم از کم باب جبرئیل کو ہی اس کی اصل جگہ سے ہٹا دیا جاتا تاکہ وہ دیوار کے برابر ہوجائے ۔
خلاصہ کلام :
حجرے اور مشرقی دیوار کے درمیان جس جگہ اب نماز ادا پڑھی جانے لگی ہے ،یہ سلطان عبد المجید کے دور میں وجود میں آئی ، اس سے پہلے صدیوں پر محیط زمانے میں مسلمان اس طرف توسیع سے گریز کرتے رہے ، تاکہ حجرہ کی مسجد سے الگ اور مستقل حیثیت واضح رہے ۔
بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس طرف توسیع کرکے اس جگہ کو وجود میں لانا، مسلمانوں کے عملی اجماع کے خلاف ہے ، لہذا شرعی اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں ، اور نہ ہی یہ مسجد کا حصہ ہے ۔
غالب گمان یہ ہےکہ اس جگہ کو بنانے کا مقصد بدعات و خرافات کو سر انجام دینا تھا ، چنانچہ ایک مصری ملازم محمد باشا صادق نے اس صورت کو حال کو بیان کیا ہے کہ کس طرح یہاں سے زیارت کرتے ہوئے غیر شرعی امور سر انجام دیے جاتے تھے ، مثلا : اس حصے میں آکر ایک خاص جگہ پر کھڑے ہونا ، پھر دعا مانگنا ، حجرہ کی اس جانب والی کھڑکی کو ‘‘ شباک مہبط وحی ’’ سے موسوم کرنا ، پھر اس کے بعد چند قدم کے فاصلے پر ‘‘ مقام فاطمۃ الزہراء ’’ سمجھنا ، پھر جنوب کی جانب قبلہ کی طرف بڑھنا وغیرہ ۔
ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ کی بنیاد ہی ایک غیر شرعی امر کے لیے رکھی گئی ہے ، جو کہ بارہ صدیوں سے مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے ، مزید اس جگہ با جماعت نماز ادا کرنا بھی محل نظر ہے کیونکہ صفوں کا تسلسل باقی نہیں رہتا ، ایسی صورت حال میں اس جگہ کو شرعی اعتبار سے کوئی حیثیت نہ دینا ، اور خارج مسجد سمجھنا[13]، یہ ایک وجیہ قول ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ العدة على إحكام الأحكام ( 3 / 261 )
[2] ۔ الإخنائية ( 499 ) .
[3] ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسجد کی شرقی دیوار جو کہ حجرے کا احاطے کرنے والی خماسی دیوار کے بعد ہے ، وہ فقط مسجد کی چھت کو سہارا دینے کے لیے ہے ۔ اور اس سے ہماری بیان کردہ تقریر پر کوئی اشکال لازم نہیں آتا ۔
[4] ۔ چنانچہ مدینہ کے فقہاء عشرہ ، اور اصحاب جاہ نے اس بات کی سخت مخالفت کی ، عمر بن عبد العزیز نے صورت حال خلیفہ وقت ولید کو لکھ بھیجی ، لیکن وہ حجرات کو شہید کرنے پر مصر رہا ، اور لوگوں کی آہ و بکا کے ہولناک منظر میں یہ واقعہ رونما ہوگیا ۔ دیکھیے : البداية والنهاية (12 / 413 ۔ 414 ) ، وفاء الوفاء ( 2 / 517 ) .
[5] ۔ الدرة الثمینة ( 178 )
[6] ۔ اس سے مراد ریاض الجنہ کا وہ حصہ ہے جو اس مقصورہ کے اندر آگیا ، یعنی باہر والی جالی اور دیوار خماسی کی درمیانی جگہ ۔
[7] ۔ وفاء الوفاء ( 2 / 615 ) .
[8] ۔ اس طرح کی عبارات میں حجرے سے مراد جالی سے لے کر اندورنی تمام جگہ ہے ، جو کہ حجرہ عائشہ اور حجرہ فاطمہ اور ان کے ارد گرد حصے کو شامل ہے ۔ دیکھیے : وفاء الوفاء ( 2 / 612 )
[9] ۔یہ مسجد کی مشرقی دیوار سے متصل ، قبر کے برابر میں جنازے رکھنے کی جگہ ہے ۔ دیکھیے : الدرة الثمینة (178)
[10] ۔ نزهة الناظرین في مسجد سید الأولین والآخرین ( 29 ۔ 30 ) ، ( 14 ۔ 21 ) ، علی بن موسی نے کتاب وصف المدینة (63)میں بھی تقریبا یہی ذکر کیا ہے ، البتہ ص 58 پر انہہوں نے توسیع کی مقدار چار ذراعِ عمل بتلائی ہے ۔
[11] ۔ دیکھیے : وفاء الوفاء ( 2 / 610 ) . اس سے پہلے سلطان قلاؤون نے بھی 678ہ میں قبر مبارک پر ایک گنبد تعمیر کیا تھا ، جو حجرہ کے اوپر اور مسجد کے اندر تھا ، نیچے سے مربع شکل ، جبکہ اوپر سے تقریبا گولائی ؟ میں تھا ، بعد میں قایتبائی کے دور تک اس کی اصلاح و تجدید کا کام ہوتا رہا ، اب یہ گنبد حجرہ کے پردے میں چھپا ہوا ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتا . سمہودی کے بیان میں جس گنبد کا ذکر ہے وہ بڑأ گنبد ہے جو بالکل واضح طور پر مسجد کے بالائی جانب نظر آتا ہے ، اس کو سلطان قایتبائی نے 886 ہ میں تعمیر کیا ، پھر 892 ہ میں ، پھر عثمانی خلیفہ محمود بن عبد المجید خان کے دور سلطنت میں 1233 ہ میں اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی ، اور بعد میں انہیں کے دور میں 1253ہ میں اس پر سبز رنگ کردیا گیا ، جبکہ اس سے پہلے یہ نیلگوں تھا ؟ ، دیکھیے : نزهة الناظرین ( 76 ۔ 77 ) ، بہر صورت بہت عجیب اور افسوس ناک بات ہے کہ جس ہستی مقدس نے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنے سے منع فرمایا ، ان کی قبر پر بعد والوں نے دو گنبد تعمیر کردیے ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔
[12] ۔ مصدر سابق ۔ لیکن بعد میں یعنی سلطان عبد المجید کی توسیع میں دیوار کے ساتھ ساتھ باب جبریل کو بھی مشرقی جانب پیچھے ہٹایا گیا ، ورنہ اس سے پہلے یہ مسجد کے اندر حجرے کے تقریبا برابر تھا ، باب جبریل اور اس کے ساتھ ہی شمال کی جانب باب النساء کے درمیان موازنہ کرنے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں پہلے کی طرح ایک زاویہ میں نہیں ہیں ۔
[13] ۔ التمهيد لشرح كتاب التوحيد (262).