نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو آقا کہنے کی شرعی حیثیت
جہاں تک اس لفظ کے مفہوم کا تعلق ہے۔ تو فیروز اللغات میں اس کا معنی یہ بتایا گیا ہے:’’مالک،خداوند، صاحب،خاوند،شوہر،حاکم، افسر‘‘
(فیروز اللغات: ۲۵)
ظاہر سی بات ہے کہ
مالک ، خداوند کے معنی میں استعمال کرنا ناجائز اور شرک ہے۔
البتہ سردار کے معنیٰ میں اگر کوئی استعمال کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ صحابہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سید یا اس قبیل کے الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔ جنہیں سامنے رکھ کر کہا جاسکتا ہے۔ کہ
اس قسم (سید، سردار)کے معنیٰ میں کوئی استعمال کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
جبکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ ایسے الفاظ کے استعمال سے بچا جائے جو کئی معانی کے محتمل ہوں۔
بالخصوص دور حاضر میں استعمال کرنے والے لوگوں کے بارے میں بہرحال خدشہ یہی ہے کہ وہ شرکیہ عقائد کو ملحوظ رکھ کر ہی ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ ایسی صورت میں ایسے الفاظ سے بچنا اور زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: حافظ محمد یونس اثرؔی
مدرس المعہد السلفی للتعلیم والتربیہ کراچی