• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم ﷺ سے محبت کا وجوب

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
668
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
نبی کریم ﷺ سے محبت کا وجوب


نبی کریم ﷺکے ساتھ محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے۔کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک نبی کریم ﷺ کے ساتھ اپنی جان ،اہل وعیال ،والدین اور تمام دنیا سے بڑھ کر نہ محبت کرے۔آپ ﷺ کے ساتھ محبت کرنا اور آپ کی تعظیم کرناعین عبادت ہے ،کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔جبکہ عبادت دل ،زبان اور تمام اعضاء سے ادا کی جاتی ہے۔اعمال میں اخلاص ((لاَاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ))کا تقاضا ہے، جبکہ نبی کریم ﷺ کی اتباع ((مُحَمَّدُُُُُُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ)) کا تقاضا ہے۔کیونکہ’’ محمد رسول اللہ‘‘کا معنیٰ ہی یہی ہے کہ آپ ایک سچے نبی ہیں۔لہذا آپ ؐ کے اوامر کی اطاعت،نواہی سے بچنا اور لائی ہوئی شریعت کی تصدیق ہم پر فرض ہے۔اور یہی کمال محبت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآ ؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃُ ُ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَآ أَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِی سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ))[التوبۃ:۲۴]
’’آپ کہہ دیجئیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے ا ور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو،اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیزہیں ،تو اللہ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو۔اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر مذکورہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں مانع ہو جائیں تو یہ بات اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسندیدہ ہے ،اور اس کی ناراضگی کا باعث ہے۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’میں ہر مومن کو دنیا وآخرت میں تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہوں، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ سکتے ہو
((أَلنَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ))[الأحزاب:۶]
’’پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أنا أولی بکل مؤمن من نفسہ))[مسلم]
’’میں ہر مومن کو اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہوں۔‘‘
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین))[بخاری ،مسلم]
’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میرے ساتھ اپنی اولاد ،والدین اور تمام لوگوں سے بڑھ کر نہ محبت کرے۔‘‘
حضر ت عبد اللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم بنی کریم ﷺ کے ساتھ تھے،اور آپ ؐ نے حضرت عمر کاہاتھ پکڑا ہوا تھا،پس حضرت عمر نے کہا:یا رسول اللہ! مجھے آپ ،اپنی جان کے علاوہ،ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’جب تک میں تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ایمان مکمل نہ ہو گا‘‘حضرت عمر نے کہا:پس اللہ کی قسم!اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عمر! اب تم کامل مومن ہو۔‘‘[بخاری]
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس آدمی کے اندر تین چیزیں موجود ہیں ،گویا کہ اس نے ایمان کی لذت اور مٹھاس کو پا لیا۔جن میں سے ایک یہ کہ ’’اس کو اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں۔۔۔۔۔‘‘[بخاری ،مسلم]
نبی کریم ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والے آپ ؐ کے صحابہ تھے۔کیونکہ انہوں نے آپؐ کو دیکھا تھا اور ان کی صحبت اختیار کی تھی۔آپ ؐ کے ساتھ صحابہ کرام سےمحبت کا منفرد انداز اور عجیب کیفیت تھی۔
حضرت علی سے پوچھا گیا : کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمہاری محبت کا کیا حال تھا؟تو حضرت علی ؓ نے فرمایا:اللہ کی قسم!رسول اللہ ؐ ہمیں اپنی اولادوں، والدین،مال ودولت اور سخت پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے۔[شرح الشفا:۲/۴۰]
حضرت زید بن الدثنہ مشرکین مکہ کی قید میں تھے۔جب اہل مکہ نے ان کو حرم سے نکال کر قتل کرنا چاہا تو ابو سفیان بن حرب (جو ابھی تک مشرک تھے ،اسلام قبول نہیں کیا تھا)نے پوچھا:اے زید!میں تجھے قسم دے کر کہتا ہوں:کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اب اسوقت تیری جگہ پر محمد ہو اور ہم اس کی گردن مار دیں،جبکہ تو اپنے بچوں کے پاس بیٹھا ہو؟تو حضرت زید نے کہا:اللہ کی قسم!میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ رسول اللہ ﷺجہاں بھی موجود ہیں ،وہاں ان کو کانٹا چبھے اور میں اپنے بچوں میں بیٹھا رہوں۔یہ سن کر ابو سفیان نے کہا:میں نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی ، اس کے ساتھ اتنی محبت کرتے ہوں ،جتنی محبت محمد کے ساتھی اس کے ساتھ کرتے ہیں۔[البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر:۴/۶۵]
ابو سفیان اپنی بیٹی ام حبیبہ ؓ(ام المؤمنین زوجۃ النبیؐ)کو ملنے کے لئے مدینہ منورہ آیا،جب گھر میں داخل ہوا اور نبی کریمﷺ کے بستر پر بیٹھنے لگا تو حضرت ام حبیبہ ؓ نے جلدی سے بستر لپیٹ دیا۔ابو سفیان نے پوچھا: بیٹی! کیا تو بستر کو مجھ سے دور کر رہی ہے یا مجھے بستر سے دور کر رہی ہے؟تو انہوں نے جواب دیا:
((ھو فراش رسول اللّٰہ ﷺوأنت مشرک نجس،فلم أحب ان تجلس علی فراشہ))[ البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر:۴/۲۸۰]
’’یہ رسول اللہ ﷺ کا بستر مبارک ہے جبکہ تو پالید مشرک ہے ،میں یہ قطعا پسند نہیں کرتی کہ تو رسول اللہ ﷺ کے بستر پر بیٹھے‘‘
حضرت انس بن مالک کا قول ہے:کہ اذیّت پہنچنے سے بچنے اورشدت محبت کی وجہ سے صحابہ کرام آپ ﷺ کے گھر کے دروازوں کو ناخنوں سے کھٹکھٹایا کرتے تھے ،تاکہ آپ کو تکلیف نہ پہنچے۔[بیہقی]
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ جنگ احد والے دن نبی کریمﷺ کی شہادت کی افواہ پھیل گئی۔تو مدینہ کے ہر کونے سے چیخ وپکار کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔چنانچہ ایک انصاری عورت آپ ﷺ کی خبر لینے کے لئے مدینہ سے نکلی اور لشکر کی جانب چل پڑی۔اور جنگ سے واپس آنے والے ہر شخص سے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پوچھتی۔جب اس کو بتایا گیا کہ تیرا باپ ،بیٹا ،بھائی اور خاوند تمام شہید ہو چکے ہیں تو اس اللہ کی بندی نے کہا:
((مافعل رسول اللّٰہ ﷺ))
’’مجھے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بتاؤ کہ ان کا کیا حال ہے۔‘‘
صحابہ کرام نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ وہ تیرے سامنے بخیر وعافیت موجودہیں۔تو اس انصاری عورت نے آپؐ کے کپڑے کا کنارہ پکڑتے ہوئے کہا:
((بأبی أنت وأمی یا رسول اللّٰہ،لا أبالی اذسملت من عطب))[رواہ الطبرانی فی الاوسط]
’’میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ،اب میں بھی ہلاک کر دی جاؤں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں‘‘
اور دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا
((کل مصیبۃ بعدک جلل))[سیرۃ ابن ہشام]
’’آپ کے بعد تمام غم آسان ہیں۔‘‘
صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش مکہ کی جانب سے عروہ بن مسعود الثقفی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے)قاصد بن کر آئے ،اور صلح کی شرائط طے کیں۔جب واپس اپنی قوم کے پاس گئے تو کہا:اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی قسم!میں بادشاہوں کے پاس قاصد بن کر جا چکا ہوں،قیصر ،کسریٰ اور نجاشی کو مل چکا ہوں۔اللہ کی قسم ! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں ،جتنی تعظیم محمد ﷺ کے ساتھی محمد کی کرتے ہیں۔اللہ کی قسم !اگر محمد کی تھوک کسی کے ہاتھ پر گر گئی تواس نے تھوک کو اپنے چہرے اور جسم پر مل لیا ،اور اگر محمد نے کوئی حکم دیا تو صحابہ نے فورا تعمیل کی،اور جب وضو کیا تو گرنے والے پانی کو لینے کے لئے مقابلہ کیا،اور جب بات کی تو تمام نے اپنی آوازوں کو پست کر لیا،اور تعظیم کی وجہ سے ان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔[رواہ البخاری]
حضرت ابوسعید خدری ص فرماتے ہیں:’’جب نبی کریمﷺ کلام کرتے تو صحابہ کرام خاموشی کے ساتھ اس قدر انہماک سے آپ ﷺ کی بات سنتے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔[بخاری]
آج بھی ہم پر فرض ہے کہ جب حدیث رسول ﷺ بیان کی جارہی ہوتوخاموشی کے ساتھ دھیان سے سنیں،اور حدیث نبوی کے مقابلے میں ہر کسی کی بات کو رد کرتے ہوئے حدیث پر عمل کریں،اور اسی میں ہی نجات ہے۔
{نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت میں اضافے کا سبب بننے والے امور }

۱۔اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا اور اشتیاق کے ساتھ اللہ کا تذکرہ کرنا،اور اس کی دی ہوئی تمام ظاہری وباطنی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرنا ، جس نے رسول اللہ ﷺ کے سچا نبی ہونے کی طرف ہماری راہنمائی فر مائی،جو ہم پراللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اور احسان ہے۔
۲۔ نبی کریم ﷺ کی محبت،اقوال اور اوامر کو تمام لوگوں پر مقدم جاننا:(جیسا کہ حضرت انس اور حضرت عمر کی حدیث میں گزرا ہے)اور یہ عمل دلی محبت اور دیکھنے کی شدیدخواہش سے شروع ہوتا ہے۔اور اس کا اظہا ر اس وقت ہوتا ہے جب نبی کریم ﷺ کی محبت کے ساتھ کسی اور کی محبت ٹکرا جائے،تو سچا محبت کرنے والا اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو مقدم رکھتا ہے۔
۳۔ صحابہ کرام کے ساتھ دوستی رکھنا:ان کے محاسن اور فضائل کو بیان کرنا ،اور ان کے باہمی تنازعات پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا۔کیونکہ نبی کریم ﷺ کیساتھ محبت کرنے کی وجہ سے ہم صحابہ اور ہر محب رسول سے محبت کرتے ہیں۔
۴۔اہل بیت کی توقیر کرنا:ان میں سے صالحین کی عزت واحترام کرنا۔
۵۔نبی کریم ﷺ کی سنت،آثار اور اقوال کی قولاً،عملاً اور علماًتعظیم کرنا:حضرت عبد اللہ بن مسعودص فرماتے ہیں:’’سنت پر اکتفاء کر لینا بدعت میں اجتہاد کرنے سے بہتر ہے۔‘‘[تلبیس ابلیس لابن الجوزی ]
اور سنت نبوی ﷺ کی سب سے بڑی تعظیم اس پر عمل کرنا ہے۔جیسا کی حدیث میں موجود ہے:’’تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑو‘‘[ابو داؤد ،ترمذی]
۶۔سنت پر عمل کرنے والوں ،خصوصا ً علماء کرام کا احترام کرنا،ان کی قدر ومنزلت کو پہچاننا۔یہ علماء کرام ہی امت کی پیشانی پر عمدہ خوشبو اورچلتا پھرتا نور ہیں۔ان کی مدد کی جائے تاکہ وہ سنتوں کا احیاء کریں اور مٹ جانے والی سنتوں کو زندہ کریں۔
۷۔سیرت نبوی کا کثرت سے مطالعہ کرنا:بنی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو مکہ ،مدینہ ،حبشہ اورطائف میں پیش آنے والے واقعات کو پڑھنا۔
۸۔مستشرقین ،مستغربین،اور منافقین کی جانب سے نبی کریم ﷺ پر الزامات کا دفاع کرنا،جو عالمی میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کو اذیت دینے کے لئے زہر اگل رہے ہیں۔اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور مومنین کے خلاف تہذیبی جنگ شروع کئے ہوئے ہیں۔حضرت حسان بن ثابت نبی کریم ﷺ کی طرف سے مشرکین کے الزامات کا دفاع کیا کرتے تھے ۔ ان کا ایک مشہو ر شعر ہے۔
فان أبی ووالدتی وعرضی لعرض محمد منکم وقآء
’’بے شک میرے والدین اور میری عزت وآبرو،محمدﷺ کی عزت پر قربان‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بارک اللہ فی علمک و عملک وجزاک اللہ خیرا
 
Top