صحیح بخاری میں دوطرح کی روایات ہیں ۔
اول: مسندیعنی متصل اورمکمل سند کے ساتھ۔
دوم: مرسل یا معلق، یعنی بغیرسندکے یا ادھوری سندکے ساتھ۔
پہلی قسم کی احادیث ہی صحیح بخاری کی اصل احادیث ہیں اورامام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں حدیث درج کرنے کے لئے جو اعلی شرائط قائم کی ہے انہیں احادیث کے لئے۔
لیکن دوسری قسم کی احادیث ،صحیح بخاری کی اصل احادیث نہیں ہیں ، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فوائد اوردیگرمقاصدکے تحت ان روایات کو بھی ضمنا صحیح بخاری میں درج کردیا ہے ، اوراس دوسری قسم کی احادیث میں صحیح بھی ہیں اورضعیف بھی ۔
اسی دوسری قسم میں بخاری میں یہ حدیث بھی ہے جسے اہل بدعت ہرسال ماہ ربیع الاول میں پیش کرتے ہیں کہ ابولہب کو کسی نے خواب میں دیکھا کہ جہنم میں اس کے عذاب میں تھوڑی سی تخفیف کی گئی ہے اس کی وجہ پوچھی گئی تو بتایا کہ ایسا اس وجہ سے کیونکہ اس نے اس لونڈی کو آزاد کردیا تھا جس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خود کشی کے ارادے والی جورروایت صحیح بخاری میں درج ہے وہ اسی دوسری قسم سے ہے یعنی وہ مسند ومتصل سند کے ساتھ نہیں ہے بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک دوسری حدیث کے ساتھ اسے ضمنا بغیرسند کے امام زہری رحمہ اللہ سے نقل کردیا ہے۔
اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن بلاغ الزهري هذا ليس على شرط البخاري كي لا يغتر أحد من القراء بصحته لكونه في " الصحيح ". والله الموفق.[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 3/ 163]۔
نیز ایک دوسری کتاب میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے ایک صاحب کی بات اس طرح نقل کی :
قال ( ١ / ٥٥) : ( وجزع النبي صلى الله عليه وسلم بسبب ذلك جزعا عظيما حتى أنه كان يحاول - كما يروي الإمام البخاري - أن يتردى من شواهق الجبال ) [دفاع عن الحديث النبوي ص: 40]
اس کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:
قلت : هذا العزو للبخاري خطأ فاحش ذلك لأنه يوهم أن قصة التردي هذه صحيحة على شرط البخاري وليس كذلك وبيانه أن البخاري أخرجها في آخر حديث عائشة في بدء الوحي الذي ساقه الدكتور ( ١ / ٥١ - ٥٢ ) وهو عند البخاري في أول ( التعبير ) ( ١٢ / ٢٩٧- ٣٠٤ فتح ) من طريق معمر : قال الزهري : فأخبرني عروة عن عائشة . . . فساق الحديث إلى قوله : ( وفتر الوحي ) وزاد الزهري : ( حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم - فيما بلغنا - حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبال فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقى منه نفسه تبدى له جبريل فقال : يا محمد إنك رسول الله حقا فيسكن لذلك جأشه وتقر نفسه فيرجع فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك فإذا أوفى بذروة جبل تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك )
وهكذا أخرجه بهذه الزيادة أحمد ( ٦ / ٢٣٢ - ٢٣٣) وأبو نعيم في ( الدلائل ) ( ص ٦٨ - ٦٩ ) والبيهقي في ( الدلائل ) ( ١ / ٣٩٣ - ٣٩٥) من طريق عبد الرزاق عن معمر به
ومن هذه الطريق أخرجه مسلم ( ١ / ٩٨ ) لكنه لم يسق لفظه وإنما أحال به على لفظ رواية يونس عن ابن شهاب وليس فيه الزيادة وكذلك أخرجه مسلم و أحمد ( ٦ / ٢٢٣ ) من طريق عقيل بن خالد : قال ابن شهاب به دون الزيادة وكذلك أخرجه البخاري في أول الصحيح عن عقيل به
قلت : ونستنتج مما سبق أن لهذه الزيادة علتين :
الأولى : تفرد معمر بها دون يونس وعقيل فهي شاذة
الأخرى : أنها مرسلة معضلة فإن القائل : ( فيما بلغنا ) إنما هو الزهري كما هو ظاهر من السياق[دفاع عن الحديث النبوي ص: 40]۔
غورفرمائیں کہ مذکورہ تحقیق میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہ فرمایا کہ خود کشی والی روایت مرسل ہے جو ایک دوسری روایت کے ساتھ ضمنا بیان کردی گئی ہے۔
اوریہ بات کہنے میں علامہ البانی رحمہ اللہ کوئی پہلے شخص نہیں ہیں بلکہ صحیح بخاری کی سب سے عظیم شرح لکھنے والے اورصحیح بخاری پر کی گئی ہرتنقید کا جواب دینے والے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں اس روایت کو مرسل قراردیا ہے ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں :
إِنَّ الْقَائِلَ فِيمَا بَلَغَنَا هُوَ الزُّهْرِيُّ وَمَعْنَى الْكَلَامِ أَنَّ فِي جُمْلَةِ مَا وَصَلَ إِلَيْنَا مِنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِه الْقِصَّة وَهُوَ مِنْ بَلَاغَاتِ الزُّهْرِيِّ وَلَيْسَ مَوْصُولًا[فتح الباري لابن حجر: 12/ 359]۔
یہ بات بخاری کے دیگرشارحین نے بھی کہی ہے تفصیل کے لئے دیکھے:[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 3/ 163]۔
تنبیہ اول:
تفسیرمردویہ میں یہی روایت موجود ہے لیکن اس میں امام زہری کے ارسال کا ذکر نہیں ہے ۔
عرض ہے کہ اول تو یہ روایت ضعیف ہے دوم اگراسے صحیح بھی مان لیں تو چونکہ دیگر روایات میں یہ صراحت آچکی ہے کہ یہ روایت امام زہری کے مراسیل میں سے ایسی صورت میں اگرکسی نے اس صراحت کے بغیر پوری رویات کوموصول بیان کردیا تو یہی کہا جائے گا ، یہ بات مدرج ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی تفسیرابن مردویہ والی روایت میں موصول بیان کی گئی اس بات کو مدرج کہا ہے:
وَوَقع عِنْد بن مَرْدَوَيْهِ فِي التَّفْسِيرِ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ مَعْمَرٍ بِإِسْقَاطِ قَوْلِهِ فِيمَا بَلَغَنَا وَلَفْظُهُ فَتْرَةً حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ إِلَى آخِرِهِ فَصَارَ كُلُّهُ مدرجا على رِوَايَة الزُّهْرِيّ وَعَن عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَالْأَوَّلُ هُوَ الْمُعْتَمَدُ[فتح الباري لابن حجر: 12/ 360]۔
غورفرمائیں کہ اس عبارت میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تفسیرمردویہ میں موصول بیان گئی مذکورہ بات کو مدرج کہہ کرردکردیا اورصاف طورسے کہا:
وَالْأَوَّلُ هُوَ الْمُعْتَمَدُ یعنی مذکورہ روایت کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے۔
علامہ البانی رحمہ نے بھی تفسیرابن مردویہ کی روایت سے متعلق حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی تائیدکرتے ہوئے کہا:
قلت : يعني : أنه ليس بموصول ، ويؤيده أمران :
الأول : أن محمد بن كثير هذا ضعيف ؛ لسوء حفظه - وهو الصنعاني المصيصي - ؛ قال الحافظ :
"صدوق كثير الغلط" .
وليس هو محمد بن كثير العبد ي البصري ؛ فإنه ثقة .
والآخر : أنه مخالف لرواية عبد الرزاق : حدثنا معمر ... التي ميزت آخر الحديث عن أوله ، فجعلته من بلاغات الزهري .
كذلك رواه البخاري من طريق عبد الله بن محمد : حدثنا عبد الرزاق ...
وكذلك رواه الإمام أحمد (٦/ ٢٣٢-٢٣٣) : حدثنا عبد الرزاق به .
ورواه مسلم في "صحيحه" (١/ ٩٨) عقب رواية يونس عن ابن شهاب به دون البلاغ ، ثم قال : وحدثني محمد بن رافع : حدثنا عبد الرزاق ... وساق الحديث بمثل حديث يونس ، مع بيان بعض الفوارق اليسيرة بين حديث يونس ومعمر ، ولم يسق الزيادة . ولولا أنها معلولة عنده بالانقطاع ؛ لما استجاز السكوت عنها وعدم ذكرها ؛ تفريقاً بين الروايتين أو الحديثين ، مع أنه قد بين من الفوارق بينهما ما هو أيسر من ذلك بكثير ! فدل هذا كله على وهم محمد بن كثير الصنعاني في وصله لهذه الزيادة ، وثبت ضعفها . [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 10/ 453]
تنبیہ دوم:
امام ابن سعد رحمہ اللہ نے ایک دوسری سند سے بھی اسی طرح کی بات نقل کی ہے جسے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں یوں نقل کیا ہے:
وَلَكِنْ يُعَارِضُهُ مَا أخرجه بن سعد من حَدِيث بن عَبَّاسٍ بِنَحْوِ هَذَا الْبَلَاغِ الَّذِي ذَكَرَهُ الزُّهْرِيُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔[فتح الباري لابن حجر: 12/ 360]۔
لیکن یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے علامہ البانی رحمہ اللہ ابن سعد کی اس روایت کونقل کرکے اسے باطل قراردینے کے بعد لکھتے ہیں:
قلت : وهذا إسناد موضوع ؛ آفته : إما محمد بن عمر - وهو الواقدي - ؛ فإنه متهم بالوضع۔۔۔۔۔۔[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 10/ 451]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس خودکشی والی روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے بعد اس کی نکارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وجملة القول ؛ أن الحديث ضعيف إسناداً ، منكر متناً ، لا يطمئن القلب المؤمن لتصديق هؤلاء الضعفاء فيما نسبوا إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من الهم بقتل نفسه بالتردي من الجبل ، وهو القائل - فيما صح عنه - :"من تردى من جبل فقتل نفسه ؛ فهو في نار جهنم يتردى فيها خالداً مخلداً فيها أبداً" . متفق عليه : "الترغيب" (٣/ ٢٠٥) .لا سيما وأولئك الضعفاء قد خالفوا الحفاظ الثقات الذين أرسلوه .[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 10/ 457]۔
اورایک دوسری کتاب میں کہتے ہیں:
وإذا عرفت عدم ثبوت هذه الزيادة فلنا الحق أن نقول إنها زيادة منكرة من حيث المعنى لأنه لا يليق بالنبي صلى الله عليه وسلم المعصوم أن يحاول قتل نفسه بالتردي من الجبل مهما كان الدافع له على ذلك وهو القائل : ( من تردى من جبل فقتل نفسه فهو في نار جهنم يتردى فيها خالدا مخلدا فيها أبدا ) أخرجه الشيخان وغيرهما وقد خرجته في ( تخريج الحلال والحرام ) برقم (٤٤٧ ) [دفاع عن الحديث النبوي ص: 41]۔
مزیدمعلومات کے لئے درج ذیل روابط دیکھئے:
(يثبت تبعا مالا يثبت استقلالا) عند المحدثين - ملتقى أهل الحديث
حديث مرسل في البخاري - ملتقى أهل الحديث
علق أحدهم على هذه الرواية في البخاري - ملتقى أهل الحديث