• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم ﷺ کے کاتبین وحی کے اسماء اور ان کا مختصراً تعارف

شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
Katbeen e wahi.jpg



نبی کریم ﷺ کے کاتبین وحی کے اسماء مع مختصراً تعارف
(محمد حسین میمن )
نبی کریمﷺ کے ابتدائی دورِ مبارک میں اور اس سے قبل بھی عرب معاشرے میں پڑھنے لکھے کا فن عام نہیں تھا، بلکہ اس کی جگہ اہل عرب اپنے حافظے پر ہی کلی اعتماد کیا کرتے تھے۔ مگر جوں جوں اسلام پھیلتا گیا اس نے حافظے کے ساتھ ساتھ لکھنے اور پڑھنے کے فن کو بھی ترویج دیا ۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام کی ابتداء ہی لکھنے پڑھنے کے فن سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے جب پہلی وحی نبی کریمﷺ پر نازل فرمائی تو اس میں پڑھنے کا ذکر موجود تھا۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ Ǻ۝ۚ﴾ (العلق:۱)
‘‘پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا’’۔
یہ پہلی وحی تھی جو نبی کریمﷺ پر نازل ہوئی۔ اس میں نبی کریمﷺ کو پڑھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ جواباً نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا :
‘‘ما انا بقاری’’ (صحیح البخاری، کتاب الوحی، رقم:۳)
‘‘میں پڑھنا نہیں جانتا’’۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ نبی کریمﷺ ان پڑھ ‘‘اُمّی’’تھے۔ غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آیت میں یہ فکر دی جا رہی ہے کہ نبی کریمﷺ امی ہیں اور یہ قرآن آپ کا اپنا لکھا ہوا نہیں ہے، بلکہ اس کا نازل ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
چنانچہ یہ ایک طویل گفتگو ہے جو ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ مگر آپ  نے اپنے صحابہ کرام  کو لکھنے اور پڑھنے کی ترغیب دی ، جس کی پاداش میں ابتداء دور سے آخر خطبہ حجۃ الوداع تک کئی ایک صحابہ کرام لکھنے اور پڑھنے کے فن میں ماہر ہو چکے تھے۔ کاتبین وحی کی ایک لمبی فہرست موجود ہے ۔ چنانچہ بعض صحابہ کرام نبی کریمﷺ کی ہر احادیث کو لکھنے پر مامور تھے۔ بعض ایسے بھی تھے جو خطوط لکھتے تھے۔ انہیں میں کچھ ایسے صحابی بھی تھے جو عربی زبان تو کو دوسری زبان کے اقالیب میں ڈھالتے تھے اور کچھ اس کام پر بھی مامور تھے کہ دنیا بھر سے آنے والے خطوط کا عربی زبان میں ترجمہ کریں۔ بالغرض اللہ نے اپنے وعدہ کو پورا کیا کہ نبی کریمﷺ کے شب و روز یہاں تک کہ آپ ﷺ کے حرکات و سکنات کو بھی حفظ اور کتابت کے ذریعے محفوظ فرمایا اور آج بھی ہمارے پاس محفوظ سے محفوظ ترین حالت میں موجود ہے۔ نبی کریمﷺ نے جب لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو ان حالات میں بہت تھوڑے لوگ کتابت کے فن سے واقفیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی  فرماتے ہیں:
‘‘ولذلک کان الذین یعرفون القراءۃ ولکتابۃ قلۃ قلیلۃ’’
(مقدمۃ الکتاب النبیﷺ، ص۱۷)
اور اسی لیے وہ لوگ جو پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے بہت تھوڑی تعداد تھے۔ مؤرخ البلازری کے مطابق سترہ لوگ تھے جو کتابت کے فن سے آشنا تھے۔ (فتوح البلدان، ص۶۶)
لہٰذا کاتبین کی قلت کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے کتابت کی طرف صحابہ کرام  کی زیادہ توجہ دلائی، تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جو صحابہ کرام لکھنے اور پڑھنے کے فن سے واقفیت رکھتے تھے وہ تمام کے تمام صرف قرآن مجید نہیں لکھا کرتے تھے بلکہ مختلف انداز میں مختلف تحریروں کو قلمبند کرنے پر بھی مامور تھے۔ مثلاً:
 ابی بن کعب  قرآن مجید لکھا کرتے تھے۔
 زید بن ثابت  بھی قرآن مجید لکھا کرتے تھے۔
 علی  بھی قرآن مجید کے کاتب تھے۔
 عثمان بن عفان  بھی قرآن مجید کے کاتب تھے۔
 معاویہ بن ابی سفیان  بھی کاتب قرآن تھے۔
 ابو بکر الصدیق  بادشاہوں کو خطوط بھیجتے تھے، جیسے کہ مقوقس صاحب مصر کی طرف۔
 سیدنا عمر  مدینہ کے بازار کے بارے میں حساب و کتاب رکھتے تھے۔
 عبداللہ بن ارقم الزھری بھی بادشاہوں کی طرف خط بھیجنے اور لکھنے پر مامور تھے۔
 العلاء بن عقبہ : آپ قبیلوں اور شہروں کے درمیان عقد و پیمان کو لکھتے تھے۔
 زبیر بن عوام  :آپ صدقات لکھنے پر گامزن تھے۔
 جھیم بن الصلت : آپ بھی صدقات کے احکامات لکھتے تھے۔
 حذیفہ بن یمان  :آپ کھجوروں کے صدقات کے بارے میں لکھتے تھے۔
 معیقیب بن ابی فاطمہ  :آپ بکریوں کے احکامات لکھتے تھے۔
 ثابت بن قیس بن شماس: آپ ہر وہ چیز لکھتے جس کا انہیں نبی کریمﷺ حکم دیتے۔
 مغیر بن شعبہ: آپ لوگوں کے معاملات کو قلمبند فرماتے۔
 عامر بن فھیرہ: آپ نے کتاب لکھی ‘‘ کتاب الامان’’ سراقہ بن مالک کے لیے۔
 حنظلہ بن الربیع: آپ ہر کاتب وحی کے خلیفہ تھے، نبی کریمﷺ نے اپنی انگوٹھی ان کے پاس رکھوائی تھی۔
 العلام بن الحضرمی: آپ وہ کچھ لکھتے جس کا حکم آپ کو نبی کریمﷺ دیتے۔
 العباس بن عبدالمطلب: آپ بھی نبی کریمﷺ کے حکم کے مطابق لکھتے۔
 عبداللہ بن عمرو بن العاص: آپ نبی کریمﷺ کے ہر عمل و سکنات کو قلمبند فرمایا کرتے تھے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
a ‘‘ کتاب الوحی ’’الدکتور احمد عبدالرحمن عیسیٰ
b ‘‘المصباح المضئ فی کتاب النبی الامی’’ ابن حریرہ الانصاری
c ‘‘اعلام السائلین ’’ لابن طولون
d ‘‘کتاب النبی ﷺ’’ الدکتور محمد مصطفٰی الاعظمی
ان تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ جو کاتبین تھے نبی کریمﷺ کی طرف سے انہیں مختلف کتابت پر فائز کیا گیا تھا۔ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ کاتبین وحی کی تعداد چالیس سے تجاوز تھی۔ بہرحال اس گنتی میں مؤرخین کا اختلاف بھی ہے۔ چنانچہ مؤرخ یعقوبی نے صرف ۱۳ کاتبین کا ذکر کیا ہے۔ مؤرخ مسعودی نے سولہ کاتبین کا ذکر کیا ہے۔ عمر بن شبہ نے ۲۳ کا ذکر کیا ہے اور علامہ عراقی نے بیالیس کاتبین کا ذکر فرمایا ہے اور ابن حریرہ الانصاری نے ۴۴ کاتبین وحی کا ذکر فرمایا ہے۔ ابن عبد ربہ الاندلسی نے دس کاتبین کا ذکر فرمایا ہے۔ علامہ حلبی نے ۲۶ کا ذکر فرمایاہے، علامہ جھشیاری نے ۱۴ کاتبین کا ذکر فرمایا ہے، ڈاکٹر مصطفی الاعظمی نے اکسٹھ کاتبین کا ذکر فرمایا۔
اب ہم ان شاء اللہ کاتبین وحی کا مختصراً تعارف پیش کریں گے۔
۱۔ سیدنا ابو بکر الصدیق :
آپ کا نام زمانہ جاہلیت میں عبدالکعبہ تھا۔ اسلام لانے کے بعد آپ کا نام نبی کریمﷺ نے عبداللہ رکھا، ابو بکر کنیت، صدیق لقب اور عتیق لقب تھا۔ والد کا نام عثمان اور والدہ کا نام سلمٰی اور کنیت ام الخیر تھی۔
۲۔سیدنا عمر بن الخطاب :
نام عمر، ابو حفص کنیت، فاروق لقب، والدکا نام خطاب اور والدہ کا نام خثمہ تھا۔ سیدنا عمر  ہجرت نبوی ﷺ سے چالیس برس قبل پیدا ہوئے۔ ایام طفولیت کے حالات معلوم نہ ہو سکے، بلکہ آپ کے سن رشد کے حالات بھی بہت کم تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں۔ آپ پہلوانی اور شہسواری کے ماہر تھے اور اسی زمانے میں آپ نے پڑھنا لکھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ زمانہ جاہلیت میں جن لوگوں نے پڑھنا لکھنا سیکھا تھا ان میں سیدنا عمر  بھی تھے۔
۳۔سیدنا عثمان بن عفان :
عثمان نام تھا، ابو عبداللہ اور ابو عمر کنیت تھی، ذوالنورین لقب تھا۔ والد کا نام عفّان اور والدہ کا نام اروٰی تھا۔
۴۔ سیدنا علی :
نام علی تھا، ابو الحسن اور ابو تراب کنیت تھی، حیدر (شیر) لقب تھا۔ والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ سیدنا علی  سے متعدد نکاح ثابت ہیں۔
ایک اہم ترین نکتہ:
سیدنا علی  خلیفہ ثانی سیدنا عمر  اور خلیفہ ثالث سیدنا عثمان  سے کتنی محبت تھی اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنی اولادوں کے نام عبداللہ، عثمان اور عمر رکھا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ تینوں خلفاء سیدنا علی  کی محبوب شخصیات تھیں۔ لہٰذا یہ ان حضرات کا ردّ ہے جو ان خلفاء کو اپنی حرف گیری کا نشانہ بناتے ہیں۔
سیدنا علی  کی سترہ لڑکیاں اور چودہ لڑکے تھے۔
۵۔ ابن بن کعب :
ابی نام تھا، ابو المنڈر اور ابو الطفیل کنیت تھی اور سید القراء، سید الانصار القابات تھے۔ کعب والد کا نام تھا اور والدہ کا نام صہیلہ تھا۔
۶۔ ابان بن سعید بن العاص :
ابان نام ، والدہ کا نام ہند بنت مغیرہ تھا، والد کا نام سعید بن العاص تھا۔ ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت پر عبد مناف پر نبی کریمﷺ سے مل جاتا ہے۔
۷۔ الارقم بن ابی الارقم :
ارقم نام، ابو عبداللہ کنیت، والد کا نام عبدالمناف، ابو الارقم کنیت اور والدہ کا نام امیمہ تھا۔
۸۔ بریدہ الاسلمی :
بریدہ نام، ابو عبداللہ کنیت، والد کا نام حصیب تھا۔ جنگ بدر سے قبل آپ مشرف بااسلام ہوئے۔
۹۔ثابت بن قیس بن شماس :
نام ثابت، کنیت ابو محمد، خطیب رسول ﷺ لقب، قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں والد کا نام قیس ہے والدہ کا نام معلوم نہ ہو سکا، لیکن اتنا معلوم ہو سکا ہے کہ آپ کی والدہ خاندان ‘طے’ سے تھیں۔
۱۰۔ جھیم بن الصلت بن مخرمۃ :
آپ کا نام جھیم تھا، والد کا نام الصلت تھا۔ آپ خیبر کے روز اسلام لائے۔
۱۱۔ جہم بن سعد :
آپ کا نام جہم تھا، والد کا نام سعد تھا۔ آپ اور زبیر بن عوام  دونوں صدقے کے اموال کے بارے میں لکھتے تھے۔
۱۲۔ حنظلہ بن ربیع بن صیفی الکاتب:
نام حنظلہ، کنیت ابو ربیع تھی۔ آپ کے اسلام لانے کی تاریخ متعین طور پر نہیں بتائی جا سکتی، لیکن آغاز دعوت اسلام میں اس شرف سے مشرف ہوئے ہوں گے۔ آپ کے چچا اکثم بن صیفی مشہور حکیم تھے۔
۱۳۔ حویطب بن عبدالعزی :
حویطب نام ہے، ابو محمد کنیت۔ اسلام کے ظہور کے وقت آپ کی عمر ۶۰ برس کی تھی۔ آپ نے ۱۲۰ سال کی عمر پائی۔
(جاری ہے)
 
Top