• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی ﷺ اور اولیا سے دعا کرنا یا دعا کرانا؟

شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64


نبی ﷺ اور اولیا سے دعا کرنا یا دعا کرانا؟

بریلوی حضرات ایک طرف کہتے ہیں ہم نبی پاک ﷺ اور اولیا سے عنداللہ ﷻ دعا کی درخواست کرتے ہیں۔
کہ وہ ہماری حوائج اور مشکلات کے لئے اللہ سے دعا کریں۔ دوسری طرف کہتے ہیں اللہ ﷻ نے نبی ﷺ اور ان کی نیابت میں اولیا کو سارے اختیارات دے رکھے ہیں۔

دونوں باتیں بیک وقت کیسے ممکن ہیں؟
اگر عنداللہ ﷻ دعا کی درخواست کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اختیار سارے اللہ ﷻ کے پاس ہیں۔ اور اگر نبی ﷺ کو بااختیار مانتے ہیں تو پھر عنداللہ ﷻ دعا کی کیا ضرورت و اہمیت ہے؟
اگر بادشاہ اپنے کسی مصاحب کو اختیارات دے دیتا ہے تو اس سے بادشاہ کے ہاں سفارش نہیں کرائی جاتی۔ ان عطا کردہ اختیارات میں سے براہ راست مانگا جاتا ہے۔ اور اگر بادشاہ کے ہاں سفارش کراتے ہیں تو اس کا مطلب اختیارات سارے بادشاہ نے اپنے پاس رکھے ہیں۔ یہ نہیں کہ اختیارات تو سارے مصاحب کے پاس ہیں اور سفارش بادشاہ سے کرائی جا رہی ہو۔

اس کو دوسری مثال سے سمجھیں۔ ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ نے اساتذہ کو اختیار دے دیا کہ تم طلبا کے امتحانی پرچے چیک کرو اور جو مناسب سمجھو ان کو نمبر دو۔ اب ایک طالبعلم زیادہ نمبر چاہتا ہے تو وہ براہ راست استاد کو عرض کرے گا استاد سے سربراہ کے ہاں سفارش کی درخواست نہیں کرے گا۔ اور اگر سربراہ کے ہاں سفارش کی درخواست کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ استاد کے پاس نمبر دینے کا کوئی اختیار نہیں۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ استاد کے پاس نمبر کا اختیار بھی مانے اور پھر اس کو سربراہ کے پاس سفارش کا بھی کہے۔ یہ تضاد بیانی اور غیر معقولیت کہلائے گی۔ بلکہ اس کوہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کہا جائیگا۔ یعنی عوام میں انبیا اور اولیا کے مختار کل ہونے کا عقیدہ پھیلا دیا اور علمی حلقوں میں اور مخالفین کے سامنے دعا کا ڈھونگ رچا دیا۔
 
Top