[JUSTIFY]بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
احمد رضا بریلوی نے ایک مولوی برکات احمد کے متعلق کہا:
ملفوظات کی اس عبارت میں موجود گستاخی و توہین کا کوئی صاحب ایمان انکار نہیں کر سکتا۔ مگر اس کے باوجود بریلوی اس گستاخانہ عبارت کی مختلف باطل تاویلات میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے اعلیٰ حضرت کے مردود دفاع میں مزید گستاخی و توہین کے مرتکب بنتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے تو خود بریلوی حضرات کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں امام بننے کا حکم ملاحظہ فرمائیں:
بریلویوں کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی نے لکھا:
چنانچہ معروف بریلوی عالم کوکب نورانی اوکاڑوی نے لکھا:
اس باطل تاویل کا سقم تو انتہائی واضح اور روشن ہے،اس لیے اپنے اعلیٰ حضرت کی اس گستاخانہ عبارت پر ایک اور انداز سے بھی بریلوی ماہرین تاویل نے اپنی فنکاری دکھانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ بریلویوں کے ترجمانِ مسلک اعلیٰ حضرت حسن علی رضوی بریلوی اپنے اعلیٰ حضرت کے اس توہین آمیز ملفوظ کی من گھڑت وضاحت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
بہرحال ان بریلوی تاویلات سے یہ تو بالکل واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی امام بنے رہنے پر اصرار کرنا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا دعویٰ کرنا خود ان کے نزدیک بھی توہین و گستاخی ہے۔
اس تمام تفصیل کے بعد عرض ہے کہ اس گستاخی و توہین سے بریلوی علماء جھوٹ و من گھڑت تاویلات کے سہارے جان نہیں چھڑا سکتے۔بریلویوں کی تسلیم شدہ اس گستاخی و توہین کا اقرار کرتے ہوئے غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے اپنے اعلیٰ حضرت کے متعلق لکھا:
دوسرا یہ کہ جو بریلوی یہ من گھڑت تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اعلیٰ حضرت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور خان صاحب بریلوی نے باقی لوگوں کو نماز پڑھائی، شاید یہ نہیں جانتے کہ اس صورت میں تو بریلویوں کے نزدیک نماز ہوتی ہی نہیں۔چنانچہ غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی لکھتے ہیں:
چنانچہ احمد رضا خان بریلوی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امام اسی لیے بنے کہ ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں ہوتی تھی اور آج رضا خانی امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ماننے کے باوجود امام بنتی ہے تواس کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں ہوتی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
[/JUSTIFY]
نبی ﷺ کا امام، احمد رضا بریلوی (نعوذ باللہ)
احمد رضا خان بریلوی نے اس کے بعد کہا:’’ان کے انتقال کے دن مولوی سید امیر احمد صاحب مرحوم خواب میں زیارت اقدس حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے کہ گھوڑے پر تشریف لئے جاتے ہیں۔ عرض کی: یا رسول اللہ! حضور کہاں تشریف لے جاتے ہیں۔فرمایا برکات احمد کے جنازے کی نماز پڑھنے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ احمد رضا بریلوی کے نزدیک انہوں نے وہ جنازہ بھی پڑھا رکھا ہے جس کو پڑھنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ جس نبی(ﷺ) کی موجودگی میں بلا اجازت کوئی دوسرا نبی امام نہیں بن سکتا اس نبی مکرم (ﷺ) کے امام بننے کا بھی شرف احمد رضا بریلوی کو حاصل ہوا (نعوذ باللہ و من ذالک)۔’’الحمد للہ! یہ جنازہ مبارکہ میں نے پڑھایا۔‘‘ [ملفوظات،حصہ دوم:ص۱۴۲]
ملفوظات کی اس عبارت میں موجود گستاخی و توہین کا کوئی صاحب ایمان انکار نہیں کر سکتا۔ مگر اس کے باوجود بریلوی اس گستاخانہ عبارت کی مختلف باطل تاویلات میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے اعلیٰ حضرت کے مردود دفاع میں مزید گستاخی و توہین کے مرتکب بنتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے تو خود بریلوی حضرات کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں امام بننے کا حکم ملاحظہ فرمائیں:
بریلویوں کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی نے لکھا:
گویا جو اختیار کسی کو نہیں وہ بریلویوں کے نزدیک ان کے اعلیٰ حضرت کو حاصل تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی امام بن بیٹھے۔ کچھ بریلوی یہاں چالاکی سے بعض صحابہ کرام ؓ سے ایسی امامت کا ثبوت دینے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔مگر ان کے اس دھوکے کو خود ان کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی ان الفاظ میں مردود قرار دیتے ہیں:’’اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی علیہا لصلوٰۃ والسلام کی موجودگی میں کسی کو بھی امام ہونے کا اختیار نہیں۔‘‘ [شان حبیب الرحمٰن:ص۲۱۹]
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صرف وہ امام بن سکتا ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اجازت دے دیں۔ لہٰذا احمد رضا خان بریلوی کا خود کو بلا اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امام بنا لینا سوائے گستاخی کے کچھ نہیں۔کچھ بریلوی علماء نے اپنے اعلیٰ حضرت کی اس گستاخی و توہین کو محسوس کرتے ہوئے اس واضح حقیقت پرجھوٹ اورمتضاد و باطل تاویلات کے پردے ڈالنے کی کوشش کی ہے۔’’ہاں اگرحضور علیہ السلام ہی اجازت دے دیں کہ تم امام بنے رہو تو اب حضور علیہ السلام کی اجازت سے امام بنے رہنا جائز ہوا، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن ا بن عوف پر گزرا۔‘‘ [شان حبیب الرحمٰن:ص۲۱۹]
چنانچہ معروف بریلوی عالم کوکب نورانی اوکاڑوی نے لکھا:
اوکاڑوی بریلوی صاحب نے تو اپنی باطل تاویل سے قصہ ہی ختم کر دیا کہ یہ جنازہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ہی نہیں بلکہ صرف ملاحظہ فرمایا۔ کوئی ان بریلوی ماہرین تاویل کو سمجھاتا کیوں نہیں کہ بریلوی اعلیٰ حضرت کے ملفوظ میں صاف تصریح موجود ہے کہ’’(نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا برکات احمد کے جنازے کی نماز پڑھنے۔‘‘ اس رضا خانی وضاحت کے باوجودصریح جھوٹ بول کر احمد رضا بریلوی کا دفاع کیوں کیا جا رہا ہے؟’’یہ مفہوم کیسے اخذ کر لیا گیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز جنازہ بھی ادا فرمائی؟ یا یہ کہ اعلیٰ حضرت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کی؟ (معاذ اللہ)۔ بلا شبہ یہ اعلیٰ حضرت پر بہتان ہے۔ خواب اور اعلیٰ حضرت بریلوی کے بیان کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی وفات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شفقت و رحمت کے سبب اپنے اس غلام کو نوازنے تشریف لائے اور اس عاشق صادق کے جنازہ کو ملاحظہ فرمایا۔‘‘ [سفید و سیاہ:ص۱۷۹]
اس باطل تاویل کا سقم تو انتہائی واضح اور روشن ہے،اس لیے اپنے اعلیٰ حضرت کی اس گستاخانہ عبارت پر ایک اور انداز سے بھی بریلوی ماہرین تاویل نے اپنی فنکاری دکھانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ بریلویوں کے ترجمانِ مسلک اعلیٰ حضرت حسن علی رضوی بریلوی اپنے اعلیٰ حضرت کے اس توہین آمیز ملفوظ کی من گھڑت وضاحت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
گویا ان کے نزدیک گستاخی والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کے اعلیٰ حضرت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور احمد رضا خان بریلوی نے باقی لوگوں کو نماز پڑھائی۔ حالانکہ اس من گھڑت بات کا دور دور تک کوئی نام و نشان اس ملفوظ میں نہیں۔’’عبارت کا صحیح مفہوم واضح ہوا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز پڑھائی اور میں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔۔۔۔‘‘ [برقِ آسمانی بر فتنہ شیطانی:ص۶۴]
بہرحال ان بریلوی تاویلات سے یہ تو بالکل واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی امام بنے رہنے پر اصرار کرنا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا دعویٰ کرنا خود ان کے نزدیک بھی توہین و گستاخی ہے۔
اس تمام تفصیل کے بعد عرض ہے کہ اس گستاخی و توہین سے بریلوی علماء جھوٹ و من گھڑت تاویلات کے سہارے جان نہیں چھڑا سکتے۔بریلویوں کی تسلیم شدہ اس گستاخی و توہین کا اقرار کرتے ہوئے غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے اپنے اعلیٰ حضرت کے متعلق لکھا:
معلوم ہوا کہ اس جنازے کی نماز بطور امام، احمد رضا خان بریلوی نے ہی پڑھائی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بریلوی اعلیٰ حضرت کے پیچھے یہ نماز پڑھی تھی (نعوذ باللہ) اور اس بات کا گستاخی و توہین ہونا خود بریلوی علماء و اکابرین کی اوپر پیش کی گئی تاویلات سے ثابت ہے۔’’ان کو پہلے تو پتا نہیں تھا کہ حضور علیہ السلام جنازہ میں شامل ہیں بعد میں جب پتا چلا تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ سرکار ﷺ نے میرے پیچھے نماز پڑھی۔۔۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ،حصہ اول:ص۳۲۴]
دوسرا یہ کہ جو بریلوی یہ من گھڑت تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اعلیٰ حضرت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور خان صاحب بریلوی نے باقی لوگوں کو نماز پڑھائی، شاید یہ نہیں جانتے کہ اس صورت میں تو بریلویوں کے نزدیک نماز ہوتی ہی نہیں۔چنانچہ غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی لکھتے ہیں:
اس صاف وضاحت کے باوجود لوگوں کا بریلویوں پر اعتراض کرنا کس قدر غلط ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موجود اور حاضر و ناظر ماننے کے باوجود خود امام کیوں بنتے ہیں؟ بھئی وہ تو صاف صاف اعلان کر رہے ہیں کہ اگر چہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر اور موجود مانتے ہیں مگرچونکہ حنفی مذہب میں فرض پڑھنے والا، نفل پڑھنے والے کی اقتداء نہیں کر سکتااور نہ ایسے کی نماز ہوتی ہے۔ لہٰذامسئلہ مذکورہ کے پیشِ نظر ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتی ہی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اب نفلی ہے۔’’دوسری عرض یہ ہے کہ حضور علیہ السلام پر نماز اب فرض نہیں ہے۔آپ علیہ السلام کی نماز نفلی ہوتی ہے اور حنفی مذہب میں مفترض (فرض پڑھنے والا) متنفل(نفل پڑھنے والے)کی اقتدا نہیں کر سکتا۔لہٰذا حنفی مذہب رکھنے والوں کو یہ اعتراض زیب نہیں دیتا کہ نبی الانبیاء علیہم السلام کی موجودگی اور حاضر و ناظر ہونے کے باوجود تم خود امام کیوں بن جاتے ہو۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ،حصہ اول:ص۳۲۴۔۳۲۵]
چنانچہ احمد رضا خان بریلوی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امام اسی لیے بنے کہ ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں ہوتی تھی اور آج رضا خانی امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ماننے کے باوجود امام بنتی ہے تواس کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں ہوتی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
[/JUSTIFY]