نبی ﷺ کے ساتھ خاص خطاب کے عموم کے حکم کا بیان:
نبی کریمﷺ کے ساتھ خاص خطاب میں جو حکم ہوتا ہے وہ امت کو بھی شامل ہوتا ہے۔ ہاں اگر کوئی دلیل مل جائے تو پھر وہ نبی کریمﷺ کےساتھ ہی خاص ہوگا۔
زیر بحث قاعدے کے دلائل میں سے ایک دلیل اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ فرمان ذیشان ہے: ” ﴿ فَلَمَّا قَضَى زَيدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَي لا يكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيائِهِمْ إذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ﴾ [الأحزاب:37] “ تو جب زید (رضی اللہ عنہ ) اس (زینب رضی اللہ عنہا) سےاپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے آپﷺ سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مؤمنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کےبارے میں کوئی حرج نہ ہو، جب ان کے منہ بولے بیٹے اپنی ضرورت کو پورا کرلیں۔
اور اللہ تعالیٰ کا اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورتوں کے متعلق فرمان: ” ﴿ خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [الأحزاب:50] “ یہ حکم صرف آپ ﷺ کےلیے ہے ، مؤمنوں کے لیے نہیں ہے۔
تو اگر نبیﷺ کے ساتھ خطاب کا حکم صرف آپﷺ کے ساتھ ہی خاص ہوتا تو پہلی آیت میں حکم کی وجہ بیان کرنا درست نہیں تھااور دوسری آیت میں تخصیص بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
لنک