(٩) فصل
جن کلمات کے درمیان قاعدے کے مطابق کسی دوسرے لفظ کا فاصلہ ڈالنا صحیح نہیں ہوتا قرآنی فاصلہ کی خاطر وہ جائز ہوتا ہے ۔ جیسا کہ درج ذیل موارد میں ہے۔
(١) معطوف علیہ اور معطوف کے درمیان فاصلہ ڈالنا مثلاً آیت کریمہ
’’ وَلَوْ لاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَکَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُّسَمًّی٭۲ ‘‘ (طہ: ۱۲۹)
میں ظاہرا
’أجل مسمی‘ کا (کلمہ ) پر عطف ہے۔ (المرجع السابق: ۶؍۳۵۷)
اس کے باوجود ان کے درمیان ’سبقت‘ کو ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ
’مسمی‘، ’نہی‘، ’ترضی‘ اور
’أبقی‘ کی طرح فاصلہ قرآنی ہے۔
(٢) قاعدے کے مطابق ذوالحال اور حال کے درمیان کسی لفظ کا فاصلہ نہیں ڈالا جاتا لیکن فاصلہ قرآنی اسے جائز قرار دیتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ
’’ وَالَّذِیْ أَخْرَجَ الْمَرْعٰی٭۴ فَجَعَلَہُ غُثآئً أَحْوٰی٭۲ ‘‘ (الاعلی: ۵)
اس میں
’أحوی‘، ’مرعی‘ کے لئے حال ہے اور ان دونوں کے درمیان
’فجعلہ غثآء‘ کا فاصلہ ڈال کر
’أحوی‘ کو آخر میں لایا گیا ہے، کیونکہ وہ قرآنی فاصلہ ہے۔ (المرجع السابق: ۸؍۶۴۵)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم سے نحوی عدول کے مذکورہ چار اسباب یہ ثابت کرنے کے لئے تو کافی ہیں کہ نحو کے کے بعض قواعد میں قر آن کریم سے عدول و انحراف پایا جاتا ہے لہٰذا فنی طور پر چونکہ قرآن کریم نحو کا بنیادی مصدر اور زبان کی صحت وسقم پر کھنے کا معیار ہے اس لیے ضروری ہے کہ جو قواعد قرآنی اسلوب کے خلاف ہیں انہیں اس طریقہ سے Modify کیا جائے کہ وہ اصل سے ہم آہنگ ہو جائیں او رجس مقصد کے لئے نحو کی تدوین کی گئی ہے وہ حاصل ہو سکے۔ اور یہ علمی اعتبار سے ہرگز صحیح نہیں ہے کہ ہم اس کے برعکس ، معاذ اللہ یہ کہیں کہ قرآن کریم میں نحوی غلطیاں (Grammatical errors) پائی جاتی ہیں۔
٭_____٭_____٭