• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نرمی اختیار کرنا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نرمی اختیار کرنا


دَخَلَ رَہْطٌ مِنَ الْیَہُودِ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا: أَلسَّامُ عَلَیْکُمْ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَفَہِمْتُہَا فَقُلْتُ: وَعَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ۔ قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَہْلًا یَا عَائِشَۃُ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْأَمْرِ کُلِّہِ۔ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: قَدْ قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ (أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: الرفق في الأمر کلہ، رقم: ۶۰۲۴۔)
''یہود کا ایک چھوٹا سا گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہوں نے کہا: آپ پر موت ہو (نعوذ باللہ من ذالک) اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ''میں سمجھ گئی۔ چنانچہ میں نے کہا: تم پر موت واقع ہو اور لعنت بھی۔ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''ٹھہرو تو اے عائشہ! یقینا اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا: ''اے اللہ کے رسول آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''بے شک میں نے کہا تھا ''اور تم پر بھی ہو (موت)۔''
دوسری حدیث میں ارشاد ہے:
وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم: یَا عَائِشَۃُ إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُّحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِي عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِيْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لَا یُعْطِيْ عَلَی مَا سِوَاہُ (أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: ۶۶۰۱۔)
''بے شک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر جو دیتا ہے وہ سختی اور دیگر اشیاء پر نہیں دیتا۔''
شرح...: ان احادیث میں نرمی کی فضیلت اور اسے عادت بنانے پر ابھارا گیا ہے، نیز سختی کی مذمت بھی کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ہر بھلائی کا سبب نرمی ہے۔ فرمایا:
مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحْرَمُ الْخَیْرَ (أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: ۶۵۹۹۔)
''اور جو نرمی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔''
إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ: یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر شفقت اور آسانی کرنے والا ہے سختی اور تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا چنانچہ رب کریم نے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا۔
وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ: یعنی جتنا ثواب نرمی کی وجہ سے ملتا ہے کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں ملتا نیز اس کی وجہ سے دنیا میں اللہ تعالیٰ عمدہ ثناء اور تعریف کا حقدار بناتا ہے اور مقاصد تک پہنچنا آسان بنا دیتا ہے اور آخرت میں اتنا زیادہ ثواب مہیا کرے گا جو کہ سختی اور دیگر اشیاء کی وجہ سے نہیں دے گا۔
نرمی، قابل تعریف صفت ہے اس کی ضد سختی اور گرمی ہے۔ نرمی، حسن اخلاق کا نتیجہ ہے چنانچہ تمام امور میں نرمی کو نتیجہ خیز صرف اور صرف عمدہ اخلاق ہی بناتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام امور کو ان کی جگہوں پر رکھنا نرمی کہلاتا ہے یعنی سختی کے مقام پر سختی، نرمی کی جگہ پر نرمی، تلوار کی جگہ پر تلوار اور کوڑے کے مقام پر کوڑا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ نرمی کے ساتھ سختی اور گرمی کا عنصر بھی ہونا چاہیے۔
چنانچہ تعریف کے قابل، نرمی اور سختی میں میانہ روی ہے تمام اخلاق میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن طبیعتیں سختی اور گرمی کی طرف زیادہ راغب ہیں چنانچہ انہیں نرمی کی طرف ترغیب دلانے کی زیادہ ضرورت ہے، اسی لیے شریعت اسلامیہ نے نرمی کی زیادہ ثناء اور تعریف کی ہے، گو سختی اپنے مقام پر اور نرمی اپنی جگہ پر اچھی ہے۔ چنانچہ سختی ناگزیر ہو تو انسان کی خواہش حق کے موافق ہو جاتی ہے اور یہ سختی بلحاظِ نتائج شہد ملے مکھن سے بھی زیادہ لذیذ ہو جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کہا گیا ہے کہ جب لوگ کوئی سخت کلام کرتے ہیں تو اس کی ایک جانب ضرور اس سے زیادہ نرم بات بھی ہوتی ہے جو کہ اس کے قائم مقام کھڑی ہوتی ہے۔ عمومی حالات اور اکثر امور میں نرمی قابل ستائش ہے اگرچہ سختی کی ضرورت پڑتی ہے مگر یہ کبھی کبھی ہے۔
کامل وہی ہے جو نرمی اور سختی کے مواقع کو پہچان لے اور ہر جگہ ویسا ہی معاملہ کرے اور اگر کم بصیرت والا ہے یا مواقع کی پہچان اس کے لیے مشکل ہے تو اسے نرمی کی طرف ہی مائل رہنا چاہیے کیونکہ اکثر طور پر اسی میں کامیابی ہوتی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إِنَّ الرِّفْقَ لَا یَکُوْنُ فِيْ شَيْئٍ إِلاَّ زَانَہُ وَلَا یُنْزَعُ مِنْ شَيْئٍ إِلاَّ شَانَہُ (أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: ۶۶۰۲۔)
''نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت کر دیتی ہے اور جس چیز سے نکال لی جائے اسے عیب دار کر دیتی ہے۔''

[احیاء علوم الدین للغزالی ص ۱۸۴، ۱۸۶،۳/ نووی شرح مسلم ص ۱۴۵، ۱۶ عون المعبود ص ۱۱۴،۱۳۔]

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
نرمی اور آسانی اسلامی سمات اور خصوصیات میں داخل ہیں ارشاد باری ہے (یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر) اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے مشکل نہیں چاہتا ہے :سورۃ البقرہ:185۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ،،یسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا (صحیح البخاری ،کتاب الاداب ،باب یسروا ولاتعسروا)تم دونوں آسانی کرنا مشکل نہ کرنا بشارت دینا نفرت نہ پیدا کرنا ،یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت معاذبن جبل اور ابو موسی اشعریکو تھی
 
Top