• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نسخہ

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
جاوید چوہدری!
میں کہانی کو مختصر کرتا ہوں' بابا جی مدراس کے رہنے والے تھے' بچپن میں جوگیوں کے ہتھے چڑھے اور پھر پوری زندگی جوگ میں گزار دی' پچیس تیس سال قبل لاہور آئے اور راوی کے کناروں کو مسکن بنا لیا' وہ سارا دن جنگل میں غائب رہتے اور شام کے وقت کامران کی بارہ دری آ جاتے اور صبح دس بجے تک وہاں رہتے' دھرم پورے والے بابا جی کا کہنا تھا' یہ بابا جی تانبے کو سونا بنانا جانتے ہیں' انھوں نے خود ایک بار تانبے کی ڈلی سونا بنا کر انھیں گفٹ کر دی' میں ان دنوں کیمیا گری کے بارے میں کتابیں پڑھ رہا تھا' سائنس کہتی تھی کوئی دھات اپنا جون تبدیل نہیں کرتی مگر کیمیا گری کہتی تھی ہم جس طرح ہوا کو مائع اور مائع کو ٹھوس بناسکتے ہیں بالکل اسی طرح لوہے کو تانبا اور تانبے کو سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور میں ان دنوں اس بات کو سچ سمجھتا تھا اور سچائی کی یہ تلاش مجھے اس باباجی تک لے گئی'
بابا دنیا جہاں کی نعمتوں اور ضرورتوں سے مبریٰ تھا' وہ کپڑے روڑی سے نکال کر پہن لیتا تھا' جوتے وہ پہنتا نہیں تھا' وہ کھاتا کیا تھا' ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے' ہم بس اسے کڑوی چائے کا ایک کپ پیتے دیکھتے تھے اور وہ اس کے بعد اپنی پتیلی لے کر جنگل میں غائب ہو جاتا تھا۔
میں کہانی کو مزید مختصر کرتا ہوں' یہ سردی کی سرد رات تھی' میں اس رات بابے کے پاس اکیلا تھا' کامران کی بارہ دری میں بارش ہو رہی تھی' بابا جی بارش میں آسن لگا کر بیٹھے تھے اور میں چھتری تان کر ان کے سر پر کھڑا تھا' بابا جی نے اچانک ایک لمبی ہچکی لی' ان کا سانس اکھڑا اور انھوں نے غصے سے میری طرف دیکھا' میں نے زندگی میں کبھی اتنی خوفناک اور گرم آنکھیں نہیں دیکھیں' میرے پورے جسم میں حرارت دوڑ گئی اور میں سردیوں کی بارش میں پسینے میں شرابور ہو گیا'
بابا تھوڑی دیر تک میری طرف دیکھتا رہا' اس نے پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر سے چھتری ہٹائی' گیلی زمین سے اٹھا اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا' میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا' چھتری بند کی اور ٹیک لگا کر دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا' بابے نے لمبا سانس لیا اور بولا '' کاکا تم چاہتے کیا ہو'' میں نے عرض کیا '' کیاآپ کو واقعی سونا بنانا آتا ہے'' بابے نے خالی خالی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلا کر بولا '' ہاں میں نے جوانی میں سیکھا تھا'' میں نے عرض کیا ''کیا آپ مجھے یہ نسخہ سکھا سکتے ہیں'' بابے نے غور سے میری طرف دیکھا اور پوچھا۔
''تم سیکھ کر کیا کرو گے'' میں نے عرض کیا '' میں دولت مند ہو جائوں گا'' بابے نے قہقہہ لگایا' وہ ہنستا رہا' دیر تک ہنستا رہا یہاں تک کہ اس کا دم ٹوٹ گیا اور اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑ گیا۔
وہ کھانستے کھانستے دہرا ہوا اور تقریباً بے حالی کے عالم میں دیر تک اپنے ہی پائوں پر گرا رہا' وہ پھر کھانستے کھانستے سیدھا ہوا اور پوچھا '' تم دولت مند ہو کر کیا کرو گے۔
'' میں نے جواب دیا '' میں دنیا بھر کی نعمتیں خریدوں گا'' اس نے پوچھا ''نعمتیں خرید کر کیا کرو گے'' میں نے جواب دیا ''میں خوش ہوں گا' مجھے سکون ملے گا'' اس نے تڑپ کر میری طرف دیکھا اور کہا ''گویاتمہیں سونا اور دولت نہیں سکون اور خوشی چاہیے
'' میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا' اس نے مجھے جھنجوڑا اور پوچھا '' کیا تم دراصل سکون اور خوشی کی تلاش میں ہو؟'' میں اس وقت نوجوان تھا اور میں دنیا کے ہر نوجوان کی طرح دولت کو خوشی اور سکون سے زیادہ اہمیت دیتا تھا مگر بابے نے مجھے کنفیوز کر دیا تھا اور میں نے اسی کنفیوژن میں ہاں میں سر ہلا دیا' بابے نے ایک اور لمبا قہقہہ لگایا اور اس قہقہے کا اختتام بھی کھانسی پر ہوا' وہ دم سنبھالتے ہوئے بولا۔
'' کاکا میں تمہیں سونے کی بجائے انسان کو بندہ بنانے کا طریقہ کیوں نہ سکھادوں'میں تمہیں دولت مند کی بجائے پرسکون اور خوش رہنے کا گر کیوں نہ سکھادوں'' میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا' وہ بولا '' انسان کی خواہشیں جب تک اس کے وجود اور اس کی عمر سے لمبی رہتی ہیں۔یہ اس وقت تک انسان رہتا ہے' تم اپنی خواہشوں کو اپنی عمر اور اپنے وجودسے چھوٹا کر لو' تم خوشی بھی پائو جائو گے اور سکون بھی۔
اور جب خوشی اور سکون پا جائو گے تو تم انسان سے بندے بن جائوگے'' مجھے بابے کی بات سمجھ نہ آئی' بابے نے میرے چہرے پر لکھی تشکیک پڑھ لی' وہ بولا
'' تم قرآن مجید میں پڑھو' اللہ تعالیٰ خواہشوں میں لتھڑے لوگوں کو انسان کہتا ہے اور اپنی محبت میں رنگے خواہشوں سے آزاد لوگوں کو بندہ'' بابے نے اس کے بعد کامران کی بارہ دری کی طرف اشارہ کیا اور بولا '' اس کو بنانے والا بھی انسان تھا' وہ اپنی عمر سے لمبی اور مضبوط عمارت بنانے کے خبط میں مبتلا تھا' وہ پوری زندگی دولت بھی جمع کرتا رہا مگر اس دولت اور عمارت نے اسے سکون اور خوشی نہ دی' خوش میں ہوں' اس دولت مند کی گری پڑی بارہ دری میں برستی بارش میں بے امان بیٹھ کر'' میں نے بے صبری سے کہا '' اور میں بھی'' اس نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا '' نہیں تم نہیں! تم جب تک تانبے کوسونا بنانے کا خبط پالتے رہو گے تم اس وقت تک خوشی سے دور بھٹکتے رہو گے۔
تم اس وقت تک سکون سے دور رہو گے'' بابے نے اس کے بعد زمین سے چھوٹی سی ٹہنی توڑی اور فرش پر رگڑ کر بولا '' لو میں تمہیں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتاتا ہوں' اپنی خواہشوں کو کبھی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو' جو مل گیا اس پر شکر کرو' جو چھن گیا اس پر افسوس نہ کرو' جو مانگ لے اس کو دے دو' جو بھول جائے اسے بھول جائو'
دنیا میں بے سامان آئے تھے' بے سامان واپس جائو گے'سامان جمع نہ کرو' ہجوم سے پرہیز کرو' تنہائی کو ساتھی بنائو' مفتی ہو تب بھی فتویٰ جاری نہ کرو' جسے خدا ڈھیل دے رہا ہو اس کاکبھی احتساب نہ کرو' بلا ضرورت سچ فساد ہوتا ہے' کوئی پوچھے تو سچ بولو' نہ پوچھے تو چپ رہو' لوگ لذت ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں کا انجام بُرا ہوتا ہے' زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے تو سیر پر نکل جائو' تمہیں راستے میں سکون بھی ملے گا اور خوشی بھی' دینے میں خوشی ہے' وصول کرنے میں غم' دولت کو روکو گے تو خود بھی رک جائو گے' چوروں میں رہو گے تو چور ہو جائو گے۔سادھوئوں میں بیٹھو گے تو اندر کا سادھو جاگ جائے گا'
اللہ راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا' وہ ناراض ہو گا تو نعمتوں سے خوشبو اڑ جائے گی' تم جب عزیزوں' رشتے داروں' اولاد اور دوستوں سے چڑنے لگو تو جان لو اللہ تم سے ناراض ہے اور تم جب اپنے دل میں دشمنوں کے لیے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجھ لو تمہارا خالق تم سے راضی ہے اور ہجرت کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا''
بابے نے ایک لمبی سانس لی' اس نے میری چھتری کھولی' میرے سر پر رکھی اور فرمایا'' جائو تم پر رحمتوں کی یہ چھتری آخری سانس تک رہے گی' بس ایک چیز کا دھیان رکھنا کسی کو خود نہ چھوڑنا' دوسرے کو فیصلے کا موقع دینا' یہ اللہ کی سنت ہے' اللہ کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑتا' مخلوق اللہ کو چھوڑتی ہے اور دھیان رکھنا جو جا رہا ہو اسے جانے دینا مگرجو واپس آ رہا ہو' اس پر کبھی اپنا دروازہ بند نہ کرنا' یہ بھی اللہ کی عادت ہے' اللہ واپس آنے والوں کے لیے ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھتا ہے' تم یہ کرتے رہنا' تمہارے دروازے پر میلا لگا رہے گا'' میں واپس آ گیا اور پھر کبھی کامران کی بارہ دری نہ گیا کیونکہ مجھے انسان سے بندہ بننے کا نسخہ مل گیا تھا۔
 
Top