• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نسخ رفع یدین اور علماے احناف

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نسخ رفع یدین اور علماے احناف


حافظ احمد رشید لاہوری​

اقرارِ توحید ورسالت کے بعد نماز اسلام کا بنیادی ترین رکن ہے‘ جس کی اہمیت کسی مسلمان سے مخفی نہیں ہے۔ جناب رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ
’صلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ أُصَلِّی‘ (بخاری: 917)
یعنی ’’نماز ادا کرنے کے لیے انھی حالتوں اور کیفیتوں کو اپناؤ جن میں مجھے بہ وقت نماز دیکھتے ہو۔‘‘
اس حدیث کے پیش نظر اہل حدیث کا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ ادائیگی نماز کے لیے حضور نبی کریمﷺ کے ان تمام افعال و حرکات کا التزام کرنا چاہیے، جو آں حضرتﷺ کے طریقۂ نماز کے سلسلہ میں بہ سندصحیح کتب احادیث میں مروی ہیں۔ رکوع میں جاتے ہوئے‘ اس سے سر اٹھاتے ہوئے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے رفع یدین کرنا بھی چوں کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے اسوہ وعمل سے بہ طریق تواتر ثابت ہے‘ فلہٰذا اپنی نمازوں کو اس سنت مبارکہ سے مزین کرنا، نہ صرف یہ کہ مذکورہ بالا فرمانِ نبوی کا لازمی تقاضا ہے، بلکہ سرور کائناتﷺ کی سیرت وسنت سے محبت کا عملی ثبوت بھی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رفع یدین اور احناف کا اضطراب​
اس ضمن میں ائمہ ثلاثہ (مالک‘ شافعی‘ احمد رحمہم اللہ) بھی اہل حدیث ہی کے نقطۂ نظر کے حامی مؤید ہیں۔ حنفیہ البتہ اس مبارک عمل کو اپنانے کے بارے میں مختلف الخیال ہیں۔ رفع یدین کے باب میں احناف کے ہاں کتنے اور کون سے موقف پائے جاتے ہیں‘ ان کی تفصیل ایک حنفی عالم ہی کے قلم سے پیش خدمت ہے۔ مولانا حبیب اللہ صاحب ڈیروی (سابق استاذ الحدیث، مدرسہ نصرۃ العلوم، گوجراں والہ) ’مذہب احناف کی وضاحت وتفصیل‘ کے زیر عنوان رقم طراز ہیں:
’’ہمارے حضرات فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رفع یدین رکوع وغیرہ کے وقت سنت نہیں، بلکہ ترکِ رفع یدین سنت ہے، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ رفع الیدین بعد الافتتاح کا کوئی ثبوت بھی ہے یا نہیں؟ تو بعض بعض حضرات عدم ثبوت کے قائل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر رفع الیدین بعد الافتتاح ثابت ہوتا تو حضرات خلفاے راشدین﷢ اور عشرہ مبشرہ﷢ اور دیگر صحابہ﷢ جو پچاس بتائے گئے ہیں، ہرگز ترک رفع الیدین پر عمل نہ کرتے اور تابعین کی کثیر جماعت بھی ترک رفع یدین پر عمل نہ کرتی، چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے صاحب زادے حضرت عباد اور حضرت امام ابراہیم نخعی التابعی الجلیل رفع یدین بعد الافتتاح سے سختی کے ساتھ منع کرتے تھے اور علامہ امیر کاتب اتقانی نے رفع الیدین کے بطلان پر رسالہ لکھا ہے اور حضرت مولانا حسین علی مرحوم المتوفی 1363ھ تحریرات حدیث: ص39 میں فرماتے ہیں:
اِنَّ الحَنَفِیَّۃَ لَیْسُوْا بِقَائِلِیْنَ بِنَسْخِ الرَّفْعِ بَلْ ھُمْ مُنْکِرُوْنَ ثُبُوْتَ الرَّفْعِ عَنِ النَّبِیِ ﷺ
’’احناف حضرات نسخ رفع الیدین کے قائل نہیں بل کہ ثبوت رفع الیدین عن النبی ﷺ کے منکر ہیں۔‘‘
اور تحریرات حدیث ص41 میں فرماتے ہیں:
فَلَمْ یَصِحَّ فِی رَفْعِ الیَدَیْنِ شَیْئٌ۔ الخ
’’کہ رفع الیدین میں کوئی حدیث بھی صحیح ثابت نہیں ہے۔‘‘
اور بعض حضرات نسخ رفع الیدین کے قائل ہیں، چنانچہ امام طحاوی، ملا علی قاری، حافظ ابن ہمام وغیرہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کا ثبوت تھا مگر بعد کو منسوخ ہوا کیوں کہ جن حضرات صحابہ﷢ سے رفع الیدین کی روایات آتی ہیں انھیں سے پھر ترک رفع الیدین کی روایات بھی مروی ہیں اور عمل بھی ترک رفع الیدین کا ہے… اور بعض حضرات راجح و مرجوح کا قول کرتے ہیں کہ چونکہ رفع الیدین اور ترک دونوں مروی ہیں مگر ترک حالت نماز کے زیادہ مناسب ہے اس لیے ترک رفع الیدین راجح اور افضل ہے…‘‘ (نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح: ص 28,29 ، طبع سوم 1421 ھ/ ستمبر 2000ئ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اس طویل اقتباس سے مسئلہ رفع یدین میں حنفی عالموں کی تین رائیں نظر وبصر کے سامنے آتی ہیں: ایک عدم ثبوتِ رفع اور باعث فسادِ نماز‘ دوسرے نسخ رفع اور تیسرے افضلیت ترک۔ اس تیسرے مسلک کی روسے رفع یدین مکروہ قرار پاتا ہے‘ چنانچہ محدث دارالعلوم دیوبند، مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری لکھتے ہیں:
’’حنفیہ کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مکروہ یعنی خلاف اولیٰ ہے۔ (اس کے بعد انھوں نے بہ طورِ ثبوت علامہ شامی کا حوالہ دیا ہے)۔ (تسہیل ادلہ کاملہ: ص25‘ ناشر قدیمی کتب خانہ‘ مقابل آرام باغ ‘ کراچی نمبر 1)
لیکن قابل تعجب امر یہ ہے کہ اسی رسالہ میں چند صفحات کے بعد مولانا موصوف رفع یدین کو منسوخ بتلاتے ہیں۔ (ایضاً، ص: 32-34) حالانکہ مکروہ اور منسوخ میں واضح فرق ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حنفی علما اس مسئلہ میں کس قدر مضطرب اور مبتلاے حیرت ہیں کہ انھیں اپنے تضاد کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
ناظرین کے لیے یہاں یہ جاننا باعث ِ دل چسپی ہوگا کہ بعض لوگ رفع یدین کو بدعت بھی قرار دیتے رہے ہیں، جن کی تردید کے لیے سید الفقہاء والمحدثین امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے ’جزء رفع الیدین‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے۔ صحیح بخاری کے ’باب رفع الیدین إذاکبر و إذا رکع وإذا رفع‘ کامقصد ترجمہ بیان کرتے ہوئے فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخرالدین احمد صاحب (سابق صدر المدرسین، دارالعلوم دیوبند) لکھتے ہیں:
’’مقصد ِترجمہ بالکل واضح ہے کہ تکبیر تحریمہ منعقد کرتے ہوئے، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اُٹھاتے ہوئے رفع یدین سنت ہے، امام بخاری کا مسلک یہی ہے، اس موضوع پر انھوں نے ایک مستقل رسالہ ’جزء رفع الیدین‘ تصنیف کیا ہے، جس میں انھوں نے رفع یدین کا انکار کرنے والوں یا اس کو بدعت کہنے والوں کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ رفع یدین کو بدعت کہنا صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے اسلاف پر طعن کرنے کے مترادف ہے…‘‘ (رفع یدین، صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں، ص:10، مطبوعہ نئی دہلی، ہند)
افسوس یہ ہے کہ ایسے لوگ موجودہ دور میں بھی ہو گزرے ہیں، جو محض مسلکی تعصب کی بنا پر اس سنت ِ رسول ﷺ کو بدعت باور کراتے رہے ہیں، چنانچہ حضرت مولانا محمد امین صفدر صاحب اوکاڑوی (ت2005ئ) جو دیوبندی حلقوں میں ’مناظر اسلام‘ ترجمان اہل سنت اور وکیل احناف، کے طور پر معروف ہیں، رقم طراز ہیں:
’’تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواضع میں رفع یدین کرنا تعارض روایات کی وجہ سے سنیت اور نسخ سنیت میں دائر ہے اور جب کوئی چیز سنیت اور بدعت میں دائر ہو، یعنی اس کے سنت یا بدعت ہونے میں شبہ ہو تو اس کے بدعت ہونے کے پہلو کو راجح قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ محرم کو مبیح پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مقامات میں اس کے بدعت ہونے کے پہلو کو ترجیح دی جائیگی۔ ‘‘ (تحقیق مسئلہ رفع یدین مشمولہ تجلیات صفدر:372/2، ناشر: مکتبہ امدادیہ، ملتان)
ہمارے خیال میں اس پر کسی تبصرے کی حاجت نہیں، بل کہ امام بخاری﷫ کے مندرجہ بالا ریمارکس ہی کافی ہیں۔ خیر، یہاں تک تو بات فساد وبطلان، مکروہ ومنسوخ اور بدعت ہی تک محدود تھی‘ ایک زمانے میں بعض حنفی دوستوں نے تو رفع یدین کی سنت نبویہ کو اپنانے کی پاداش میں اہل حدیث کی تکفیر بھی کر ڈالی تھی۔ یہ محض الزام نہیں ہے‘ بل کہ خود حنفی علما نے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب میرٹھی اپنی کتاب ’تذکرۃ الخلیل‘ میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کے رسالہ ’تنویر العینین‘ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ترقیم فرماتے ہیں:
’’اصل بات یہ تھی کہ بعض حنفیوں نے اہل حدیث یعنی غیر مقلدین زمانہ کو رفع یدین پر کافر کہنا شروع کر دیا تھا اور یہ سخت ترین غلطی تھی‘ بڑی گمراہی تھی کہ جب حدیثوں میں حضورﷺ کا یہ فعل موجود ہے، گو ہماری تحقیق میں منسوخ ہے‘ اس پر عمل کرنے والوں کو کافر کہنا کیسے حلال ہو سکتا ہے۔ امام شافعی، امام احمد، امام مالک اور ان کے تمام پیرووں کو کافر کہنا معمولی بات نہ تھی۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ص 132-133‘ حاشیہ‘ ناشر مکتبہ الشیخ‘ بہادر آباد‘ کراچی 5)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دعواے نسخ کی شہرت​
مندرجہ بالا تفصیل سے عیاں ہے کہ رفع یدین سے متعلق علماے احناف میں اچھا خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عموماً اسے منسوخ ہی قرار دیا جاتا ہے‘ گویا مفتیٰ بہ قول یہی ہے اور عوام میں بھی اس کی شہرت ہے۔ نماز کے موضوع پر حنفی علما کی کتابوں میں زیادہ تر یہی لکھا جاتا ہے اور اہل حدیث سے مناظروں کے دوران حنفی مناظر بھی منسوخیت رفع یدین ہی پر دلائل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔


اس کے جواب میں اہل حدیث کا کہنا یہ ہے کہ رفع یدین کے نسخ پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے‘ بنا بریں یہ حضور انورﷺ کی محکم سنت ہے۔ پس محبانِ مصطفی ﷺ کو چاہیے کہ ذوق وشوق اور اخلاص و محبت سے اس بابرکت سنت کو عمل میں لائیں۔ اہل حدیث کا مسلک اس قدر جچا تلا، متوازن اور ایسے ٹھوس دلائل و براہین پر اساس پذیر ہے کہ علماے احناف کی ایک بڑی تعداد نے بھی دعواے نسخ کی تردید کرتے ہوئے عملاً اس کی تائید فرمائی ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم اہل حدیث علما کے بجاے انہی حنفی اصحاب علم و نظر کی آرا قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں‘ تاکہ معلوم ہو سکے کہ رفع یدین کی منسوخیت کا ادعا قطعی بے وزن اور یک سر بے دلیل ہے۔ امید ہے برادرانِ احناف اس بحث کو بہ نظر انصاف ملاحظہ فرمائیں گے اور اپنے موقف پر نظر ثانی کی زحمت گوارا کریں گے۔ وباللہ التوفیق


قبل ازیں کہ ہم موقر علما کی رائیں پیش کریں‘ مناسب ہو گا کہ قائلین نسخ کے چند مزید حوالوں پر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔
برصغیر پاک وہند کے عام حنفی احباب رفع یدین پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ابتداء ً یہ عمل فرمایا تھا، لیکن بعد ازاں اسے ترک فرما دیا‘ چنانچہ یہ منسوخ ہے۔ مفتی جمیل احمد صاحب نذیری تحریر کرتے ہیں:
’’رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے اور تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرنا اختلافی ہے۔ یہ رفع الیدین یعنی بہ وقت رکوع اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتے وقت والارفع الیدین منسوخ ہے۔‘‘ (ماحصل از رسول اکرم ﷺ کا طریقہ نماز: ص 180)
شیخ الحدیث حضرت مولانا فیض احمد صاحب ملتانی اپنی تالیف ’نماز مدلل‘ میں رفع یدین سے متعلق گفت گو کرتے ہوئے ’حاصل کلام‘ کی سرخی کے تحت فرماتے ہیں:
’’جس طرح ان مختلف مقامات کی رفع یدین صحیح احادیث سے ثابت ہونے کے باوجود ائمہ اربعہ کے ہاں دوسری صحیح احادیث کے قرینہ سے ابتدائی دور پر محمول ہے اور متروک و منسوخ ہے‘ اسی طرح رکوع والی رفع یدین بھی صحیح احادیث سے ثابت ہونے کے باوجود حنفیہؒ مالکیہ محققین علما اور محدثین و فقہا کے ہاں مذکورہ بالا صحیح احادیث و آثار کی وجہ سے متروک ہے۔‘‘ (نماز مدلل: ص 138‘ مکتبہ حقانیہ‘ ٹی بی ہسپتال روڈ‘ ملتان)
مولانا احمد علی شیخ (فاضل جامعۃ العلوم الاسلامیۃ‘ علامہ بنوری ٹائون، کراچی) لکھتے ہیں:
’’… خلاصہ یہ ہے کہ رفع یدین کا حکم شروع میں تھا‘ بعد میں منسوخ ہو گیا۔‘‘ (غیر مقلدین کے اعتراضات اور ان کے جوابات: ص 51)
علاوہ ازیں بریلوی مکتب فکر کے معروف عالم مفتی احمد یار خاں صاحب نعیمی نے بھی اپنی مشہور کتاب ’جاء الحق‘ میں بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دعواے نسخ کی تردید بہ زبانِ علماے حنفیہ​
ناظرین! حضراتِ احناف کی جانب سے رفع یدین کے منسوخ ہونے کے بلند بانگ دعاوی آپ نے سن لیے،آئیے اب ان کی حقیقت بھی فقہ حنفی سے وابستہ اربابِ علم و فکر کی نگارشات ہی سے معلوم کرتے ہیں۔


1۔ امام عصام بن یوسف بلخی​
عصام بن یوسف بلخی متقدمین علماے احناف میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ موصوف امام محمد بن حسن شیبانیؒ کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں (حاشیۃ ابن عابدین: 74/1؛ رسم المفتی: 17/1) اور طویل عرصہ امام ابو یوسف کی صحبت میں بھی رہے ہیں۔ (الفوائد البھیۃ فی تراجم الحنفیۃ، ص: 116) علامہ القرشی نے لکھا ہے کہ عصام اور ان کے بھائی ابراہیم اپنے عہد میں بلخ کے استاد گردانے جاتے تھے (الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیۃ: ص 347) عصام بن یوسف اپنے فتاویٰ کی اساس دلیل پر رکھتے تھے‘ چنانچہ بہ کثرت امام ابو حنیفہ کے قول کے برخلاف فتویٰ دیتے‘ کیوں کہ انھیں اس کی دلیل مہیا نہ ہوتی۔ (البحر الرائق: 93/6؛ رسم المفتی: 28/1)
کتاب وسنت کی پیروی اور اتباع دلیل ہی کا اثر تھا کہ یہ جلیل القدر امام‘ علامہ عبد الحی صاحب لکھنوی کی حسب تصریح‘ رکوع میں جاتے ہوئے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ (الفوائد البھیۃ: ص16، بہ حوالہ صفۃ صلاۃ النبی للأ لبانی:ص 56‘ مکتبۃ المعارف‘ الریاض‘ 1996ئ)
امام عصام بن یوسف کا یہ طرزِ عمل اس امر کی آئینہ داری کرتا ہے کہ وہ نسخ رفع یدین کو دعواے بلا دلیل سمجھتے تھے‘ اگر اس کی کوئی دلیل وبرہان ان کے زیر نگاہ ہوتی تو وہ ہرگز اس کی خلاف ورزی نہ فرماتے۔
اس موقع پر یہ نکتہ بھی قابل لحاظ ہے کہ امام عصام بن یوسف بالکل ابتدائی زمانہ کے ہیں اور بہ راہِ راست صاحبین (ابو یوسف ومحمد ) کے متعلقین میں شامل ہیں‘ جب وہی عدم نسخ کے قائل ہیں‘ تو متاخرین کا ادعائے منسوخیت کیوں کر لائق التفات ہو سکتا ہے۔ کیا حنفی دوست اس پہلو پر غور فرمائیں گے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
2۔ امام ابو بکر الجصاص (ت 370ھ)​
علامہ احمد بن علی ابو بکر الجصاص الرازی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں‘ موصوف اپنے عصر میں حنفیہ کے امام تھے۔ ان کی شہرۂ آفاق تفسیر ’احکام القرآن‘ اس فن کی امہات کتب میں شمار ہوتی ہے اور احکامی آیات کی شرح و وضاحت میں کوئی صاحب علم اس سے مستغنی نہیں رہ سکتا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی متعدد تصانیف علما کے ہاں مقبول ہیں۔ علامہ الجصاصؒ کو بھی متقدمین حنفیہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک بھی رفع یدین منسوخ نہیں ہے‘ بلکہ یہ ان مسائل میں شامل ہے جن میں فقہاء کا اختلاف افضل اور غیر افضل کا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص: 253/1‘ دار احیاء التراث العربی‘ بیروت‘ 1412ھ / 1992ئ)
غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اگر علامہ موصوف کے نزدیک رفع یدین منسوخ ہوتی‘ تو وہ اسے ان امور میں کیوں شامل کرتے، جن پر عمل اصلاً جائز ہوتا ہے، البتہ اس میں دو رائیں ہوتی ہیں کہ اس پر عمل افضل ہے یا اسے چھوڑنا زیادہ بہتر ہے۔ بہرحال علامہ سے نسخ کی نفی واضح طور پر ثابت ہوتی ہے اور اسے علامہ انور شاہ صاحب کشمیری نے بھی تسلیم فرمایا ہے۔ (فیض الباری علی صحیح البخاری: 329/2‘ دار الکتب العلمیۃ‘ بیروت 2005ئ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
3۔ علامہ ابو الحسن سندھی (ت 1138ھ)​
ان کا اسم گرامی محمد بن عبد الہادی ہے۔ سندھ کے علاقے ٹھٹھہ سے تعلق تھا‘ بعد ازاں مدینہ طیبہ ہجرت فرما گئے اور تادم زیست اسی ارض پاک میں اقامت گزیں رہے۔ آپؒ مسلکاً حنفی تھے اور حدیث‘ تفسیر‘ فقہ اور عربیت میں کامل دست گاہ رکھتے تھے۔ صحیحین‘ ابو دائود‘ نسائی‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد اور تفسیر بیضاوی پر پُرمغز اور علمی حواشی تحریر فرمائے‘ جن سے ان کی علمی عظمت اور جامعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علامہ سندھی نے سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی کے حاشیوں میں رفع یدین کو سنت ثابتہ قرار دیتے ہوے دعوائے نسخ کی سختی سے تردید کی ہے۔ نسائی شریف کی ایک حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں:
وَالْحَدِیْثُ یَدُلُّ عَلَی الْجَمْعِ بَیْنَ التَسْبِیحِ وَ التَّحْمِیْدِ وَ عَلَی رَفْعِ الیَدَیْنِ عِنْدَ الرُّکُوْعِ وَعِنْدَ رَفْعِ الرَّأسِ مِنْہُ، وَ مَنْ لَا یَقُوْلُ بِہٖ یَرَاہٗ مَنْسُوْخًا بِمَا لَا یَدُلُّ عَلَیْہِ فَاِنَّ عَدْمَ الرَّفْعِ اَحْیَانًا اِنْ ثَبَتَ لَا یَدُلُّ عَلَی عَدَمِ اسْتِنَانِ الرَّفْعِ، اِذْ شَأنُ السُّنَّۃِ تَرْکُھَا اَحْیَانًا وَ یَجُوْزُ اسْتِنَان الْأَمْرَیْنِ جَمِیْعًا فَلَا وَجْہَ لِدَعْوَی النَّسْخِ وَ الْقَوْلَ بِالْکَرَاھَۃِ وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔ (سنن النسائی بحاشیۃ السندی مع شرح السیوطی: 457/1 ‘ داراالمعرفۃ‘ بیروت)
’’یہ حدیث اس امر پر دلالت کناں ہے کہ سمع اللّٰہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس سے رکوع میں جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا بھی ثابت ہو رہا ہے۔ جو رفع یدین کا قائل نہیں ہے وہ اسے غیر متعلق دلیل کی بنا پر منسوخ گردانتا ہے‘ کیونکہ اگر گاہے عدم رفع کا ثبوت مل بھی جائے، تو اس کے یہ معنیٰ نہیں کہ رفع یدین سنت ہی نہیں۔ سنت کا معاملہ ہی یہ ہے کہ کبھی کبھار یہ ترک بھی ہو سکتی ہے اور دونوں ہی امور بھی سنت ہو سکتے ہیں۔ پس دعوائے نسخ کی گنجائش ہے، نہ اسے مکروہ کہنے کا کوئی جواز۔ واللہ اعلم۔‘‘
آگے چل کر انھوں نے لکھا ہے کہ رفع یدین کے راویوں میں حضرت مالک بن حویرث﷜ اور حضرت وائل بن حجر﷜ وہ صحابی ہیں‘ جنھیں رسول اللہﷺ کی عمر مبارک کے آخری حصے میں آنحضرتﷺ کے ساتھ نمازیں پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ فلہٰذا ان کی روایات سے رفع یدین کا بقا و دوام اور نسخ کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔
حضرات حنفیہ کرام جلسۂ استراحت کو سنت نہیں مانتے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ آنحضرتﷺ نے قصداً نہیں فرمایا‘ بلکہ اس کا تعلق کبر سنی کے تقاضوں سے ہے‘ کیونکہ یہ فعل حیات طیبہ کے اخیر حصے میں فرمایا گیا۔ اس امر کا قرینہ، کہ یہ عمل عمر عزیز کے آخری دَور میں ہوا‘ یہ ہے کہ جلسۂ استراحت کی روایت حضرت مالک بن حویرث سے ہے، جنھوں نے آخر آخر میں سرورکائناتﷺ کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں اور بہ غور آنحضورﷺ کی نمازوں کا مشاہدہ کیا۔ علامہ سندھی کا کہنا ہے کہ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ
رفع یدین بھی حضور انورﷺ نے اخیر وقت تک فرمایا ہے کہ اس کے ناقل بھی حضرت مالک بن حویرث ہیں۔ بنا بریں جلسۂ استراحت کو آخری عہد کا عمل قرار دینا اور رفع یدین کو منسوخ بتلانا، جب کہ دونوں کی روایت ایک ہی شخصیت سے ہو‘ اپنے اندر تضاد اور تناقض لیے ہوئے ہے۔ (نسائی بحاشیۃ السندھی: 458/1)
اس ضمن میں علامہ ابو الحسن سندھی نے ایک اور دل چسپ نکتہ بھی اٹھایا ہے۔ آں محترم حضرت ابن مسعودؓ کی حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے یہ استدلال بلا دلیل ہے کہ آغازِ نماز کے علاوہ رفع یدین منسوخ ہے۔ اگر رفع یدین کے باب میں کسی قسم کے نسخ کا مفروضہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس صورت میں بجاے رفع یدین کے ترکِ رفع منسوخ قرار پائے گا۔ اس کے بعد حضرت مالک اور حضرت وائل بن حجر کے آخری مشاہدے کو بطورِ دلیل پیش کیا ہے اور جلسہ استراحت سے متعلق احناف کے موقف کی جانب اشارہ فرمایا ہے ‘ جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ علامہ نے اس پہلو کی بھی نشان دہی کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت مالک بن حویرث﷜ اور ان کے ساتھیوں کو یہ تلقین بھی فرمائی تھی کہ نماز اسی طریقے پر ادا کرنا‘ جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ چنانچہ انھوں نے رفع یدین کو بھی طریقہ نماز میں نقل کیا ہے۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں علامہ سندھی نے لکھا ہے:
فَالْاَ قْرَبُ الْقَوْلُ بِاِسْتِنَانِ الْأَمْرَیْنِ وَالرَّفْعُ أَقْوَی وَأَکْثَرُ۔ (سنن ابن ماجۃ بشرح السندی: 468/1‘ دارالمعرفۃ‘ بیروت)
’’قرین صحت مسلک یہی ہے کہ دونوں ہی امر سنت ہیں‘ البتہ رفع یدین کی روایات زیادہ مضبوط اور تعداد میں اکثر ہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
4۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (ت 1176ھ)​
شاہ صاحب کا اصل نام احمد بن عبد الرحیم اور لقب قطب الدین ہے۔ آپ کی ہستی گرامی منزلت برصغیر پاک وہند میں اصلاح وتجدید کے نمایاں ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اہل حدیث ہوں یا ارباب تقلید‘ اہل دیوبند یا اربابِ بریلی‘ سب کے ہاں آں رحمہ اللہ کو یکساں احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

حضرت شاہ صاحب اگرچہ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں‘ لیکن حدیث وسنت سے اشتغال اور عصبیت پسندی سے پاک ہونے کی بنا پر انھوں نے مختلف فیہ فقہی مسائل میں اعتدال و توازن کی راہ اختیار کی ہے اور اس پہلو کو راجح قرار دیا ہے‘ جس کی تائید دلیل سے ہوتی ہے۔ رفع یدین سے متعلق ان کی راے یہ ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے، بلکہ رفع یدین کرنا زیادہ بہتر ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
وَالَّذِی یَرْفَعُ أَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّنْ لَا یَرْفَعُ‘ فَاِنَّ أَحَادِیْثَ الرَّفْعِ أَکْثَرُ وَ أَثْبَتُ۔ (حجہ اللّٰہ البالغۃ: 16/2‘ دارالجیل‘ 1426ھـ2005/ئ)
’’جو شخص رفع یدین کرتا ہے‘ وہ نہ کرنے والے کی نسبت مجھے زیادہ محبوب ہے‘ کیوں کہ رفع یدین کی روایات تعداد میں زیادہ اور صحت کے اعتبار سے پختہ تر ہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
5۔ مولانا عبد الحی لکھنوی (ت 1304ھ)​
متاخرین علماے ہند میں مولانا عبد الحی لکھنوی کو مبدء فیض سے نبوغ و عبقریت کا وافر حصہ عطا ہوا تھا‘ جس کا ثبوت وہ ایک سو دس(110) تصانیف ہیں‘ جو عربی‘ فارسی اور اردو میں بوقلموں موضوعات پر موصوف کے قلم سے منصہ شہود پر آئیں۔ مولانا موصوف نے چالیس برس کی عمر میں دار فنا سے کوچ کیا اور آپ کی تصنیفی و تدریسی سرگرمیوں کی کل مدت 23 برس بنتی ہے۔

مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی فقہی اعتبار سے حنفی دبستان فکر سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ان کے ہاں وہ جمود و تعصب اور تقلیدی رجحان نظر نہیں آتا‘ جو اس عہد کے بعض دیگر ارباب علم میں نمایاں طور پر موجود رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بہت سے اختلافی مسائل میں کلاسیکل حنفی موقف سے مختلف راے کا اظہار کیا ہے۔ انھی میں رفع یدین ایسا معرکہ آرا مسئلہ بھی ہے۔ اس سلسلہ مین ان کا نقطہ نگاہ کیا ہے؟ آئیے انھی کی زبانی سنتے ہیں۔ وہ ’التعلیق الممجد‘ میں رقم طراز ہیں:
وَالْقَدْرُ الْمُتَحَقِّقُ فِی ھَذَا الْبَابِ ھُوَ ثُبُوْتُ الرَّفْعِ وَتَرْکُہُ کِلَیْھِمَا عَن رَّسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اِلَّا أَنَّ رُوَاۃَ الـرَّفْعِ مِنَ الصَّحَابَۃِ جَمٌّ غَفِیْرٌ‘ وَ رُوَاۃُ الـتَّرْکِ جَـمَــاعَۃٌ قَـلِیْلَۃٌ مَعَ عَدْمِ صِحَّۃِ الْطُّرُقِ عَنْھُمْ اِلَّا عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ‘ وَ کَذَلِکَ ثَبَتَ التَرْکُ‘ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ وَ اَصْحَابِہِ بِاَسَانِیْدَ مُحْتَجَّۃً بِھَا‘ فَاِذَنْ نَخْتَارُ أَنَّ الرَّفْعَ لَیْسَ بِسُنَّۃٍ مُؤَکَدَۃٍ یُلَامُ تَارِکھَا اِلَّا اَنَّ ثُبُوتَہُ عَنِ النَّبِیِّﷺ أَکْثَرُ وَ اَرْجَحُ۔ وَ أَمَّا دَعْوَی نَسْخِہٖ کَمَا صَدَرَ عَنِ الطَّحَاوِیِّ مُغْتَرًا بِحُسْنِ الظَّنِّ بِالصَّحَابَۃِ التَّارِکِیْنَ‘ وَ ابْنِ الْھَمَّامِ وَ الْعَیْنِی‘ وَغَیْرِھِمْ مِنْ أَصْحَابِنَا فَلَیْسَتْ بمبرھن علیھا بِمَا یَشْفِی الْعَلِیْل وَ یَرْوِی الْغَلِیْل۔ (التعلیق الممجد علی مؤطا محمد: 388/1‘ دارالقلم‘ دمشق 1991ئ‘ تحقیق: الدکتور تقی الدین الندوی)
’’اس مسئلہ میں تحقیق شدہ امر یہ ہے کہ رسول اللہﷺ سے رفع یدین اور اس کا ترک دونوں ہی ثابت ہیں‘ البتہ رفع یدین کی روایت کرنے والے صحابہ﷢ جم غفیر ہیں جب کہ ترک رفع کے راوی قلیل ہیں۔ مزید برآں سواے ابن مسعود ﷜ کے کسی دوسرے صحابی ﷜ سے ترک کی روایت بھی صحیح ثابت نہیں، ہاں، ابن مسعود﷜ اور ان کے اصحاب سے ترک رفع کی روایت لائق حجت سندوں سے ثابت ہے۔ اندریں صورت ہم نے یہ موقف اپنایا ہے کہ اگرچہ رفع یدین سنت موکدہ تو نہیں کہ اس کا تارک قابل ملامت ہو‘ البتہ نبی کریمﷺ سے اس کا ثبوت اکثر روایات سے ملتا ہے‘ نیز یہ زیادہ راجح ہے۔ جہاں تک ہمارے اصحاب میں سے طحاوی‘ ابن ہمام اور عینی وغیرہ کے دعواے نسخ کا تعلق ہے‘ جو انھوں نے ترک رفع کرنے والے صحابہؓ سے حسن ظن کی بنا پر کیا ہے‘ تو اس پر کوئی ایسی دلیل نہیں، جو طالب حقیقت کی تشفی اور تشنگان تحقیق کی شاد کامی کا باعث بن سکے۔‘‘
مدعیانِ نسخ کی جانب سے عموماً حضرت ابن مسعود﷜ کی روایت کو بڑے زور وشور سے بیان کیا جاتا ہے۔ علامہ لکھنوی کے بہ قول اس سے منسوخیت پر استدلال درست نہیں ہے‘ چنانچہ فرماتے ہیں:
وَ الْاِنْصَافُ فِی ھَذَا الْمُقَامِ أَنَّہُ لَا سَبِیْلَ اِلَی رَدِّ رِوَایَاتِ الْرَفْعِ بِرِوَایَۃِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ وَ فِعْلِہٖ وَاَصْحَابِہِ وَ دَعْوَی عَدْمِ ثُبُوْتِ الرَّفْعِ وَلاَ اِلَی رَدِّ رَوَایَاتِ التَّرْکِ بِالْکُلِّیَّۃِ وَ دَعْوَی عَدْمِ ثُبُوْتِہٖ‘ وَلَا اِلَی دَعْوَی نَسْخِ الرَّفْعِ مَالَمْ یَثْبُتْ ذَلِکَ بِنَصٍّ عَنِ الشَّارِعِ‘ بَلْ یوفی کُلٌ مِنَ الْاَمْرَیْنِ حَظَّہٗ وَیُقَاْلُ: کُلُّ مِنْھُمَا ثَابِتٌ‘ وَفِعْلُ الصِّحَابَۃِ وَ التَّابِعِیْنَ مُخْتَلِفٌ‘ وَلَیْسَ اَحَدُھُمَا بِلَازِمٍ یُلَامُ تَارِکُہُ‘ مَعَ الْقَوْلِ بِرُجْحَانِ ثُبُوتِ الرَّفْعِ عَن رَّسُوْلِ اللّٰہِﷺ۔ (التعلیق الممجد: 395/1)
’’اس مقام پر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ نہ تو اس امر کی گنجایش ہے کہ ابن مسعود﷜ کی روایت، ان کے اپنے عمل اور ان کے اصحاب کے فعل کی بنا پر رفع یدین کی روایات کو رد کر دیا جائے اور یہ دعویٰ کیا جائے کہ رفع یدین ثابت ہی نہیں۔ اسی طرح یہ بھی مناسب نہیں کہ ترک رفع کی روایات کو کلیتاً مسترد کرتے ہوئے اس کے عدم ثبوت کا دعویٰ کر دیا جائے۔ مزید برآں جب تک شارع سے کوئی نص نہ مل جائے، نسخ رفع یدین کے ادعا کا کوئی جواز نہیں‘ بلکہ دونوں پہلوؤں کی رعایت کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ رفع اور ترک دو ثابت ہیں اور صحابہ اور تابعین کا عمل مختلف رہا ہے۔ پھر ہر دو امور میں سے کوئی ایک بھی لازم نہیں کہ اس کے تارک کو ہدف ملامت بنایا جائے، تاہم یہ ضرور کہا جائے گا کہ رسول اللہﷺ سے ثبوت رفع کا پہلو راجح ہے۔‘‘
اس کے علاوہ اپنے فتاویٰ میں بھی مولانا موصوف نے واشگاف الفاظ میں اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ رفع یدین منسوخ نہیں بلکہ ثابت اور مشروع ہے۔ (286/1، بہ حوالہ التحقیق الراسخ للمحدث الکوندلوی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
6۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (ت 1317ھ 1899ئ)​
حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ برصغیر پاک وہند میں احناف کے دونوں گروہوں، یعنی اہل دیوبند اور ارباب بریلی کے مشترکہ بزرگ ہیں۔ دیوبندی علما میں سے مولانا اشرف علی تھانوی اور بریلوی مکتب فکر میں سے مولانا عبد السمیع صاحب رام پوری (مصنف انوار ساطعہ) حاجی صاحب کے خلفا میں شامل ہیں۔ حاجی صاحب موصوف نے بھی رفع یدین کو سنت ثابتہ قرار دیا ہے۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی روایت کرتے ہیں کہ
’’ہمارے مرشد حضرت حاجی صاحب نہایت رحیم کریم اور حکیم و محقق تھے۔ ایک غیر مقلد نے بیعت کی درخواست کی اور یہ شرط لگائی کہ میں غیر مقلد ہی رہوں گا۔ آپ نے غایت رحمت سے قبول فرمایا اور اس کو بیعت سے مشرف کیا اور یہ فرمایا کہ تم اپنے ہی طریقہ پر رہو‘ مگر آئندہ مسئلہ غیر مقلد سے مت پوچھنا۔ اس کی یہ حالت ہوئی کہ خود بہ خود عشا تک رفع یدین آمین بالجہر وغیرہ سب ترک کر دیا۔ حضرت صاحب کو خبر ہوئی۔ فرمایا: بھائی میری وجہ سے سنت پر عمل کرنا ترک مت کرو۔ میں فعل رسول اللہﷺ سے عمل کرنے کو منع نہیں کرتا، جب کہ محبت کے باعث تم کرتے ہو۔ البتہ اگر تمہاری تحقیق بدل جائے، وہ اور بات ہے۔ (مقالات حکمت جلد اول مشمولۂ ملفوظات حکیم الامت: 64-65/12، ادارہ تالیفات اشرفیہ‘ بیرون بوہڑ گیٹ‘ ملتان)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجرمکی رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے‘ بہ صورت دیگر منسوخ پر عمل کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟
 
Top