دعواے نسخ کی شہرت
مندرجہ بالا تفصیل سے عیاں ہے کہ رفع یدین سے متعلق علماے احناف میں اچھا خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عموماً اسے منسوخ ہی قرار دیا جاتا ہے‘ گویا مفتیٰ بہ قول یہی ہے اور عوام میں بھی اس کی شہرت ہے۔ نماز کے موضوع پر حنفی علما کی کتابوں میں زیادہ تر یہی لکھا جاتا ہے اور اہل حدیث سے مناظروں کے دوران حنفی مناظر بھی منسوخیت رفع یدین ہی پر دلائل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے جواب میں اہل حدیث کا کہنا یہ ہے کہ
رفع یدین کے نسخ پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے‘ بنا بریں یہ حضور انورﷺ کی محکم سنت ہے۔ پس محبانِ مصطفی ﷺ کو چاہیے کہ ذوق وشوق اور اخلاص و محبت سے اس بابرکت سنت کو عمل میں لائیں۔
اہل حدیث کا مسلک اس قدر جچا تلا، متوازن اور ایسے ٹھوس دلائل و براہین پر اساس پذیر ہے کہ علماے احناف کی ایک بڑی تعداد نے بھی دعواے نسخ کی تردید کرتے ہوئے عملاً اس کی تائید فرمائی ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم اہل حدیث علما کے بجاے انہی حنفی اصحاب علم و نظر کی آرا قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں‘ تاکہ معلوم ہو سکے کہ رفع یدین کی منسوخیت کا ادعا قطعی بے وزن اور یک سر بے دلیل ہے۔ امید ہے برادرانِ احناف اس بحث کو بہ نظر انصاف ملاحظہ فرمائیں گے اور اپنے موقف پر نظر ثانی کی زحمت گوارا کریں گے۔
وباللہ التوفیق
قبل ازیں کہ ہم موقر علما کی رائیں پیش کریں‘ مناسب ہو گا کہ قائلین نسخ کے چند مزید حوالوں پر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔
برصغیر پاک وہند کے عام حنفی احباب رفع یدین پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
حضور نبی اکرمﷺ نے ابتداء ً یہ عمل فرمایا تھا، لیکن بعد ازاں اسے ترک فرما دیا‘ چنانچہ یہ منسوخ ہے۔ مفتی جمیل احمد صاحب نذیری تحریر کرتے ہیں:
’’رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے اور تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرنا اختلافی ہے۔ یہ رفع الیدین یعنی بہ وقت رکوع اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتے وقت والارفع الیدین منسوخ ہے۔‘‘ (ماحصل از رسول اکرم ﷺ کا طریقہ نماز: ص 180)
شیخ الحدیث حضرت مولانا فیض احمد صاحب ملتانی اپنی تالیف
’نماز مدلل‘ میں رفع یدین سے متعلق گفت گو کرتے ہوئے ’حاصل کلام‘ کی سرخی کے تحت فرماتے ہیں:
’’جس طرح ان مختلف مقامات کی رفع یدین صحیح احادیث سے ثابت ہونے کے باوجود ائمہ اربعہ کے ہاں دوسری صحیح احادیث کے قرینہ سے ابتدائی دور پر محمول ہے اور متروک و منسوخ ہے‘ اسی طرح رکوع والی رفع یدین بھی صحیح احادیث سے ثابت ہونے کے باوجود حنفیہؒ مالکیہ محققین علما اور محدثین و فقہا کے ہاں مذکورہ بالا صحیح احادیث و آثار کی وجہ سے متروک ہے۔‘‘ (نماز مدلل: ص 138‘ مکتبہ حقانیہ‘ ٹی بی ہسپتال روڈ‘ ملتان)
مولانا احمد علی شیخ (فاضل جامعۃ العلوم الاسلامیۃ‘ علامہ بنوری ٹائون، کراچی) لکھتے ہیں:
’’… خلاصہ یہ ہے کہ رفع یدین کا حکم شروع میں تھا‘ بعد میں منسوخ ہو گیا۔‘‘ (غیر مقلدین کے اعتراضات اور ان کے جوابات: ص 51)
علاوہ ازیں بریلوی مکتب فکر کے معروف عالم مفتی احمد یار خاں صاحب نعیمی نے بھی اپنی مشہور کتاب
’جاء الحق‘ میں بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔