8۔ علامہ سید انور شاہ کشمیری (ت،1352 ھ/ 1933 ئ)
سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری علماے دیوبند میں جو مقام و مرتبہ رکھتے ہیں، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ موصوف کی ساری زندگی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گزری ہے۔ کبار علماے دیو بند موصوف کے تلامذہ میں شامل ہیں، جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا محمد چراغ کے اسماے گرامی خصوصیت سے لائق تذکرہ ہیں۔
علامہ انور شاہ صاحب کشمیری نے مسئلہ رفع یدین پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ انھوں نے نہ صرف صحیح بخاری اور جامع ترمذی کی شرحوں میں اسے موضوع گفت گو بنایا ہے، بلکہ اس سے متعلق دو مستقل رسالے بھی تصنیف فرمائے ہیں، جن میں ایک
’نیل الفرقدین‘ اور دوسرا
’بسط الیدین‘ کے نام سے ہے۔ آں محترم نے نسخ رفع یدین کی شدت سے نفی کی ہے، ان کے بہ قول رفع اور ترک رفع ہر دو امور ثابت ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ ثَبَتَ الرَّفْعُ وَالتَّرْکُ تَوَاتُرًا، لَایُمْکِنُ لِأَحَدٍ إِنْکَارَ أَحَدِ ھِمَا (العرف الشذی شرح سنن الترمذی:263/1، دارإحیاء التراث العربی، بیروت، 1425ھـ؍ 2004ئ)
’’رفع یدین اور اس کا ترک دونوں بہ تواتر ثابت ہیں، کوئی شخص ان میں سے ایک بھی پہلو کا انکار نہیں کر سکتا۔‘‘
ایک اور مقام پر اسے افضل اور غیر افضل کا اختلاف قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
فَقَدْ ثَبَتَ الْأَمْرَانِ عِنْدِی ثُبُوتاً لَامَرَدَّ لَہُ، وَلَا خِلَافَ إِلَّا فِی الْاِخِتِیَارِ، وَلَیْسَ فِی الْجَوَازِ (فیض الباری مع حاشیۃ البدر الساری: 323-324/2، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 2005ھـ)
’’میرے نزدیک دونوں ہی امور کا ثبوت ایسا حتمی ہے کہ اس سے انکار ممکن نہیں۔ اختلاف صرف اختیار و فضیلت میں ہے، نہ کہ جواز میں۔‘‘
علامہ کشمیری نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ رفع یدین اسناد و عمل دونوں اعتبار سے متواتر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وَلْیَعْلَمْ اَنَّ الرَفْعَ مُتَوَاتِراً اِسْنَاداً وَ عَمَلاً لَایُشَکُّ فِیْہِ وَلَمْ یَنْسَخْ وَلَا حَرْفَ مِنْہُ وَإِنَّمَا بَقِیَ الْکَلَامُ فِی الْأَفْضَلِیَّۃِ (نیل الفرقدین: 22)
’’معلوم رہے کہ رفع یدین از روے سند و عمل متواتر ہے، جس میں شبہہ کی گنجایش نہیں۔ اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں، بحث ہے تو محض فضیلت میں۔‘‘
اس مقام پر ہم ناظرین کی توجہ مولانا امین صاحب اوکاڑی مرحوم کی اس بات کی طرف دلانا چاہتے ہیں کہ
’’ خیر القرون میں رفع یدین کرکے نماز پڑھنے والا شخص عجائب گھر میں رکھنے کے لیے بھی نہ ملتا تھا اور رفع یدین کی تمام روایات اس پاک دور میں متروک العمل تھیں۔‘‘ (تجلیات صفدر:353/2)
مزید فرماتے ہیں:
’’نیز ان روایات سے معلوم ہوا کہ خیر القرون میں کسی مسجد میں نماز میں رفع یدین کرنے والا کوئی آدمی نظر نہ آتا تھا۔‘‘ (ایضا:356/2) انھوں نے رفع یدین کی شاذ بھی قرار دیا ہے۔ (ایضاً)
ہم برادرانِ احناف کے ضمیر سے انصاف چاہیں گے، وہ عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے فیصلہ فرمائیں کہ حضرت کشمیری ایسے محقق کی بات درست ہے، جو رفع یدین کو سند و عمل ہر دو اعتبار سے متواتر بتلاتے ہیں یا اوکاڑوی صاحب ایسے مجادل و مناظر کی، جو دینی مسائل پر انتہائی غیر سنجیدہ اور مبتذل زبان میں بحث فرماتے ہیں اور جن کا مطمح نظر محض اپنے مذہب و مسلک کی تائیدو نصرت ہوتا ہے چاہے تحقیق و دیانت کے پیمانوں پر زد ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ (اوکاڑوی صاحب نے مسئلہ رفع یدین پر جو نکتہ آفرینیاں کی ہیں اور نظر و استدلال کے تقاضوں کو جس طرح پامال کیا ہے، وہ اپنی جگہ ایک علیحدہ اور مستقل موضوع ہے، جس میں خدا نے چاہا، تو ہم کسی الگ مضمون میں بحث کریں گے۔)
’الکبیر‘ شرح المنیۃ اور
’البدائع‘ کے مؤلفوں نے رفع یدین کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ
یہ قول میری نظر میں متروک ہے اور اگر تو ان کے پاس صاحب مذہب سے کوئی نقل ہے، تو یہ معذور ہوسکتے ہیں، بہ صورت دیگر جو مسئلہ صحابہ کرام کے ہاں متواتر ہے، اسے مکروہ قرار دینا انتہائی سنگین امر ہے۔‘‘ (فیض الباری:224-226/2)
علامہ موصوف نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ نسخ کا قول پہلے پہل کس نے اختیار کیا۔ ان کی تحقیق میں متقدمین احناف جواز رفع کے قائل تھے نہ کہ ’نسخ‘ کے۔ وہ رقم طراز ہیں:
وَقَدْ اِشْتَھَرَ فِی مُتَاَخِّرِی الْحَنَفِیَّۃِ الْقَوْلُ بِالنَّسْخِ، وَإِنَّمَا تَعَلَّمُوْہُ مِنَ الشَّیْخِ ابْنِ الْھَمَّامِ، وَالشَّیْخُ اخْتَارَہُ تَبْعاً لِلطَّحَاوِی۔ وَقَدْ عَلِمْتُ اَنَّ نَسْخَ الطَّحَاوِی أعم مما فی الکتب، فَإِنَّ الْمَفْضُوْلَ بِالنَّسْبَۃِ إِلَی الفَاضِلِ، وَالْأَضْعَف دَلِیْلاً بِالنِّسْبَۃِ إِلَی أَقْوَاہُ، کُلُّہُ مَنْسُوْخٌ عِنْدَہُ، کَمَا یَتَّضِحُ ذَلِکَ لِمَنْ یُطَالِع کِتَابَہُ، کَیْفَمَا کَانَ إِذَا ثَبَتَ عِنْدِی الْقَوْلُ بِالْجَوَازِ مِمَّنْ ھُوَ اقْدَمُ فِی الْحَنَفِیَّۃِ وَسَاعَدَتْہُ الْأَحَادِیْثُ أَیْضاً، فلا محید إلا بالقول بہ، وَخِلَافُہُ لَا یُسْمَعُ، فَمَنْ شَائَ فَلْیَسْمَعْ (فیض الباری: 329/2)
’’متاخرین حنفیہ کے ہاں نسخ کا قول مشہور ہے، جسے انھوں نے شیخ ابن الہمامؒ سے لیا ہے، جب کہ شیخ نے یہ موقف امام طحاویؒ کی پیروی میں اپنایا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ طحاوی کا تصور نسخ دیگر کتب کی نسبت زیادہ عمومیت لیے ہوئے ہے۔ چنانچہ فاضل کے بالمقابل مفضول اور قوی دلیل کے مقابلے میں کم زور دلیل سے ثابت، یہ تمام امور ان کی نظر میں منسوخ ہیں، جیسا کہ ان کی کتاب کے قاری پر یہ امر واضح ہوجاتا ہے۔ بہ ہر آئینہ جب میرے نزدیک قول جواز ان سے بھی پہلے کے حنفی بزرگوں سے ثابت ہوچکا ہے اور احادیث بھی اس کی موید ہیں، تو اسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس کے برخلاف کوئی بات ہرگز لائق التفات نہیں، ہاں جو چاہتا ہے اسے سنتا پھرے۔‘‘
شاہ صاحب نے طحاوی کے تصور نسخ کی جو توضیح کی ہے۔ اس سے یہ مسئلہ ہی حل ہو جاتا ہے، یعنی ان کے نزدیک بھی نسخ کے یہ معنی نہیں کہ یہ فعل بالکلیہ منسوخ ہو گیا ہے، بلکہ نسخ سے مراد یہ ہے کہ رفع کے بجاے عدم رفع افضل ہے۔ اسی نکتے کی جانب انھوں نے ’العرف الشذی‘ میں بھی اشارہ کیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
وأماما قال الطحاوی من النسخ فلیس ھو النشخ المتعارف عندہ الذی ذکرتہ سابقاً 263/1)