• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نسخ رفع یدین اور علماے احناف

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
7۔ مولانا رشید احمد گنگوہی (ت 1323ھ /1905ئ)​
مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کا شمار اکابرین دیوبند میں ہوتا ہے۔ حافظ محمد احمد صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند) اور مولانا یحیٰ صاحب کاندھلوی (والد شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب) ایسے دیوبندی علما آپ کے شاگرد ہیں۔ علاوہ ازیں بے شمار علماے دیوبند آپ کے خلفاء اور مستفیدین میں شامل ہیں‘ جن میں مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری‘ شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب اور مولانا حسین احمد صاحب مدنی جیسے بلند پایہ ارباب علم نمایاں ہیں۔
مولاناگنگوہی کا رجحان بھی یہی ہے کہ رفع یدین منسوخ نہیں بلکہ اس میں دونوں پہلو قابل عمل ہیں‘ البتہ ترک رفع بہتر ہے۔ موصوف جامع ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں:
لَا خِلَافَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الشَّافِعِیِّ فِی جَوَازِ الــصَّلَاۃِ بِالرَّفْعِ وَعَدْمِ الرَّفْعِ‘ فَلَوْ لَمْ یَرْفَعْ الْمُصَلِّی یَدَیْہِ فِی غَیْرِ تَکْبِیْرَۃِ الْاِفْتِتَاحِ لَا یَقُوْلُ الشَّافِعِیُّ بِفَسَادِ صَلَاتِہِ اِنَّمَا النِّزَاعُ فِی أَنَّ الْاَوْلَی ھَلْ ھُوَ عَدْمُ الرَّفْعِ اَوِ الرَّفْعُ‘ فَاخْتَرْنا الْأَوَّلَ وَ اخْتَارُوا الثَّانِی۔ (الکوکب الدری علی جامع الترمذی: 269/1 ‘ ندوۃ العلماء لکھنوئ‘ 1395ھـ/1975ئ)
’’ہمارے (حنفیہ) اور امام شافعی کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ رفع یدین اور ترک رفع ہر دو صورتوں میں نماز جائز ہے۔ اگر نمازی تکبیر تحریمہ کے بعد رفع یدین نہ کرے تو امام شافعی اس کی نماز کو فاسد نہیں کہتے۔ نزاع صرف اس قدر ہے کہ آیا عدم رفع بہتر ہے یا رفع یدین؟ پس ہم نے پہلی صورت پسند کی ہے اور انھوں نے دوسری۔‘‘
شاہ اسماعیل شہید نے تنویر العینین میں رفع یدین کو سنن ہدیٰ میں شامل کیا ہے اور اگرچہ اسے سنت غیر موکدہ کہا ہے‘ لیکن اس پر عمل کو باعث اجر وثواب بتلایا ہے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے رفع یدین کرنے والے کو زیادہ محبوب قرار دیا ہے۔ ایک سائل نے ان دونوں کا حوالہ دے کر دریافت کیا کہ ’’یہ رفع یدین جیسا کہ حضرات مذکور الصدر سے ثابت و محقق ہوا۔ آپ کے نزدیک بھی صحیح ہے یا نہیں گو ترک اس کا وجہ مختلف ہونے ائمہ کے احناف کو جائز اور اولیٰ ہو۔ لیکن غرض سائل کی یہ ہے کہ مسئلہ مذکورہ ثابت صحیح غیر منسوخ ہے یا نہیں اور عامل اس کا عامل سنت ہو گا یا نہیں؟ جو امر صحیح آپ کے نزدیک ہو، مفصل ارقام فرمائیں۔‘‘ مولانا گنگوہی اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’میرا مسلک عدم رفع کا ہے کہ عدم رفع میرے نزدیک مرجح ہے، جیسا کہ قدما حنفیہ نے فرمایا ہے اور طعن بندہ کے نزدیک دونوں پر روا نہیں کہ مسئلہ مختلف فیہا ہے اور احادیث دونوں طرف موجود ہیں اور عمل صحابہ بھی اور قوت وضعف مختلف ہوتے ہیں۔ بالآخر دونوں معمول بہا ہیں ۔‘‘(تالیفات رشیدیہ مع فتاوی رشیدیہ مکمل مبّوب: ص264 ،ادارہ اسلامیلات، لاہور،1408 ھ/ 1987 ئ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
8۔ علامہ سید انور شاہ کشمیری (ت،1352 ھ/ 1933 ئ)​
سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری علماے دیوبند میں جو مقام و مرتبہ رکھتے ہیں، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ موصوف کی ساری زندگی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گزری ہے۔ کبار علماے دیو بند موصوف کے تلامذہ میں شامل ہیں، جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا محمد چراغ کے اسماے گرامی خصوصیت سے لائق تذکرہ ہیں۔
علامہ انور شاہ صاحب کشمیری نے مسئلہ رفع یدین پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ انھوں نے نہ صرف صحیح بخاری اور جامع ترمذی کی شرحوں میں اسے موضوع گفت گو بنایا ہے، بلکہ اس سے متعلق دو مستقل رسالے بھی تصنیف فرمائے ہیں، جن میں ایک ’نیل الفرقدین‘ اور دوسرا ’بسط الیدین‘ کے نام سے ہے۔ آں محترم نے نسخ رفع یدین کی شدت سے نفی کی ہے، ان کے بہ قول رفع اور ترک رفع ہر دو امور ثابت ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ ثَبَتَ الرَّفْعُ وَالتَّرْکُ تَوَاتُرًا، لَایُمْکِنُ لِأَحَدٍ إِنْکَارَ أَحَدِ ھِمَا (العرف الشذی شرح سنن الترمذی:263/1، دارإحیاء التراث العربی، بیروت، 1425ھـ؍ 2004ئ)
’’رفع یدین اور اس کا ترک دونوں بہ تواتر ثابت ہیں، کوئی شخص ان میں سے ایک بھی پہلو کا انکار نہیں کر سکتا۔‘‘
ایک اور مقام پر اسے افضل اور غیر افضل کا اختلاف قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
فَقَدْ ثَبَتَ الْأَمْرَانِ عِنْدِی ثُبُوتاً لَامَرَدَّ لَہُ، وَلَا خِلَافَ إِلَّا فِی الْاِخِتِیَارِ، وَلَیْسَ فِی الْجَوَازِ (فیض الباری مع حاشیۃ البدر الساری: 323-324/2، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 2005ھـ)
’’میرے نزدیک دونوں ہی امور کا ثبوت ایسا حتمی ہے کہ اس سے انکار ممکن نہیں۔ اختلاف صرف اختیار و فضیلت میں ہے، نہ کہ جواز میں۔‘‘
علامہ کشمیری نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ رفع یدین اسناد و عمل دونوں اعتبار سے متواتر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وَلْیَعْلَمْ اَنَّ الرَفْعَ مُتَوَاتِراً اِسْنَاداً وَ عَمَلاً لَایُشَکُّ فِیْہِ وَلَمْ یَنْسَخْ وَلَا حَرْفَ مِنْہُ وَإِنَّمَا بَقِیَ الْکَلَامُ فِی الْأَفْضَلِیَّۃِ (نیل الفرقدین: 22)
’’معلوم رہے کہ رفع یدین از روے سند و عمل متواتر ہے، جس میں شبہہ کی گنجایش نہیں۔ اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں، بحث ہے تو محض فضیلت میں۔‘‘
اس مقام پر ہم ناظرین کی توجہ مولانا امین صاحب اوکاڑی مرحوم کی اس بات کی طرف دلانا چاہتے ہیں کہ
’’ خیر القرون میں رفع یدین کرکے نماز پڑھنے والا شخص عجائب گھر میں رکھنے کے لیے بھی نہ ملتا تھا اور رفع یدین کی تمام روایات اس پاک دور میں متروک العمل تھیں۔‘‘ (تجلیات صفدر:353/2)
مزید فرماتے ہیں:
’’نیز ان روایات سے معلوم ہوا کہ خیر القرون میں کسی مسجد میں نماز میں رفع یدین کرنے والا کوئی آدمی نظر نہ آتا تھا۔‘‘ (ایضا:356/2) انھوں نے رفع یدین کی شاذ بھی قرار دیا ہے۔ (ایضاً)
ہم برادرانِ احناف کے ضمیر سے انصاف چاہیں گے، وہ عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے فیصلہ فرمائیں کہ حضرت کشمیری ایسے محقق کی بات درست ہے، جو رفع یدین کو سند و عمل ہر دو اعتبار سے متواتر بتلاتے ہیں یا اوکاڑوی صاحب ایسے مجادل و مناظر کی، جو دینی مسائل پر انتہائی غیر سنجیدہ اور مبتذل زبان میں بحث فرماتے ہیں اور جن کا مطمح نظر محض اپنے مذہب و مسلک کی تائیدو نصرت ہوتا ہے چاہے تحقیق و دیانت کے پیمانوں پر زد ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ (اوکاڑوی صاحب نے مسئلہ رفع یدین پر جو نکتہ آفرینیاں کی ہیں اور نظر و استدلال کے تقاضوں کو جس طرح پامال کیا ہے، وہ اپنی جگہ ایک علیحدہ اور مستقل موضوع ہے، جس میں خدا نے چاہا، تو ہم کسی الگ مضمون میں بحث کریں گے۔)
’الکبیر‘ شرح المنیۃ اور ’البدائع‘ کے مؤلفوں نے رفع یدین کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ
یہ قول میری نظر میں متروک ہے اور اگر تو ان کے پاس صاحب مذہب سے کوئی نقل ہے، تو یہ معذور ہوسکتے ہیں، بہ صورت دیگر جو مسئلہ صحابہ کرام﷢ کے ہاں متواتر ہے، اسے مکروہ قرار دینا انتہائی سنگین امر ہے۔‘‘ (فیض الباری:224-226/2)
علامہ موصوف نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ نسخ کا قول پہلے پہل کس نے اختیار کیا۔ ان کی تحقیق میں متقدمین احناف جواز رفع کے قائل تھے نہ کہ ’نسخ‘ کے۔ وہ رقم طراز ہیں:
وَقَدْ اِشْتَھَرَ فِی مُتَاَخِّرِی الْحَنَفِیَّۃِ الْقَوْلُ بِالنَّسْخِ، وَإِنَّمَا تَعَلَّمُوْہُ مِنَ الشَّیْخِ ابْنِ الْھَمَّامِ، وَالشَّیْخُ اخْتَارَہُ تَبْعاً لِلطَّحَاوِی۔ وَقَدْ عَلِمْتُ اَنَّ نَسْخَ الطَّحَاوِی أعم مما فی الکتب، فَإِنَّ الْمَفْضُوْلَ بِالنَّسْبَۃِ إِلَی الفَاضِلِ، وَالْأَضْعَف دَلِیْلاً بِالنِّسْبَۃِ إِلَی أَقْوَاہُ، کُلُّہُ مَنْسُوْخٌ عِنْدَہُ، کَمَا یَتَّضِحُ ذَلِکَ لِمَنْ یُطَالِع کِتَابَہُ، کَیْفَمَا کَانَ إِذَا ثَبَتَ عِنْدِی الْقَوْلُ بِالْجَوَازِ مِمَّنْ ھُوَ اقْدَمُ فِی الْحَنَفِیَّۃِ وَسَاعَدَتْہُ الْأَحَادِیْثُ أَیْضاً، فلا محید إلا بالقول بہ، وَخِلَافُہُ لَا یُسْمَعُ، فَمَنْ شَائَ فَلْیَسْمَعْ (فیض الباری: 329/2)
’’متاخرین حنفیہ کے ہاں نسخ کا قول مشہور ہے، جسے انھوں نے شیخ ابن الہمامؒ سے لیا ہے، جب کہ شیخ نے یہ موقف امام طحاویؒ کی پیروی میں اپنایا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ طحاوی کا تصور نسخ دیگر کتب کی نسبت زیادہ عمومیت لیے ہوئے ہے۔ چنانچہ فاضل کے بالمقابل مفضول اور قوی دلیل کے مقابلے میں کم زور دلیل سے ثابت، یہ تمام امور ان کی نظر میں منسوخ ہیں، جیسا کہ ان کی کتاب کے قاری پر یہ امر واضح ہوجاتا ہے۔ بہ ہر آئینہ جب میرے نزدیک قول جواز ان سے بھی پہلے کے حنفی بزرگوں سے ثابت ہوچکا ہے اور احادیث بھی اس کی موید ہیں، تو اسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس کے برخلاف کوئی بات ہرگز لائق التفات نہیں، ہاں جو چاہتا ہے اسے سنتا پھرے۔‘‘
شاہ صاحب نے طحاوی کے تصور نسخ کی جو توضیح کی ہے۔ اس سے یہ مسئلہ ہی حل ہو جاتا ہے، یعنی ان کے نزدیک بھی نسخ کے یہ معنی نہیں کہ یہ فعل بالکلیہ منسوخ ہو گیا ہے، بلکہ نسخ سے مراد یہ ہے کہ رفع کے بجاے عدم رفع افضل ہے۔ اسی نکتے کی جانب انھوں نے ’العرف الشذی‘ میں بھی اشارہ کیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
وأماما قال الطحاوی من النسخ فلیس ھو النشخ المتعارف عندہ الذی ذکرتہ سابقاً 263/1)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
9۔ مولانا سید محمد یوسف بنوری (1397ھ / 1977ء )​
مولانا محمد یوسف صاحب بنوری، علامہ انور شاہ صاحب کشمیری کے ارشد تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ مولانا بنوری نے اپنے شیخ (کشمیری) کے افادات کی روشنی میں جامع ترمذی کی ایک شرح لکھی ہے، جو ’معارف السنن‘ کے نام سے چار مجلدات میں شائع ہوئی ہے۔ مولانا بنوری نے اس میں رفع یدین پر قدرے تفصیلی گفت گو فرمائی ہے اور علامہ کشمیری کے رسایل ’نیل الفرقدین‘ اور ’بسط الیدین‘ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے، انھی کے موقف کی تائید کی ہے۔ ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں انھوں نے چند نکات کی صورت میں اس کی تلخیص کی ہے اور چوتھے نکتہ کے ضمن میں لکھا ہے:
اِنَّ الْاِخْتِلَافَ فِیْہِ وَاِنْ ظَھَرَ فِی الْأَئِمَّۃِ غَیْرُ أَنَّہُ صَرَّحَ کِبَارُ عُلَمَائِ الْمَذَاھِبِ عَلَی الْاِخْتِلَافِ فِیْہِ فِی الْأَوْلَوِیَّۃِ وَاْلإِبَاحَۃِ لَا یَنْبَغِی أَن یُّعَنِّفَ أَحَد عَلَی الْفِعْلِ أَوِ التَّرْکِ۔ (معارف السنن:467/2، ایچ ایم سعید کمپنی، ادب منزل پاکستان چوک کراچی، طبع چہارم 1413ھـ)
’’فقہاے دین و ملت نے اگرچہ رفع یدین کے مسئلے میں اختلاف رائے سے کام لیا ہے، لیکن یہ صراحت بھی اکابر فقہا ہی نے فرما دی ہے کہ یہ اختلاف اولویت و افضلیت سے متعلق ہے۔ رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کے پر بے جا سختی کا مظاہرہ کسی طور روا نہیں۔‘‘
اس اقتباس سے واضح ہے کہ مولانا یوسف صاحب بنوری رفع یدین کو منسوخ قرار نہیں دیتے، بلکہ مباح اور جائز گردانتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
10۔  مولانا محمد بدر عالم میرٹھی​
مولانا محمد بدر عالم صاحب میرٹھی علماے دیو بند میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ موصوف متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں احادیث کے مجموعے پر مشتمل کتاب ’ترجمان السنۃ‘ بہت معروف ہے۔ مولانا میرٹھی کوعلامہ انور شاہ صاحب کشمیری سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ علامہ کشمیری کی شرح بخاری ’فیض الباری‘ بھی میرٹھی صاحب ہی کی مرتب کردہ ہے۔ انھوں نے ’فیض الباری‘ پر ’البدر الساری‘ کے نام سے حاشیہ بھی لکھا ہے۔ رفع یدین سے متعلق مولانا میرٹھی کا موقف بھی وہی ہے، جو ان کے استاد سید انور شاہ صاحب کشمیری کا ہے۔ چنانچہ موصوف نے رفع یدین پر بحث کرتے ہوئے علامہ کشمیری کے رسالہ ’نیل الفرقدین‘ کا خلاصہ بیان کیا ہے اور آخر میں نسخ کے بارے میں اپنی راے یوں ذکر کی ہے:
فَدَعْ عَنْکَ حَدِیْثَ النَّسْخِ إِذْ قَدْ شَھِدَ الْعَمَلُ بِالْجَانِبَیْنِ، فَإِنَّہُ أَقْوَی دَلِیْلِ عَلَی عَدْمِ النَّسْخِ۔ (البدر الساری الی فیض الباری:329/2)
’’نسخ کی بات رہنے دیجیے کہ دونوں ہی جانب عمل کی شہادت موجود ہے اور یہ عدم نسخ کی قوی ترین دلیل ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
11۔ مولانا سرفراز خان صفدر (ت2009ئ)​
مولانا سرفراز خان صاحب صفدر پاکستان کے معروف دیوبندی عالم تھے۔ ان کے قلم سے کئی کتابیں نکلیں، جو زیادہ تر اختلافی مسائل پر ہیں۔ وہ برس ہابرس تک مدرسہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالا میں حدیث پڑھاتے رہے۔ مولانا مرحوم نے اپنے مدرسہ کے ایک فاضل مولانا حبیب اللہ صاحب ڈیروی کی کتاب ’نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح‘ کا پیش لفظ لکھا ہے۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی رفع یدین منسوخ نہیں ہے۔ وہ رفع یدین سے متعلق مختلف احادیث میں ترجیح کی صورتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور اقل درجہ یہ ہے کہ رفع یدین کرنے پر مطلقاً اصرار نہ کیا جائے، کبھی رفع الیدین کرلیں اور کبھی چھوڑدیں۔ ‘‘ (نور الصباح:ص14)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا موصوف نسخ رفع یدین کے قائل نہ تھے۔ بلکہ (خواہ کبھی ہی سہی) اسے قابل عمل سمجھتے تھے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
12۔ مولانا سید فخر الدین احمد​
مولانا فخر الدین احمد صاحب دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین رہے ہیں۔ رفع یدین سے متعلق ان کے افادات کی روشنی میں ایک رسالہ شائع ہوا ہے، جسے مولانا ریاست علی صاحب بجنوری (استاد حدیث، دارالعلوم دیوبند) نے ترتیب دیا ہے۔ مولانا فخر الدین نے اس میں رفع یدین کو افضل و مفضول کا مسئلہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ ’مسئلہ کی نوعیت‘ کے تحت رقم طراز ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں دونوں فریق کے راہِ اعتدال سے تجاوز کرکے مناظرانہ انداز اختیار کرنے کے سبب یہ مسئلہ اہمیت اختیار کرگیا۔ پھر عصر حاضر کی ادب و احترام سے محروم ایک جماعت کی جارحیت کے سبب ہندوستان میں اس مسئلہ کو مزید اہمیت حاصل ہوگئی، ورنہ ائمہ مجتہدین کے درمیان تو اس مسئلہ میں اختلاف محض اولیٰ و غیر اولیٰ یا افضل و مفضول کا ہے۔ جن ائمہ نے رفع یدین کو راجح قرار دیا ہے ان کے یہاں ترکِ رفع بھی جائز ہے اور جن ائمہ کا مسلک مختار ترک رفع ہے، ان کے یہاں رفع یدین بھی مباح ہے۔‘‘ (رفع یدین، صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں: 11)
اس کے بعد موصوف نے مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کا وہ فتویٰ نقل کیا ہے، جسے ہم اوپر نقل کرآئے ہیں۔ بہر حال مولانا نے یہاں نسخ رفع کا ذکر نہیں کیا، گویا وہ ان کے نزدیک لائق التفات ہی نہیں۔


اس موقع پر ایک شے کا ذکر ضروری ہے۔ مندرجہ بالا اقتباس میں ’ادب و احترام سے محروم ایک جماعت‘ سے اشارہ اہل حدیث جماعت کی جانب ہے، جو سراسر خلاف واقعہ ہے۔ بحمداللہ جماعت اہل حدیث ائمہ مجتہدین، مصلحین امت اور بزرگانِ ملت کی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتی ہے اور ان کی بے ادبی کرنے کو انتہائی نفرت اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے، بنابریں یہ الزام قطعی غلط اور بے بنیاد ہے۔ سردست یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے، وگرنہ یہ بتلانا بھی چنداں مشکل نہیں کہ ادب و تعظیم کے اجارہ دار طائفہ مقلدین نے تقلیدی عصبیتوں سے مجبور ہوکر اسلاف امت کی شان میں کیا کچھ گل افشانیاں فرما رکھی ہیں اور یہ کہ صحابہ کرام سے لے کر ائمہ مجتہدین تک سبھی ان کی گرمی گفتار کی زد میں ہیں۔ ع
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
13۔ صوفی عبدالحمید سواتی (ت1429ھ/ 2008ئ)​
صوفی عبدالحمید صاحب سواتی مرحوم، مدرسہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالا کے بانی و مہتمم اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ حضرت صوفی صاحب بھی رفیع یدین کو منسوخ کے بجاے جائز سمجھتے ہیں۔ نماز کے موضوع پر اپنی کتاب میں انھوں نے لکھا ہے:
’’رکوع جاتے وقت اور اس سے اُٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا زیادہ بہتر ہے اور اگر کرلے تو جائز ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اس کو خلاف اولیٰ کہتے ہیں اور عدم رفع والی حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اس کے خلاف عمل کرنے والے پرنکیر نہیں کرتے۔ کیوں کہ یہ جواز عدم جواز کا مسئلہ نہیں۔ بلکہ اولیٰ غیر اولیٰ کا مسئلہ ہے۔ اسی لیے بعض حضرات نے دونوں پہلوؤں کو سنت ہی قرار دیا ہے۔‘‘ (نماز مسنون کلاں: ص349، ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم، فاروق گنج، گوجراں والا، 1429ھـ / 2008ئ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
14۔  مولانا حبیب الرحمن اعظمی (ت1412ھ1992/ئ)
مولاناحبیب الرحمن صاحب اعظمی عالمی شہرت کے حامل ہیں۔ حدیث اور فقہ ان کا خصوصی میدان ہے۔ مسند حمیدی، مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ سمیت متعدد کتب احادیث مرحوم کی تخلیق و تعلیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہیں۔ مولانا موصوف نے رفع یدین پر بھی ایک مختصر سا رسالہ لکھا ہے۔ اس میں وہ ترقیم فرماتے ہیں:
’’تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین کا مسئلہ بھی ظنی یعنی مجتہد فیہ مسائل میں سے ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں بھی راجح اور مرجوح، بہتر و غیر بہتر ہی کا اختلاف ہے، حق و ناحق کا نہیں ہے۔‘‘ (تحقیق مسئلہ رفع یدین:ص6)
رسالے کے آخر میں ’اختلاف کی نوعیت‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
’’تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جانے اور رکوع سے اُٹھنے وغیرہ مواقع میں رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کا اختلاف صحیح و باطل اور جائز و ناجائز کا نہیں، بلکہ اولیٰ و غیر اولیٰ اور راجح و مرجوح کا اختلاف ہے۔ جن علما کے نزدیک رفع یدین اولیٰ و بہتر ہے، وہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز کو بالکل صحیح و درست مانتے ہیں۔ اسی طرح جو اصحاب علم و نظر ترک رفع کے قائل ہیں، ان کے نزدیک بھی رفع یدین کرنے والوں کی نماز بغیر کسی نقص و کمی کے مکمل ہے۔‘‘ (تحقیق مسئلہ رفع یدین:ص68)
مندرجہ بالا اقتباسات اس حقیقت کے عکاس ہیں کہ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی کے نزدیک نسخ رفع یدین کا قول زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ اس کے قائل ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
15۔  جسٹس (ر) محمد تقی عثمانی​
جناب جسٹس (ر) مفتی محمد تقی صاحب عثمانی معاصر دیوبندی علما میں جو مقام بلند رکھتے ہیں، اس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ موصوف، مفتی اعظم مولانا محمد شفیع صاحب مرحوم کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ اردو، عربی اور انگریزی میں دسیوں تصانیف آپ کے زور قلم اور فکر عمیق کی شاہد ہیں۔ مولانا تقی صاحب عثمانی ایک پختہ کار مدرس بھی ہیں اور دارالعلوم کراچی میں ایک طویل عرصہ سے کتب حدیث کی تدریس فرما رہے ہیں۔ آں محترم نے جامع ترمذی پڑھاتے ہوئے جو نکات و معارف بیان کیے ہیں، انھیں جامعہ دارالعلوم کراچی کے استاذ الحدیث، مولانا رشید اشرف صاحب سیفی نے ’درس ترمذی‘ کے نام سے جمع کردیا ہے، جس کی دو جلدیں چھپ چکی ہیں۔ دوسری جلد میں ’باب رفع الیدین عند الرکوع‘ کے تحت مولانا تقی صاحب عثمانی نے اس مسئلہ پر بحث کی ہے۔ باب مذکور کی تمہیدی گفتگو میں انہوں نے کہا ہے کہ اس میں جواز و عدمِ جواز کے بجاے افضلیت و عدم افضلیت کا اختلاف ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’یہاں یہ واضح رہے کہ ائمہ اربعہ کے درمیان یہ اختلاف محض افضلیت اور عدم افضلیت کا ہے نہ کہ جواز اور عدم جواز کا چنانچہ دونوں طریقے فریقین کے نزدیک بلا کراہت جائز ہیں۔ (ذکرہ الحافظ فی فتح الباری:174/2) لیکن جب اس مسئلہ پر مناظروں کا بازار گرم ہوا، طویل بحثیں چلیں، اور فریقین کی طرف سے غلو اور شدت اختیار کی گئی، تو بعض شافعیہ نے بھی ترکِ رفع پر فساد کا حکم دے دیا، اور حنفیہ میں سے صاحب ’منیتہ المصلّی‘ نے رفع یدین کو مکروہ لکھ دیا، لیکن حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کی، کہ نہ شافعیہ کے مذہب میں ترکِ رفع مفسد صلوٰۃ ہے، نہ حنفیہ کے ہاں رفع مکروہ ہے۔‘‘ (درس ترمذی:26/2، مکتبہ دارالعلوم کراچی، طبع جدید 1431ھ ؍2010ئ)
مولانا موصوف نے نہ صرف یہ کہ نسخ کی بات نہیں کی، بلکہ کراہت رفع یدین کی بھی نفی کی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ رفع یدین مکروہ بھی نہیں ہے، جیسا کہ بعض حنفی احباب کا خیال ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
16۔  مولانا حافظ محمد حبیب اللہ ڈیروی​
ڈیروی صاحب دیوبندی مناظر اور کئی کتابوں کے مولف ہیں۔ اہل حدیث پر تنقید میں بڑے جری اور بے باک ہیں، جس کا شکوہ اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی تندی قلم سے تو اکابر ائمہ و علما بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔ خیر! یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ باوجود شدت و تعصب کے مولانا ڈیروی بھی رفع یدین کو منسوخ نہیں کہہ سکے۔ رفع یدین سے متعلق علماے احناف کے نقطہ ہاے نگاہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں:
’’مولف کتاب ہذا کے ہاں راجح اور مرجوح کا مسلک پسندیدہ ہے۔‘‘ (نور الصباح:ص30)
اگر نسخ رفع یدین کی کوئی قابل اطمینان دلیل ہوتی تو موصوف کبھی راجح مرجوح کی بات نہ کرتے۔
 
Top