• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نسوانی فتنے اور ان کی سنگینی!

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
ترجمہ بالکل غلط کیا گیا ہے ،
یہاں عربی زبان کے لفظ "عورۃ " کو اردو کی "عورت " سمجھ لیا گیا ہے ، جو مضحکہ خیز ہے ،
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے کلام میں "عورة مسلم " سے مراد " مسلمان مرد کا ستریعنی شرم گاہ ہے ،
عربی ڈکشنری میں "عورۃ " کا معنی لکھا ہے :
و العَوْرَةُ كلُّ ما يَسْتُرُهُ الإنسانُ استنكافًا أو حياءً
"جسم کا ہر وہ حصہ جسے انسان کراہت یا شرم کی وجہ سے چھپاتا ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درست ترجمہ کے ساتھ :

عن قيس إبن الحارث قال : قال سلمان الفارسي –رضي الله عنه لأن أموت ثم أنشر ثم أموت ثم أنشر ثم أموت ثم أنشر أحب إلي من أن أرى عورة مسلم أو أن يراها مني .
(الزهد لأحمد /192 ) ومصنف ابن ابی شیبہ
قیس ابن الحارث سے مروی ہے فرماتے ہیں، جناب سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، "مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں مرجاؤں پھرزندہ کیا جاؤں اور پھر موت آ جائے پھر زندہ کیا جاؤں پھر موت آ جائے پھر زندہ کیا جاؤں ،بجائے اس کے کہ میں کسی مسلمان کی شرمگاہ دیکھوں یا وہ میری پردے والی جگہ دیکھے"

مطلب یہ کہ مجھے کسی کی شرمگاہ دیکھنے کی بجائے کئی بار موت کے شدید تکلیف دہ عمل سے گزرنا پسند ہے ۔
مضحکہ خیزی والی تو کوئی بات نہیں.

أن يراها مني .
ھا ،،، کو دیکھتے ہوئے ترجمہ ترتیب دیا.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
عورت مرد کیلئے کتنا سنگین فتنہ بن سکتی ہے اس کیلئے بلیغ اور مؤثر تشبیہ


وَما أَبلغَ تشبيهه لِفِتنَةِ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ إذ قَالَ: " إِنَّ المَرأَةَ تُقبِلُ فِى صُورَةِ شَيطَانٍ، وَتُدبِرُ فِى صُورَةِ شَيطَانٍ "... .(صحیح مسلم ،کتاب النکاح، سنن ابوداؤد:2151)
اور اس سے بڑھ کر مردوں کے لیے عورتوں کے فتنہ کی بلیغ تشبیہ کیا ہو سکتی ہے؟ جو فرمایا :"بیشک عورت شیطان کی صورت میں آتی ہے اور شیطان کی صورت میں جاتی ہے."

اس حدیث کی شرح میں امام ابو زکریا یحیی بن شرف النووی(م 676 ھ) لکھتے ہیں :
قَالَ الْعُلَمَاءُ : علماء اس کا معنی یوں بیان فرماتے ہیں کہ؛
" مَعنَاهُ : الْإِشَارَةُ إِلَى الهَوَى وَالدُّعَاءِ إِلَى الفِتنَةِ بِهَا ، لِمَا جَعَلَهُ اللَّـهُ تَعَالَى فِي نُفُوسِ الرِّجَالِ مِنَ المَيلِ إِلَى النِّسَاءِ وَالِالتذَاذِ بِنَظَرِهِنَّ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِنَّ , فَهِيَ شَبِيهَةٌ بِالشَّيطَانِ فِي دُعَائِهِ إِلَى الشَّرِّ بِوَسوَسَتِهِ وَتَزيِينهِ لَهُ ".
" یہاں خواہش نفس اور عورت کےفتنے کی طرف دعوت کا اشارہ ہے. اسلئے کہ اللہ رب العزت نے مرد کے اندر عورتوں کی طرف میلان (جھکاؤ ) رکھا ہے، اورانہیں دیکھ کر اور ان سے تعلقات میں لذت کا جذبہ ودیعت کر رکھا ہے، اسی لئےعورت مرد کو شر کی طرف راغب کرنے کا وسوسہ ڈالنے اور برائی کو مرد کیلئے مزین کرکے پیش کرنے میں شیطان کے مشابہ ثابت ہوئی ہے."
 
Last edited:
Top