نصاری کی اللہ تعالی اور انبیاء کرامؑ کی شان میں گستاخی
حافظ ابن القیم " فرماتے ہیں:
یہ بات معلوم ہے کہ اس امت نصاری نے دو ایسی عظیم برائیوں کا ارتکاب کیا ہے، جس سے کوئی بھی عقل ومعرفت رکھنے والے راضی نہیں ہوسکتے۔
اول: مخلوق کے بارے میں غلو کرنا یہاں تک کہ اسے خالق کا شریک اور اس کا جزء بنادینا(2) اور اس کے ساتھ ایک اور معبود بنادینا، ساتھ ہی اس بات کا انکار کیا کہ وہ اس کے بندے ہیں۔
دوم: خالق کی تنقیص کرنا اور اسے گالی دینا، اور بہت ہی غلیظ وگندی باتوں سے اسے متصف کرنا، جیسا کہ ان کا باطل گمان ہے (اور اللہ تعالی تو ان کے اس قول سے بہت پاک وبلند ہے) کہ اللہ تعالی عرش و اپنی عظمت والی کرسی سے نازل ہوا اور ایک عورت کی فرج میں داخل ہوا، اور وہاں نوماہ پیشاب وخون وگندگی میں لپ پت رہا۔ پھر اس کے سبب سے رحم مادر کو نفاس لاحق ہوا، پھر جہاں سے داخل ہوا تھا وہیں سے خارج ہوا۔ نومولود بچہ تھا جو ماں کی چھاتیوں سے دودھ پیتا تھا، بچوں کے کپڑوں میں لپیٹا گیا، بستر پر لیٹا، جو روتا ہے اور بھوکا ہوتا ہے، پیاسا ہوتا ہے، بول وبراز کرتا ہے، جسے ہاتھوں اور کاندھوں پر اٹھایا جاتا ہے۔پھر یہود نے اسے تھپڑ تک رسید کرکے اس کے ہاتھ باندھ کر اس کے چہرے پر تھوک کر بندھے ہاتھوں دھکا دیتے ہوئے کھلم کھلا سب چور ڈاکوؤں کے سامنے پھانسی پر چڑھا دیا۔انہی کانٹوں بھرا تاج پہنا دیا، بڑی سخت اذیت کا مزہ چکھایا، یہ ہے ان کے نزدیک معبود برحق جس کے ہاتھ میں تمام جہانوں کی باگ ڈور ہے! یہ ہے ان کا معبود ومسجود!
اللہ کی قسم! یہ تو ایسی قبیح ترین گالی ہے جو ان سے پہلے انسانیت میں سے کسی نے نہ دی ہوگی اور نہ بعد میں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
’’ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا، أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا ‘‘ (مریم: 90-91)
(قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے اور زمین پھٹ پڑے اور پہاڑ ٹل جائیں کہ انہوں نے رحمن کی اولاد قرارد ی)
اور اس کے رسولﷺنے اپنے رب کی نسبت سے اسے پاک قرار دیتے ہوئے فرمایا جیسا کہ ان کے بھائی مسیحؑ نے بھی اس باطل کا ردفرماتے ہوئے اپنے رب کو پاک قرار دیا تھا،فرمایا آپﷺنے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’ شَتَمَنِي ابْنُ آدَمَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ذَلِكَ. وَ كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ذَلِكَ. أَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ ، فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا، وَأَنَا الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي كَفُّوا أَحَدٌ،وَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ. فَقَوْلُهُ: لَنْ يُعِيدَنِي كَمَا بَدأنِي. وَلَيْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهِ‘‘ (3)
(مجھے ابن آدم گالی دیتا ہے حالانکہ اسے یہ قطعاً زیب نہیں دیتا۔ اور ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ بھی اسے بالکل زیب نہیں دیتا۔ مجھے گالی دینا یہ ہےکہ وہ کہتا ہے: اللہ نے اولاد اختیار کی، جبکہ میں تو احد (اکیلا)، صمد(بےنیاز) ہوں، جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ کسی سے جنا گیا، اور میرا ہمسر بھی کوئی نہیں۔ اور مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے وہ مجھے دوبارہ اس طرح زندہ نہیں کرے گا جیسے پہلے پیدا کیا تھا، حالانکہ دوبارہ تخلیق کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل تو نہیں)۔
عمر بن خطاب اس امت نصاری کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ أهينوهم، ولا تظلموهم، فلقد سبوا الله عز وجل مسبة ما سبه إياها أحد من البشر‘‘ (ان کی اہانت کرو (یعنی ذلیل سمجھو انہیں) اوران پر ظلم نہ کرو، بے شک انہوں نے اللہ تعالی کو ایسی گالی دی ہے جو انسانیت میں سے کبھی کسی نے نہیں دی)۔
اللہ کی قسم!
بت پرست لوگ باوجویکہ درحقیقت اللہ تعالی اور اس کے رسولوں کے دشمن ہیں اور کفر میں سب سے بدتر ہیں مگر پھر بھی وہ اس بات سے بالکل بھی راضی نہیں کہ ان کے معبودات جو کہ شجر وحجر اور لوہا وغیرہ ہیں کو ایسے قبیح اوصاف سے متصف کریں جس سے اس امت نے رب العالمین الہ السماوات والارضین کو متصف کیا۔ ان بت پرست مشرکوں کے دلوں میں اللہ تعالی کی شان وعظمت اس سے بہت بلند ہے کہ اس قوم کے جیسے اوصاف سے بلکہ جو اس کے قریب تک بھی ہوں سے متصف کیا جائے۔
ان مشرکین کا شرک تو محض یہ تھا کہ وہ اللہ کی ہی مخلوق ومربوب کی عبادت اس زعم میں کرتے تھے کہ یہ انہیں اللہ تعالی کے قریب کردیں گی۔اپنے ان معبودوں کی کسی بھی چیز کو وہ اللہ تعالی کا ہمسر، نظیر یا اس کی اولاد نہیں گردانتے تھے۔ لہذا جو لعنت اللہ تعالی کی اس قوم پر ہوئی وہ کسی اور کے مقدر میں نہیں آئی۔
اس بارے میں جو ان کا عذر ہے وہ تو ان کے اس قول سے بھی زیادہ قبیح ترین ہے کیونکہ ان کے اس اعتقاد کی اصل یہ ہے کہ سیدنا آدمؑ سے لے کر سیدنا مسیحؑ تک انبیاء کرامؑ کی روحیں جہنم میں ابلیس کی جیل میں تھیں، اورآدمؑ کی اس ممنوعہ درخت کو کھا لینے کی غلطی کی بناء پر سیدنا ابراہیم، موسی، نوح، صالح وھودؑ اس جہنم کی جیل میں مبتلائے عذاب تھے۔ پھر اس کے بعد جب کبھی بھی بنی آدم میں سے کوئی فوت ہوتا تو اسے ابلیس پکڑ کر اس جیل میں بند کردیتا ان کے والد سیدنا آدمؑ کے گناہ کی سزا میں۔ پھر جب اللہ تعالی نے اپنی رحمت فرمانے اور انہیں اس عذاب سے نجات دلانےکا ارادہ فرمایا تو ابلیس کے خلاف ایک حیلہ سازی کی۔ پس وہ اپنی عظمت والی کرسی سے نازل ہوا۔اور سیدہ مریمؑ کے پیٹ میں جاگھسا یہاں تک کہ وہیں سے پیدا ہوا پل بڑھ کر بڑا آدمی بن گیا۔ اور پھر اسی (اللہ) نے اپنے دشمنوں یہود کو اپنے آپ کو پکڑوا دینے یہاں تک کہ سولی پر چڑھا دینے اور سر پر کانٹوں بھرا تاج سجادینے کی توفیق دی۔ پس اس کے ذریعہ انبیاء ورسل کو نجات بخشی اور ان پر اپنی جان وخون کو فدا کردیا اور اس نے اولاد آدم کی رضا کی خاطر اپنا خون بہا دیاکیونکہ آدم کا گناہ ان سب کی گردنوں میں باقی تھا۔ پس ان سب کو اس گناہ وعذاب سے نجات دلوانے کے لئے اس نے اپنے دشمنوں یہود کے ذریعہ اپنے آپ کو پھانسی دلوائی، ہاتھ پیر بندھوائے، تھپڑ کھائے وغیرہ۔(نعوذباللہ من ذلک)۔ الا یہ کہ جو ان کے سولی چڑھنے کا انکار کرتے ہیں یا اس بارے میں شک میں مبتلا ہیں یا کہتےہیں کہ معبود تو ان باتوں سے پاک وبلند ہوتا ہے۔ تو ان کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی ابلیس کے قیدخانے میں مبتلائے عذاب رہے گا یہاں تک کہ اس بات کا اقرار کرے کہ معبود برحق خود پھانسی چڑھا، تھپڑ کھائے اور ہاتھ پیر بندھوائے۔
چناچہ انہوں نے معبود برحق کی جانب ایسی ایسی گندی باتیں منسوب کی جو ایک ذلیل ترین ونیچ ترین انسان کے لئے بھی سننے کو کوئی گوارا نہیں کرتا کہ وہ اپنے غلاموں یا زیردست لوگوں سے ایسا سلوک کرے، یہاں تک کہ بت پرست بھی اپنے بتوں کے لئے ایسی باتیں منسوب کرنا گستاخی خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالی کو اس بات میں بھی جھٹلایا کہ اس نے سیدنا آدمؑ کی توبہ قبول فرماکر ان کی غلطی کو معاف فرمادیا تھا۔ اور اللہ تعالی کی جانب قبیح ترین ظلم کو منسوب کیا کہ اس نے اپنے انبیاء ورسل اور اپنے اولیاء کو ان کے باپ آدمؑ کی غلطی کی پاداش میں جہنم رسید کیا ہوا ہے۔اور اس قدر جہالت پر مبنی گری ہوئی بات اللہ تعالی کی طرف منسوب کی کہ اس نے ان سب کو نجات دلوانے کے لئے پہلے اپنے آپ کو دشمنوں کے ہاتھوں پکڑوایا یہاں تک کہ انہوں نے اسے قتل کردیا، سولی پر چڑھا دیا، اس کا خون بہا دیا۔ یعنی معبود برحق کے لئے اس درجہ عاجز ہونا منسوب کیا کہ وہ محض اپنی قدرت سے انہیں نجات نہیں دلاسکتا تھا کہ اسے مجبوراً شیطان کے ساتھ یہ حیلہ کرنا پڑا!اور غایت درجہ نقص کو اس کی طرف منسوب کیا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے بیٹے کو دشمنوں کے ہاتھوں میں دے دے اور وہ جو چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں!۔
الغرض، ہم کسی امت کو اس امت سے بدتر نہیں پاتے کہ جو اپنے معبود کو ایسی گالی دے جو اس امت نے دی ہے، جیسا کہ سیدنا عمر کا قول ہے
’’ إنهم سبوا الله مسبة ما سبه إياها أحد من البشر‘‘ (انہوں نے اللہ تعالی کو ایسی گالی دی ہے جیسی انسانیت میں سے کسی نے اسے گالی نہیں دی ہوگی)۔
بعض آئمہ اسلام اگر کسی صلیبی کو دیکھ لیتے تو اس سے اپنی آنکھیں پھیر لیتے، اور فرماتے:
’’ لا أستطيع أن أملأ عينى ممن سب إلهه ومعبوده بأقبح السب‘‘ (میں ایسے شخص کے چہرے کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا کہ جو اپنے معبود والہ کو قبیح ترین گالی دیتا ہو)۔
اسی لئے عقل مند مسلم بادشاہوں نے کہا کہ:
’’ إن جهاد هؤلاء واجب شرعا وعقلا، فإنهم عار على بنى آدم، مفسدون للعقول والشرائع‘‘ (ان لوگوں کے خلاف جہاد شرعاً وعقلاً واجب ہے، کیونکہ یہ بنی آدم کے لئے عار کا سبب ہیں، جو عقل وشریعت میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں)۔ (إغاثة اللهفان من مصايد الشيطان ص 282-284)