- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
نصیحت و عار میں فرق
الحمد للہ رب العالمینیہ کچھ مختصر و جامع کلمات ہیں، جن کے ذریعے ’نصیحت‘ اور ’تعییر‘ یعنی ’عار دلانے‘ میں فرق واضح کرنا مقصود ہے، کیونکہ یہ دونوں اس بات میں تو مشترک ہیں کہ انسان کو ایسی بات یاد دلائی جاتی ہے، جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔
یاد رکھیے اگر محض عیب جوئی، نقص اور مذمت کی خاطر کسی کے سامنے ناپسندیدہ بات کی جائے، تو یہ بالکل حرام ہے ۔
ہاں البتہ اگر اس میں مسلمانوں کی بالعموم یا بعض مسلمانوں کی بالخصوص کوئی مصلحت اور فائدہ ہو، تو ایسا کرنا صرف یہ کہ حرام نہیں بلکہ یہ ایک اچھا کام ہے ۔
علمائے حدیث نے کتبِ جرح وتعدیل میں یہ باتیں تفصیل سے بیان کی ہیں کہ راویوں کی جرح اور غیبت میں کئی ایک فروق ہیں، اور اس حوالے سے انہوں نے کئی ایک سادہ لوح یا جاہل لوگوں کے اعتراضات و شبہات کی مکمل تردید کی ہے ۔
رواۃ پر جرح اور ا ن میں کھوٹے کھرے کی تمیز کے لیے تنقید کرنے اور ایسے شخص کی غلطی بیان کرنے میں کوئی فرق نہیں، جو کتاب وسنت میں سے کسی کے معنی ومفہوم میں غلطی کرے یا تاویل میں مبتلا ہوجائے، کیونکہ مقصد یہی ہے کہ دین کے معاملے میں کسی کی غلطی کی اقتدا و پیروی نہ کی جائے، اس معاملے میں علما کا اجماع ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ تفسیر، شروح حدیث فقہ اور دیگر علوم شریعت میں علما کی تصنیفات مناظرات و ردود سے بھری ہوئی ہیں، اس میں سلف و خلف بلکہ صحابہ و تابعین جیسی ہستیوں کے اقوال کی تغلیط بھی موجود ہوتی ہے۔ سب کے ہاں یہ رویے موجود ہیں، کبھی کسی نے اس کو کسی پر طعن یا اس کی تنقیص بنا کر پیش نہیں کیا، إلا کہ کوئی مصنف زیادہ ہی سخت زبان استعمال کرتا ہوں، اور آداب گفتگو سے نکل جائے تو اس کے اس غلو والے رویے کی تردید ہوتی ہے، لیکن خود اس کے غلط بات کے رد کی مذمت نہیں کی جاتی، کیونکہ شرعی دلائل و براہین کی عزت و حرمت کا یہی تقاضا ہے، اور تمام علمائے دین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے کلمہ حق کا اظہار اور فوقیت ہر صورت ضروری ہے ۔
تمام متقدم ومتاخر علما اس بات کے بھی معترف رہے ہیں کہ علم کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کسی کے بس کی بات نہیں، اور نہ ہی ایسا کسی کا دعوی رہا، یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین حق بات ہر ایک سے قبول کرنے کو تیار رہتے تھے، چاہے بتانا والا ان سے قدر ومنزلت یا عمر میں چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، اور اسی بات کی وصیت ونصیحت وہ اپنے شاگردوں اور حلقہ احباب کو کرتے رہے کہ حق بات کو قبول کیا جائے ، چاہے وہ کسی اور قول و فعل میں ہی موجود کیوں نہ ہو۔
جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہر کی حد بندی سے متعلق فیصلہ کیا، لیکن ایک عورت نے قرآن کریم کی آیت ’وآتیتم إحداہن قنطارا‘ پیش کرکے غلطی کی تصحیح کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فورا اپنی بات سے رجوع کیا، اور فرمایا: اس معاملے میں عورت کی بات درست نکلی، جبکہ مرد سے غلطی ہوئی۔ اور ان سے یہ بات بھی مروی ہے ، اکثر کہا کرتے تھے کہ ہر کوئی عمر سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔
بعض مشہور اہل علم وفضل مسئلہ بیان کرکے کہا کرتے تھے: یہ ہماری رائے ہے، اگر کوئی اس سے بہتر رائے لے کر آئے گا، تو ہم اس کی بات کو دل و جان سے قبول کریں گے۔
امام شافعی رحمہ اللہ، اس معاملے میں بہت تاکید کرتے، اپنے تلامذہ و حلقہ احباب کو ہمیشہ یہ وصیت کرتے کہ قبولِ حق اور اتباعِ سنت از بس ضروری ہے، اگر ہماری بات اس کے خلاف ہو تو اسے دیوار سے دے مارا جائے۔
امام صاحب اپنی کتابوں کے بارے لکھا کرتے تھے: یقینا ان میں کتاب وسنت کے مخالف باتیں ہوں گی، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ولوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا. اگر قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں اختلاف ہوتا۔
اس سے بھی زیادہ بلیغ بات یہ فرماتے : جب بھی مناظرہ کرتا ہوں، مقصود تلاشِ حق ہوتی ہے، چاہے وہ میری زبان سے ادا ہوجائے یا مخالف کی زبان سے۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا کہ حق کا اظہار ہو، قطع نظر اس کے کہ قائل خود امام ہیں، یا ان کا مدِ مقابل۔
جب انسان کی یہ حالت ہو تو پھر وہ اپنی زندگی یا موت کسی بھی وقت اپنی غلطی یا مخالفتِ سنت واضح ہونے کو ناگوار نہیں سمجھتا۔
ہمارا یہی حسن ظن دیگر ائمہ اسلام کےبارے میں بھی ہے، کیونکہ وہ اسلام کی مدد و نصرت اور دفاع کرنے والے تھے، اگرانہیں حق کسی اور کے ہاں نظر آیا تو فورا اسے قبول کرلیا، بلکہ بعض دفعہ اگر مخالف کی دلیل کمزور بھی محسوس ہوئی تو اپنے استدلال کی بجائے اس کی دلیل کی قدر کیا کرتے تھے۔
امام احمد اسحاق بن راہویہ کی مدح سرائی کیا کرتے تھے، اور ساتھ فرماتے کہ اگر وہ ہم سے بعض اشیاء میں اختلاف کرتے ہیں، تو کوئی بات نہیں، علمی اختلاف تو ہمیشہ ہوتا ہی رہتا ہے ۔ لوگ امام صاحب کے سامنے اسحاق وغیرہ ائمہ کے اقوال و استدلالات بیان کرتے رہتے تھے، لیکن امام صاحب کی نظر میں وہ کمزور بھی ہوتے توان پر ناپسندیدگی کا اظہار نہ کرتے، گو ان سے موافقت بھی نہ کیا کرتے۔
حاتم الاصم کے بارے میں آتا ہے ، ان سے کسی نے کہا کہ آپ عجمی ہیں، صحیح طرح سے عربی بھی نہیں بول سکتے، لیکن پھر بھی آپ مد مقابل پر غالب ہی رہتے ہیں، اس کا کیا راز ہے؟ فرمانے لگے: تین چیزیں ہیں، جب میرا مد مقابل درست بات کرتا ہے تو میں خوشی کا اظہار کرتا ہوں، جب اس سے غلطی ہوجاتی ہے تو مجھے دکھ ہوتا ہے، اور میں اس کو کوئی ایسی بات نہیں کرتا جو اس کو ناگوار گزرے۔ امام احمد کے سامنے جب یہ بات کی گئی، تو اس کی تحسین فرمائی، اور کہنے لگے: یہ کس قدر عقلمند آدمی تھا۔
لہذا ثابت ہوا کہ شرعی دلائل کی روشنی میں کمزور باتوں کا رد، اور حق کے بیان کو علما کبھی بھی ناپسند نہیں کرتے تھے، بلکہ اسے پسند کرتے تھے، اور ایسا کرنے والے کی مدح و تعریف کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس تنقید اور بیانِ حق کو غیبت نہیں سمجھا جائے گا۔ لیکن فرض کریں اگر کوئی خلاف ِحق اپنی غلطی کے بیان کو ناگوار بھی سمجھتا ہے، تو اس کی ناپسندیدگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا، کیونکہ اظہارِ حق کو ناپسندیدہ خیال کرنا خصلتِ حمیدہ نہیں ہے، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اظہارِ حق کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے، وہ اس کی موافقت میں ہویا مخالفت میں۔
بلکہ یہ اللہ ،اس کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، دین اور مسلمانوں کے عام و خاص کے لیے نصیحت کے قبیل سے ہے، اور یہی دینِ حق ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ۔
لہذا علم و ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے گزرے علما کی غلطی واضح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، اور نہ یہ فعل قابل ملامت ہے، گو اس میں بعض دفعہ غلطی کی نوعیت کے حساب سے الفاظ میں سختی بھی آجائے تو کوئی بات نہیں۔
لیکن اگر مراد کسی کا عیب ظاہر کرنا، یا اس کے علم یا قدر ومنزلت کی تنقیص ہو تو یہ حرام ہے، چاہے اس قسم کارد کسی کے سامنے ہو یا اس کی عدم موجودگی میں، اس کی زندگی میں ہو یا وفات کے بعد۔ یہ وہ مذموم فعل ہے، جس کی اللہ تعالی نے مذمت فرمائی اور اسے ہمزو لمز میں شمار کیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کے بارے میں فرمایا ہے:
اے لوگو! جس کی زبان نے کلمہ پڑھا، لیکن دل مسلمان نہیں ہوا، مسلمانوں کو تکلیف نہ دو، ان کی عیب جوئی نہ کرو، جو مسلمانوں کے عیب کی تلاش میں نکلتا ہے، اللہ تعالی اس کا پردہ فاش کرتا ہے، اور جس کا اللہ پردہ فاش کرنا چاہیں، وہ گھر کے کسی کونے کھدرے میں بھی چھپ جائے تو اللہ تعالی اس کو ذلیل و رسوال کردیتے ہیں۔
لہذا علما کا ادب و احترام اور قدر ومنزلت کا خیال رکھنا ضروری ہے، البتہ اہلِ بدعت و ضلال اور جعلی علما کی جہالت کا بیان، ان کے عیوب کا اظہار جائز ہے، تاکہ لوگ ان کی فتنہ پردازیوں میں نہ آجائیں، گو اس کتاب میں اس مسئلے کا موقع و محل نہیں ہے ۔
نصیحت کی اقسام
جس کےبارے میں معلوم ہو کہ وہ علما پر تنقید نصیحت کے طور پر کر رہا ہے، لازم ہے کہ اس کے ساتھ عزت و احترام اور تعظیم کامعاملہ کیا جائے، جیساکہ دیگر جلیل القدر ائمہ مسلمین کا خیال رکھا جاتا ہے۔لیکن جس کا ارادہ علما کی تنقیص و مذمت ، ان کے عیوب کا اظہار ہو، ایسا شخص ڈانٹ ڈپٹ کا مکمل استحقاق رکھتا ہے، تاکہ ایسے لوگ اس قسم کے رذائلِ محرمہ سے باز آجائیں۔
تنقید کرنے والے کا ہدف و مقصد بعض دفعہ وہ خود بیان کردیتا ہے، اور بعض دفعہ قرائن اس کی نیت کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں۔ صاحبِ علم ودین اور علما کی توقیر و احترام کرنے والے شخص کا اسلوبِ گفتگو بھی علما والا ہوتا ہے ۔ رہی بات تصنیف و تحریر کی، تو اس میں تو ہر حال میں صاحب علم کی تنقید کو نصیحت پر محمول کرنا چاہیے، ایسی صورت میں ایسے شخص کے بارےمیں برا سوچنا بدظنی میں آتا ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
وَمَنْ يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (النساء:112)
جو غلطی و گناہ کرکے کسی معصوم کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے، ایسا شخص بہتان طرازی کا مرتکب اور اثم مبین کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔
جہاں برائی کی علامتیں اور قرائن واضح نہ ہوں، وہاں بدظنی کرنا حرام ہے، لہذا ایسا شخص خود گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اور دوسرے کو بلا دلیل غلط سمجھنے کا مرتکب ہوتا ہے ، بلکہ ایسا شخص اگر بہ کثرت دوسروں سے متعلق بہتان طرازی و زبان درازی ، غیبت و حسد، لالچ و طمع جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوجائے تو قوی خدشہ ہے کہ وہی اس وعید کا مستحق بن جائے گا۔ اور ایسی صفات کا حامل شخص علما کے لیے کسی بیماری سے کم نہیں۔
اور اگر کسی کی تنقید دوسری قسم یعنی محض تنقید و عیب جوئی کے قبیل سے ہو تو ایسا شخص ذلت و رسوائی کا مستحق ہے۔
ہاں البتہ اگر کسی کی تنقید میں اچھی بری کسی قسم کی علامتیں بھی موجود نہ ہوں تو ایسے شخص کی بات کو حتی الامکان بہتر سے بہتر انداز سے لینا چاہیے، اسے کوئی غلط سے غلط رخ دینا جائز نہیں ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد عالی شان ہے:
(لا تظن بكلمة خرجت من أخيك المسلم سوءاً وأنت تجد لها في الخير محملاً)
اگر کوئی مناسب عذر و تاویل ممکن ہو تو اپنے مسلمان بھائی کی بات کو غلط رخ نہ دو۔
اسلوبِ نصیحت
کسی کے سامنے اس کی غلطی بیان کرنے کا مقصد اگر نصیحت ہو تو یہ مستحسن عمل ہے، حتی کہ بعض سلف صالحین تو یہاں تک کہا کرتے تھے: (لا تنصحني حتى تقول في وجهي ما أكره)
تم تب تک میرے خواہ نہیں ہوسکتے، جب تک میری غلطی مجھے نہ بتاؤ۔
لہذا کسی کو اس کی غلطی بتانا تاکہ وہ اس سے کنارہ کشی کرلے یا اگر کوئی عذر ہے تو بیان کردے، یہ تو اچھی بات ہے، لیکن محض زجر و توبیخ کی غرض سے یہ کام کرنا مذموم وقبیح فعل ہے ۔ بعض سلف صالحین سے کہا گیا: کیا آپ کو پسند ہے کہ کوئی آپ کے عیوب آپ کو بتائے؟ فرمایا:
(إن كان يريد أن يوبخني، فلا)
اگر مراد زجر و توبیخ ہو تو مجھے پسند نہیں۔
لہذا گناہ گار کو عار دلانا اور محض زجر وتوبیخ کرنا فعلِ مذموم ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف تو زانیہ عورت کو رجم کی سزا دے رہے تھے، لیکن دوسری طرف منع کر رہے تھے کہ اس کو گناہ اور غلطی پر عار دلائی جائے یا زجر وتوبیخ کی جائے۔
سنن الترمذی میں مرفوع حدیث ہے:
«من عيَّر أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله»
جو اپنے بھائی کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے،اُسے تب تک موت نہیں آتی، جب تک خود اس میں مبتلا نہ ہوجائے۔
علما نے اس کو ایسے شخص کے متعلق بیان کیا ہے، جو گناہ سے توبہ تائب ہوچکا ہو۔
فضیل بن عیاض فرماتے ہیں:
(المؤمن يستر وينصح والفاجر يهتك ويُعيِّر)
مومن نصیحت و پردہ پوشی کرتا ہے، جبکہ فاجر اعلانیہ زجر وتوبیخ کرتا ہے۔
گویا فضیل بن عیاض نے نصیحت و عار میں فرق بیان کردیا ہے کہ پہلی میں پردہ پوشی ہوتی ہے، جبکہ دوسری میں تشہیر ہوتی ہے ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے : (من أمر أخاه على رؤوس الملأ فقد عيَّره)
جو اپنے بھائی کو سب کے سامنے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی نصیحت عار کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
سلف صالحین ایسی صورت حال میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ سے بھی اجتناب کیا کرتے تھے، بلکہ کوشش کرتے کہ یہ بات آپس میں ہی زیر بحث آئے، کیونکہ ناصح کا اصل ہدف تو برائی کا ازالہ ہوتا ہے، نہ کہ کسی کے عیوب و نقائص کی تشہیر۔ جبکہ برائیوں اور کمیوں کوتاہیوں کی تشہیر کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے، ارشاد گرامی ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النور: 19]
جو مومنوں میں فحاشی و عریانی پھیلنے کے خواہاں ہیں، ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے، یقینا اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔
جبکہ عیبوں کی پردہ پوشی میں احادیث تو بے شمار ہیں۔
بعض علما نے امر بالمعروف کرنے والے شخص کو نصیحت کی کہ:
(واجتهد أن تستر العصاة فإن ظهور عوراتهم وهن في الإسلام)
مکمل کوشش کرو کہ گناہ گاروں کے عیوب پوشیدہ رہیں، کیونکہ گناہوں کا اظہار اسلام میں کمزوری بن کر نظر آتا ہے۔
فحاشی کی اشاعت کو عار سے ملا کر اس لیے بھی ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ دونوں ہی فاجروں کی خصلتیں ہیں، کیونکہ فاجر کا مقصد گناہوں کا خاتمہ، یا کسی کی کمیوں کوتاہیوں کا ازالہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کو عیب اچھالنے ، نقائص کے اظہار اور ہتکِ عزت سے غرض ہوتی ہے، تاکہ اس شخص کا دنیاوی نقصان ہو۔
جبکہ ناصح کا ہدف گناہوں کا خاتمہ اور مسلمانوں سے نقائص کا ازالہ ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ
{لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [التوبة: 128]
یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بہت خیرخواہ، اور تم سے نرمی وشفقت سے پیش آنے والے ہیں۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا:
{مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا} [الفتح: 29]
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ محمد رضی اللہ عنہم آپس میں ایک دوسرے کے لیے بہت نرم خو ہیں۔
اور مسلمانوں کی خوبی بیان کی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے خیر خواہی و شفقت سے رہتے ہیں۔[1]
فاجر کو تشہیرِ عیوب پر اس کی قوت و طاقت ، اجڈ پن ، اور مسلمان بھائی سے دشمنی کا عنصر ابھارتا ہے، اور یہی وہ صفت ہے جس کی بنا پر شیطان بنی آدم کے لیے کفر ، فسق اور عصیان کی تزئین و آرائش کرکے پیش کرتا ہے، تاکہ سب کے سب دوزخ کا ایندھن بن جائیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
{إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ} [فاطر: 6]
شیطان تم سب کا دشمن ہے، اسے دشمن سمجھتے رہو، یہ چاہتا ہے کہ تم سب اہل جہنم میں سے ہوجاؤ۔
اور اللہ تعالی ہمارے نبی آدم علیہ السلام کے ساتھ شیطان کے مکر و فریب کا قصہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: {يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا} [الأعراف: 27]
شیطان آدم وحوا سے ان کا لباس چھیننا چاہتا تھا۔
یوں نصیحت و فضیحت دونوں کے درمیان خوب فرق واضح ہوجاتا ہے، ہر صاحبِ عقلِ سلیم ان دونوں میں نمایاں حدِ فاصل سمجھ سکتا ہے ۔
عار دلانے والے کی سزا کا بیان
جو اپنے مسلمان بھائی کی برائیوں کو اچھالتا، اس کی عجیب جوئی کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے عیوب کو بھی فاش کردیتے ہیں چاہے وہ اپنے گھر میں چھپ چھپا کر بیٹھا رہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث کئی ایک طُرُق سے مروی ہے، امام احمد، ابو داود، ترمذی وغیرہ نے کئی ایک کا ذکر کیا ہے۔ترمذی کی حدیث ہے، واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تُظْهِر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليك»
اپنے بھائی کو مشکل میں دیکھ کر خوشی کا اظہار نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالی اس کی بجائے تمہیں اس مصیبت میں مبتلا کردیں۔
اسی طرح حضرت معاذ سے مرفوعا بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من عيَّر أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله»
جو اپنے بھائی کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے، تب تک مرتا نہیں جب تک خود اس میں مبتلا نہ ہوجائے۔ ( لیکن اس حدیث کی سند منقطع ہے۔)
حسن بصری فرماتے ہیں: یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ جو کسی مومن کو توبہ کے بعد اس کے گناہ کی عار دلاتا ہے، اللہ تعالی اُس کو بھی اِس گناہ میں مبتلا کردیتے ہیں۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ذرا کمزور اسناد سے مروی ہے:
«البلاء موكل بالمنطق فلو أن رجلاً عيَّر رجلاً برضاع كلبة لرضعها»
آزمائشیں زبان درازی کی بنیاد پر بھی آتی ہیں، اگر کوئی کسی کو کتیا پالنے پر بھی طعنہ مارے گا، تو اسے یہ کام خود کرنا پڑ جائے گا۔
اس قسم کے مزید کئی ایک اقوالِ زریں سلف صالحین سے مروی ہیں۔
جب ابن سیرین قرض تلے دب گئے، تو فرمانے لگے:
(إني أعرف الذنب الذي أصابني هذا عيَّرت رجلاً منذ أربعين سنة فقلت له: يا مفلس)
مجھے اس آزمائش کی وجہ معلوم ہورہی ہے، میں نے آج سے چالیس سال قبل ایک شخص کو مفلس وفقیر کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
عار و تعییر کے متعلق کچھ باتیں
عار کی بد ترین صورت یہ ہے کہ انسان نصیحت و خیرخواہی کے قالب میں تشہیرِ عیوب اور عار دلانے کا وظیفہ سرانجام دے رہا ہو، ظاہر یہ کیا جارہا ہو کہ مثبت تنقید کی جارہی ہے، لیکن اندر سے نیت تنقیص و عار اور اذیت دینے کی ہو، یہ منافقین کی خصلت ہے، سورۃ براءت (توبہ) میں جب منافقین کی چیرہ دستیوں سے نقاب کشائی کی گئی، ان کے افعال مذمومہ کو بیان کیا گیا، تو اس فعلِ رذیل کا بھی وہاں ذکر موجود ہے، اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:{وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ} [التوبة: 107]
گویا مسجد کی تعمیر جیسا عظیم عمل مومنوں میں فتنہ وفساد کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کیا گیا۔
مزید ارشاد گرامی ہے:
{لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} [آل عمران: 188]
اپنے کمالات پر بغلیں بجانے والے، نہ کردہ کاموں کا کریڈٹ لینے والوں کو عذات سے محفوظ خیال نہ کریں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
صحیحین وغیرہ میں ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ بیان کرتے ہیں، یہ آیت یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی تھی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے، کچھ اور بتایا، اور بعد میں اس کتمانِ حق پر بغلیں بجائیں اور آپس میں داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کئی ایک منافقین غزوات سے پیچھے رہنے کے اوٹ پٹانگ بہانے تراش لیتے تھے، اور مسلمانوں کی واپسی پر ان کے ساتھ شریک ہو کر جہاد کی عظمت و فوائد کے گن گاتے تھے، گویا جو کیا ہی نہیں، اس پر داد و تحسین چاہتے تھے۔
تو یہ منافقانہ عادت ہے کہ انسان بظاہر کسی اچھے کام کی آڑ لے کر اس کی تعریف و تحسین سنتا کرتا رہے، لیکن اصل میں اس اچھے فعل کے پردے میں اپنے پوشیدہ عزائم کی تکمیل کا خواہاں ہو، اس طرح بظاہر وہ اچھے لوگوں میں بھی شامل نظر آتا ہے، اور اندر سے برائی میں بھی سرگرم عمل ہوتا ہے ، جس شخص کی اوقات و ہدف یہ ہو، وہ یقینا منافقین سے متعلق ان آیات میں داخل اور عذاب الیم کا حقدار ہے ۔
اس کی صورت یوں بھی ہوسکتی ہے کہ ایک شخص کسی کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے، اس سے حسد و دشمنی میں مبتلا ہے، یا مال و دولت اور جاہ و منصب میں اس سے آگے بڑھنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے وہ اس کی کوئی علمی و دینی کمزوری تلاش کرے، اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی تشہیر کرتا پھرے کہ فلاں بندے میں فلاں خرابی پائی جاتی ہے، کسی عالم دین کے حلقہ احباب اور معتقدین میں جاکر کہے کہ فلاں بندے نے تمارے عالم اور شیخ کی شان میں گستاخی اور اس کی عظمت کی تنقیص کرنے کی کوشش کی ہے ، جبکہ میں اس عالم کے دفاع اور تعظیم میں اس شخص کا رد وتردید کر رہا ہوں، جو ظاہر ہے ایک نیکی کا کام ہے، اور لوگ دھوکا کھاجائیں گے کہ واقعتا یہ معاملہ علم و تحقیق اور دفاع علماء کا ہے، حالانکہ یہ بظاہر ناصح نظر آنے والا دو قبیح و حرام کاموں میں مبتلا ہورہا ہے:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اپنے ناپسندیدہ عالم کی تنقید کو بدظنی پر محمول کررہا ہے، حالانکہ وہ نصیحت کے قبیل سے بھی ہوسکتی ہے ۔ اور دوسرا: وہ اپنے بغض کے اظہار کے لیے علم و تحقیق جیسے مقدس مشغلہ کا سہارا لے رہا ہے ۔
بنی مروان اسی قسم کے ظلم و جور میں مبتلا تھے، لوگوں کواسی حیلے سے اپنی طرف متوجہ کرتے، اور حضرت علی ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم او ران کی آل و اولاد سے متنفر کرتے۔
جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، تو امت کو علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر خلافت کا حقدار نظر نہیں آتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے ان کی فی الفور بیعت کرنا شروع کردی، تو بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نفرت و بیزاری پیدا کرنے کے لیے قتل عثمان رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ والے معاملے کو آڑ بنایا، بلکہ علی رضی اللہ عنہ کو اس قتل میں ملوث قرار دینا شروع کردیا۔ جبکہ علی رضی اللہ عنہ حلف و یمین اٹھاتے رہ گئے کہ ان کا اس معاملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، لیکن ان لوگوں نے قتالِ علی کو ایک نیکی وتقوی کا تقاضا قرار دے کر محاذ کھڑا کردیا، اور اسی بنیاد پر بعد میں ان کے صاحبزادے بھی آزمائشیں جیلتے رہے، فتنہ پروروں نے اس معاملے کو بہت اچھالا، منبرومحراب اس غرض کے لیے استعمال کیے، حتی کہ وہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب ہوگئے کہ ہم علی اور اس کے خانوادے سے زیادہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خیر خواہ ہیں، ہم قصاص کا زیادہ حق رکھتے ہیں، یوں لوگوں نے ان کی بات پر لبیک کہا ، علی اور حسن و حسین سے لڑائیاں ہوئیں، اور سلطنت و استقرار بنوامیہ کی جھولی میں آرہا۔ ان میں سے بعض لوگ پردہ داری میں اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتے تھے کہ ہم میں سے کوئی بھی علی سے بڑھ کر عثمان کے قصاص کے لیے موزوں نہیں تھا، کسی نے کہا: تو پھر علی کو سب و شتم کا کیا معنی؟ کہا: یہ تو سیاسی مجبوریاں ہیں۔
مراد یہ ہے کہ اگر وہ یہ حیلہ استعمال نہ کرتے ، تو لوگ علی اور ان کے جلیل القدر فرزندان کو چھوڑ کر ان کی طرف کبھی بھی مائل نہ ہوتے، اور یوں بنو امیہ کی بادشاہت زوال پذیر رہتی اور لوگ ان کی اطاعت و فرمانبرداری سے دست کش ہوجاتے ہیں۔
اس فتنہ سے بچاؤ کا طریقہ
جو شخص اس قسم کے مکر وفریب کا نشانہ بن رہا ہو اسے اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنا چاہیے، اُس ذات سے مدد کا طلبگار ہنا چاہیے، اور صبر کا دامن تھام کر رکھنا چاہیے، کیونکہ عاقبت بہر صورت متقین کے لیے ہی ہوتی ہے، اللہ تعالی نے حضرت یوسف کا قصہ اور ان کی آزمائشوں کی تفصیل بیان کرنے کےبعد فرمایا ہے:{وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ} [يوسف: 21]
کہ ہم نے یوسف کو عزت وتمکنت عطا فرمائی۔
اور حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو مخاطب ہوئے فرمایا تھا:
{أَنَا يُوسُفُ وَهَذَا أَخِي قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا} [يوسف: 90]
میں یوسف اور یہ میرے برادر ہیں، اللہ نے ہم سب پر احسان کیا۔
اور موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو جب فرعون کی طرف سے اذیتوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا تو اللہ تعالی نے نصیحت فرمائی:
{اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا} [الأعراف: 128]
اللہ سے مدد طلب اور صبر کا مظاہرہ کیجیے۔
اللہ تعالی یہ بات بھی کھول کر بیان کر چکے ہیں کہ مکر و فریب خود کرنے والے پر ہی لوٹ آتا ہے:
{وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ} [فاطر: 43]
مکر کرنے والے پر ہی لوٹتا ہے ۔
{وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا} [الأنعام: 123]
ہم نے ہر بستی میں ایسے مجرمین بنائے ہیں، جو ان میں مکرو فریب کرتے ہیں، اورپھر خود ہی ان چالوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب ایک شخص نے اپنے بھائی کو مکر وفریب میں پھنسانا چاہا تو وہ خود ہی اس کا شکار ہوا، اور مظلوم کو اللہ تعالی نے حیرت انگیز طریقے سے سلامت رکھا۔ اگر ان تفصیلات
کو ذکر کرنا شروع کردیا جائے، تو یہ مختصر کتابچہ طوالت اختیار کر جائے گا، لہذا اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے،
والله الموفق للصواب وعليه قصد السبيل وهو حسبنا ونعم الوكيل وصلى الله على محمد وآله وصحبه وسلم تسليمًا.
ہدایت کی توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے، وہی سیدھا راستہ دکھانے والا، وہی ہمارے لیے کافی اور حقیقی کارساز ہے۔ اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل و اصحاب سب پر درود وسلام کی برکھا برسا۔
رشحاتِ قلم: حافظ ابن رجب
اردو ترجمانی: حافظ خضر حیات
3 ،4محرم 1441ھ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
[1] سوره عصر کی طرف اشارہ ہے۔
Last edited: