• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نصیحت و عار میں فرق

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نصیحت و عار میں فرق
الحمد للہ رب العالمین
یہ کچھ مختصر و جامع کلمات ہیں، جن کے ذریعے ’نصیحت‘ اور ’تعییر‘ یعنی ’عار دلانے‘ میں فرق واضح کرنا مقصود ہے، کیونکہ یہ دونوں اس بات میں تو مشترک ہیں کہ انسان کو ایسی بات یاد دلائی جاتی ہے، جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔
یاد رکھیے اگر محض عیب جوئی، نقص اور مذمت کی خاطر کسی کے سامنے ناپسندیدہ بات کی جائے، تو یہ بالکل حرام ہے ۔
ہاں البتہ اگر اس میں مسلمانوں کی بالعموم یا بعض مسلمانوں کی بالخصوص کوئی مصلحت اور فائدہ ہو، تو ایسا کرنا صرف یہ کہ حرام نہیں بلکہ یہ ایک اچھا کام ہے ۔
علمائے حدیث نے کتبِ جرح وتعدیل میں یہ باتیں تفصیل سے بیان کی ہیں کہ راویوں کی جرح اور غیبت میں کئی ایک فروق ہیں، اور اس حوالے سے انہوں نے کئی ایک سادہ لوح یا جاہل لوگوں کے اعتراضات و شبہات کی مکمل تردید کی ہے ۔
رواۃ پر جرح اور ا ن میں کھوٹے کھرے کی تمیز کے لیے تنقید کرنے اور ایسے شخص کی غلطی بیان کرنے میں کوئی فرق نہیں، جو کتاب وسنت میں سے کسی کے معنی ومفہوم میں غلطی کرے یا تاویل میں مبتلا ہوجائے، کیونکہ مقصد یہی ہے کہ دین کے معاملے میں کسی کی غلطی کی اقتدا و پیروی نہ کی جائے، اس معاملے میں علما کا اجماع ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ تفسیر، شروح حدیث فقہ اور دیگر علوم شریعت میں علما کی تصنیفات مناظرات و ردود سے بھری ہوئی ہیں، اس میں سلف و خلف بلکہ صحابہ و تابعین جیسی ہستیوں کے اقوال کی تغلیط بھی موجود ہوتی ہے۔ سب کے ہاں یہ رویے موجود ہیں، کبھی کسی نے اس کو کسی پر طعن یا اس کی تنقیص بنا کر پیش نہیں کیا، إلا کہ کوئی مصنف زیادہ ہی سخت زبان استعمال کرتا ہوں، اور آداب گفتگو سے نکل جائے تو اس کے اس غلو والے رویے کی تردید ہوتی ہے، لیکن خود اس کے غلط بات کے رد کی مذمت نہیں کی جاتی، کیونکہ شرعی دلائل و براہین کی عزت و حرمت کا یہی تقاضا ہے، اور تمام علمائے دین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے کلمہ حق کا اظہار اور فوقیت ہر صورت ضروری ہے ۔
تمام متقدم ومتاخر علما اس بات کے بھی معترف رہے ہیں کہ علم کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کسی کے بس کی بات نہیں، اور نہ ہی ایسا کسی کا دعوی رہا، یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین حق بات ہر ایک سے قبول کرنے کو تیار رہتے تھے، چاہے بتانا والا ان سے قدر ومنزلت یا عمر میں چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، اور اسی بات کی وصیت ونصیحت وہ اپنے شاگردوں اور حلقہ احباب کو کرتے رہے کہ حق بات کو قبول کیا جائے ، چاہے وہ کسی اور قول و فعل میں ہی موجود کیوں نہ ہو۔
جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہر کی حد بندی سے متعلق فیصلہ کیا، لیکن ایک عورت نے قرآن کریم کی آیت ’وآتیتم إحداہن قنطارا‘ پیش کرکے غلطی کی تصحیح کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فورا اپنی بات سے رجوع کیا، اور فرمایا: اس معاملے میں عورت کی بات درست نکلی، جبکہ مرد سے غلطی ہوئی۔ اور ان سے یہ بات بھی مروی ہے ، اکثر کہا کرتے تھے کہ ہر کوئی عمر سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔
بعض مشہور اہل علم وفضل مسئلہ بیان کرکے کہا کرتے تھے: یہ ہماری رائے ہے، اگر کوئی اس سے بہتر رائے لے کر آئے گا، تو ہم اس کی بات کو دل و جان سے قبول کریں گے۔
امام شافعی رحمہ اللہ، اس معاملے میں بہت تاکید کرتے، اپنے تلامذہ و حلقہ احباب کو ہمیشہ یہ وصیت کرتے کہ قبولِ حق اور اتباعِ سنت از بس ضروری ہے، اگر ہماری بات اس کے خلاف ہو تو اسے دیوار سے دے مارا جائے۔
امام صاحب اپنی کتابوں کے بارے لکھا کرتے تھے: یقینا ان میں کتاب وسنت کے مخالف باتیں ہوں گی، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ولوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا. اگر قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں اختلاف ہوتا۔
اس سے بھی زیادہ بلیغ بات یہ فرماتے : جب بھی مناظرہ کرتا ہوں، مقصود تلاشِ حق ہوتی ہے، چاہے وہ میری زبان سے ادا ہوجائے یا مخالف کی زبان سے۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا کہ حق کا اظہار ہو، قطع نظر اس کے کہ قائل خود امام ہیں، یا ان کا مدِ مقابل۔
جب انسان کی یہ حالت ہو تو پھر وہ اپنی زندگی یا موت کسی بھی وقت اپنی غلطی یا مخالفتِ سنت واضح ہونے کو ناگوار نہیں سمجھتا۔
ہمارا یہی حسن ظن دیگر ائمہ اسلام کےبارے میں بھی ہے، کیونکہ وہ اسلام کی مدد و نصرت اور دفاع کرنے والے تھے، اگرانہیں حق کسی اور کے ہاں نظر آیا تو فورا اسے قبول کرلیا، بلکہ بعض دفعہ اگر مخالف کی دلیل کمزور بھی محسوس ہوئی تو اپنے استدلال کی بجائے اس کی دلیل کی قدر کیا کرتے تھے۔
امام احمد اسحاق بن راہویہ کی مدح سرائی کیا کرتے تھے، اور ساتھ فرماتے کہ اگر وہ ہم سے بعض اشیاء میں اختلاف کرتے ہیں، تو کوئی بات نہیں، علمی اختلاف تو ہمیشہ ہوتا ہی رہتا ہے ۔ لوگ امام صاحب کے سامنے اسحاق وغیرہ ائمہ کے اقوال و استدلالات بیان کرتے رہتے تھے، لیکن امام صاحب کی نظر میں وہ کمزور بھی ہوتے توان پر ناپسندیدگی کا اظہار نہ کرتے، گو ان سے موافقت بھی نہ کیا کرتے۔
حاتم الاصم کے بارے میں آتا ہے ، ان سے کسی نے کہا کہ آپ عجمی ہیں، صحیح طرح سے عربی بھی نہیں بول سکتے، لیکن پھر بھی آپ مد مقابل پر غالب ہی رہتے ہیں، اس کا کیا راز ہے؟ فرمانے لگے: تین چیزیں ہیں، جب میرا مد مقابل درست بات کرتا ہے تو میں خوشی کا اظہار کرتا ہوں، جب اس سے غلطی ہوجاتی ہے تو مجھے دکھ ہوتا ہے، اور میں اس کو کوئی ایسی بات نہیں کرتا جو اس کو ناگوار گزرے۔ امام احمد کے سامنے جب یہ بات کی گئی، تو اس کی تحسین فرمائی، اور کہنے لگے: یہ کس قدر عقلمند آدمی تھا۔
لہذا ثابت ہوا کہ شرعی دلائل کی روشنی میں کمزور باتوں کا رد، اور حق کے بیان کو علما کبھی بھی ناپسند نہیں کرتے تھے، بلکہ اسے پسند کرتے تھے، اور ایسا کرنے والے کی مدح و تعریف کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس تنقید اور بیانِ حق کو غیبت نہیں سمجھا جائے گا۔ لیکن فرض کریں اگر کوئی خلاف ِحق اپنی غلطی کے بیان کو ناگوار بھی سمجھتا ہے، تو اس کی ناپسندیدگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا، کیونکہ اظہارِ حق کو ناپسندیدہ خیال کرنا خصلتِ حمیدہ نہیں ہے، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اظہارِ حق کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے، وہ اس کی موافقت میں ہویا مخالفت میں۔
بلکہ یہ اللہ ،اس کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، دین اور مسلمانوں کے عام و خاص کے لیے نصیحت کے قبیل سے ہے، اور یہی دینِ حق ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ۔
لہذا علم و ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے گزرے علما کی غلطی واضح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، اور نہ یہ فعل قابل ملامت ہے، گو اس میں بعض دفعہ غلطی کی نوعیت کے حساب سے الفاظ میں سختی بھی آجائے تو کوئی بات نہیں۔
لیکن اگر مراد کسی کا عیب ظاہر کرنا، یا اس کے علم یا قدر ومنزلت کی تنقیص ہو تو یہ حرام ہے، چاہے اس قسم کارد کسی کے سامنے ہو یا اس کی عدم موجودگی میں، اس کی زندگی میں ہو یا وفات کے بعد۔ یہ وہ مذموم فعل ہے، جس کی اللہ تعالی نے مذمت فرمائی اور اسے ہمزو لمز میں شمار کیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کے بارے میں فرمایا ہے:
اے لوگو! جس کی زبان نے کلمہ پڑھا، لیکن دل مسلمان نہیں ہوا، مسلمانوں کو تکلیف نہ دو، ان کی عیب جوئی نہ کرو، جو مسلمانوں کے عیب کی تلاش میں نکلتا ہے، اللہ تعالی اس کا پردہ فاش کرتا ہے، اور جس کا اللہ پردہ فاش کرنا چاہیں، وہ گھر کے کسی کونے کھدرے میں بھی چھپ جائے تو اللہ تعالی اس کو ذلیل و رسوال کردیتے ہیں۔
لہذا علما کا ادب و احترام اور قدر ومنزلت کا خیال رکھنا ضروری ہے، البتہ اہلِ بدعت و ضلال اور جعلی علما کی جہالت کا بیان، ان کے عیوب کا اظہار جائز ہے، تاکہ لوگ ان کی فتنہ پردازیوں میں نہ آجائیں، گو اس کتاب میں اس مسئلے کا موقع و محل نہیں ہے ۔
نصیحت کی اقسام
جس کےبارے میں معلوم ہو کہ وہ علما پر تنقید نصیحت کے طور پر کر رہا ہے، لازم ہے کہ اس کے ساتھ عزت و احترام اور تعظیم کامعاملہ کیا جائے، جیساکہ دیگر جلیل القدر ائمہ مسلمین کا خیال رکھا جاتا ہے۔
لیکن جس کا ارادہ علما کی تنقیص و مذمت ، ان کے عیوب کا اظہار ہو، ایسا شخص ڈانٹ ڈپٹ کا مکمل استحقاق رکھتا ہے، تاکہ ایسے لوگ اس قسم کے رذائلِ محرمہ سے باز آجائیں۔
تنقید کرنے والے کا ہدف و مقصد بعض دفعہ وہ خود بیان کردیتا ہے، اور بعض دفعہ قرائن اس کی نیت کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں۔ صاحبِ علم ودین اور علما کی توقیر و احترام کرنے والے شخص کا اسلوبِ گفتگو بھی علما والا ہوتا ہے ۔ رہی بات تصنیف و تحریر کی، تو اس میں تو ہر حال میں صاحب علم کی تنقید کو نصیحت پر محمول کرنا چاہیے، ایسی صورت میں ایسے شخص کے بارےمیں برا سوچنا بدظنی میں آتا ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:

وَمَنْ يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (النساء:112)
جو غلطی و گناہ کرکے کسی معصوم کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے، ایسا شخص بہتان طرازی کا مرتکب اور اثم مبین کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔
جہاں برائی کی علامتیں اور قرائن واضح نہ ہوں، وہاں بدظنی کرنا حرام ہے، لہذا ایسا شخص خود گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اور دوسرے کو بلا دلیل غلط سمجھنے کا مرتکب ہوتا ہے ، بلکہ ایسا شخص اگر بہ کثرت دوسروں سے متعلق بہتان طرازی و زبان درازی ، غیبت و حسد، لالچ و طمع جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوجائے تو قوی خدشہ ہے کہ وہی اس وعید کا مستحق بن جائے گا۔ اور ایسی صفات کا حامل شخص علما کے لیے کسی بیماری سے کم نہیں۔
اور اگر کسی کی تنقید دوسری قسم یعنی محض تنقید و عیب جوئی کے قبیل سے ہو تو ایسا شخص ذلت و رسوائی کا مستحق ہے۔
ہاں البتہ اگر کسی کی تنقید میں اچھی بری کسی قسم کی علامتیں بھی موجود نہ ہوں تو ایسے شخص کی بات کو حتی الامکان بہتر سے بہتر انداز سے لینا چاہیے، اسے کوئی غلط سے غلط رخ دینا جائز نہیں ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد عالی شان ہے:

(لا تظن بكلمة خرجت من أخيك المسلم سوءاً وأنت تجد لها في الخير محملاً)
اگر کوئی مناسب عذر و تاویل ممکن ہو تو اپنے مسلمان بھائی کی بات کو غلط رخ نہ دو۔

اسلوبِ نصیحت
کسی کے سامنے اس کی غلطی بیان کرنے کا مقصد اگر نصیحت ہو تو یہ مستحسن عمل ہے، حتی کہ بعض سلف صالحین تو یہاں تک کہا کرتے تھے:
(لا تنصحني حتى تقول في وجهي ما أكره)
تم تب تک میرے خواہ نہیں ہوسکتے، جب تک میری غلطی مجھے نہ بتاؤ۔
لہذا کسی کو اس کی غلطی بتانا تاکہ وہ اس سے کنارہ کشی کرلے یا اگر کوئی عذر ہے تو بیان کردے، یہ تو اچھی بات ہے، لیکن محض زجر و توبیخ کی غرض سے یہ کام کرنا مذموم وقبیح فعل ہے ۔ بعض سلف صالحین سے کہا گیا: کیا آپ کو پسند ہے کہ کوئی آپ کے عیوب آپ کو بتائے؟ فرمایا:

(إن كان يريد أن يوبخني، فلا)
اگر مراد زجر و توبیخ ہو تو مجھے پسند نہیں۔
لہذا گناہ گار کو عار دلانا اور محض زجر وتوبیخ کرنا فعلِ مذموم ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف تو زانیہ عورت کو رجم کی سزا دے رہے تھے، لیکن دوسری طرف منع کر رہے تھے کہ اس کو گناہ اور غلطی پر عار دلائی جائے یا زجر وتوبیخ کی جائے۔
سنن الترمذی میں مرفوع حدیث ہے:

«من عيَّر أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله»
جو اپنے بھائی کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے،اُسے تب تک موت نہیں آتی، جب تک خود اس میں مبتلا نہ ہوجائے۔
علما نے اس کو ایسے شخص کے متعلق بیان کیا ہے، جو گناہ سے توبہ تائب ہوچکا ہو۔
فضیل بن عیاض فرماتے ہیں:

(المؤمن يستر وينصح والفاجر يهتك ويُعيِّر)
مومن نصیحت و پردہ پوشی کرتا ہے، جبکہ فاجر اعلانیہ زجر وتوبیخ کرتا ہے۔
گویا فضیل بن عیاض نے نصیحت و عار میں فرق بیان کردیا ہے کہ پہلی میں پردہ پوشی ہوتی ہے، جبکہ دوسری میں تشہیر ہوتی ہے ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے :
(من أمر أخاه على رؤوس الملأ فقد عيَّره)
جو اپنے بھائی کو سب کے سامنے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی نصیحت عار کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
سلف صالحین ایسی صورت حال میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ سے بھی اجتناب کیا کرتے تھے، بلکہ کوشش کرتے کہ یہ بات آپس میں ہی زیر بحث آئے، کیونکہ ناصح کا اصل ہدف تو برائی کا ازالہ ہوتا ہے، نہ کہ کسی کے عیوب و نقائص کی تشہیر۔ جبکہ برائیوں اور کمیوں کوتاہیوں کی تشہیر کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے، ارشاد گرامی ہے:

{إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النور: 19]
جو مومنوں میں فحاشی و عریانی پھیلنے کے خواہاں ہیں، ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے، یقینا اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔
جبکہ عیبوں کی پردہ پوشی میں احادیث تو بے شمار ہیں۔
بعض علما نے امر بالمعروف کرنے والے شخص کو نصیحت کی کہ:

(واجتهد أن تستر العصاة فإن ظهور عوراتهم وهن في الإسلام)
مکمل کوشش کرو کہ گناہ گاروں کے عیوب پوشیدہ رہیں، کیونکہ گناہوں کا اظہار اسلام میں کمزوری بن کر نظر آتا ہے۔
فحاشی کی اشاعت کو عار سے ملا کر اس لیے بھی ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ دونوں ہی فاجروں کی خصلتیں ہیں، کیونکہ فاجر کا مقصد گناہوں کا خاتمہ، یا کسی کی کمیوں کوتاہیوں کا ازالہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کو عیب اچھالنے ، نقائص کے اظہار اور ہتکِ عزت سے غرض ہوتی ہے، تاکہ اس شخص کا دنیاوی نقصان ہو۔
جبکہ ناصح کا ہدف گناہوں کا خاتمہ اور مسلمانوں سے نقائص کا ازالہ ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ

{لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [التوبة: 128]
یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بہت خیرخواہ، اور تم سے نرمی وشفقت سے پیش آنے والے ہیں۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا:

{مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا} [الفتح: 29]
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ محمد رضی اللہ عنہم آپس میں ایک دوسرے کے لیے بہت نرم خو ہیں۔
اور مسلمانوں کی خوبی بیان کی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے خیر خواہی و شفقت سے رہتے ہیں۔
[1]
فاجر کو تشہیرِ عیوب پر اس کی قوت و طاقت ، اجڈ پن ، اور مسلمان بھائی سے دشمنی کا عنصر ابھارتا ہے، اور یہی وہ صفت ہے جس کی بنا پر شیطان بنی آدم کے لیے کفر ، فسق اور عصیان کی تزئین و آرائش کرکے پیش کرتا ہے، تاکہ سب کے سب دوزخ کا ایندھن بن جائیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
{إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ} [فاطر: 6]
شیطان تم سب کا دشمن ہے، اسے دشمن سمجھتے رہو، یہ چاہتا ہے کہ تم سب اہل جہنم میں سے ہوجاؤ۔
اور اللہ تعالی ہمارے نبی آدم علیہ السلام کے ساتھ شیطان کے مکر و فریب کا قصہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
{يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا} [الأعراف: 27]
شیطان آدم وحوا سے ان کا لباس چھیننا چاہتا تھا۔
یوں نصیحت و فضیحت دونوں کے درمیان خوب فرق واضح ہوجاتا ہے، ہر صاحبِ عقلِ سلیم ان دونوں میں نمایاں حدِ فاصل سمجھ سکتا ہے ۔

عار دلانے والے کی سزا کا بیان
جو اپنے مسلمان بھائی کی برائیوں کو اچھالتا، اس کی عجیب جوئی کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے عیوب کو بھی فاش کردیتے ہیں چاہے وہ اپنے گھر میں چھپ چھپا کر بیٹھا رہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث کئی ایک طُرُق سے مروی ہے، امام احمد، ابو داود، ترمذی وغیرہ نے کئی ایک کا ذکر کیا ہے۔
ترمذی کی حدیث ہے، واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لا تُظْهِر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليك»
اپنے بھائی کو مشکل میں دیکھ کر خوشی کا اظہار نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالی اس کی بجائے تمہیں اس مصیبت میں مبتلا کردیں۔
اسی طرح حضرت معاذ سے مرفوعا بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«من عيَّر أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله»
جو اپنے بھائی کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے، تب تک مرتا نہیں جب تک خود اس میں مبتلا نہ ہوجائے۔ ( لیکن اس حدیث کی سند منقطع ہے۔)
حسن بصری فرماتے ہیں: یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ جو کسی مومن کو توبہ کے بعد اس کے گناہ کی عار دلاتا ہے، اللہ تعالی اُس کو بھی اِس گناہ میں مبتلا کردیتے ہیں۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ذرا کمزور اسناد سے مروی ہے:

«البلاء موكل بالمنطق فلو أن رجلاً عيَّر رجلاً برضاع كلبة لرضعها»
آزمائشیں زبان درازی کی بنیاد پر بھی آتی ہیں، اگر کوئی کسی کو کتیا پالنے پر بھی طعنہ مارے گا، تو اسے یہ کام خود کرنا پڑ جائے گا۔
اس قسم کے مزید کئی ایک اقوالِ زریں سلف صالحین سے مروی ہیں۔
جب ابن سیرین قرض تلے دب گئے، تو فرمانے لگے:

(إني أعرف الذنب الذي أصابني هذا عيَّرت رجلاً منذ أربعين سنة فقلت له: يا مفلس)
مجھے اس آزمائش کی وجہ معلوم ہورہی ہے، میں نے آج سے چالیس سال قبل ایک شخص کو مفلس وفقیر کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
عار و تعییر کے متعلق کچھ باتیں
عار کی بد ترین صورت یہ ہے کہ انسان نصیحت و خیرخواہی کے قالب میں تشہیرِ عیوب اور عار دلانے کا وظیفہ سرانجام دے رہا ہو، ظاہر یہ کیا جارہا ہو کہ مثبت تنقید کی جارہی ہے، لیکن اندر سے نیت تنقیص و عار اور اذیت دینے کی ہو، یہ منافقین کی خصلت ہے، سورۃ براءت (توبہ) میں جب منافقین کی چیرہ دستیوں سے نقاب کشائی کی گئی، ان کے افعال مذمومہ کو بیان کیا گیا، تو اس فعلِ رذیل کا بھی وہاں ذکر موجود ہے، اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
{وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ} [التوبة: 107]
گویا مسجد کی تعمیر جیسا عظیم عمل مومنوں میں فتنہ وفساد کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کیا گیا۔
مزید ارشاد گرامی ہے:

{لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} [آل عمران: 188]
اپنے کمالات پر بغلیں بجانے والے، نہ کردہ کاموں کا کریڈٹ لینے والوں کو عذات سے محفوظ خیال نہ کریں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
صحیحین وغیرہ میں ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ بیان کرتے ہیں، یہ آیت یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی تھی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے، کچھ اور بتایا، اور بعد میں اس کتمانِ حق پر بغلیں بجائیں اور آپس میں داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کئی ایک منافقین غزوات سے پیچھے رہنے کے اوٹ پٹانگ بہانے تراش لیتے تھے، اور مسلمانوں کی واپسی پر ان کے ساتھ شریک ہو کر جہاد کی عظمت و فوائد کے گن گاتے تھے، گویا جو کیا ہی نہیں، اس پر داد و تحسین چاہتے تھے۔
تو یہ منافقانہ عادت ہے کہ انسان بظاہر کسی اچھے کام کی آڑ لے کر اس کی تعریف و تحسین سنتا کرتا رہے، لیکن اصل میں اس اچھے فعل کے پردے میں اپنے پوشیدہ عزائم کی تکمیل کا خواہاں ہو، اس طرح بظاہر وہ اچھے لوگوں میں بھی شامل نظر آتا ہے، اور اندر سے برائی میں بھی سرگرم عمل ہوتا ہے ، جس شخص کی اوقات و ہدف یہ ہو، وہ یقینا منافقین سے متعلق ان آیات میں داخل اور عذاب الیم کا حقدار ہے ۔
اس کی صورت یوں بھی ہوسکتی ہے کہ ایک شخص کسی کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے، اس سے حسد و دشمنی میں مبتلا ہے، یا مال و دولت اور جاہ و منصب میں اس سے آگے بڑھنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے وہ اس کی کوئی علمی و دینی کمزوری تلاش کرے، اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی تشہیر کرتا پھرے کہ فلاں بندے میں فلاں خرابی پائی جاتی ہے، کسی عالم دین کے حلقہ احباب اور معتقدین میں جاکر کہے کہ فلاں بندے نے تمارے عالم اور شیخ کی شان میں گستاخی اور اس کی عظمت کی تنقیص کرنے کی کوشش کی ہے ، جبکہ میں اس عالم کے دفاع اور تعظیم میں اس شخص کا رد وتردید کر رہا ہوں، جو ظاہر ہے ایک نیکی کا کام ہے، اور لوگ دھوکا کھاجائیں گے کہ واقعتا یہ معاملہ علم و تحقیق اور دفاع علماء کا ہے، حالانکہ یہ بظاہر ناصح نظر آنے والا دو قبیح و حرام کاموں میں مبتلا ہورہا ہے:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اپنے ناپسندیدہ عالم کی تنقید کو بدظنی پر محمول کررہا ہے، حالانکہ وہ نصیحت کے قبیل سے بھی ہوسکتی ہے ۔ اور دوسرا: وہ اپنے بغض کے اظہار کے لیے علم و تحقیق جیسے مقدس مشغلہ کا سہارا لے رہا ہے ۔
بنی مروان اسی قسم کے ظلم و جور میں مبتلا تھے، لوگوں کواسی حیلے سے اپنی طرف متوجہ کرتے، اور حضرت علی ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم او ران کی آل و اولاد سے متنفر کرتے۔
جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، تو امت کو علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر خلافت کا حقدار نظر نہیں آتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے ان کی فی الفور بیعت کرنا شروع کردی، تو بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نفرت و بیزاری پیدا کرنے کے لیے قتل عثمان رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ والے معاملے کو آڑ بنایا، بلکہ علی رضی اللہ عنہ کو اس قتل میں ملوث قرار دینا شروع کردیا۔ جبکہ علی رضی اللہ عنہ حلف و یمین اٹھاتے رہ گئے کہ ان کا اس معاملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، لیکن ان لوگوں نے قتالِ علی کو ایک نیکی وتقوی کا تقاضا قرار دے کر محاذ کھڑا کردیا، اور اسی بنیاد پر بعد میں ان کے صاحبزادے بھی آزمائشیں جیلتے رہے، فتنہ پروروں نے اس معاملے کو بہت اچھالا، منبرومحراب اس غرض کے لیے استعمال کیے، حتی کہ وہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب ہوگئے کہ ہم علی اور اس کے خانوادے سے زیادہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خیر خواہ ہیں، ہم قصاص کا زیادہ حق رکھتے ہیں، یوں لوگوں نے ان کی بات پر لبیک کہا ، علی اور حسن و حسین سے لڑائیاں ہوئیں، اور سلطنت و استقرار بنوامیہ کی جھولی میں آرہا۔ ان میں سے بعض لوگ پردہ داری میں اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتے تھے کہ ہم میں سے کوئی بھی علی سے بڑھ کر عثمان کے قصاص کے لیے موزوں نہیں تھا، کسی نے کہا: تو پھر علی کو سب و شتم کا کیا معنی؟ کہا: یہ تو سیاسی مجبوریاں ہیں۔
مراد یہ ہے کہ اگر وہ یہ حیلہ استعمال نہ کرتے ، تو لوگ علی اور ان کے جلیل القدر فرزندان کو چھوڑ کر ان کی طرف کبھی بھی مائل نہ ہوتے، اور یوں بنو امیہ کی بادشاہت زوال پذیر رہتی اور لوگ ان کی اطاعت و فرمانبرداری سے دست کش ہوجاتے ہیں۔

اس فتنہ سے بچاؤ کا طریقہ
جو شخص اس قسم کے مکر وفریب کا نشانہ بن رہا ہو اسے اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنا چاہیے، اُس ذات سے مدد کا طلبگار ہنا چاہیے، اور صبر کا دامن تھام کر رکھنا چاہیے، کیونکہ عاقبت بہر صورت متقین کے لیے ہی ہوتی ہے، اللہ تعالی نے حضرت یوسف کا قصہ اور ان کی آزمائشوں کی تفصیل بیان کرنے کےبعد فرمایا ہے:
{وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ} [يوسف: 21]
کہ ہم نے یوسف کو عزت وتمکنت عطا فرمائی۔
اور حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو مخاطب ہوئے فرمایا تھا:

{أَنَا يُوسُفُ وَهَذَا أَخِي قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا} [يوسف: 90]
میں یوسف اور یہ میرے برادر ہیں، اللہ نے ہم سب پر احسان کیا۔
اور موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو جب فرعون کی طرف سے اذیتوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا تو اللہ تعالی نے نصیحت فرمائی:
{اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا} [الأعراف: 128]
اللہ سے مدد طلب اور صبر کا مظاہرہ کیجیے۔
اللہ تعالی یہ بات بھی کھول کر بیان کر چکے ہیں کہ مکر و فریب خود کرنے والے پر ہی لوٹ آتا ہے:

{وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ} [فاطر: 43]
مکر کرنے والے پر ہی لوٹتا ہے ۔

{وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا} [الأنعام: 123]
ہم نے ہر بستی میں ایسے مجرمین بنائے ہیں، جو ان میں مکرو فریب کرتے ہیں، اورپھر خود ہی ان چالوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب ایک شخص نے اپنے بھائی کو مکر وفریب میں پھنسانا چاہا تو وہ خود ہی اس کا شکار ہوا، اور مظلوم کو اللہ تعالی نے حیرت انگیز طریقے سے سلامت رکھا۔ اگر ان تفصیلات
کو ذکر کرنا شروع کردیا جائے، تو یہ مختصر کتابچہ طوالت اختیار کر جائے گا، لہذا اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے،

والله الموفق للصواب وعليه قصد السبيل وهو حسبنا ونعم الوكيل وصلى الله على محمد وآله وصحبه وسلم تسليمًا.
ہدایت کی توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے، وہی سیدھا راستہ دکھانے والا، وہی ہمارے لیے کافی اور حقیقی کارساز ہے۔ اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل و اصحاب سب پر درود وسلام کی برکھا برسا۔
رشحاتِ قلم: حافظ ابن رجب
اردو ترجمانی: حافظ خضر حیات
3 ،4محرم 1441ھ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

[1] سوره عصر کی طرف اشارہ ہے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نصیحت و عار میں فرق
امامزین الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن رجب رحمہ اللہ کا مکمل مضمون پیش ہے ؛
امام ابن رجب کی وفات (اتوار 6 رجب المرجب 795ھ مطابق 18 مئی 1393ء کو دمشق )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الفرق بين النصيحة والتعيير
المؤلف: ابن رجب الحنبلي

بسم الله الرحمن الرحيم

قال الإمام رحمه الله :

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين ، وصلاته وسلامه على إمام المتقين ، وخاتم النبيين وآله وصحبه أجمعين ، والتابعين لهم بإحسان إلى يوم الدين أما بعد :

فهذه كلمات مختصرة جامعة في الفرق بين النصيحة والتعيير – فإنهما يشتركان في أن كلاً منهما : ذِكْرُ الإنسان بما يكره ذِكْرَه ، وقد يشتبه الفرق بينهما عند كثير من الناس والله الموفق للصواب .

اعلم أن ذِكر الإنسان بما يكره محرم إذا كان المقصود منه مجرد الذمِّ والعيب والنقص .

فأما إن كان فيه مصلحة لعامة المسلمين خاصة لبعضهم وكان المقصود منه تحصيل تلك المصلحة فليس بمحرم بل مندوب إليه .

وقد قرر علماء الحديث هذا في كتبهم في الجرح والتعديل وذكروا الفرق بين جرح الرواة وبين الغيبة وردُّوا على من سوَّى بينهما من المتعبدين وغيرهم ممن لا يتسع علمه .

ولا فرق بين الطعن في رواة حفَّاظ الحديث ولا التمييز بين من تقبل روايته منهم ومن لا تقبل ، وبين تبيين خطأ من أخطأ في فهم معاني الكتاب والسنة وتأوَّلَ شيئاً منها على غير تأويله وتمسك بما لا يتمسك به ليُحذِّر من الاقتداء به فيما أخطأ فيه ، وقد أجمع العلماء على جواز ذلك أيضاً .

ولهذا نجد في كتبهم المصنفة في أنواع العلوم الشرعية من التفسير وشروح الحديث والفقه واختلاف العلماء وغير ذلك ممتلئة بالمناظرات وردِّ أقوال من تُضَعَّفُ أقواله من أئمة السلف والخلف من الصحابة والتابعين ومن بعدهم .

ولم يترك ذلك أحد من أهل العلم ولا ادعى فيه طعناً على من ردَّ عليه قولَه ولا ذمَّاً ولا نقصاً اللهم إلا أن يكون المصنِّف ممن يُفحش في الكلام ويُسيءُ الأدب في العبارة فيُنكَر عليه فحاشته وإساءته دون أصل ردِّه ومخالفته ، إقامةً للحجج الشرعية والأدلة المعتبرة .

وسبب ذلك أن علماء الدين كلُّهم مجمعون على قصد إظهار الحق الذي بعث الله به رسوله ﷺ ولأنْ يكون الدين كله لله وأن تكون كلمته هي العليا ، وكلُّهم معترفون بأن الإحاطة بالعلم كله من غير شذوذ شيء منه ليس هو مرتبة أحد منهم ولا ادعاه أحد من المتقدمين ولا من المتأخرين فلهذا كان أئمة السلف المجمع على علمهم وفضلهم يقبلون الحق ممن أورده عليهم وإن كان صغيراً ويوصون أصحابهم وأتباعهم بقبول الحق إذا ظهر في غير قولهم .

كما قال عمر رضي الله عنه في مهور النساء وردَّت المرأة بقوله تعالى : {وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَاراً فَلا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئاً أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُبِيناً} [ النساء:20] ، فرجع عن قوله وقال : أصابتِ امرأةٌ ورجلٌ أخطأ وروي عنه أنه قال : كل أحد أفقه من عمر .

وكان بعض المشهورين إذا قال في رأيه بشيء يقول : هذا رأينا فمن جاءنا برأي أحسنَ منه قبلناه .

وكان الشافعي يبالغ في هذا المعنى ويوصي أصحابه باتباع الحق وقبول السنة إذا ظهرت لهم على خلاف قولهم وأن يضرب بقوله حينئذٍ الحائط ، وكان يقول في كتبه : { لا بد أن يوجد فيها ما يخالف الكتاب والسنة لأن الله تعالى يقول : {أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافاً كَثِيراً} [ النساء:82]

وأبلغ من هذا أنه قال : ما ناظرني أحد فباليت أظهرت الحجة على لسانه أو على لساني .

وهذا يدل على أنه لم يكن له قصد إلا في ظهور الحق ولو كان على لسان غيره ممن يناظره أو يخالفه .

ومن كانت هذه حاله فإنه لا يكره أن يُردَّ عليه قولُه ويتبين له مخالفته للسنة لا في حياته ولا في مماته . وهذا هو الظن بغيره م أئمة الإسلام ، الذابين عنه القائمين بنَصْرِه من السلف والخلف ولم يكونوا يكرهون مخالفة من خالفهم أيضاً بدليل عَرَضَ له ولو لم يكن ذلك الدليل قوياً عندهم بحيث يتمسكون به ويتركون دليلهم له .

ولهذا كان الإمام أحمد رحمه الله تعالى يذكر إسحاق بن راهويه ويمدحه ويثني عليه ويقول : وإن كان يخالف في أشياء فإن الناس لم يزل بعضهم يخالف بعضا أو كما قال .

وكان كثيراً يُعرضُ عليه كلام إسحاق وغيره من الأئمة ، ومأخذهم في أقوالهم فلا يوافقهم في قولهم ولا يُنكِر عليهم أقوالهم ولا استدلالهم وإن لم يكن هو موافقاً على ذلك كله

وقد استحسن الإمام أحمد ما حكي عن حاتم الأصم أنه قيل له : أنت رجل أعجمي لا تفصح وما ناظرك أحد إلا قطعته فبأي شيء تغلب خصمك ؟ فقال بثلاث : أفرح إذا أصاب خصمي وأحزن إذا أخطأ وأحفظ لساني عنه أن أقول له ما يسوؤه أو معنى هذا فقال أحمد : ما أعقله من رجل .

فحينئذٍ فرد المقالات الضعيفة وتبيين الحق في خلافها بالأدلة الشرعية ليس هو مما يكرهه أولئك العلماء بل مما يحبونه ويمدحون فاعله ويثنون عليه .

فلا يكون داخلاً في الغيبة بالكلية فلو فرض أن أحداً يكره إظهار خطئه المخالف للحق فلا عبرة بكراهته لذلك فإن كراهة إظهار الحق إذا كان مخالفاً لقول الرجل ليس من الخصال المحمودة بل الواجب على المسلم أن يحب ظهور الحق ومعرفة المسلمين له سواءٌ كان ذلك في موافقته أو مخالفته .

وهذا من النصيحة لله ولكتابه ورسوله ودينه وأئمة المسلمين وعامتهم وذلك هو الدين كما أخبر به النبي ﷺ .

وأما بيان خطأ من أخطأ من العلماء قبله إذا تأدب في الخطاب وأحسن في الرد والجواب فلا حرج عليه ولا لوم يتوجه إليه وإن صدر منه الاغترار بمقالته فلا حرج عليه وقد كان بعض السلف إذا بلغه قول ينكره على قائله يقول : كذب فلان ومن هذا قول النبي ﷺ : " كذب أبو السنابل " لما بلغه أنه أفتى أن المتوفى عنها زوجها إذا كانت حاملاً لا تحل بوضع الحمل حتى يمضى عليها أربعة أشهر وعشر .

وقد بالغ الأئمة الوَرِعون في إنكار مقالات ضعيفة لبعض العلماء وردِّها أبلغ الردِّ كما كان الإمام أحمد ينكر على أبي ثور وغيره مقالات ضعيفة تفردوا بها ويبالغ في ردها عليهم هذا كله حكم الظاهر .

وأما في باطن الأمر : فإن كان مقصوده في ذلك مجرد تبيين الحق ولئلا يغتر الناس بقالات من أخطأ في مقالاته فلا ريب أنه مثاب على قصده ودخل بفعله هذا بهذه النية في النصح لله ورسوله وأئمة المسلمين وعامتهم .

وسواء كان الذي بين الخطأ صغيراً أو كبيراً فله أسوة بمن رد من العلماء مقالات ابن عباس التي يشذ بها وأُنكرت عليه من العماء مثل المتعة والصرف والعمرتين وغير ذلك .

ومن ردَّ على سعيد بن المسيِّب قوله في إباحته المطلقة ثلاثاً بمجرد العقد وغير ذلك مما يخالف السنة الصريحة ، وعلى الحسن في قوله في ترك الإحداد على المتوفى عنها زوجها ، وعلى عطاء في إباحته إعادة الفروج ، وعلى طاووس قوله في مسائل متعددة شذَّ بها عن العلماء ، وعلى غير هؤلاء ممن أجمع المسلمون على هدايتهم ودرايتهم ومحبتهم والثناء عليهم .

ولم يعد أحد منهم مخالفيه في هذه المسائل ونحوها طعناً في هؤلاء الأئمة ولا عيباً لهم ، وقد امتلأت كتب أئمة المسلمين من السلف والخلف بتبيين هذه المقالات وما أشبهها مثل كتب الشافعي وإسحاق وأبي عبيد وأبي ثور ومن بعدهم من أئمة الفقه والحديث وغيرهما ممن ادعوا هذه المقالات ما كان بمثابتها شيء كثير ولو ذكرنا ذلك بحروفه لطال الأمر جداً .

وأما إذا كان مرادُ الرادِّ بذلك إظهارَ عيب من ردَّ عليه وتنقصَه وتبيينَ جهله وقصوره في العلم ونحو ذلك كان محرماً سواء كان ردُّه لذلك في وجه من ردِّ عليه أو في غيبته وسواء كان في حياته أو بعد موته وهذا داخل فيما ذمَّه الله تعالى في كتابه وتوعد عليه في الهمز واللمز وداخل أيضاً في قول النبي ﷺ : "يا معشر من آمن بلسانه ولم يؤمن بقلبه لا تؤذوا المسلمين ولا تتبعوا عوراتهم فإنه من يتبع عوراتهم يتبع الله عورته ومن يتبع الله عورته يفضحه ولو في جوف بيته " . وهذا كله في حق العلماء المقتدى بهم في الدين فأما أهل البدع والضلالة ومن تشبه بالعلماء وليس منهم فيجوز بيان جهلهم وإظهار عيوبهم تحذيراً من الاقتداء بهم . وليس كلامنا الآن في هذا القبيل والله أعلم .

ومن عُرف منه أنه أراد بردِّه على العلماء النصيحة لله ورسوله فإنه يجب أن يُعامَل بالإكرام والاحترام والتعظيم كسائر أئمة المسلمين الذين سبق ذكرهم وأمثالهم ومن تبعهم بإحسان .

ومن عرف منه أنه أراد برده عليهم التنقص والذم وإظهار العيب فإنه يستحق أن يقابل بالعقوبة ليرتدع هو ونظراؤه عن هذه الرذائل المحرمة .

ويُعرف هذا القصد تارة بإقرار الرادِّ واعترافه ، وتارة بقرائن تحيط بفعله وقوله ، فمن عُرف منه العلم والدين وتوقير أئمة المسلمين واحترامهم لم يَذكر الردَّ وتبيين الخطأ إلا على الوجه الذي يراه غيره من أئمة العلماء .

وأما في التصانيف وفي البحث وجب حمل كلامه على الأول ومن حمل كلامه على غير ذلك – والحال على ما ذُكر – فهو ممن يَظن بالبريء الظن السوء وذلك من الظن الذي حرمه الله ورسوله وهو داخل في قوله سبحانه : {وَمَنْ يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْماً ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُبِيناً} [ النساء:112] ، فإن الظن السوء ممن لا تظهر منه أمارات السوء مما حرمه الله ورسوله فقد جمع هذا الظانّ بين اكتساب الخطيئة والإثم ورمي البريء بها.

ويقوي دخوله في هذا الوعيد إذا ظهرت منه – أعني هذا الظان – أمارات السوء مثل: كثرة البغي والعدوان وقلة الورع وإطلاق اللسان وكثرة الغيبة والبهتان والحسد للناس على ما آتاهم الله من فضله والامتنان وشدة الحرص على المزاحمة على الرئاسات قبل الأوان .

فمن عُرفت منه هذه الصفات التي لا يرضى بها أهل العلم والإيمان فإنه إنما يحمل تَزْمنة العلماء وإذا كان ردُّه عليهم على الوجه الثاني فيستحق حينئذٍ مقابلته بالهوان ومن لم تظهر منه أمارات بالكلية تدل على شيء فإنه يجب أن يحمل كلامه على أحسن مُحْمَلاتِهِ ولا يجوز حمله على أسوأ حالاته . وقد قال عمر رضي الله تعالى عنه : لا تظن بكلمة خرجت من أخيك المسلم سوءاً وأنت تجد لها في الخير محملاً .

فــصل كـيفيتهـا
ومن هذا الباب أن يقال للرجل في وجهه ما يكرهه فإن كان هذا على وجه النصح فهو حسن وقد قال بعض السلف لبعض إخوانه : لا تنصحني حتى تقول في وجهي ما أكره .

فإذا أخبر أحد أخاه بعيب ليجتنبه كان ذلك حسناً لمن أُخبر بعيب من عيوبه أن يعتذر منها إن كان له منها عذر وإن كان ذلك على وجه التوبيخ بالذنب فهو قبح مذموم .

وقيل لبعض السلف : أتحبُّ أن يخبرك أحد بعيوبك ؟ فقال : إن كان يريد أن يوبخني فلا .

فالتوبيخ والتعيير بالذنب مذموم وقد نهى النبي ﷺ أن تُثَرَّبَ الأمة الزانية مع أمره بجلدها فتجلد حداً ولا تعير بالذنب ولا توبخ به .

وفي الترمذي وغيره مرفوعاً : " من عيَّر أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله " . وحُمل ذلك على الذنب الذي تاب منه صاحبه . قال الفضيل : المؤمن يستر وينصح والفاجر يهتك ويُعيِّر .

فهذا الذي ذكره الفضيل من علامات النصح والتعيير ، وهو أن النصح يقترن به الستر والتعيير يقترن به الإعلان .

وكان يقال : من أمر أخاه على رؤوس الملأ فقد عيَّره أو بهذا المعنى .

وكان السلف يكرهون الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر على هذا الوجه ويحبون أن يكون سراً فيما بين الآمر والمأمور فإن هذا من علامات النصح فإن الناصح ليس له غرض في إشاعة عيوب من ينصح له وإنما غرضه إزالة المفسدة التي وقع فيها . وأما إشاعة وإظهار العيوب فهو مما حرمه الله ورسوله قال الله تعالى : {إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [ النور:19] والأحاديث في فضل السر كثيرةٌ جدَّاً .

وقال بعض العلماء لمن يأمر بالمعروف : واجتهد أن تستر العصاة فإن ظهور عوراتهم وهن في الإسلام أحقُّ شيء بالستر : العورة .

فلهذا كان إشاعة الفاحشة مقترنة بالتعيير وهما من خصال الفجار لأن الفاجر لا غرض له في زوال المفاسد ولا في اجتناب المؤمن للنقائص والمعايب إنما غرضه في مجرد إشاعة العيب في أخيه المؤمن وهتك عرضه فهو يعيد ذلك ويبديه ومقصوده تنقص أخيه المؤمن في إظهار عيوبه ومساويه للناس ليُدخل عليه الضرر في الدنيا .

وأما الناصح فغرضُه بذلك إزالة عيب أخيه المؤمن واجتنابه له وبذلك وصف الله تعالى رسوله ﷺ فقال : {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ} [ التوبة:128]

ووصف بذلك أصحابه فقال : {مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْأِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً} [ الفتح:29] .

ووصف المؤمنين بالصبر والتواصي بالمرحمة .

وأما الحامل للفاجر على إشاعة السوء وهتكه فهو القوة والغلظة ومحبته إيذاء أخيه المؤمن وإدخال الضرر عليه وهذه صفة الشيطان الذي يزيِّن لبني آدم الكفر والفسوق والعصيان ليصيروا بذلك من أهل النيران كما قال الله : {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ} [ فاطر:6] .

وقال بعد أن قص علينا قصته مع نبي الله آدم عليه السلام ومكرَه به حتى توصل إلى إخراجه من الجنة : { يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا} [ لأعراف: من الآية27] .

فشتان بين من قصده النصيحة وبين من قصده الفضيحة ولا تلتبس إحداهما بالأخرى إلا على من ليس من ذوي العقول الصحيحة .

فصل في العقوبة
وعقوبة من أشاع السوء على أخيه المؤمن وتتبع عيوبه وكَشَفَ عورته أن يتبع الله عورته ويفضحه ولو في جوف بيته كما رُوي ذلك عن النبي ﷺ من غير وجه وقد أخرجه الإمام أحمد وأبو داود والترمذي من وجوه متعددة .

وأخرج الترمذي من حديث واثلة بن الأسقع عن النبي ﷺ قال : " لا تُظْهِر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليك " . وقال : حسن غريب .

وخرَّج أيضاً من حديث معاذ مرفوعاً : " من عيَّر أخاه بذنب لم يمت حت يعمله " وإسناده منقطع .

وقال الحسن : كان يقال : من عيَّر أخاه بذنب تاب منه لم يمت حتى يبتليه الله به

ويُروى من حديث ابن مسعود بإسناد فيه ضعف : " البلاء موكل بالمنطق فلو أن رجلاً عيَّر رجلاً برضاع كلبة لرضعها " .

وقد رُوي هذا المعنى عن جماعة من السلف .

ولما ركب ابن سيرين الدَّيْن وحبس به قال : إني أعرف الذنب الذي أصابني هذا عيَّرت رجلاً منذ أربعين سنة فقلت له : يا مفلس .

فصل في التعييـر
ومِن أظهرِ التعيير : إظهارُ السوء وإشاعتُه في قالب النصح وزعمُ أنه إنما يحمله على ذلك العيوب إما عاماً أو خاصاً وكان في الباطن إنما غرضه التعيير والأذى فهو من إخوان المنافقين الذين ذمهم الله في كتابه في مواضع فإن الله تعالى ذم من أظهر فعلاً أو قولاً حسناً وأراد به التوصل إلى غرض فاسد يقصده في الباطن وعدَّ ذلك من خصال النفاق كما في سورة براءة التي هتك فيها المنافقين وفضحهم بأوصافهم الخبيثة : {وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِداً ضِرَاراً وَكُفْراً وَتَفْرِيقاً بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادَاً لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ} [ التوبة:107] .

وقال تعالى : {لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} [ آل عمران:188] ، وهذه الآية نزلت في اليهود لما سألهم النبي صلى اله عليه وسلم عن شيء فكتموه وأخبروه بغيره وقد أروه أن قد أخبروه بما سألهم عنه واستحمدوا بذلك عليه وفرحوا بما أتوا من كتمانه وما سألهم عنه . كذلك قال ابن عباس رضي الله عنهما وحديثه بذلك مخرّج في الصحيحين وغيرهما .

وعن أبي سعيد الخدري : أن رجالاً من المنافقين كانوا إذا خرج رسول الله ﷺ إلى الغزو تخلَّفوا عنه وفرحوا بمقعدهم خلاف رسول الله ﷺ فإذا قدِم رسول الله اعتذروا إليه وحلفوا وأحبوا أن يحمدوا بما لم يفعلوا فنزلت هذه الآية .

فهذه الخصال خصال اليهود والمنافقين وهو أن يظهر الإنسان في الظاهر قولاً أو فعلاً وهو في الصورة التي ظهر عليها حسن ومقصوده بذلك التوصل إلى غرض فاسد فيحمده على ما أظهر من ذلك الحسن ويتوصل هو به إلى غرضه الفاسد الذي هو أبطنه ويفرح هو بحمده على ذلك الذي أظهر أنه حسن وفي الباطن شيء وعلى توصله في الباطن إلى غرضه السيء فتتم له الفائدة وتُنَفَّذُ له الحيلة بهذا الخداع .

ومن كانت هذه همته فهو داخل في هذه الآية ولا بد فهو متوعد بالعذاب الأليم ، ومثال ذلك : أن يريد الإنسان ذمَّ رجل وتنقصه وإظهار عيبه لينفر الناس عنه إما محبة لإيذائه أو لعداوته أو مخافة من مزاحمته على مال أو رئاسة أو غير ذلك من الأسباب المذمومة فلا يتوصل إلى ذلك إلا بإظهار الطعن فيه بسبب ديني مثل : أن يكون قد ردَّ قولاً ضعيفاً من أقوال عالم مشهور فيشيع بين من يعظِّم ذلك العالم أن فلاناً يُبغِضُ هذا العالم ويذمُّه ويطعن عليه فيغرُّ بذلك كل من يعظِّمه ويوهمهم أن بغض الراد وأذاه من أعمال العرب لأنه ذبٌّ عن ذلك العالم ورفع الأذى عنه وذلك قُربة إلى تعالى وطاعته فيجمع هذا المظهر للنصح بين أمرين قبيحين محرَّمين :

أحدهما : أن يحمل ردُّ العالم القول الآخر على البغض والطعن والهوى وقد يكون إنما أراد به النصح للمؤمنين وإظهار ما لا له كتمانه من العلم .

والثاني : أن يظهر الطعن عليه ليتوصل بذلك إلى هواه وغرضه الفاسد في قالب النصح والذب عن علماء الشرع وبمثل هذه المكيدة كان ظلم بني مروان وأتباعهم يستميلون الناس إليهم وينفِّرون قلوبهم عن علي بن أبي طالب والحسن والحسين وذريتهم رضي الله عنهم أجمعين .

وأنه لما قُتِل عثمان رضي الله عنه لم ترَ الأمة أحق من علي رضي الله عنه فبايعوه فتوصل من توصل إلى التنفير عنه بأن أظهر تعظيم قتل عثمان وقُبحه وهو في نفس الأمر كذلك ضُمَّ إلى ذلك أن المؤلَّب على قتله والساعي فيه علي رضي الله عنه وهذا كان كذباً وبهتاً . وكان علي رضي الله عنه يحلف ويغلِّظ الحلف على نفي ذلك وهو الصادق البارُّ في يمينه رضي الله عنه وبادروا إلى قتاله ديانةً وتقرُّباً ثم إلى قتال أولاده رضوان الله عليهم واجتهد أولئك في إظهار ذلك وإشاعته على المنابر في أيام الجُمَع وغيرها من المجامع العظيمة حتى استقر في قلوب أتباعهم أن الأمر على ما قالوه وأن بني مروان أحق بالأمر من علي وولده لقربهم من عثمان وأخذهم بثأره فتوصلوا بذلك إلى تأليف قلوب الناس عليهم وقتالهم لعلي وولده من بعده ويثبُت بذلك لهم الملك واستوثق لهم الأمر .

وكان بعضهم يقول في الخلوة لمن يثق إليه كلاماً ما معناه : لم يكن أحد من الصحابة أكفأ عن عثمان من علي فيقال له : لِمَ يسبُّونه إذاً ؟ فيقول : إن المُلك لا يقوم إلا بذلك .

ومراده أنه لولا تنفير قلوب الناس على علي وولده ونسبتُهم إلى ظلم عثمان لما مالت قلوب الناس إليهم لما علموه من صفاتهم الجميلة وخصائصهم الجليلة فكانوا يسرعون إلى متابعتهم ومبايعتهم فيزول بذلك ملك أمية وينصرف الناس عن طاعتهم .

فـصل العـــلاج
ومن بُلي بشيء من هذا المكر فليتق الله ويستعن به ويصبر فإن العاقبة للتقوى . كما قال الله تعالى : بعد أن قصَّ قِصَّة يوسف وما حصل له من أنواع الأذى بالمكر والمخادعة :

{ وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ } [ يوسف: من الآية21] ، وقال الله تعالى حكاية عه أنه قال لإخوته : { أَنَا يُوسُفُ وَهَذَا أَخِي قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا } [ يوسف: من الآية90] ، وقال تعالى في قصة موسى عليه السلام وما حصل له ولقومه من أذى فرعون وكيده قال لقومه : { اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا} [ الأعراف: من الآية128] ، وقد أخبر الله تعالى أن المكر يعود وباله على صاحبه قال تعالى : { وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ } [ فاطر: من الآية43] ، وقال تعالى : {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا} [ الأنعام: من الآية123] ، والواقع يشهد بذلك فإن من سبر أخبار الناس وتواريخ العالم وقف على أخبار من مكر بأخيه فعاد مكره عليه وكان ذلك سبباً في نجاته وسلامته على العجب العجاب .

لو ذكرنا بعض ما وقع من ذلك لطال الكتاب واتسع الخطاب والله الموفق للصواب وعليه قصد السبيل وهو حسبنا ونعم الوكيل وصلى الله على محمد وآله وصحبه وسلم تسليماً .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
امامزین الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن رجب رحمہ اللہ کا مکمل مضمون پیش ہے ؛
اس کا ترجمہ میں نے پہلی پوسٹ میں مکمل کردیا ہے۔
اب مصنف کے حالاتِ زندگی وغیرہ لکھ کر کتاب میں کچھ اضافہ جات کرکے اسے کتابی شکل میں محدث لائبریری کے لیے تیار کرتے ہیں، ان شاءاللہ۔
 
Top