ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
نصیحت کرتے رہیے۔ کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے
اللہ مالک الملک نے فرمایا :
فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ ﴿الغاشية: ٢١﴾
پس آپ نصیحت کر دیا کریں (کیونکہ) آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں (21)
ایک جگہ فرمایا :
وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٥﴾ سورة الذاريات
اور نصیحت کرتے رہیے۔ کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے۔
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سیدنا تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دین خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے عرض کیا کس چیز کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے ائمہ کی، اور تمام مسلمانوں کی۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 198
فوائد :
اس میں خیر خواہی کی اہمیت و فضیلت اور اس کی عمومیت کا بیان ہے۔ اللہ کی خیر خواہی کا مطلب ہے ، اس پر صحیح طور پر ایمان رکھا جائے اور اس کی عبادت اخلاص سے کی جائے،کتاب اللہ کی خیر خواہی،اس کی تصدیق ،تلاوت کا التزام،اس کی تحریف سےاجتناب اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی یہ ہے کہ اُن کی رسالت کی تصدیق ،اُن کے حکم کی اطاعت اور اُن کی سنتوں کی پابندی کی جائے۔
مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی کا مطلب ہے ۔ حق میں ان کی اعانت،غیر معصیت میں ان کی اطاعت کی جائے ، وہ سیدھے راستے سے انحراف کریں تو انہیں معروف کا حکم دیا جائے اور ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کیا جائے الا یہ کہ ان سے کفر صریح کا اظہار ہو اور
عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی دنیا و آخرت کی اصلاح کے لیے ، ان کی صحیح رہنمائی جی جائے،انہیں نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔(مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ )
اور اگر کوئی شخص ایک مسلمان بھائی کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے نصحیت کرے اور وہ جواب میں کہے کہ اپنے کام سے کام رکھو تو یہ بات اللہ مالک الملک کو انتہائی ناپسند ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن أحب الكلام إلى الله عز وجل ، أن يقول العبد : سبحانك اللهم وبحمدك ، وتبارك اسمك ، وتعالى جدك ، ولا إله غيرك ، وإن أبغض الكلام إلى الله ، أن يقول الرجل للرجل : اتق الله ، فيقول : عليك بنفسك .
أخرجه البيهقى والنسائى وصححه الألباني
سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
{ اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین کلام یہ ہے کہ بندہ یہ کہے :
( سبحانك اللهم وبحمدك ، وتبارك اسمك ، وتعالى جدّك ، ولا إله غيرك )
اے اللہ تواپنی تعریف کے ساتھ پا ک ہے اورتیرانام بابرکت اورتیری شان بلند ہے اورتیرے علاوہ کوئ معبود برحق نہيں }
اوراللہ تعالی کےہاں مبغوض ترین کلام یہ ہے کہ بندہ کسی شخص کوکہے کہ اللہ تعالی سے ڈرو ، اوروہ جواب میں اسے کہے کہ اپنا کام کرو اوراپنا آپ سنبھالو
دیکھیں السلسۃ الصحیحۃ للالبانی رحمہ اللہ تعالی حدیث نمبر ( 2598 )
اور ایسا طرز عمل اختیار کرنا تکبر کی علامت ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کی برابر میں تکبر ہوا وہ جنت میں نہیں جائے گا :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جو تی بھی اچھی ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 266
بطر الحق ، حق کو ٹھکرا دینا اور اس کے قائل پر لوٹا دینا۔ اور غمط الناس ، لوگوں کو حقیر سمجھنا
ایک بندہ مومن کے ساتھ (دواران نصیحت) اگر ایسا معاملہ پیش آئے تو وہ صبر کرے اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کے اسوہ کو اپنے سامنے رکھے اور ان آیات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے :
لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کوکہا :
{ اے میرے بیٹے نماز کی پابندی کرو ، اورنیکی کاحکم کرتے رہوں اوربرائ سے روکتے رہو ، اورتجھے جوبھی تکلیف آۓ اس پر صبر کرتے رہوں بلاشبہ یہ پختہ عزم میں سے ہے } لقمان ( 17 ) ۔
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾ سورة العصر
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (3)
تفسیر تیسیر القرآن :
مومنوں کی چار لازمی صفات:۔ اس آیت میں وہ چار صفات مذکور ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان اخروی خسارہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ پہلی صفت ایمان بالغیب ہے۔ جس کے چھ اجزاء ہیں
دوسری صفت اعمال صالحہ کی بجاآوری ہے۔ اعمال صالحہ کا لفظ اس قدر وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ خیر اور بھلائی کا کوئی کام اس سے باہر نہیں رہتا۔ البتہ اس کی دو اہم شرائط ہیں۔ ایک ایمان بالغیب جس کا پہلے ذکر ہوچکا۔ ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کا کوئی تصور ہی نہیں اور دوسری یہ کہ وہ کام شریعت کی ہدایات کے مطابق سرانجام دیا جائے۔
تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔ حق کی ضد باطل ہے۔ حق کا لفظ عموماً دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (١) سچ اور سچائی۔ حقیقت، درست یعنی ہر وہ بات یا چیز جو تجربہ اور مشاہدہ کے بعد درست ثابت ہو۔ اور (٢) وہ حق جس کا ادا کرنا انسان پر واجب ہو، خواہ وہ اللہ کا حق ہو یا بندوں کا حق ہو یا خود اس کے اپنے نفس کا حق ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خود ہی راستباز رہنے یا حقوق ادا کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کو حق اختیار کرنے اور حق پر قائم رہنے اور حقوق ادا کرنے کی تاکید بھی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام اجتماعی زندگی کو خاص اہمیت دیتا ہے اور ان لوگوں کے کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں باطل یا برائی سر اٹھانے لگتی ہے تو سب اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور حق کو غالب کرنے اور رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر تواصوبالحق کا مفہوم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی ہے جس کی اہمیت کتاب و سنت میں بے شمار مقامات پر مذکور ہے۔
چوتھی صفت یہ ہے کہ اسلام یا حق کو غالب کرنے یا رکھنے کے راستہ میں جتنی مشکلات حائل ہوتی ہیں یا مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے تو وہ صرف خود ہی صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتے بلکہ ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں صبر کا ایک مفہوم احکام شریعت پر ثابت قدمی سے پابند رہنا بھی ہے۔ ایسی باتوں کے لیے بھی وہ ایک دوسرے کو تلقین کرتے رہتے ہیں۔
جس معاشرہ میں اور اس کے افراد میں یہ چاروں صفات پائی جائیں ان کے متعلق یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آخرت میں وہ خسارہ سے محفوظ رہیں گے۔
اللہ مالک الملک نے فرمایا :
فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ ﴿الغاشية: ٢١﴾
پس آپ نصیحت کر دیا کریں (کیونکہ) آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں (21)
ایک جگہ فرمایا :
وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٥﴾ سورة الذاريات
اور نصیحت کرتے رہیے۔ کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے۔
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سیدنا تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دین خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے عرض کیا کس چیز کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے ائمہ کی، اور تمام مسلمانوں کی۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 198
فوائد :
اس میں خیر خواہی کی اہمیت و فضیلت اور اس کی عمومیت کا بیان ہے۔ اللہ کی خیر خواہی کا مطلب ہے ، اس پر صحیح طور پر ایمان رکھا جائے اور اس کی عبادت اخلاص سے کی جائے،کتاب اللہ کی خیر خواہی،اس کی تصدیق ،تلاوت کا التزام،اس کی تحریف سےاجتناب اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی یہ ہے کہ اُن کی رسالت کی تصدیق ،اُن کے حکم کی اطاعت اور اُن کی سنتوں کی پابندی کی جائے۔
مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی کا مطلب ہے ۔ حق میں ان کی اعانت،غیر معصیت میں ان کی اطاعت کی جائے ، وہ سیدھے راستے سے انحراف کریں تو انہیں معروف کا حکم دیا جائے اور ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کیا جائے الا یہ کہ ان سے کفر صریح کا اظہار ہو اور
عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی دنیا و آخرت کی اصلاح کے لیے ، ان کی صحیح رہنمائی جی جائے،انہیں نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔(مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ )
اور اگر کوئی شخص ایک مسلمان بھائی کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے نصحیت کرے اور وہ جواب میں کہے کہ اپنے کام سے کام رکھو تو یہ بات اللہ مالک الملک کو انتہائی ناپسند ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن أحب الكلام إلى الله عز وجل ، أن يقول العبد : سبحانك اللهم وبحمدك ، وتبارك اسمك ، وتعالى جدك ، ولا إله غيرك ، وإن أبغض الكلام إلى الله ، أن يقول الرجل للرجل : اتق الله ، فيقول : عليك بنفسك .
أخرجه البيهقى والنسائى وصححه الألباني
سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
{ اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین کلام یہ ہے کہ بندہ یہ کہے :
( سبحانك اللهم وبحمدك ، وتبارك اسمك ، وتعالى جدّك ، ولا إله غيرك )
اے اللہ تواپنی تعریف کے ساتھ پا ک ہے اورتیرانام بابرکت اورتیری شان بلند ہے اورتیرے علاوہ کوئ معبود برحق نہيں }
اوراللہ تعالی کےہاں مبغوض ترین کلام یہ ہے کہ بندہ کسی شخص کوکہے کہ اللہ تعالی سے ڈرو ، اوروہ جواب میں اسے کہے کہ اپنا کام کرو اوراپنا آپ سنبھالو
دیکھیں السلسۃ الصحیحۃ للالبانی رحمہ اللہ تعالی حدیث نمبر ( 2598 )
اور ایسا طرز عمل اختیار کرنا تکبر کی علامت ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کی برابر میں تکبر ہوا وہ جنت میں نہیں جائے گا :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جو تی بھی اچھی ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 266
بطر الحق ، حق کو ٹھکرا دینا اور اس کے قائل پر لوٹا دینا۔ اور غمط الناس ، لوگوں کو حقیر سمجھنا
ایک بندہ مومن کے ساتھ (دواران نصیحت) اگر ایسا معاملہ پیش آئے تو وہ صبر کرے اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کے اسوہ کو اپنے سامنے رکھے اور ان آیات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے :
لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کوکہا :
{ اے میرے بیٹے نماز کی پابندی کرو ، اورنیکی کاحکم کرتے رہوں اوربرائ سے روکتے رہو ، اورتجھے جوبھی تکلیف آۓ اس پر صبر کرتے رہوں بلاشبہ یہ پختہ عزم میں سے ہے } لقمان ( 17 ) ۔
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾ سورة العصر
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (3)
تفسیر تیسیر القرآن :
مومنوں کی چار لازمی صفات:۔ اس آیت میں وہ چار صفات مذکور ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان اخروی خسارہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ پہلی صفت ایمان بالغیب ہے۔ جس کے چھ اجزاء ہیں
دوسری صفت اعمال صالحہ کی بجاآوری ہے۔ اعمال صالحہ کا لفظ اس قدر وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ خیر اور بھلائی کا کوئی کام اس سے باہر نہیں رہتا۔ البتہ اس کی دو اہم شرائط ہیں۔ ایک ایمان بالغیب جس کا پہلے ذکر ہوچکا۔ ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کا کوئی تصور ہی نہیں اور دوسری یہ کہ وہ کام شریعت کی ہدایات کے مطابق سرانجام دیا جائے۔
تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔ حق کی ضد باطل ہے۔ حق کا لفظ عموماً دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (١) سچ اور سچائی۔ حقیقت، درست یعنی ہر وہ بات یا چیز جو تجربہ اور مشاہدہ کے بعد درست ثابت ہو۔ اور (٢) وہ حق جس کا ادا کرنا انسان پر واجب ہو، خواہ وہ اللہ کا حق ہو یا بندوں کا حق ہو یا خود اس کے اپنے نفس کا حق ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خود ہی راستباز رہنے یا حقوق ادا کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کو حق اختیار کرنے اور حق پر قائم رہنے اور حقوق ادا کرنے کی تاکید بھی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام اجتماعی زندگی کو خاص اہمیت دیتا ہے اور ان لوگوں کے کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں باطل یا برائی سر اٹھانے لگتی ہے تو سب اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور حق کو غالب کرنے اور رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر تواصوبالحق کا مفہوم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی ہے جس کی اہمیت کتاب و سنت میں بے شمار مقامات پر مذکور ہے۔
چوتھی صفت یہ ہے کہ اسلام یا حق کو غالب کرنے یا رکھنے کے راستہ میں جتنی مشکلات حائل ہوتی ہیں یا مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے تو وہ صرف خود ہی صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتے بلکہ ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں صبر کا ایک مفہوم احکام شریعت پر ثابت قدمی سے پابند رہنا بھی ہے۔ ایسی باتوں کے لیے بھی وہ ایک دوسرے کو تلقین کرتے رہتے ہیں۔
جس معاشرہ میں اور اس کے افراد میں یہ چاروں صفات پائی جائیں ان کے متعلق یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آخرت میں وہ خسارہ سے محفوظ رہیں گے۔