• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نظام جمہوریت کفر پر مبنی نظام ہے-

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
دین جمہوریت الدیمقراطیہ دین

دین جمہوریت الدیمقراطیہ دین


مقدمہ مولف
ان الحمد للّٰہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیّئات اعمالنا من یھدہ اللّٰہ فھو المھتد ومن یضلل فلن تجد لہ ولیا مرشدا واشھدان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ وھو حسبنا ونعم الوکیل واشھدان محمداً عبدہ ورسولہ قائدنا واسوتنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلی آلہ واصحابہ واتباعہ الی یوم الدین.وبعد

شرکیہ قانونی پارلیمانی انتخابات سے قبل میں نے جلدی میں ان چند اوراق کو تحریر کیا ہے جبکہ لوگ جمہوریت کے فتنے میں مبتلا ہیں اور نام نہاد دیندار بے دین طواغیت اس جمہوریت کا دفاع کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے میں مشغول ہیں حق کو باطل کے ساتھ مخلوط کرکے کبھی اسے حریت کہتے ہیں کبھی مشاورت کا نام دیتے ہیں اور یوسف کی حکومت سے استدلال کرتے ہیں توکبھی نجاشی کی بادشاہت سے اور دوسرا طبقہ مصلحتوں اور ضروریات کو دلیل بناتا ہے تاکہ اس کمینگی سے حق وباطل اور نور وضلالت اور توحید و شرک کو خلط ملط کردیں اللہ کی توفیق سے ہم نے اس کتاب میں ان تمام شبہات کا ردّ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ جمہوریت اللہ کے دین کے مقابل ایک مستقل دین ہے اور توحید کے خلاف ایک ملت ہے اور جمہوریت کی پارلیمانی اور اسپیکر کی نشستیں صریح شرک اور بت پرستی ہے جن سے اجتناب کرنا توحید کی سا لمیت کے لئے ضروری ہے جو بندوں پر اللہ کا حق ہے بلکہ اس کی بیخ کنی کرنا اور ا سکے متعلقین سے بغض وعداوت رکھنا اور ان کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے اور یہ کہ یہ اجتہادی مسئلہ نہیں جیسا کہ بعض دھوکے باز گمان کرتے ہیں بلکہ یہ واضح شرک وکفر ہے جس سے اللہ نے اپنی محکم تنزیل میں ڈرایا ہے اورنبی طویل عرصہ اس کے خلاف برسرپیکاررہے ہیں لہٰذا میرے موحد بھائی نبی کے متبع اور مددگار بننے کی کوشش کریں جو شرک ومشرکین سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے اور حق واہل حق کی اجنبیت کے اس دور میں اس گروہ میں شامل ہوجائیں جو دین اللہ کے قیام کے لئے سرگرم عمل ہے جس کے متعلق مصطفی نے فرمایا:
’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کا حکم قائم رکھے گا جو ان کی مدد کرنا چھوڑدے یا ان کی مخالفت کرے وہ انہیں نقصان نہ پہنچاسکے گا حتی کہ اللہ کا حکم (قیامت)آجائے ۔

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ان میں شامل فرمائے ۔ آمین الہ العالمین ۔
والحمد للّٰہ اوّلًا وآخراً

کتبہ ابومحمد
فضیلۃ الشیخ عاصم المقدسی﷾

​

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اسی لئے ہر حاکم جو کتاب اللہ کے بغیر فیصلہ کرتا ہو اسے طاغوت کہا گیا ہے ‘‘۔(مجموع الفتاویٰ:20/128)

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’طاغوت ہر اس معبود یا متبوع یا مطاع کو کہتے ہیں جس کے ذریعے بندہ اپنی حد سے تجاوز کرجائے لہٰذا ہر قوم کا طاغوت وہ ہوا جس کے پاس وہ اللہ اور اس کے رسول کے سوا فیصلے کے لیے جاتے ہیں یا اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہیں یا اللہ کی جانب سے بلا بصیرت اس کی ابتاع کرتے ہیں یا اس کی اس بات میں اطاعت کرتے ہیں جس کے متعلق وہ نہیں جانتے کہ وہ اللہ کی اطاعت ہے ۔(اعلام الموقعین عن رب العالمین :1/50)

تودور حاضر میں اللہ تعالیٰ کے سوا طاغوتی معبودوں میں سے یہ جھوٹے معبودان اور ارباب بھی ہیں جنہیں اکثر لوگ اللہ کے سوا قانون ساز کہتے ہیں کہ ان کے اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ کفر وبرا ء ت کرنا ہر موحد پرفرض ہے تاکہ جہنم سے نجات حاصل کرنے کے لئے مضبوط کڑے کو تھام سکے فرمایا:
اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ م بِہِ اﷲُ وَ لَوْ لَا کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ۔(شوری:21)
کیا ا ن کے لئے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کے وہ قانون بنائے جس کی اللہ نے اجازت نہ دی اوراگر کلمہ فصل نہ ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔

اس طرح کہ وہ قانون سازی کو اپنا یااپنی پارلیمنٹ اورملکی یا صوبائی یا علاقائی حکومتی اداروں کا حق یا اپنی صفت مانتے ہیں اور اپنے قانونوں اور دستوروں میں اسے ضبط تحریر میں لاتے ہیں جیسا کہ ان کے ہاں مشہورمعروف ہے (کویتی دستور کے آرٹیکل 51میں لکھا ہے :قانون سازی جس کااختیار صدر یا قومی اسمبلی رکھتی ہے دستور کے مطابق ہے ۔اسی طرح کی اردنی غیر شرعی دستور کے آرٹیکل 25میں لکھا ہے: قانون سازی کی اختیاربنیادی طور پر بادشاہ یا قومی اسمبلی رکھتی ہے ایسے ہی مصری دستور کے آرٹیکل 86میں لکھاہے :قومی اسمبلی قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے )اس طرح تو وہ ہر اس شخص کے رب ہوئے جو اس کفر وشرک پر ان کی بات مانتا ہوجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان عیسائیوں کے متعلق جنہوں نے اپنے علما ء اور درویشوں کی پیروی کی فرمایا
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ۔(توبہ:31)
کہ انہوں نے اپنے علما ء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا۔

بلکہ ان کی حالت توان سے بھی گئی گزری ہے کیونکہ ان علماء اور درویشوں نے اگرچہ ایسا کیا لیکن ان کے لئے باقاعدہ قانون ودستور کی ایسی کتابیں نہیں لکھیں جن کی خلاف ورزی کرنے والے کو یاان پر عیب لگانے والے کو سزا دی جائے اور وہ انہیں اللہ کی کتاب کے برابر قرار دیتے ہوں بلکہ انہیں اس پر نگران یا حاکم مانتے ہیں جیسا کہ ان لوگوں کی حالت ہے ۔

یہ سمجھنے کے بعد یقین کرلیں کہ عروۃ وثقیٰ کے ساتھ تمسک اور کفر بالطاغوت اعلیٰ ترین مرتبہ اسلام کی چوٹی یعنی ان کے خلاف اور ان کے حامیوں اور پیروکاروں کے خلاف جہاد کرنا اور ا س کو مٹانے کی کوشش کرنا اور لوگوں کو اس کی عبادت سے نکال کر اللہ سبحانہ وحدہ کی عبادت کی طرف لے جانا ہے ایسے ہی حق کا اعلان وپرچار کرنا بھی جو کہ انبیا ء کی سنت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور ان کی ملت کی اقتداء کا حکم دیتے ہوئے واضح طورپر فرمایاکہ :
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٓ ؤُا مِنْکُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَحْدَہٗٓ۔(ممتحنۃ:4)
تمہارے لئے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا ہم تم سے اور اللہ کے سوا تمہارے معبودوں سے بری ہیں ہم تمہارا کفر کرتے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت وبغض ظاہر ہے تاآنکہ تم اکیلے اللہ پر ایمان لے آؤ۔
بعض مفسرین ان کے ساتھیوں سے انبیاء مراد لیتے ہیں اور اس نکتے پر غور کریں کہ اللہ نے بغض سے پہلے عداوت کا ذکرکیا کیونکہ یہ بغض سے زیادہ اہم ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان طاغوتوں سے بغض تورکھے عداوت نہ رکھے اس طرح وہ اس واجب کو ادا نہ کرسکے گا الّا یہ کہ بغض وعداوت دونوں رکھے ۔اس پر بھی غور کریں کہ اللہ نے ان کے معبودوں سے براء ت سے پہلے خود ان سے براء ت کا ذکرکیا کیونکہ پہلا دوسرے سے اہم ہے کیونکہ اکثر لوگ بتوں اور طاغوتوں اور قوانین ودستوروں اور ادیان باطلہ سے توبراء ت کرلیتے ہیں لیکن ان کے بندوں اور حامیوں اور گروپوں سے براء ت نہیں کرتے لہٰذا وہ واجب ادا نہیں کررہے الّا یہ کہ ا ن کے معبودوں اور طاغوتوں سے براء ت کا تقاضا ہے۔
(ماخوذ از: سبیل النجاۃ الفکاک من موالاۃ المرتدین واھل الاشراک از حمد بن عتیق نیز ملاحظہ ہو ہمارا رسالہ ملت ابراہیم )

یہ توتھا سب سے بڑا درجہ اور سب سے کمتر درجہ جس کے بغیر نجات کا تصور نہیں وہ طاغوت سے الگ رہنا اس کی عبادت نہ کرنا یا اس کے شرک وباطل پر اس کی اتباع نہ کرنا ہے فرمایا:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔(نحل:36)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اورطاغوت سے اجتناب کرو۔

نیز فرمایا:
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ۔(حج:30)
اور بتوں کی گندگی سے دور رہو۔

اور ابراہیم کی دعا کا ذکر کیا ،فرمایا:
وَّ اجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّّعْبُدَ الْاَصْنَامَ۔(ابراہیم:35)
اور مجھے اور میری اولاد کو بچاکہ ہم بتوں کی عبادت کریں ۔

اب جو دنیا میں طاغوت اس کی عبادت واطاعت سے اجتناب نہ کرسکے وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا اور اس کے دیگر اوقات جو دین میں گزرے ہوں گے وہ بھی اس عمل میں کوتاہی کی بناء پر فائدہ نہ پہنچاسکیں گے وہ نادم ہوگا جبکہ ندامت کام نہ آئے گی پھر وہ تمنا کرتا رہ جائے گا کہ کاش دنیا کی طرف لوٹ جائے تاکہ اس رکن عظیم کو ادا کرے اور عروہ وثقیٰ کو مضبوط تھام لے اور اس عظیم ملت کی اتباع کرے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَاب،وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُ وْْا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیْہِمُ اﷲُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْہِمْ وَ مَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۔(بقرہ:167)
جب وہ جس کی اتباع کی گئی اتباع کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور وہ عذاب دیکھ چکے ہوں گے اور ان کے آپسی اسباب کٹ گئے ہوں گے اور پیروی کرنے والے کہہ رہے ہوں گے کاش ہمارے لئے لوٹنا ہوپس ہم ان سے اسی طرح بیزاری کریں جس طرح وہ ہم سے بیزاری کررہے ہیں ایسے ہی اللہ انہیں ان کے اعمال ان پر حسرتیں بناکر دکھائے گا اور وہ آگ سے نہ نکل سکیں گے۔

لیکن ہائے پچھتاوا گھڑیاں بیت گئیں اب کیسا لوٹنا اللہ کے بندے اگر تو نجات چاہتا ہے اپنے رب کی رحمت چاہتا ہے جو ا س نے متقین کے لئے لکھی ہے توطاغوت سے اجتناب کران کے شرک سے بچ ابھی پھر قیامت کے دن ان سے وہی بچ سکے گا جو دنیا میں ان سے بچتا رہا اور جو ان کے باطل دین سے راضی ہوکر اس پر چلتا رہا قیامت کی گھڑیوں میں اسے آواز دینے والاکہے گا :’’جو جس کی عبادت کرتا تھا اس کی کے پیچھے چلے سورج کا پجاری سورج کے پیچھے ،چاند کا پجاری چاند کے پیچھے اور طاغوت کا پجاری طاغوت کے پیچھے چلے گا ․․․․․․(مومنوں سے کیا جائے گا )تمہیں کس نے روکا لوگ توجاچکے ہیں وہ کہیں گے ہم ان سے الگ رہے جبکہ آج ہم ان کے زیادہ محتاج ہیں اور ہم نے ایک آواز دینے والے کو یہ کہتے سنا کہ ہر قوم اپنے معبود کے پیچھے رہے اور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں ‘‘(متفق علیہ)۔(مومنین کا دیدار الٰہی سے متعلق حدیث کا ایک حصہ ہے )یعنی دنیا میں ہم ان سے الگ رہے جبکہ ہم ان کے درہم ودینار اور دنیاوی معاملات کے محتاج تھے تواس جگہ ہم ان سے الگ کیوں نہ ہوں اس میں ہی راستے کے بعض نشانات ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَ اَزْوَاجَہُمْ وَ مَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۔(الصافات:22)
ظالموں اور ان کی ازواج اور ان کے معبودوں کویکجاکردو۔

ان کی ازواج سے ان جیسے ان کے حامی مراد ہیں ۔اس کے بعد فرمایا:
فَاِنَّہُمْ یَوْمَئِذٍ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ، اِنَّا کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِیْنَ، اِنَّہُمْ کَانُوْآ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَآ اِٰلہَ اِلَّا اﷲُ یَسْتَکْبِرُوْنَ۔(صافات: 35-133)
وہ سب اس دن عذاب میں مشترک ہوں گے ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں ان سے جب کہا جاتا کہ لاالٰہ الااللہ تووہ تکبر کرتے تھے۔

اللہ کے بندے کلمہ توحید اور اس کے تقاضوں سے اعراض اور ان میں افراط وتفریط اور اتباع حق سے تکبر اورطاغوت کی نصرت وتائید کرکے ہلاکت کا لقمہ بننے سے بچ جا اور یقین کرلے کہ اللہ تعالیٰ نے اس توحید کو ہی اصل دین قرار دیا ہے اور اپنے موحد بندوں کے لئے اسے چن لیا ہے جو توحید کے ساتھ آئے گا اسے قبول کیا جائے گا اور جو توحید کے بغیر کوئی اور دین لائے گا اسے اس کے منہ پر ماردیاجائے گا اور وہ نقصان میں رہے گا ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ وَصّٰی بِہَآ اِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ یبَنِیَّ اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔(بقرہ:132)
اور ابرہیم نے اس (کلمہ توحید )کااپنی اولاد کو تاکیدی حکم دیا اور یعقوب نے اے میری اولاد یقینا اللہ نے تمہارے لئے ایک دین منتخب کیا ہے سو تم نہ مرنا مگر مسلمان ہوکر۔
نیز فرمایا:
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(آل عمران:85)
اور جو اسلام کے سوا دین چاہے گا وہ اس سے کبھی قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔

لفظ دین کا اطلاق فقط نصرانیت ویہودیت وغیرہ پر مت کرو کہ ان کے علاوہ ادیان پر چلنے لگو کیونکہ لفظ دین یہ اس دین و نظام حکومت ومنہج وقانون کو شامل ہے جس پر لوگ چلتے ہیں اسے طرز زندگی (دین)بناتے ہیں ان تمام ادیان سے اور ان کے پیروکاروں سے اجتناب وبراء ت اور ان کا کفر فرض ہے سوائے ملت توحید دین اسلام کے اللہ تعالیٰ پس حکم دیتا ہے کہ ہم کفار سے ان کے ادیان کے اختلاف کے باوجود یہ کہیں کہ :
قُلْ یٰآَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ، لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ، وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ، وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ، وَ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُد، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔(کافرون:6-1)
کہہ دیجئے اے کافروں جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا اور ان جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا اور میں اس کی عبادت نہیں کرنے والا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔

لہٰذا ادیان کفر میں سے ہر ایک ایسے نظام ومنہج پر مشتمل ہوتا ہے جو اسلام کے خلاف اور اس کی ضدہے وہ اپنے اس دین سے راضی ہیں اس میں کمیونزم سوشل ازم سیکولر ازم اور مشنریز وغیرہ نئے نظام واصول سب شامل ہیں جنہیں لوگ اپنے پراگندہ خیالات سے تشکیل دیتے ہیں اور پھر بطور دین انہیں اختیار کرلیتے ہیں جمہوریت بھی اس میں شامل ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کے دین کے سوا ایک دین ہے اس نئے دین میں جس کے فتنے میں اکثر لوگ بلکہ اکثر مسلمان مبتلا ہیں کی گمراہی واضح کرنے کے لئے چند بنیادی باتیں پیش خدمت ہیں تاکہ آپ یقین کرلیں کہ جمہوریت ملت توحید سے الگ ایک مستقل دین اور صراط مستقیم سے الگ ایک مستقل راستہ ہے جس کے دروازے پر بیٹھا شیطان جہنم کی طرف داعی ہے اور پھر آپ اس سے اجتناب کرسکیں اور اس سے اجتناب کی دعوت دے سکیں اور مومنوں کی یاد دہانی ،غافلوں کی بیداری ،ضدی سرکشوں پر اقامت حجت اور رب العالمین کے ہاں عذر خواہی کی خاطر․․․․․․․․․․
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
جمہوریت نیا کفری دین ہے
جمہوریت نیا کفری دین ہے اور قانون سازی جمہوری رب اور ان کے پیروکاران کے پجاری ہیں سب سے پہلے تویہ سمجھ لیں کہ لفظ ڈیموکریٹ )ہمارے معاشر ے میں ڈیموکریسی عمل کے لئے جمہوریت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو کہ ڈیموکریسی کا اصطلاحی شرعی میں غلط ترجمہ ہے اور اصطلاح لغت کے اعتبار سے ڈیموکریسی کا اردو ترجمہ عوامیت زیادہ صحیح ہوگا نیز اگر اس کا صحیح ترجمہ جمہوریت بھی فرض کرلیں تب بھی جمہور مطلق حجت نہیں (یونانی ہے نہ کہ عربی اور یہ دولفظوں ڈیمو یعنی عوام اور کریٹ یعنی حکومت یا قانون یا قانون سازی سے مل کر بناہے یعنی لفظ ڈیموکریٹ کا مطلب ہوا کہ عوامی حکومت یا عوامی قانون سازی ۔اور اہل جمہوریت کے ہاں جمہوریت کے یہی بڑی خاصیات ہیں اور اسی لئے وہ ہر وقت اس کی مداح سرائی کرتے ہیں جبکہ اے میرے موحد بھائی اس وقت کفر وشرک اور باطل کی یہی سب سے بڑی خصوصیات ہیں جو دین اسلام اورملت توحید سے مکمل طور پر متضاد اور معارض ہیں کیونکہ آپ جان چکے ہیں کہ اصل الاصول اور اسلام کا سب سے مضبوط کڑا جس کی خاطر بنی نوع آدم کو پیدا کیا گیا اور کتابوں اور رسولوں کا سلسلہ شروع کیا گیا وہ اللہ تعالیٰ کی توحید عبادت اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے اجتناب ہے جبکہ قانون سازی میں کسی کی اتباع کرنا عبادت ہے جو کہ اکیلے اللہ کا حق ہے اور یہ حق غیر اللہ کو دینے والا مشرک ہے۔

ڈیموکریسی میں یہ خاصیت مکمل طور پر ہوکہ فیصلہ اکثریت یا عوامی اکثریت کے مطابق ہو جیسا کہ بے دین یا دیندار جمہوریت پسندوں کی اکثریت کو جمہوریت کہاجاتا ہے یا پھر عصر حاضر کے طریق پر یہ خاصیت ہو کہ فیصلہ حکام کے ایک مخصوص طبقے یا ان کی مقرب پارٹی جس سے ان کے خاندانی مراسم ہوں یا بڑے بڑے تاجروں زمینداروں اور جاگیرداروں اور اثر ورسوخ رکھنے والوں کا ہو کہ زیادہ تر اموال اور ذرائع ابلاغ ان کے قبضے میں ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے وہ جسے چاہتے ہیں پارلیمنٹ )جمہوریت کے قلعے (میں پہنچادیتے ہیں جیسا کہ ان کے آقا اور رب )بادشاہ یا صدر(جب چاہیں اسمبلی تحلیل کردیں یا اسے مضبوط کردیں ۔ہر دوصورتوں میں ڈیموکریسی اللہ کے ساتھ کفر وشرک اور دین توحید وانبیاءکی صریح مخالفت ہے اس کے چند اسباب ہیں درج ذیل ہیں :
 یہ یا تواکثریت کی قانون سازی ہے یا طاغوت کی نہ کہ اللہ کی جبکہ اللہ نے اپنے نبی کو اپنے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا اور امت کی خواہش یا امت کی اکثریت یا کسی ایک پارٹی کی اتباع سے روکا اور آپ کو خبردار کیا کہ اللہ کے نازل کردہ کسی قانون کے متعلق وہ آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں ۔لہٰذا فرمایا:
وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ وَ لاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْم بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اﷲُ اِلَیْکَ۔(مائدہ:49)
اور یہ کہ آپ ان کے مابین اللہ کے ناز ل کردہ کے مطابق فیصلہ کریں اوران کی خواہشات پر نہ چلیں اور ان سے بچ کر رہیں کہ وہ آپ کو اللہ کے آپ کی طرف نازل کردہ کے بعض کے متعلق فتنے میں ڈال دیں ۔

یہ توحید واسلام کے متعلق ہے جبکہ ڈیموکریسی اور دین شرک کے متعلق جمہوری کہتاہے کہ:اور یہ کہ توان کے مابین پارٹی کی رضاکے مطابق فیصلہ کر اور ان کی خواہشات پر چل اور بچ کر رہ کہ تو ان کے ارادوں اور خواہشوں اور قانون کے متعلق فتنے میں ڈال دیا جائے ۔جمہوری تو ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اور جمہوریت بھی ایسے فیصلے کرتی ہے جبکہ یہ کفر بواح اور شرک صریح ہے اگرچہ وہ اسے جائز سمجھیں اور حقیقت اب بھی اس سے زیادہ بھیانک ہے وہ یہ کہ کہنے والا کہتا ہے کہ ان کے مابین طاغوت اور ا س کی جماعت کی خواہش کے مطابق فیصلہ کرتا جااور کوئی قانون اس کی تصدیق واجازت کے بغیر نہ بنایاجائے۔یقینا یہ بڑی واضح گمراہی ہے اور معبود حقیقی کے ساتھ شرک ہے ۔

یہ یا تو اکثریت کا فیصلہ ہوتا ہے یا طاغوت کا اوردستور کے مطابق نہ کہ اللہ کے قانون کے مطابق جیسا کہ ان کی دستور کی کتابوں میں لکھا ہے جنہیں وہ قرآن سے مقدس خیال کرتے ہیں اور ا س کے فیصلے کو قرآنی فیصلوں پر مقدم اورنگراں قرار دیتے ہیں (کویتی دستور کے آرٹیکل 6میں لکھا ہے :عوام تمام قوانین کاسرچشمہ ہے ۔اور آرٹیکل 51میں ہے کہ :قانون ساز پارلیمنٹ جس کا سربراہ صدر اور قومی اسمبلی ہوتی ہے وہ دستور کے مطابق ہے ۔اور اردنی دستور کے آرٹیکل 24میں لکھاہے کہ عوام قوانین کا سرچشمہ ہے ۔امت اپنے فیصلوں کا اس دستور کے مطابق پورا حق رکھتی ہے)تودین جمہوریت میں عملی طور پر اکثریت کے فیصلے کوبھی اس وقت قبول کیا جاتا ہے جب وہ دستور اور قانون کی دفعات کے مطابق ہو کیونکہ وہ بنیادی قانون ہے اور اس کی کتاب ان کے قرآن سے بھی مقدس ہے ایسے ہی دین جمہوریت میں قرآنی آیات واحادیث نبویہ کا اعتبار بھی نہیں کیا جاتا نہ ہی ان کے مطابق قانون بنایا جاتا ہے الّا یہ کہ وہ آیات واحادیث ان کی دستور کی مقدس کتاب کے موافق ہوں۔اگر آپ کو یقین نہیں توجاکر کسی قانون دان سے پوچھ لیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلاً۔(نساء:59)
پس اگر تم کسی شئے میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی اچھاہے۔

جبکہ دین جمہوریت فرماتا ہے کہ اگر تم کسی بات میں اختلاف کرو تو اسے عوام اور قومی اسمبلی اور اس کے سربراہ کی طرف لوٹادو یہ دستور وضعی اور قانون ارضی کے موافق ہے۔(افسو س تم پر اور اللہ کے سوا تمہارے معبودوں پر کیا تم عقل نہیں کرتے )(ابرہیم نے یہ بات اپنی قوم اور ان کے معبودوں کے پول کھولنے کے بعد کہی تھی)اس بناء اگر اکثریت دین جمہوریت یا اس کی شرکیہ قانون ساز اسمبلیوں کے ذریعے اللہ کی شریعت (قانون )کی حکمرانی چاہے تو اس کے لئے یہ ممکن نہیں اگرچہ طاغوت بھی اس کی اجازت دے دے الّا یہ کہ ان کا دستور اور اس کی دفعات وشقیں اس کی اجازت دیتی ہوں کیونکہ یہی جمہوریت کی مقدس کتاب ہے یا اسے جمہوریت کی ان کی خواہشات وشہوات کے مطابق تحریف شدہ توراۃ وانجیل کہہ لیں۔

جمہوریت لادینیت یا سیکولرازم کی ناجائز اورغیر قانونی باندی ہے کیونکہ سیکولرازم ایسا کفری مذہب ہے جو زندگی اور ریاست وحکومت سے دین کو نکا ل باہر کرتا ہے اور جمہوریت عوام یا طاغوت کے فیصلے کو کہتے ہیں اوریہ کسی بھی حال میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اللہ کے قانون محکم کا بالکل اعتبار نہیں کرتی الّا یہ کہ اللہ کا وہ قانون پہلے دستور کے مطابق ہوجائے یا پھر عوامی خواہشات کے اور ان سب سے پہلے وہ طاغوت یا سربراہ طبقے کی ترجیحات واغراض کے عین مطابق ہوجائے یہی وجہ ہے کہ اگر ساری عوام طاغوت یا ارباب جمہوریت سے کہے کہ ہم اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکومت یا فیصلہ چاہتے ہیں اورہم یہ نہیں چاہتے کہ عوام یا عوامی نمائندوں یا عوامی حکمرانوں کے پاس قانون سازی کا اختیار ہو او رہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اللہ کے حکم کو مرتد ،زانی ،چور اور شراب خور پر جاری کیاجائے اور عورت کے لئے عفت وحجاب کی پابندی لگائی جائے اور ہر طرح کی بے حیائیوں پر مکمل پابندی عائد ہو تو ان کا جواب فوری طور پر یہی ہوگا کہ یہ دین جمہوریت اور دین حریت کے منافی ہے کیونکہ یہ جمہوری حریت ہی توہے اور اللہ کے دین اور قانون اور اس کی حدود کی تمام حد بندیوں سے مکمل آزاد کردیتی ہے جبکہ زمینی دستور کا قانون اور وضعی قانون کی حدود ان کی گندی جمہوریت میںمکمل محفوظ ومامون اور معمول بھی ہیں بلکہ جو ان کی خلاف ورزی یا مخالفت کرے اس کے لئے سزا ضروری ہے ۔

لہٰذا اے میرے موحد بھائیوں جمہوریت اللہ کے دین کے مدمقابل ایک مستقل دین ہے جس میں طاغوت کی حکمرانی ہے نہ کہ اللہ کی جو کہ بودے معبودان متفرقہ کی شریعت ہے نہ اللہ واحد قہار کی اور مخلوق میں سے جو بھی اسے اختیار کرے یا اس کی موافقت کرے تودرحقیقت وہ دستور کی دفعات کے مطابق اپنے لئے اللہ واحد قہار کے قانون کے مدمقابل قانون ساز ی کا حق قبول کررہا ہے اب وہ اسے قبول کرنے کے بعد قانون سازی میں شریک ہو یا نہ ہو اور ان شرکیہ انتخابات میں جیت یا ہار جائے اس کا دین جمہوریت کے مطابق ان میں حصہ لینا یا حصہ لینے والوں کی موافقت کرنا اور اپنے لئے قانون سازی کو قبول کرنا اور اپنے بنائے ہوئے قانون کو اللہ کی کتاب وقانون پر مقدم کئے جانے کو قبول کرلینا ہی عین کفر ہے واضح گمراہی ہے بلکہ معبود حقیقی سے ٹکر لے کر اس کے ساتھ شرک کرنا ہے لہٰذا عوام کا اپنے لئے عوامی نمائندے مقرر کرنا ایسا ہی جیسے ہر قبیلے او رجماعت نے ان میں سے اپنا ایک رب مقرر کرلیاتاکہ وہ ان کی خواہشات وآراء کے مطابق ان کے لئے قوانین بنائے لیکن جیسا کہ دستور کی دفعات اور شقوں اورحدود وغیرہ کے ذریعے یہ بات طے شدہ ہے کہ ان میں سے بعض تواپنے قانون ساز معبود کو کمیونسٹ آئیڈیالوجی فکر کے تحت اختیارات (ووٹ)دیتے ہیں پھر یا تووہ موافق پارٹی کا رب بن جاتا ہے یا دوسروں کے لئے مخالف پارٹی کا اور بعض اپنی قبائلی عصبیت میں اسے یہ اختیاردیتے ہیں تووہ فلاں علاقائی پارٹی کا معبود بن جاتا ہے یا دوسروں کے لئے مخالف پارٹی کا رب ومعبود اورکچھ لوگ اسے اپنے گمان میں سلفی معبود ہونے کی بناء پر ووٹ دیتے ہیں جبکہ دوسرے اسے اخوانیوں کا رب قرار دیتے ہیں )جیسا کہ کویت اور اکثر اسلامی ملکوں میں ہے﴾یا کچھ داڑھی والا رب یا کچھ دیگر داڑھی منڈا رب قرار دیتے ہیں ۔

اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ م بِہِ اﷲُ وَ لَوْ لاَ کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔(شوریٰ:21)
کیا ان کے شرکاءہیں جنہوں نے ان کے لئے دین سے وہ کچھ قانون قرار دیا جس کی اللہ نے اجازت نہ دی اور اگر کلمہ فصل نہ ہوتا تو ان کے مابین فیصلہ کردیاجاتا اور بے شک ظالموں کے دردناک عذاب ہے۔

تویہ نمائندے درحقیقت اپنے اپنے بت کدوں (پارلیمنٹ)میں معبود جھوٹے معبود ہیں جو کہ دین جمہوریت اور دستور کے قانون کے مطابق قانون سازی کرتے ہیں اور اس سے بھی پہلے وہ اپنے رب اور معبود یعنی بادشاہ یا صدر یا سربراہ کا حکم مانتے ہیں جو ان کے قوانین کا فیصلہ کرتا ہے ان کی تصدیق یا تردید کرتا ہے ۔

میرے موحدین بھائیوں یہ دین جمہوریت نہ کہ دین الٰہی اور دین مشرکین نہ کہ دین انبیاء ومرسلین اور مختلف ارباب ومعبودان کا دین نہ کہ اللہ واحد وقہار کا دین ۔

ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ۔ (یوسف:40-39)
کیا بہت سے مختلف رب بہتر ہیں یا اکیلا اللہ قہار نہیں تم عبادت کرتے اللہ کے سوا مگر ناموں کی جو تم نے اورتمہارے باپ دادا نے رکھے اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔

ءَ اِٰلہٌ مَّعَ اﷲِ تَعٰلَی اﷲُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۔(نمل:63)
کیا اللہ کے ساتھ کوئی اوربھی معبود ہے ؟اللہ ان کے شریکوں سے بہت بلند ہے

سوآپ اے موحد بھائی اللہ کا دین اس کاپاک قانون اس کا روشن چراغ اور اس کی سیدھی راہ اختیارکرلیں یا پھر دین جمہوریت اور دین شرک وکفر اور ٹیڑھی مسدود راہ یا تواللہ اکیلے قہار کا حکم مان لیں یا طاغوت کا ؟

قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَیِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لاَ انْفِصَامَ لَہَا وَ اﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔(بقرہ:265)
تحقیق ہدایت گمراہی سے واضح ہے توجو طاغوت کے ساتھ کفر کرے اور اللہ پر ایمان رکھے اسی نے مضبوط کڑے کو پکڑرکھا ہے جو ٹوٹتانہیں ۔

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا۔(کہف:29)
اورکہہ دیجئے حق تمہارے رب کی طرف سے ہی ہے اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کردے یقینا ہم نے ظالموں کے لئے آگ تیارکررکھی ہے۔

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اﷲِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْہًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْن، قُلْ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ، وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
۔(آل عمران:85-83)
کیا پھر اللہ کے دین کے سوا وہ متلاشی ہیں حالانکہ آسمانوں اور زمین والے طوعاً وکرھاً اسی کے فرمانبردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے کہہ دیجئے ہم اللہ پر اور جو ہم پر نازل کیاگیا اور جو ابراہیم واسماعیل واسحاق و یعقوب اور ان کی اولادوں پر اتارا گیا اور جو موسیٰ وعیسیٰ اور انبیاء اپنے رب کی جانب سے دیئے گئے اس پر ایمان لائے ہم ان میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں اور جو اسلام کے سوا دین چاہے تواسے اس سے کبھی قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگا۔
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
دین جمہوریت کے جواز میں پیش کے جانے والے چند شبہات کاردّ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلَّااﷲُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ، رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ۔(آل عمران:8-7)
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری اس کی بعض آیات محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دیگر آیات متشابہ ہیں توجن لوگوں کے دلوں میں کجی ہو وہ اس کے مشابہات کی ٹوہ میں رہتے ہیں فتنے کھڑاکرنے اور اس کی حقیقت کو جاننے کی خاطر حالانکہ اس کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور راسخ فی العلم کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں سب ہمارے رب کی جانب سے ہے اور عقلمند ہی نصیحت لیتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمارے دلوں کو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھانہ کر اور اپنی جانب سے ہمیں رحمت دے یقینا توبہت دینے والا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں یہ بتایا کہ اس کے قانون کے متعلق دوطرح کے لوگ ہیں:
 اہل علم ورسوخ : وہ سب پر ایمان وعمل رکھتے ہیں عام پر اس کے مخصص پر اس کے مقید اور مجمل پر اس کے مبیّن کے ساتھ اور جو انہیں مشکل لگے اسے کتاب اللہ کے محکمات بیّنات اصولوں اور راسیات وراسخات قواعد کی طرف لوٹادیتے ہیں جن کی معاونت شرعی دلائل کرتے ہیں ۔

اہل زیغ وضلال: وہ کتاب اللہ کے محکم ومبیّن ومفسر سے اعراض برت کر اس کے مشابہات کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اورفتنہ بپا کرنے کی خاطر فقط اسی پر عمل کرکے خوش رہتے ہیں ۔یہاں جمہوریت اور شرکیہ نمائندہ نشستوں سے متعلق ایک بات سمجھ لیں کہ لوگ اہل زیغ وضلال کی راہ پر چلتے ہیں اور واقعات وشبہات کو منفرد طور پر لیتے ہیں اورانہیں ان کی وضاحت یا تقیید وتفسیر کرنے والے قواعد واصول دین سے مربوط نہیں کرتے تاکہ آسانی سے حق کو باطل اور نور کو اندھیرے کے ساتھ خلط ملط کردیں لہٰذا اس بارے میں ہم پہلے ان کے مشہور شبہات ذکر کرکے))اللہ مَلِک وہاب مجری السحاب وھازم الاحزاب وحدہ((کی توفیق سے ان کی تحقیق وتردید کردیں۔

پہلاشبہہ: یوسف علیہ السلام کا عزیز مصر کے ہاں عامل ہونا۔
یہ شبہہ وہ لوگ پیش کرتے ہیں جو دلائل سے کورے ہوں لہٰذا کہتے ہیں کہ کیا یوسف یوسف علیہ السلام کافر بادشاہ کے پاس منصب وزارت پر فائز نہ تھے جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت وفیصلہ نہیں کرتا تھا؟لہٰذا کافر حکومتوں کے ساتھ شرکت کرنا بلکہ پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی میں داخل ہونا جائز ہے ۔

ہم اللہ کی توفیق سے جواب دیتے ہیں :
اوّل: قانون ساز پارلیمنٹ میں دخول اور اس کے جواز پر اس سے دلیل لینا باطل وفاسد ہے کیونکہ یہ شرکیہ پارلیمنٹ اللہ کے دین کے علاوہ دین جمہوریت پر قائم ہے جس میں قانون سازی اور تحریم وتحلیل کا الوہی اختیار عوام کو ہوتا ہے نہ کے اکیلے اللہ کو جبکہ اللہ نے فرمایا:
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(آل عمران:85)
اور جو اسلام کے علاوہ دین چاہے گا تو و ہ اس سے کبھی بھی قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔

سوکیا کوئی جراء ت کرے گا کہ یوسف یوسف علیہ السلام اللہ کے دین کے علاوہ دین یا اپنے آباء کی ملت کے علاوہ ملت کے پیرو تھے یا اس کا احترام کرتے تھے یا اس کے موافق قانون سازی کرتے تھے جیسا آج کل ان پارلیمنٹوں کے فتنوں میں مبتلا لوگوں کا حال ہے؟(کہ جس کے دستور میں صاف لکھا ہے کہ عوام ہی قوانین کا سرچشمہ ہے ۔ملاحظہ ہو کویتی دستور کا آرٹیکل 6اور اردنی دستور کا آرٹیکل 25)ایسا کیونکر ممکن ہے جبکہ وہ برملاکہتے تھے کہ :
اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَاٰبَآئِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْئٍ۔(یوسف:38-37)
میں نے اس قوم کے دین کو چھوڑ دیا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتی اور وہ آخرت کا انکار کرتی ہے اورمیں اپنے آباء ابراہیم واسحاق ویعقوب کے دین پر چلتا ہوں ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک کریں۔

نیز فرماتے ہیں کہ :
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٰٓ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لَکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف:40-39)
اے میرے قید کے ساتھیوں کیا بہت سے الگ رب بہتر ہیں یا ایک اللہ قہار تم اس کے سوا عبادت نہیں کرتے مگر ناموں کی جو تم نے اور تمہارے باپوں نے رکھ لئے اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری فیصلہ کرنا جائز نہیں مگر اللہ کے لئے اسی نے حکم دیا کہ تم عبادت نہ کرو مگر اس کی یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔

کیا کمزوری کی اسی حالت میں وہ اس کا پرچار کریں اور شوکت کے زمانے میں اس کو چھپالیں یا اس سے اعراض برتیں گے ؟جائز کہنے والوہمیں جواب دو! اورپھر سیاست کے شہبازوں کیا تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وزارت تنفیذی اختیار کو کہتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ قانون سازی کے اختیار کو اور ان دونوں میں بہت فرق ہے لہٰذا جائز قرار دینے والوں کا اسی پر قیاس کرنا ہرگز درست نہیں (بعض نام نہاد ملا کہتے ہیں کہ وزارت پارلیمنٹ سے زیادہ خطرناک ہے اور کہتے ہیں پارلیمنٹ حکومت کے خلاف محاذ ہے وہ اس محاذ میں دستوری جہاد کرتے ہیں اور قانونی اور ڈپلومیٹک جدوجہد کرتے ہیں ۔وہ اس بات سے بے بصیرت ہیں کہ قانون سازی اس کے نفاذ سے زیادہ خطرناک ہے خاص طور پر ان کی یہ پارلیمانی قانون سازی جسے وہ جہاد اور جدوجہد کہتے ہیں جمہوری دین کے دستور کے موافق ومطابق ہوملاحظہ ہو اردنی دستور کی دفعہ 24کی شق نمبر 2کہ دستور میں واضح طور پر عوام کوقانون سازی کے اختیارات ہیں ..اور ارکان پارلیمنٹ ان کے زعم کے مطابق دستوری اختیارات کے حامل عوامی نمائندے ہی ہوتے ہیں ۔نیز کویتی غیر شرعی دستور کاآرٹیکل 51ملاحظہ ہو کہ :دستور کے مطابق قانون سازی کا اختیار صدر یا قومی اسمبلی کے پاس ہوتاہے)اس سے واضح ہوا کہ یوسف کے واقعے سے پارلیمنٹ کے جواز پر دلیل لینا ہرگز درست نہیں ایسے ہی ہمارے زمانے میں وزارتی عہدوں میں شراکت پر اس واقعے سے ان کے دلیل لینے کو کفر قرار دینے سے کوئی چیزمانع نہیں ہے ۔

دوم: اللہ کے دین سے متحارب اور اعداء اسلام کی حامی مملکتوں کے ماتحت وزارتوں کے فتنے میں مبتلا لوگوں سے دوستی کو یوسف کے اس فعل پر قیاس کرنا بہت سی وجوہات کی بناء پر فاسد اور باطل ہے:
 وزیر بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان حکومتوں کے ماتحت رہے جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرتی ہیں اور ان کے وضعی دستور کا احترام کرے اور طاغوت کو اخلاص و ہمدردی کے ساتھ دین بنائے جبکہ اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا ہے وہ طاغوت ہے فرمایا:
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ۔ (نساء:60)
وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کے پاس فیصلے کے لئے جائیں جبکہ انہیں حکم کیاگیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کفر کریں ۔

بلکہ اس منصب پر باقاعدہ فائز ہونے سے قبل ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کفر کا حلفیہ اقرار کریں جیسا ہر پارلیمانی رکن کے لئے ضروری ہے(اردنی دستور کے آرٹیکل 43میں لکھا ہے کہ :وزیر اعظم ودیگر وزراء کے لئے ضروری ہے کہ چارج سنبھالنے سے قبل صدر کے سامنے مندرجہ الفاظ میں حلف اٹھائیں کہ میں اللہ عظیم کی قسم کھاکرکہتا ہوں کہ صدر کا وفادار رہوں گا اور دستور کی حفاظت کروں گا․․․․․․․ایسے ہی آرٹیکل79میں ہے کہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ہر رکن کے لئے چارج سنبھالنے سے قبل ضروری ہے کہ وہ صدر کے سامنے ان الفاظ میں حلف اٹھائے کہ میں اللہ عظیم کی قسم اٹھاکرکہتا ہوں کہ صدر کا وفادار رہوں گا اور دستور کی حفاظت کروں گا ․․․․․․․کویتی دستور کے آرٹیکل 126اور 91میں بھی اسی طرح ہے ۔سوال یہ ہے کیا یوسف نے ایسا کچھ بھی کیا تھا؟اور فتنوں میں گرفتار ان لوگوں کی اس بات کا اعتبارنہیں جو کہتے ہیں کہ حلف اٹھاتے وقت ہم اپنے دل میں یہ مستثنیٰ کرلیتے ہیں کہ شرع کی حدود میں رہتے ہوئے کیونکہ قسم کااعتبار قسم اٹھانے والے کی نیت پر نہیں ہوتا کیونکہ اگر ایسا ہوتو لوگوں کے سارے ہی معاملات بگاڑ کاشکار ہوجائیں اور یہ عمل ایک کھیل بن جائے بلکہ قسم اٹھوانے والے کی نیت کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام نے فرمایاکہ :’’قسم حلف اٹھوانے والے کی نیت کے مطابق ہوگی‘‘لہٰذا ان کی قسمیں ان کی نیتوں کی تابع نہیں بلکہ اس طاغوت کی نیت کے مطابق ہوتی ہیں جو ان سے قسم اٹھواتا ہے )اب جو یوسف کریم ابن کریم علیہم السلام کے متعلق اس طرح کی بدگمانی رکھے جبکہ اللہ نے انہیں اس سے بری قرار دہتے ہوئے فرمایاکہ :
کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ۔ (یوسف:24)
ایسے ہی تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائیوں کو پھیر دیں بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں سے ہے۔

توبلاشبہ مخلوق میں سب سے بڑا کافر اور غلیظ شخص ہوا جس کا دین سے دور سے بھی واسطہ نہیں بلکہ وہ ابلیس ملعون سے بھی بدتر ہواکیونکہ اس نے بھی قسم کھاتے وقت چند لوگوں کو مستثنیٰ کیا:
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ،اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۔(ص:83-82)
پس تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے ان میں تیرے مخلص بندوں کے ۔

اور اللہ کے فرمان کے مطابق یوسف علیہ السلام ان مخلص بندوں کے سرداروں میں سے ہیں ۔

ان حکومتوں کے ماتحت وزیر بننے والادستور کے مطابق حلف اٹھائے یا نہ اٹھائے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وضعی اور کفری قانون کا پابند رہے نہ اس سے تجاوز کرے نہ اس کی خلاف ورزی کرے لہٰذاوہ اس دستور کا مخلص بندہ اور خادم ہوا اور ان لوگوں کا تابعدار جنہوں نے اسے بنایاخواہ وہ حق ہو یا باطل فسق وظلم ہویا کفر․․․․․․․۔

توکیا یوسف علیہ السلام نے ایسا کچھ کیا کہ ان کے فعل کو کفری مناصب کے جواز کی دلیل بنایاجائے ؟یقینا جو بھی اللہ کے نبی ابن نبی ابن نبی ابن خلیل اللہ کے متعلق اس طرح کی معمولی سی بدگمانی بھی کرے ہم اس کے کفر وزندقہ اور اسلام سے خروج میں قطعاً شک نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ نے فرمادیا کہ :
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔ (نحل:36)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔

جبکہ یوسف علیہ السلام کے لئے اس کائنات میں اللہ کا بیان کردہ یہ اصول ہی سب سے بڑا اصول اور سب سے بڑی مصلحت تھی جیسا کہ دیگر انبیاء ورسل ﷩کے لئے ہے ۔کیا یوسف لوگوں کو مخفی طور پر اور تنگی اور کمزوری اور قوت وقدرت میں اس اصل کی طرف پہلے توخود دعوت دیں اور پھر خود ہی اس کی مخالت کرکے مشرکین میں سے ہوجائیں کیا عقل اسے مان سکتی ہے؟یہ کیونکر ممکن ہو جبکہ اللہ نے انہیں اپنے مخلص بندوں میں گردانا ہے علاوہ ازیں بعض مفسرین اللہ کے فرمان:
مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ۔(یوسف:76)
وہ بادشاہ کے دین میں ہرگز اپنے بھائی کونہ لے سکتا تھا۔
کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے نظام اور قانون کو نہیں مانتے تھے نہ ہی ان کے مطابق فیصلے کرتے تھے ۔توکیا آج کل کی وزارتوں اور پارلیمنٹوں میں ایسا ممکن ہے کہ کسی وزیر کی عادت ایسی ہو کہ یوں کہاجائے کہ اس نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی ہے ؟لہٰذا ان مناصب کو یوسف علیہ السلام کے فعل پر قیاس کرتے ہوئے جائز کہنا باطل ہے ۔

 یوسف علیہ السلام اس وزارت پر منجانب اللہ ،اللہ کی قدرت سے فائز ہوئے ارشاد فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:56)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔

اور یہ تمکن اللہ کی طرف سے ہوا نہ کہ بادشاہ یا کسی اور کی طرف سے کہ وہ ان کو اس منصب سے معزول کرسکے خواہ وہ بادشاہ کی مخالفت کرتے رہیں ۔توکیا آج کل کے ان طاغوتی عہدیداروں کے پاس اس طرح کا کچھ اختیارہے کہ یوسف علیہ السلام کی تمکین وولایت پر انہیں قیاس کرنا درست ہوسکے؟

یوسف علیہ السلام بادشاہ کی طرف سے ملنے والی مکمل اور حقیقی تحفظ کی بناء پر وزیر بنے ارشاد فرمایا:
فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔(یوسف:54)
پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی توکہنے لگاکہ بے شک آج آپ ہمارے ہاں محفوظ مہمان ہیں۔

اس طرح انہیں اپنی وزارت میں کامل وغیر ناقص حریت وتصرف کا اختیار حاصل ہوا اسی لئے فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:56)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔

سو نہ تو ان سے کوئی حساب لے سکتا تھا نہ ہی ان کی نگرانی کرسکتا تھا خواہ وہ کچھ بھی کریں .توکیا آج کل کی طاغوتی وزارتوں میں اس طرح کا کچھ ہے یا یہ محض جھوٹے اور باطل اختیارات ہیں جو اس وقت ختم ہوجاتے ہیں جب وزیر ان کے دامن سے کھیلنے لگے یا صدر کی اطاعت سے ہٹ کر ان کی خلاف ورزی کرے اس اعتبار سے یہ وزیر درحقیقت صدر یا بادشاہ کا سیاسی خادم ہوا جو اس کے احکامات کا مکمل پابندہوتا ہے اور اسے صدر یا دستور کی مخالفت کا بالکل حق حاصل نہیں ہوتا اگرچہ اس میں اللہ سبحانہ اور اس کے دین کی مخالفت ہی ہو ۔اب اگر کوئی یہ گمان کرے کہ یوسف بھی اسی طرح کچھ نہ کچھ پابند ضرور تھے توبلاشبہ وہ کافر ہے کیونکہ یوسف علیہ السلام کا جو تزکیہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایااس کا منکر بن رہا ہے لہٰذا جب آج کل کی طاغوتی وزارتوں میں یوسف جیسی کیفیت موجود نہیں توانہیں ان پر قیاس کرنا ہی باطل ہی ہے۔

سوم: اس باطل شبہہ کے ردّ میں بعض مفسرین کا یہ قول بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ بادشاہ اسلام لے آیاتھا جیسا کہ مجاہد تلمیذ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس قول کے مطابق اس مقدمے سے دلیل لینا ہی اصلاً باطل ہوجاتا ہے ۔نیز ہمارا طریقہ اور عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کے ظاہر اور عموم کی اتباع مختلف تفسیرات اور رقیق تشکیکات وتاویلات سے بدرجہ اولیٰ ہے کیونکہ بہر طور وہ ادلہ معتبر ہ سے عاری ہوتی ہیں اب جس آیت سے یہ قول پایہ ثبوت کو پہنچتا ہے وہ یہ ہے فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ۔(یوسف:56)
اورایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین پر حکومت عطاکی ۔

اس اجمال کی وضاحت اللہ دوسرے مقام پر اس طرح کرتا ہے فرمایا:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔(حج:41)
وہ لوگ جنہیں ہم زمین پر حکومت عطا کریں وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرتے ہیں اور معاملات کاانجام اللہ کے لئے ہے۔

یہاں اللہ نے یہ تفصیل کردی کہ اہل ایمان حکومت ملنے کے بعد کیا کرتے ہیں اور بلاشبہ یوسف علیہ السلام اہل ایمان کے سردار ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ دین اسلام میں سب سے بڑا معروف توحید اور سب سے بڑا منکر شرک ہے جیسا کہ یوسف اور ان کے آباء واجداد یعقوب ،اسحاق ،ابراہیم ﷧کی دعوت کا پرچار کیا اور اس کے مخالفین کی بیخ کنی کی لہٰذا یہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت نہ ہوئی نہ ہی ایسے کسی حاکم کی معاونت اورنہ ہی ان سے تعلق استوار کرنا یا ان کی طرف میلان ہوا جیسا کہ آج کل کے مفتون وزراء کا طرز عمل ہے بلکہ بالیقین انہوں نے اس صورت حال کو تبدیل کیا اور توحید کی حاکمیت قائم کی اور اسی کی طرف دعوت دی اور اس کے ہر مخالف کو شکست دی خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔جیسا کہ اللہ کی سنن جاریہ فی الانبیاء سے متعلق آیات ونصوص سے ثابت ہوتا ہے اب اگر کوئی یوسف صدیق کریم ابن کریم ابن کریم کو ان سے متضاد صفات سے متصف کرے تووہ کافراور خبیث اور دین اسلام سے خارج وبری ہے۔ایسے ہی اللہ کے فرمان:
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔(یوسف:54)
بادشاہ نے کہا تم اسے میرے پاس لاؤ میں اسے اپنے لئے خاص کرلوں پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی تو وہ کہنے لگا آج آپ ہمارے پاس محفوظ مہمان ہیں۔

آپ کے خیال میں یوسف علیہ السلام نے اس سے کیا گفتگوکی ہوگی کہ متاثر ہوکر اس نے آپ کو حکومت کی پیشکش کردی ؟کیا عزیز مصر کی بیوی کا قصہ سنایا ہوگاجو کہ اپنے اختتام کو بخیروخوبی پہنچ چکا تھایا ملکی اتحاد یا اقتصادی مشکلات سے متعلق یا کچھ اور ؟غیب دانی کا دعویٰ توکوئی نہیں کرسکتا البتہ دلیل کے ساتھ بات سچاکرتا ہے سو جو اللہ کے فرمان﴿ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ ﴾’’پھر جب انہوں نے اس سے گفتگو کی ‘‘کے اجمال کو اللہ کا یہ فرمان مدد کرتا ہے۔فرمایا:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔(نحل:36)
اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔

نیز:
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(زمر:65)
اور البتہ آپ کی اور آپ سے پہلے والوں کی طرف یہ وحی کی گئی کہ اگرتونے شرک کرلیا توتیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔

نیزیوسف علیہ السلام کی ترجیحی دعوت سے متعلق اللہ کا یہ فرمان:
اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآئِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْئٍ ۔(یوسف:(38-37)
یقینا میں نے ان لوگوں کے دین کو چھوڑ دیا جو اللہ پر یقین نہیں رکھتے اور وہ آخرت کے منکر ہیں اور میں نے اپنے آباء ابراہیم واسحاق ویعقوب کی اتباع کی ہے ہمارے لئے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک کرنا ہرگزجائز نہیں ہے ۔
نیز:
ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف: 40-39)
کیا بہت سے مختلف رب بہتر ہیں یا ایک غالب اللہ کے سوا تم محض ناموں کی عبادت کرتے ہوجو تم نے اورتمہارے آباء نے رکھ لئے اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری حکم صرف اللہ ہی کا حق ہے اس نے حکم دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین لیکن اکثر لوگ نابلد ہیں ۔

یقینا یوسف علیہ السلام کے نزدیک سب سے معیاری گفتگو اور ان کی اور ان کے آباء کی دعوت کا سب سے بنیادی اصول یہی ہے یہی سب سے بڑا معروف اور جو چیز اس کے متضاد ہو وہی سب سے بڑا منکر ہے اس بات کے تقرر وتعین کے بعد کہ یوسف علیہ السلام نے ان سے کیاگفتگو کی تھی بادشاہ کا یہ جواب کہ: ﴿اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ﴾’’یقینا آج آپ ہمارے محفوظ مہمان ہیں ‘‘بڑی ہی واضح دلیل ہے کہ بادشاہ نے ان کی تابعداری اختیار کرلی تھی اور دین کفر کوترک کرکے ملت ابراہیمی کا پیروبن چکاتھا اور پھر انہیں ہرطرح کے کلام اور دعوت کی مکمل آزادی دے دی تھی اور اس بات کی بھی کہ اس دعوت ے مخالفین کی سرکوبی کریں .تویوسف علیہ السلام کی حالت اور عصر حاضر کے طاغوتی مفتون وزراء کی حالت میں فرق کرنے کے لئے فقط اتنا ہی کافی ہے )ہماری اس گفتگو کے خلاف سورہ غافر کی اس آیت کو دلیل بناناجائز نہیں جس میں آل فرعون میں سے موسیٰ پر ایمان لانے والے شخص نے فرعون وغیرہ سے کہا تھا کہ :
وَ لَقَدْ جَآءَ کُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا جَآءَ کُمْ بِہٖ حَتّٰیٓ اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اﷲُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًا۔(غافر:۴۳)
اورالبتہ تمہارے پاس اس سے پہلے یوسف بھی واضح معجزات لے کر آیاپر تم اس کے پیش کردہ میں شک کرتے رہے حتی کہ جب وہ مرگیا توتم کہنے لگے کہ اللہ اس کے بعد اب کبھی رسول نہ بھیجے گا۔

عدم جواز استدلال کی چند وجوہات درج ذیل ہیں :
 آیت میں یہ صراحت نہیں کہ یہ یوسف بن یعقوب ہیں ممکن ہے اور ہوں جیسا کہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ مراد یوسف بن افرانیم بن یوسف بن یعقوب ہیں جو ان میں 20سال نبی رہے ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے نیز ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی وغیرہ اور جب احتمال آجائے تودلیل قابل استدلال نہیں رہتی ۔

اگر یہ مان لیاجائے کہ یوسف علیہ السلام ہی مراد ہیں تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بادشاہ ایمان نہ لایاتھا کیونکہ ممکن ہے کہ اس شخص کا کلام اکثریت کے متعلق ہو۔

اس آیت میں کفر بواح علانیہ کانہیں بلکہ شک کا تذکرہ ہے اور شک کسی وقت دل میں ہوتا ہے توکسی دوسرے وقت میں ظاہر ہوجاتا ہے.اور یہ بات طے شدہ ہے کہ یوسف علیہ السلام حاکم بن گئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنے لگے پھر کوئی آپ کے سامنے اپنے شرک کا اظہار کرے اور آپ خاموش رہیں ایسا ناممکن ہے کسی میں یہ جراء ت بھی کیونکر ہوجب کہ آپ حاکم اور رسول تھے اور شرک آپ کے نزدیک سب سے بڑا منکر تھا لیکن اگر دل میں کفرو شرک چھپا کر اہل ایمان کے سامنے حاکم کے خوف سے ایمان کا اظہار کیا جائے تویہ نفاق ہوتا ہے اور لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہر کے مطابق برتاؤ ہوتا ہے بلکہ اس شخص کے اس قول کہ :﴿حَتّٰیٓ اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اﷲُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًا﴾’’حتی کہ جب وہ مرگیا توتم کہنے لگے کہ اللہ اب اس کے بعد کبھی رسول نہ بھیجے گا‘‘میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بظاہر اس پر ایمان لے آئے تھے اگرچہ دل سے نہ لائے ہوں۔یہاں ایک اور شبہہ کا بھی ازالہ کردینا مناسب ہے جو کہ مفتون وزراء اس شخص کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ اس نے اپنے ایمان کو چھپاکررکھا تھا لہٰذا یہ جائز ہے ۔اس کا ردّ یہ ہے کہ ہم جن حالات سے دوچار ہیں ان میں اور وہ جن حالات سے دوچار تھا اس میں کیا مطابقت ومناسبت ہے ؟کمزور کے ایمان چھپانے اور شرک وکفر اور قانون سازی اور اللہ کے دین کو بگاڑنے اور روندنے میں برابر شریک ہونے میں بڑا ہی واضح فرق ہے کیا وہ شخص ان مفتون وزراء کی طرح قانون سازی یا اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے یا جمہوریت کی حمایت کرنے میں ان کا برابر کا شریک رہا تھا؟لہٰذا پہلے اس بات کو ثابت کیا جائے پھر کوئی دوسرا دعویٰ کیا جائے وگرنہ ان فضولیات سے اجتناب کیاجائے)

چہارم: گذشتہ بحث سے جب یہ حقیقت عیاں ہوچکی کہ یوسف علیہ السلام توحید کی مخالفت کرکے یا دین ابراہیمی کو پس پشت ڈال کر وزیر نہیں بنے تھے جیسا کہ آج کل بنتے ہیں تواب اگر یہ مان لیاجائے کہ بادشاہ اپنے کفر پر باقی رہا تھا تو یوسف علیہ السلام کی وزارت اس صورت میں ایک فرعی مسئلہ کی شکل اختیار کرجائے گی جس کااصول دین سے کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ یوسف سے شرک وکفر یا کفار سے تعلقات یا اللہ کے ساتھ قانون سازی وغیرہ نواقض ایمان کچھ بھی صادر نہ ہوا تھا بلکہ آپ ہمہ وقت توحید کاپرچار اور شرک کی تردید کرتے رہے۔اور اللہ تعالیٰ فروعی مسائل کے متعلق فرماتا ہے کہ:﴿لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا﴾(مائدہ:48)’’او رہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے (الگ)شریعت اورمنہج بنایاہے‘‘لہٰذا انبیاء کی شریعتیں احکام فروعی میں تومختلف ہوتی ہیں البتہ اصول دین میں متفق و متحد جیسا کہ نبی ﷪نے فرمایا:’’ہم انبیاء کی جماعت علاتی (باپ ایک ماں الگ )بھائی ہیں ہمارا دین ایک ہے ۔بخاری عن ابی ہریرہ )یعنی اصول دین توحید وغیرہ میں ایک ہیں البتہ شریعت کے مسائل واحکام میں مختلف ہیں ہم سے پہلے کی شریعت میں ایک شئے حرام ہو پھر ہمارے لئے حلال ایسا ممکن ہے مثلامال غنیمت کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے یاہم سے پہلے والوں پر سختی ہو پھر ہمارے لئے نرمی کردی جائے لہٰذا گزشتہ شریعت کی ہربات ہمارے لئے شریعت نہیں خاص طور پر جبکہ ہماری شریعت میں اس کے خلاف دلیل بھی ہو اور ہماری شریعت میں اس عمل کی حرمت پر دلیل موجود ہے جو یوسف علیہ السلام کی شریعت میں حلال تھا۔ابن حبان،ابویعلیٰ اورطبرانی نقل کرتے ہیں کہ’’ نبی علیہ السلام نے فرمایا:تم پر بے وقوف حاکم آئیں گے جو بدترین لوگوں کو قریب کریں گے اور نماز تاخیر سے پڑھیں گے سو تم میں سے جو ایسا وقت پائے وہ ہرگز کوئی ناظم یا سپاہی یا ٹیکس آفیسر یا خزانچی نہ بنے(اور راجح بات یہ ہے کہ ان حکمرانوں سے فاسق امراء مراد ہیں جو کافر نہ ہوں کیونکہ ڈرانے والا جب کسی چیز سے ڈراتا ہے تو عام طور پر اس چیزکا سب سے براپہلو بیان کرتاہے لہٰذا اگر وہ کافر ہوتے تو آپ ضرور بتاتے جب کہ آپ نے ان کی سب سے بڑی برائی یہ بیان کی کہ وہ بدترین لوگوں کو قریب کریں گے اورنماز تاخیر سے پڑھیں گے اس کے باوجود نبی نے واضح طور پر منع فرمایا کہ کوئی ان کا خازن یعنی خزانچی بنے توجب فاسق حاکم کا خزانچی بننا ہماری شریعت میں حرام ہوتو کسی کافر کا وزیر خزانہ بننا کس طرح جائز ہوسکتاہے لہٰذا یوسف علیہ السلام کا تقاضاکہ :﴿قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ﴾(یوسف:55)’’تومجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردے کیونکہ میں محافظ اور ماہر ہوں‘‘اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ان کی شریعت میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں منسوخ ہے۔واللہ تعالی اعلم

اگرچہ ہدایت کے لئے اتنا ہی کافی ہے لیکن اگر کوئی اپنے فہم وتدبر اور آراء الرجال ادلہ وبراہین پر مقدم کرتا ہوتو اگر اس کے سامنے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ کردیا جائے وہ ہدایت حاصل نہیں کرسکتا:﴿وَ مَنْ یُّرِدِ اﷲُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اﷲِ شَیْئًا﴾(مائدہ:41)’’اور جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے تو آپ اللہ کے مقابل اس کے لئے ہرگز کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ‘‘

اس شبہے کے متعلق بحث کے اختتام سے قبل ہم اس پارلیمانی اور وزارتی شرک وکفرکو اپنے فہم وتدبرسے جائز قرار دینے والوں کے متعلق ایک تنبیہ کردیں کے وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے یوسف علیہ السلام کے وزیر بننے سے متعلق کلام کو توڑ مروڑکر پیش کرتے ہیں جبکہ یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر افتراء وبہتان سے زیادہ کچھ بھی نہیں کیونکہ انہوں نے اس قصے سے قانون سازی کے محل یا کفر یا اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے کے جواز پر دلیل نہیں لی ہے ان جیسے راسخ العقیدہ اور عقل مند شخص سے اس بد عقیدگی اوربے عقلی کی توقع نہیں کی جاسکتی ایسی بات تو عام عقل مند بھی نہیں کہہ سکتا چہ جائیکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے عاقل وعالم ربانی یہ بات کریں یہ ناممکن ہے کیونکہ اس سلسلے میں ان کا عقیدہ واضح اورمعروف ہے کیونکہ اس بات کا دارومدار جلب المصالح اور درء المفاسد کے قاعدے پر ہے اور اس کائنات کی سب سے بڑی مصلحت توحید اور سب سے بڑا مفسدہ شرک و تندید ہے اور پھر وہ یوسف علیہ السلام کے متعلق اس عہدے کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:’’ان سے جس قدر انصاف اور خیرخواہی ہوسکی انہوں نے کی اور حتی الامکان انہیں ایمان کی دعوت دی۔(مجموع الفتاوی:68/28)

انہوں نے مطلق طور پر کہیں نہیں کہا کہ یوسف علیہ السلام اللہ کے ساتھ قانون سازی کرتے یا اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والے کے ساتھ شریک ہوتے یا جمہوریت وغیرہ ادیان باطلہ کی اتباع کرتے جیسا کہ آج کل کے مفتون وزراء کی حالت ہے جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام کو اپنے شبہات کے پردوں میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو گمراہ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کرسکیں ۔اور پھر اے میرے موحد بھائی اس سب کو چھوڑدیں ہمارا قائد اور ہماری دلیل جس کی طرف ہم بوقت اختلاف رجوع کرتے ہیں وہ وحی ہے نہ کہ کچھ اور وہ اللہ اور اس کے رسول کاکلام ہے اور اللہ کے رسول کے بعد ہر ایک کے قول کو قبول یا ردّ کیا جاسکتا ہے لہٰذا اگر بفرض محال ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایسا کچھ کہا بھی ہو تو ہم اسے ان سے کیا اگر ان سے بڑھ کر کوئی آجائے اس سے بھی قبول نہ کریں گے حتی کہ وہ ہمارے پاس اس کی واضح دلیل نہ لے آئے جو وحی سے ہو:
قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُکُمْ بِالْوَحْیِ۔(انبیاء 45:)
اے نبی کہہ دیجئے درحقیقت میں تمہیں بذریعہ وحی ڈراتا ہوں ۔

قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔(بقرہ:111)
اے نبی کہہ دیجئے اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔

لہٰذا باخبررہیں اور توحید پر ڈٹے رہیں اور شرک وکفر کے دوستوں اور توحید وسنت کے دشمنوں کی چالوں میں نہ آئیں بلکہ اس گروہ میں شامل رہیں جو اللہ کے دین کو قائم رکھے جن کے متعلق نبی علیہ السلام نے فرمایا:’’جو ان کی مخالفت کرے یا ان کی مدد نہ کرے وہ انہیں نقصان نہ دے سکے گا حتی کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور وہ اسی طرح ہوں‘‘۔(فتح الباری:295/13)
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
دوسرا شبہہ: ’’بندگان خواہش اپنے طاغوتی قانون سازوں خواہ وہ حکام ہوں یا پارلیمنٹ میں ان کے نائبین وغیرہ کے حق میں نجاشی کے قصے کو بھی دلیل بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نجاشی نے اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت نہیں کی اور اسی حالت میں فوت ہوا اس کے باوجود نبی علیہ السلام نے اسے ’’نیک بندہ‘‘قرار دیا اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور صحابہ کو اس کے حق میں دعا کرنے کا حکم دیا‘‘۔

اس شبہے کا جواب درج ذیل ہے ۔وباللہ التوفیق
اول: اس شبہے کو دلیل بنانے سے قبل معترض کسی واضح صریح غیر معارض نص کے ذریعے یہ ثابت کرے کہ اسلام لانے کے بعد بھی نجاشی نے اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کی تھی کیونکہ میں نے اول تا آخر ان کے تمام بیانات پڑھ لئے مجھے ایسا ثبوت نہیں مل سکا جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾(بقرہ:111)’’اے نبی کہہ دیجئے اگر تم سچے ہوتواپنی دلیل لے آؤ‘‘۔گویا اگر وہ دلیل پیش نہ کرسکیں تویہی ان کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے۔

دوم: یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ نجاشی کی وفات تکمیل شریعت سے پہلے ہوئی تھی اور وہ اللہ کے فرمان :﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾(مائدہ:3)’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو بطور دین پسند کرلیا‘‘۔کے نزول سے پہلے ہی فوت ہوگیا تھا جیسا کہ ابن کثیر وغیرہ نے لکھاہے ۔(البدایۃ والنھایۃ:277/3)

لہٰذا اس کے حق میں اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرنا اس وقت اتنا ہی تھا جتنا دین اسے پہنچاتھا کیونکہ اسی طرح کے معاملات میں ڈرانے کے لئے قرآن کا پہنچنا ضروری ہے جیسا کہ فرمایا:
وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ م بَلَغَ۔(انعام:19)
اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا تاکہ میں تمہیں اور جن کو یہ پہنچے انہیں اس کے ذریعے ڈراؤں۔

اور اس دور میں آج کل کی طرح ذرائع ابلاغ واتصال نہ تھے اسی لئے بعض شرعی احکام چند سالوں بعد معلوم ہوتے تھے بلکہ بسا اوقات اس وقت معلوم ہوتے جب دور دراز کا سفر طے کرکے نبی علیہ السلام کے پاس پہنچاجاتا لہٰذا دین نیا ہوتا رہا قرآن اترتا رہا اور شریعت اس وقت تک مکمل نہ ہوسکی صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس کی واضح دلیل ہے فرماتے ہیں کہ ہم نبی علیہ السلام کو (نماز میں)سلام کرلیتے اور آپ ہمیں جواب بھی دیتے (یعنی وعلیکم السلام کہہ کر)پھر جب ہم نجاشی کے پاس سے ہوکر آئے تو آپ نے ہمیں جواب نہ دیا اور فرمایایہ نماز میں شغل ہے ۔تو جب وہ صحابہ جو نجاشی کے پاس تھے عربیت اور بہت سی احادیث نبویہ سے واقف تھے اس کے باجود ان تک یہ نماز میں کلام کا نسخ نہیں پہنچا جبکہ نماز توبڑی عیاں عبادت ہے نبی پانچ مرتبہ نماز پڑھاتے تھے تو وہ تمام احکامات ومسائل جو نمازکی طرح بار بار ادا نہیں کئے جاتے وہ کیونکر انہیں معلوم ہوجاتے کیا کوئی دین جمہوریت پر ایمان لانے والوں میں سے کوئی یہ دعویٰ پایہ ثبوت تک پہنچاسکتا ہے کہ نجاشی تک مکمل قرآن یا اسلام پہنچ چکا تھاتاکہ وہ نجاشی کے حال پر اپنی حالت کو قیاس کرسکے ؟

سوم: یہ بات طے شدہ ہے کہ نجاشی تک اللہ کی نازل کردہ جو معلومات پہنچیں اس نے ان کے مطابق حکومت کی اب جو اس کے خلاف کوئی اور دعویٰ کرے تو اس کی بات بلادلیل نہیں مانی جاسکتی : ﴿قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾’’کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو تواپنی دلیل پیش کرو‘‘اور وہ تمام باتیں جنہیں بطور دلیل پیش کیا جاتاہے وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ اس وقت تک نجاشی کے پاس اللہ کی نازل کردہ جو معلومات پہنچیں اس نے ان کے مطابق حکومت کی۔

 اس وقت تک اللہ کے نازل کردہ کے مطابق اس پر یہ واجب تھا کہ وہ توحید ورسالت پر اور عیسیٰ کی رسالت وعبودیت پر ایمان رکھے اور اس نے ایسا کیا اس سلسلے میں نجاشی کا وہ خط ملاحظہ ہو جسے اس نے نبی کی طرف روانہ کیا جس کا تذکرہ عمر بن سلیمان الاشقر نے اپنے کتابچے((حکم المشارکۃ فی الوزارۃ والمجالس السیاسیۃ))کے صفحہ 71 میں بحوالہ زادالمعاد :6/60 کیا ہے۔
ایسے ہی نبی علیہ السلام کی اس کی بیعت کرنے اور ہجرت کا معاملہ ہے مذکورہ خط میں نجاشی کہتا ہے:’’اس نے اللہ کے رسول کی بیعت کرلی ہے اور اس کے بیٹے جعفر اور اس کے مصاحبوں نے بھی اور اللہ کے رسول کے ہاتھ پر اللہ کے لئے اسلام لے آیاہے‘‘۔اس میں یہ تذکرہ بھی ہے کہ ’’اس نے اپنے بیٹے اریحا بن اصحم بن ابجر کو آپ کی طرف روانہ کیا‘‘اور یہ بھی ہے کہ ’’اگر آپ چاہیں تومیں خود رسول اللہ آپ کے پاس آجاؤں کیونکہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ نے جو کچھ کہا وہ حق ہے ‘‘پھر شاید وہ اس کے فوراً بعد مرگیا یا نبی علیہ السلام نے اس وقت اس کو کوئی جواب نہیں دیا یہ تمام باتیں اس قصہ میں مخفی ہیں لہٰذا کچھ بھی یقینی طور سے نہیں کہا جاسکتا چہ جائیکہ اس کے ذریعے توحید اور اصول دین کے خلاف استدلال کیا جائے ۔

ایسے ہی اس نے نبی علیہ السلام اور دین اسلام اور مسلمانوں کی مدد کی جو صحابہ اس کی طرف ہجرت کرکے گئے ان کی مدد کی انہیں پناہ دی اور ہر طرح سے خیال رکھا نہ توانہیں بے یار ومددگار چھوڑا نہ ہی انہیں قریش کے حوالے کیا نہ ہی حبشہ کے عیسائیوں کو ان کے خلاف کاروائی کی اجازت دی جبکہ وہ عیسیٰ کے متعلق اپنے عقیدے کا کھلم کھلا اظہار کرتے تھے بلکہ نبی کی طرف اس کے ایک دوسرے خط میں ہے کہ :’’اس نے اپنے بیٹے کو ساٹھ حبشیوں کے ساتھ نبی کی طرف روانہ کیا ہے․․․․․․․(ایضاًص73)یہ سب آپ کی مدد وتائیداور اتباع میں ہی تھا اس سب کے باوجودعمر الاشقر لاپروائی کی انتہاءکرتے ہوئے اپنے مذکورہ کتابچے کے صفحہ ۷۳پر لکھتا ہے کہ ’’نجاشی نے اللہ کے قانون کے مطابق حکومت نہیں کی تھی‘‘جبکہ یہ نجاشی جیسے موحد پر افتراء وبہتان ہے حق یہ ہے کہ اس نے اس کے پاس پہنچنے والی اللہ کی نازل کردہ ہدایات کے مطابق حکومت کی تھی اور ا س کے برعکس کوئی یہ بھی بات قطعی غیر معارض دلیل کے بغیر مردود ہے اورکہنے والاجھوٹاہے:﴿قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾’’کہہ دیجئے اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو‘‘لہٰذا جس نے یہ دعویٰ کیا اس نے کوئی صریح دلیل پیش نہیں کی بلکہ تاریخ کے اندھیروں سے چراغ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جبکہ تاریخی روایات سب کی سب قابل قبول نہیں ہوتیں خاص طور پر جب وہ آیات واحادیث صحیحہ کے بھی معارض ہوں لہٰذا ایسے لوگوں سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ پہلے چھت تو ڈال لو پھر نقش نگاری کرتے رہنا۔

نجاشی کے قصہ میں ایک ایسے حاکم کی صورتحال بیان کی گئی ہے جو کافر تھا پھر اپنے منصب پر رہتے ہوئے ہی اسلام لے آیا اورنبی علیہ السلام کے حکم کے مطابق اپنے اسلام کا فرمانبرداری کے ساتھ اعلان بھی کردیا کہ آپ کی طرف اپنے بیٹے اور قوم کے چندچیدہ اشخاص کو روانہ کیا تاکہ آپ سے آپ کی طرف ہجرت کی اجازت چاہے اور آپ کی اور دین اوردینداروں کی مدد کرے بلکہ اپنے سابقہ عقیدے اور شرک سے براء ت کااظہار بھی کرے اور حق کوطلب کرنے اور دین کو سیکھنے کی کوشش کرے تاکہ اور اسی راستگی کے عالم میں اللہ سے ملاقات کرے اور یہ سب شریعت کی تکمیل اورمکمل شریعت اس تک پہنچنے سے پہلے کی باتیں ہیں نجاشی کے متعلق صحیح احادیث وآثار میں وارد شدہ یہ حقیقی صورتحال ہے اورہم اپنے مخالفین کو چیلنج دیتے ہیں کہ وہ اس کے برعکس کچھ ثابت کرکے دکھائیں لیکن دلیل صریح سے نہ کہ تواریخ سے جو ناقابل اعتبار ہیں )اسلامی تاریخ جو اب تک لکھی گئی اس کی اپنی کیا حیثیت ہے اور کن مورخین نے اسے رقم کیاہے کیا وہ مسلمان تھے کیا اسلام سے اور ا س کے مزاج سے مکمل طور پر واقف تھے یا مغرب سے درآمد یا مرعوب تھے اور اسی ماحول کے پروردہ تھے مورخین کی اکثریت کس حیثیت کی حامل ہے اور اس کی رقم کردہ تاریخ کی کیا حقیقت ہے اور کیا اب اہل اسلام کو اپنی تاریخ دوبارہ سے ازسر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ان تمام حقائق کا ادراک کرنے کے لئے ملاحظہ ہو سید قطب شہید رحمہ اللہ کا رسالہ ’’فی التاریخ فکرۃ ومنھاج‘‘جس کا اردو ترجمہ ’’تاریخ فکر ومنہج کے آئینہ میں ‘‘کے نام سےIslamic Education A Mobile Based Website کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔از مترجم)

او روہ صورتحال جس کے لئے استدلال کیا گیا تو وہ صورت ہی انتہائی خبیث ہے کیونکہ یہ ایسے لوگوں کی صورتحال ہے جو بظاہر اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور جو اسلام کے منافی عمل ہے اس سے براء ت بھی نہیں کرتے بلکہ اس کی طرف منسوب ہوتے ہیں اس طرح ایک ہی وقت میں دوباہم متضاد حقیقتوں کو اپناتے ہیں پھر اس پر فخر کرتے ہیں دین جمہوریت سے بری الذمہ نہیں ہوتے جیسا کہ نجاشی عیسائیت سے بیزار ہوا تھا بلکہ ہر وقت ا س کی ثناء خوانی میں لگے رہتے ہیں اور اسے لوگوں کے لئے جائز قرار دے کر اس بگڑے ہوئے دین میں داخل ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور خود ہی اپنے معبود اور رب مقرر کرکے انہیں اپنے لئے ایسے قوانین بنانے کے اختیار دیتے ہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی بلکہ ان کے ساتھ اس کفریہ قانون سازی میں شریک ہوجاتے ہیں جس کی بنیاد اپنی طرف سے بنایاہوا دستور ہوتا ہے اور اس کی پابندی کرکے مطمئن رہتے ہیں بلکہ جو اس کی مخالفت کرے یا اس میں عیب لگائے یا اسے معطل کرنے کی کوشش کرے اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور یہ سارے کام تکمیل دین اور ان تک قرآن وسنت اور آثارپہنچ جانے کے بعد کے ہیں ۔
للّٰہ انصاف کیجئے اور سوچئے کیا یہ گندی اور اندھیری صورت کو آپ کی تمام تر قومی فرقہ واریت کی ہولناکیوں کے ساتھ اس شخص کی صورتحال پر قیاس کیا جاسکتا ہے جو نیا مسلمان ہو حق کا طالب ہو اور دین کی مدد کرنا چاہتا ہواور اب تک دین مکمل نہ ہوا ہواور جو نازل ہوچکا ہووہ مکمل طور پر اس تک نہ پہنچا ہو؟

ان دونوں صورتوں میں زمین وآسمان اورمشرق ومغرب کا فرق وبعد ہے ۔یہ دونوں حق کے میزان میں توہرگز یکجانہیں ہوسکتیں البتہ ان مطففین کے میزان میں ضرور جمع ہوجاتی ہیں جنہیں اللہ نے بصیرت سے بے بہرہ کردیا ہو سو وہ دین جمہوریت کو جو توحید واسلام کی ضد ہے عین توحید واسلام سمجھتے ہیں ۔

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْن،الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ،وَ اِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ، اَلاَ یَظُنُّ اُوْلٰٓئِکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ، لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ۔ (مطففین:5-1)
ہلاکت ہے مطففین کے لئے جو جب خود ماپ کرلیتے ہیں توپورا لیتے ہیں اور جب انہیں ماپ یا تول کر دیتے ہیں توکم کردیتے ہیں کیا یہ لوگ یقین نہیں رکھتے کہ روز قیامت دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے ؟
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
تیسراشبہہ:جمہوریت کوجائز قراردینے کے لئے اسے شوریٰ کانام دینا بعض عقل کے اندھے اور بصیرت سے کورے اپنے اس باطل کفری جمہوری دین کے لئے اللہ کے موحدین مومنین کے متعلق ان اقوال سے دلیل لیتے ہیں ۔فرمایا:﴿ وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ﴾(شوریٰ:38)’’اور ان کا معاملہ باہم مشورہ سے ہوتا ہے‘‘نیزْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ۔(آل عمران:159)’’اور آپ معاملے میں ان سے مشورہ لیں ‘‘اپنے اس کفری مذہب کو جائز قرار دینے کے لئے اس پر شوریٰ کاایک رنگ چڑھاتے ہیں ۔

اس کا جواب درج ذیل ہے ۔وباللہ التوفیق
نام بدل جانے سے حقائق بدل نہیں جاتے بلکہ اسی طرح رہتے ہیں بعض تبلیغی جماعتیں جو اس کفری مذہب کی حامل ہوتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ ’’جب ہم جمہوریت کا اعلان کریں یا اس کی دعوت دیں یا اس کی ترغیب دیں یا اس کے لئے کوشش کریں تو اس سے ہماری مراد حریت کلمہ ودعوت ہوتی ہے ‘‘۔(جمہوریت سے جو حریت مراد لی جاتی ہے وہ سراسر باطل اورکفر ہے کیونکہ اس سے ان کی مراد حریت دعوت الی اللہ وحدہ نہیں بلکہ حریت کلام طاغوت وکفار وملاحدہ ومشرکین اور حریت اعتقاد وارتداد ومقدسات میں طعن کی حریت مراد ہوتی ہے جمہوریت مغربی ہو یا عرب کی ہر ایک میں کفر والحاد اور زندقہ کی مکمل آزادی ہوتی ہے جبکہ اسلام پر مکمل پابندی ہوتی ہے اور ان لوگوں کی سب سے بڑی تمنا یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو مغربی جمہوریت کے کفر میں جکڑ کر رکھ دیں اور کفر تو ایک ہی ملت ہے ان مغالطات سے ضرور باخبررہیں )توہم کہیں گے کہ اہم یہ نہیں کہ تم کیا کہتے ہو اورکیا مراد لیتے ہوبلکہ اہم یہ ہے کہ جمہوریت کو طاغوت مقررکرکے تمہیں اس میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی وجہ سے انتخابات کرائے جاتے ہیں اور پھر منتخب ہونے کے بعد تم اسی کے مطابق قانون سازی اور حکومت کرتے ہولہٰذا اگر تم لوگوں کو بے وقوف بنابھی لو تب بھی اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے ۔
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اﷲَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمْ۔(نساء:142)
بے شک منافقین اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ وہ ان کے دھوکے کا جواب دیتاہے۔

نیز فرمایا:
یُخٰدِعُوْنَ اﷲَ وَ الَّذِیْنَ مَنُوْا وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ۔ (بقرہ:9)
وہ اللہ اور اہل ایمان کو دھوکہ دیتے ہیں حقیقت میں وہ لاشعوری طورپر اپنے آپ کوہی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں ۔

لہٰذا نام بدل دینے سے ان کے احکام نہیں بدلتے نہ ہی حلال کو حرام یا حرام کو حلال کردیاجاتا ہے نبی علیہ السلام نے فرمایا:’’میری امت کا ایک گروہ شراب کوا یسے نام سے حلال کرے گا جو خودانہوں نے رکھا ہوگا‘‘۔(مسند احمد عن عبادۃ : 22704)

اس کے علاوہ علماء اور لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں جو توحید کو برا کہے یا اس کی مخالفت کرے یا اسے خارجیت یا تکفیر کہے یا شرک کو اچھا یا جائز سمجھے یا اس کا مرتکب ہو یا اس کا نام بدل کر کچھ اور رکھ دے (ملاحظہ ہو الدررالسنیۃ فی الاجوبۃ النجدیۃ:145/1)جیسا کہ آج کل یہ لوگ جمہوریت کو جوکہ دین شرک وکفر ہے شوریٰ کا نام دیتے ہیں تاکہ اسے جائز قرار دے کر لوگوں کو اسے اختیار کرنے کی دعوت دیں ۔

دوم: مشرکین کی جمہوریت کو موحدین کی شوریٰ پر قیاس کرنا اور مجلس شوریٰ کو کفر وفسق وعصیان کی مجالس کے مشابہ قرار دینا کذب وباطل ہے کیونکہ قومی یا صوبائی اسمبلی یا پارلیمنٹ وثنیت کے مراکز اور شرک کے قلعے ہیں جس میں جمہوری آلھہ اور ارباب اور ان کے شرکاء اپنے دستور اور وضعی قوانین کے مطابق لوگوں کے لئے ایسے قوانین بناتے ہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی (اردنی دستور کے آرٹیکل 25میں ہے کہ قانون سازی کا اختیار بادشاہ یا قومی اسمبلی کے پاس ہے ۔ایسے ہی کویتی دستور کے آرٹیکل 59میں ہے کہ دستور کے مطابق قانون سازی صدر یا قومی اسمبلی کرے گی ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف: 40-39)
کیا بہت سے مختلف رب بہتر ہیں یا اکیلااللہ غالب تم اس کے سوا ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہوجنہیں تم نے اور تمہارے آباءنے رکھ لیا اللہ نے ان کی دلیل نہ اتاری حکم کرنا صرف اللہ کے لئے ہے اس نے حکم دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
نیز فرمایا:
اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ م بِہِ اﷲُ۔(شوری:21)
کیاان کے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لئے قوانین کودین قرار دیا جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا۔

لہٰذا یہ قیاس ایسے ہی ہے جیسے شرک کو توحید اور کفر کو ایمان پر قیاس کرنا اور اللہ پر بلاعلم جھوٹ باندھنا اور اس کی آیات میں الحاد اور حق وباطل اور ظلمت کو خلط ملط کرنا ہے۔یہ جاننے کے بعد سمجھ لیں کہ شوریٰ جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے قانون کی حیثیت دی اس کے اور گندی جمہوریت کے مابین فرق آسمان وزمین جیسا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کر جو فرق خالق ومخلوق میں ہے اسی طرح کافرق ان دونوں میں بھی ہے۔

 شوریٰ ربانی نظام ومنہج ہے جبکہ جمہوریت ان ناقص انسانوں کی کارگزاری ہے جو خواہشات کے اسیر ہیں ۔

شوریٰ اللہ کاقانون اس کا دین اور حکم ہے جبکہ جمہوریت اللہ کے قانون اور دین کے مطابق کفر اور اس کے حکم کے برعکس ہے ۔

مشاورت وہاں کی جاتی ہے جہاں نص موجود نہ ہو اور جب نص ہوتو شوریٰ کی کوئی حیثیت نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لاَ مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا۔(احزاب:36)
کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کے لئے جائز نہیں جب اللہ اور اس کا رسول ایک بات کا فیصلہ کردیں کہ انہیں اپنے معاملے میں اختیار مل جائے۔

جبکہ جمہوریت میں ہر پہلو سے کھیل تماشا ہوتا ہے اس میں نصوص شرع اور احکام الٰہیہ کا مطلق اعتبار نہیں بلکہ مکمل اعتبار قوم ہر پہلو میں قوم کے فیصلے کا ہوتا ہے اسی لئے وہ اپنے دستوروں میں جمہوریت کی تعریف کرتے ہیں کہ عوام تمام قوانین کا سرچشمہ ہیں (یہ چیز مغربی کفری جمہوریت میں ہے جبکہ عربی کفری جمہوریت میں پہلا اور دوسرا دونوں اعتبارات بادشاہ یا صدر کے پاس ہوتا ہے کیونکہ اس کی منظوری کے بغیر عوامی رائے یا فیصلے یا پارلیمنٹ یا عوامی نمائندوں کے فیصلہ جات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اسے مکمل اختیار ہوتا ہے جیسے چاہے قانون بنائے)

جمہوریت اس کائنات میں عوام کو سب سے بڑی قانونی اتھارٹی مانتی ہے یعنی اکثریت کا فیصلہ اکثریت جسے چاہے حلال کرے جسے چاہے حرام کردے گویا جمہوریت میں اکثریت ہی الٰہ اور رب ہوتی ہے جبکہ شوریٰ میں اکثریت تو اللہ اور ا س کے رسول پھر امام المسلمین کے احکامات وفیصلہ جات کی تابعداری کی پابند ہوتی ہے اور امام اکثریت کی رائے یا فیصلے کا پابند نہیں ہوتا جبکہ اکثریت ان کی اطاعت کی پابند ہوتی اگرچہ وہ ظلم کریں تاآنکہ نافرمانی کا حکم نہ دیں ۔(یہ حق بھی ان مسلمان حکام کو حاصل ہے جو اللہ کے قانون کے مطابق حکومت کرتے ہوں اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہوں آج کل کے کافر اور مرتد حکام کو یہ حق حاصل نہیں جو یہود ونصاریٰ سے دوستیاں لگاتے ہیں)

جمہوریت کا پیمانہ اورمعبود اور تمام قوانین کا سرچشمہ اکثریت ہوتی ہے جبکہ شوریٰ میں اکثریت کوئی پیمانہ نہیں بلکہ اللہ نے اپنی کتاب میں واضح طور پر اکثریت کے خلاف فیصلہ دیا ہے ۔فرمایا:
وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ۔(انعام:116)
اور اگر آپ نے زمین پر رہنے والے افراد کی اطاعت کی تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بہکادیں گے وہ محض گمان پر چلتے ہیں اور صرف اندازے لگاتے ہیں ۔

وَ مَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ۔(یوسف:103)
اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں اگرچہ آپ اس کی تمنا کرتے رہیں۔

وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآءِ رَبِّہِمْ لَکٰفِرُوْنَ۔(روم:9)
اور اکثر لوگ اپنے رب سے ملاقات کا انکار کرتے ہیں ۔

وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاﷲِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْنَ۔(یوسف:106)
اورنہیں ایمان لائے ان میں سے اکثر اللہ پر مگر اس حال میں کہ وہ مشرک ہوتے۔

وَلَکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ۔(بقرہ:243)
لیکن لوگوں کی اکثر یت شکر نہیں کرتی۔

وَلَکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف:21)
لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے ۔

فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا۔(اسراء:89)
پس اکثر لوگوں نے انکار کردیا لیکن ناشکری سے(نہیں کیا)۔

اس معنی کی اور بہت سی آیات ہیں نیز نبی علیہ السلام نے فرمایا:
درحقیقت لوگ ایسے سو اونٹوں کی طرح ہیں جن میں ایک بھی تو سواری کے قابل نہ پائے گا۔(عن ابن عمر متفق علیہ)

اللہ تعالیٰ فرمائے گااے ابن آدم آگ کا حصہ نکال دے وہ کہیں گے کہ آگ کا کیا حصہ ہے اللہ فرمائے گا ہر ہزار سے نوسوننانوے اس موقع پر بچے بوڑھے ہوجائیں گے اورحاملہ اپنا حمل گرادے گی اور تو لوگوں کو مدہوش خیال کرے گا جبکہ وہ مدہوش نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوگا۔(بخاری عن ابوسعید رضی اللہ )

لہٰذا اللہ کا دین اور قانون اکثریت کو گمراہ قرار دیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایاکہ :
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہَِ۔(یوسف:40)
نہیں ہے حکم مگر اللہ کا ۔

جبکہ جمہوریت اور اس کے حامی اللہ کے اس قانون کو ماننے کے بجائے الٹاکہتے ہیں کہ حکم اکثریت کاہوگااب بھی جو ان کی حمایت کرے اس کے لئے تباہی وبربادی ہو خواہ اس کی داڑھی کتنی ہی طویل ہو یا وہ کوئی بھی ہو ہم دنیا میں ان سے اس طرح اس لئے کہتے ہیں شاید وہ توبہ کرلیں جو ان کے لئے بہتر ہے اور یہ دنیا میں سن لینا بنسبت آخرت کے زیادہ سہل ہے کہ جب ساری انسانیت رب العالمین کے روبرو حاضر ہوگی وہ اللہ کے نبیﷺکے حوض کوثر پر جانا چاہیں گے پر فرشتے انہیں دھکیل دیں گے اور کہیں گے انہوں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا تھا یہ سن کر نبی الرحمۃ فرمائیں گے دفاع ہوجاؤ دور ہوجاؤ جنہوں نے میرے بعد تبدیلیاں کیں (بخاری مسلم)۔

یہ جمہوریت ہی ہے کہ جب یورپی اقوام نے اپنی زندگی سے دین کو نکال پھینکا تو اس نے کفر کی مٹی میں جنم لیا پھر شرک وفساد کے کھلیانوں میں نشو ونماپائی اور ان کی فضاؤں کو زہریلا کرنا شروع کردیا اس کا ایمان وعقیدہ واحسان کے تینوں اور مٹی سے کچھ تعلق نہیں اورنہ ہی یہ مغرب میں دین کو ریاست سے الگ کئے بغیر اپناوجود برقراررکھ سکتی ہے اور ایسا ہوجانے کی صورت میں ہی اس گندی جمہوریت نے ان کے لئے لواطت وشراب نوشی وجنسی آزادی ودیگر فواحش کو قانونی حیثیت دی یہی وجہ ہے کہ اسے صرف جمہوری کافر یاجاہل بے وقوف ہی جائز یا شوریٰ کے مساوی قرار دے کر اس کا دفاع کرسکتا ہے ان دو کے سوا کوئی تیسرانہیں ۔

اور یہ دور جس میں اصطلاحات میں بڑا اختلاط ہے اور باہم متضاد امور یکجاہورہے ہیں ایسے دور میں اگر بندگان شیطان ان کفریہ افکار کو اپنالیں توکوئی تعجب کی بات نہیں البتہ اس پر ہے کہ کچھ نام نہاد مسلمان اس پر شرعی لبادہ اوڑھا کراسے جائز قرار دے کر اس کی ترغیب دیتے ہیں جس طرح ماضی میں جب اشتراکی نظریہ ظاہر ہوا توکچھ فتنہ پروروں نے اسلامی اشتراکیت کی اصطلاح گڑھ لی اور کچھ قوم پرست عربوں نے اسے قبول بھی کیا اور اسلام میں شامل کردیا جبکہ آج انہیں میں سے بہت سے لوگ ان زمینی دستوروں کا ڈھنڈورہ پیٹنے لگے ہیں اور جمہوری آسیبوں کو اسلامی فقہاء شریعت سے مشابہت دیتے ہوئے فقہاء قانون (قانون داں یا ماہر قانون)بالکل نہیں شرماتے اور اسلامی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں مثلاً مشرع(شریعت ساز)شریعت (قانون سازی)حلال ،حرام ،جائز ،مباح اور محظور(ممنوع)اس کے باوجود اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ درست ہیں ۔فلا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔اور اس کی وجہ علم اور علماء کا قحط اورمعاملات نااہل ہاتھوں میں دینا اور بدترین لوگوں کے لئے میدان خالی چھوڑدینا۔

افسوس آج دین اور علم اور دیندار علماء ربانیین عوام الناس میں نہیں بلکہ خود نام نہاد مسلمانوں میں اجنبی ہوکر رہ گئے جو نہ لاالٰہ الااللہ کے حقیقی معانی جانتے ہیں نہ ہی اس کے لوازمات وتقاضے اور شروط سے ہی واقف ہیں بلکہ دن رات اس کے منافی امور کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور شرک کے جھانپڑ سہہ کر بھی خود کو موحد گمان کرتے ہیں بلکہ اس کے داعی ۔انہیں چاہئیے کہ اپنی اصلاح کریں اور علم کے حلقوں میں بیٹھ کر علم حاصل کریں تاکہ لاالٰہ الااللہ کے حقیقی معانی سے آگاہ ہوسکیں کیونکہ اس کے علم کوحاصل کرنا ہی اللہ نے انسان پرسب سے پہلے فرض کیالہٰذا نواقض وضوء اور مبطلات صلاۃ سے بھی پہلے اس کلمے کے تقاضوں اور شروط کا علم حاصل کرنا چاہئیے کیونکہ نماز اور وضوء کے اس کے بغیر درست نہیں اب بھی اگر لوگ نہیں سدھرتے اور گھمنڈ میں رہے تو یقینا خسارے میں جائیں گے اپنے اس کلام کا اختتام میں علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کے عمدہ کلام پر کرتا ہوں جنہوں نے﴿ وامرھم شوریٰ بینھم﴾ ’’اور ان کا معاملہ باہم مشورے ہوتاہے ‘‘اس جیسی آیات کے ذریعے اپنی گندی جمہوریت کو جائز قرار دینے والوں کی بڑی موثر تردید کی ہے چنانچہ آیات :﴿وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ﴾(آل عمران:159)’’اور معاملے میں ان سے مشورہ لے ‘‘﴿وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ﴾(شوریٰ:38)’’اور ان کامعاملہ باہم مشورہ ہوتا ہے‘‘کی تفسیر کے حاشیے میں فرماتے ہیں :
عصر حاضر میں دین کو مذاق بنالینے والے علماء وغیرہ ان دونوں آیات کو اپنی باطل تاویل اورگمراہ کرنے کے لئے مشق ستم بناتے ہیں تاکہ فرنگی کے بنائے ہوئے دستوری نظام کو جائز قرار دیں جس کانام انہوں نے جمہوری نظام رکھ کر عوام کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے یہ لوگ ان دونوں آیات کو سرورق اور ہیڈنگ بناتے ہیں تا کہ اسلام سے منسوب جماعتوں کو دھوکہ دے سکیں درحقیقت یہ ایسا کلمہ حق ہے جس سے باطل مقصد پورا کیا جارہا ہے وہ کہتے ہیں کہ اسلام مشاور ت کاحکم دیتا ہے ۔یقینا اسلام مشاورت کا حکم دیتا ہے لیکن کس قسم کی مشاورت کا اللہ اپنے رسول سے فرماتا ہے:﴿وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِِ﴾(آل عمران:159)’’اورآپ معاملے میں ان مشورہ لیں پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں‘‘اس آیت کے معنی واضح اور صریح ہیں محتاج بیان نہیں نہ ہی تاویل کے محتمل ہیں اس میں حکم رسول کو ہے اور رسول کے بعد اس کے نائب یعنی حاکم کو ہے کہ وہ اپنے قابل اعتماداور قابل ساتھیوں سے مشورہ لے ان مسائل میں جن میں تنفیذ یا اجراء کے لئے آراء کے تبادلے اور اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے پھر ان میں سے صحیح ترین یا قریب مصلحت رائے کو اختیار کرکے اس کے نفاذکا عزم کرلے اور کسی مخصوص گروہ کی رائے کا پابند نہ ہو نہ ہی کسی مخصوص تعداد یا اکثریت یا اقلیت کی رائے کا پھرجب عزم کرلے تو اس کے عملی اجراء کے لئے صرف اللہ پر توکل رکھے ۔اس آیت میں سادہ مفہوم جسے کسی دلیل کی ضرورت نہیں یہ ہے کہ رسول یا اس کے نائب کو جن افراد سے مشاورت کا حکم ہوا ان سے اللہ کی حدود کی پابندی کرنے والے نیک اورمتقی رفقاء مراد ہیں جو نماز وزکاۃ اور جہاد فی سبیل اللہ کے پابندہوں جن کے متعلق خودنبی علیہ السلام نے فرمایاکہ:’’عقلمند اور سمجھ دار مجھ سے قریب رہا کریں‘‘ان سے بے دین اور اللہ کے دین سے مصروف جنگ یا اعلانیہ گناہ کرنے والے یاخود کو اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے مخالف قوانین بنانے کا مستحق سمجھنے والے اور اللہ کے دین کو برباد کرنے والے ایسے لوگ مراد نہیں جو کفر اور فسق کے مابین ہوں ان کا صحیح مقام یہ نہیں کہ مشیر کے مرتبے پر فائز کئے جائیں بلکہ تختہ دار یا کوڑا ہے ایک دوسری آیت میں ان باتوں کو صراحت سے بیان کیاگیا ہے فرمایا:﴿وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾شوریٰ:(38 )’’اورجولوگ اپنے رب کی اطاعت کریں اورنماز پڑھیں اور ان کا معاملہ باہم مشاورت سے ہواور ہم نے انہیں جو کچھ عطاکیا اس میں سے خرچ کرتے ہوں ۔(عمدۃ التفسیر:(65-64/3)
 
Top