گزشتہ دنوں موجودہ صورتحال اور اسلامی نظام کے حوالے سے بات چیت کے دوران ایک صاحب نے فرمایا کہ القادری یا عمران کی جدوجہد بھی اسلام کی جدوجہد کا ایک حصہ ہی ہے، یقینا اسلام بھی لوگوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اور یہ انہیں ملنے چاہییں۔۔۔۔! اس پر مجھے فورا یاد آیا کہ اس حوالے سے سید قطب رحمہ اللہ نے معالم فی الطریق باب دوم کا عنوان ہی "قرآن کا طریق انقلاب" رکھا ہے۔ پھر اس میں باری باری ان امکانات کو لے کر ائے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مکہ میں موجود تھے، جن کے استعمال سے وہ تمام تکالیف اور مشکلات بھی برداشت نہ کرنی پڑتیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑی آسانی سے عرب پر کنٹرول حاصل کر سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تین بڑی بنیادیں ہو سکتی تھیں :
عرب قومیت کی بنیاد
اقتصادی ترقی کا نعرہ
اخلاقی جدوجہد
لیکن انحضرت علیہ السلام نےایسا نہیں کیا ! بلکہ مشکلات اور آزمائشوں کی وہ راہ اختہار کی جسے آج ہم سب جانتے ہیں ، ان نعروں میں سے کوئ نعرہ آپ کا طرہ امتیاز نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف ایک لا الٰہ الا اللہ !! اس کے بعد سید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
نظام حق کی کامیابی کا واحد راستہ
""اگر دعوت اسلامی کا قافلہ اس انداز سے روانہ سفر نہ ہوتا، اور دوسرے تمام جھنڈوں کو پھینک کر صرف اسی جھنڈے -------- یعنی لا الٰہ الا اللہ کے پرچم توحید ------------- کو بلند نہ کرتا اور اس راہ کو اختیار نہ کرتا جو ظاہر میں دشوار گزار اور جان گُسل راہ تھی مگر حقیقت میں آسان اور برکت بداماں تھی تو اس مبارک اور پاکیزہ نظام کا کوئی جز بھی اتنے بلند معیار کے ساتھ ہر گز بروئے عمل نہ آ سکتا تھا۔
اِسی طرح اگر یہ دعوت اپنے ابتدائی مراحل میں قومی نعرہ بن کر سامنے آتی، یا اقتصادی تحریک کے لبادہ میں ظاہر ہوتی یا اصلاحی مہم کا قالب اختیار کرتی یا " لا الٰہ الا اللہ " کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے شعار اور نعرے بھی شامل کر لیتی تو یہ پاکیزہ و مبارک نظام جو اس دعوت کے نتیجے میں قائم ہوا کبھی خالص ربانی نظام بن کر جلوہ گر نہ ہو سکتا۔
قرآن حکیم کا مکی دور اِسی شان و شوکت کا حامل ہے۔ یہ دور قلوب و اذہان پر اللہ کی الوہیت کی نقش ثبت کرتا ہے، انقلاب کے فطری راستے کی تعلیم دیتا ہے خواہ اس میں بظاہر کتنی ہی دشواریوں اور صعوبتوں کا سامنا ہو اور دوسری " پگڈنڈیوں " پا جانے سے منع کرتا ہے خواہ عارضی طور پر انہیں اختیار کرنے کا ارادہ ہو، وہ ہر حال میں صرف فطری راستے پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے۔""
http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/Jada-o-Manzil.html
عرب قومیت کی بنیاد
اقتصادی ترقی کا نعرہ
اخلاقی جدوجہد
لیکن انحضرت علیہ السلام نےایسا نہیں کیا ! بلکہ مشکلات اور آزمائشوں کی وہ راہ اختہار کی جسے آج ہم سب جانتے ہیں ، ان نعروں میں سے کوئ نعرہ آپ کا طرہ امتیاز نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف ایک لا الٰہ الا اللہ !! اس کے بعد سید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
نظام حق کی کامیابی کا واحد راستہ
""اگر دعوت اسلامی کا قافلہ اس انداز سے روانہ سفر نہ ہوتا، اور دوسرے تمام جھنڈوں کو پھینک کر صرف اسی جھنڈے -------- یعنی لا الٰہ الا اللہ کے پرچم توحید ------------- کو بلند نہ کرتا اور اس راہ کو اختیار نہ کرتا جو ظاہر میں دشوار گزار اور جان گُسل راہ تھی مگر حقیقت میں آسان اور برکت بداماں تھی تو اس مبارک اور پاکیزہ نظام کا کوئی جز بھی اتنے بلند معیار کے ساتھ ہر گز بروئے عمل نہ آ سکتا تھا۔
اِسی طرح اگر یہ دعوت اپنے ابتدائی مراحل میں قومی نعرہ بن کر سامنے آتی، یا اقتصادی تحریک کے لبادہ میں ظاہر ہوتی یا اصلاحی مہم کا قالب اختیار کرتی یا " لا الٰہ الا اللہ " کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے شعار اور نعرے بھی شامل کر لیتی تو یہ پاکیزہ و مبارک نظام جو اس دعوت کے نتیجے میں قائم ہوا کبھی خالص ربانی نظام بن کر جلوہ گر نہ ہو سکتا۔
قرآن حکیم کا مکی دور اِسی شان و شوکت کا حامل ہے۔ یہ دور قلوب و اذہان پر اللہ کی الوہیت کی نقش ثبت کرتا ہے، انقلاب کے فطری راستے کی تعلیم دیتا ہے خواہ اس میں بظاہر کتنی ہی دشواریوں اور صعوبتوں کا سامنا ہو اور دوسری " پگڈنڈیوں " پا جانے سے منع کرتا ہے خواہ عارضی طور پر انہیں اختیار کرنے کا ارادہ ہو، وہ ہر حال میں صرف فطری راستے پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے۔""
http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/Jada-o-Manzil.html