نظربدکی حقیقت اور علاج
نظربدبرحق ہے اور اس سے کسی کونقصان پہنچنا ممکن ہے ،شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کہ ’’نظر لگنا برحق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو اس سے نظر بدضرور سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیاجائے تواس مطالبے کوپورا کرتے ہوئے غسل کردیا کرو۔‘‘(صحیح مسلم:2188)
اس سے معلوم ہوا کہ نظر بدکالگ جانا ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ، حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیلؑ رسول اللہ ﷺ کو دم کرتے ہوئے درج ذیل کلمات پڑھاکرتے تھے :
بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ(صحیح مسلم2186)
’’اللہ کے نام کے ساتھ آپ کودم کرتا ہوں ہراس چیز سے جوآپ کو تکلیف دے اور انسان کی شرارت اور حسدکرنے والی آنکھ سے ، اللہ آپ کو شفادے ، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔‘‘
(فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2/ص49)
جزاک اللہ ساجد بھائی!
نظر کا لگ جانا بالکل برحق ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا اس سلسلہ میں ایک اور ارشاد گرامی ہے:
إذا رأى أحدكم من نفسه و أخيه ما يعجبه فليدع بالبركة فإن العين حق (مستدرک حاکم :7499، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :2572)
تم میں سے کوئی شخص اپنی ذات یا اپنے بھائی میں کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے اچھی لگے تو اس کی برکت کی دعا کرے۔ کیونکہ نظر کا لگ جانا حق ہے۔
فلہذا ضروری ہے کہ جب کوئی بندہ مسلم نظر کو بھلا لگے یا اس کی کوئی چیز پسند آئے تو برکت کی دعا کی جائے۔ ساجد بھائی نے جو صحیح مسلم کی حدیث کوٹ کی ہے کہ ’جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو اس مطالبے کو پورا کر دیا کرو۔‘ اس حوالے سے طالب علمانہ عرض ہے کہ اس سے مراد دراصل ایسی نظر بد کا علاج بتانا ہے جس میں جس شخص کی نظر لگی ہے اس کا پتہ چل جائے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جس شخص کی نظر لگی ہے وہ وضو کرے اور اپنے گھٹنے دھوئے۔ وضو کا مستعمل شدہ پانی ایک برتن میں جمع کر لیا جائے اور اس پانی کو جس کو نظر لگی ہے اس کے اوپر انڈیل دیا جائے۔
حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ حضرت سہل غسل کر رہے تھے کہ وہاں سے حضرت عامر گزرے، کہنے لگے میں نے آج تک اس اس جیسا حسین شخص نہیں دیکھا۔ حتیٰ کہ پردہ نشین عورت کو بھی اس سے زیادہ صحت مند اور حسین نہیں دیکھا۔ حضرت سہل فوراً ہی لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ انہیں رسول اللہﷺ کے پاس لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ سہل کی خبر لیں۔ آپﷺ نے سہل سے فرمایا : تم کس پر الزام دھرتے ہو؟ انہوں نے کہا عامر بن ربیعہ پر۔ آپﷺ نے فرمایا:
عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَكَةِ
تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے۔ جب اس میں کوئی پسندیدہ بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔
آﷺ نے حضرت عامر سے فرمایا: وضو کرتے ہوئے اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت اور گھٹنے دھوؤ۔ اور استنجا کرو( اوروضو کا مستعمل پانی کسی برتن میں جمع کر لو)۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: سہل پر وہ پانی ڈال دو۔ (سنن ابن ماجہ :3509)