• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نظر کا لگ جانا برحق ہے۔

شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
نظر لگ جانا حق ہے ؛


سوال:
کیا نظر برحق ہے؟

جیسا کہ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ فلاں کو فلاں کی نظر لگ گئی، اس کی کیا حقیقت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
الجواب:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((الْعَیْنُ حَقٌّ))
نظر (کا لگنا)حق ہے۔
(الصحیفۃالصحیحۃ تصنیف ہمام بن منبہ:131،صحیح بخاری:5740 وصحیح مسلم:2187 [5701]،مصنف عبد الرزاق 11/ 18ح 29778،مسند احمد 2/ 319 ح 8245 وسندہ صحیح ولہ طریق آخر عند ابن ماجہ:3507وسندہ صحیح ورواہ احمد 2/ 487)

صحیفہ ہمام بن منبہ
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " العين حق، ونهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الوشم." .
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نظر کا لگ جانا حق ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وشم یعنی گود کر سرمہ بھروانے سے منع فرمایا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الطب، باب العين حق، رقم: 5740،
حدثنا إسحاق بن نصر: حدثنا عبدالرزاق عن معمر، عن همام، عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ....، وكتاب اللباس، رقم: 5944، حدثنا يحيٰى: حدثنا عبدالرزاق عن معمر، عن همام، عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: .... - صحيح مسلم، كتاب السلام، باب الطب والمرض والرقي: 2187/41، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: أخبرنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث منها: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: .... - مسند أحمد: 106/16، رقم: 135/8228 - مصنف عبدالرزاق، كتاب الجامع، باب الرقى والعين والنفث، رقم: 19778 - شرح السنة، كتاب اللباس، باب النهي عن وصل الشعر والوشم: 103/12.»

صحيح البخاري۔
حدثنا إسحاق بن نصر، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" العين حق ونهى عن الوشم".
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نظر بد لگنا حق ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم پر گودنے سے منع فرمایا۔

صحيح مسلم
حدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر احاديث منها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " العين حق ".
‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نظر کا لگ جانا سچ ہے۔“

4۔۔سنن ابن ماجه۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا إسماعيل بن علية , عن الجريري , عن مضارب بن حزن , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" العين حق".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نظر کا لگنا حقیقت ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14613)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطب 36 (5740)، صحیح مسلم/السلام 16 (2187)، سنن ابی داود/الطب 15 (3879)، مسند احمد (2/319) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
نظر بد لگنے سے شرعی دم کرنے کا ثبوت


1۔سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بنو جعفر (طیار رضی اللہ عنہ کے بچوں) کو نظر لگ جاتی ہے تو کیا میں ان کو دم کروں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
((نَعَمْ، وَلَوْ کَانَ شَیْء ٌ یَسْبِقُ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْہُ الْعَیْنُ))
جی ہاں! اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جاتی تو وہ نظر ہوتی۔
(السنن الکبریٰ 9/ 348 وسندہ صحیح، سنن الترمذی: 2059 وقال:’’حسن صحیح‘‘ وللحدیث شاھد صحیح فی صحیح مسلم 2198 [5726])

2۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (مجھے) حکم دیا کہ نظر کا دم کرو۔ (صحیح بخاری: 5738 وصحیح مسلم :2195 [5720۔5722])

3۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نظرکے (علاج کے) لئے دم کی اجاز ت دی ہے۔ (صحیح مسلم: 2196[24 57])
سنن ترمذي
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عروة وهو ابو حاتم بن عامر، عن عبيد بن رفاعة الزرقي، ان اسماء بنت عميس، قالت: يا رسول الله، إن ولد جعفر تسرع إليهم العين، افاسترقي لهم، فقال: " نعم، فإنه لو كان شيء سابق القدر لسبقته العين "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن عمران بن حصين، وبريدة، وهذا حديث حسن صحيح، وقد روي هذا عن ايوب، عن عمرو بن دينار، عن عروة بن عامر، عن عبيد بن رفاعة، عن اسماء بنت عميس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
عبید بن رفاعہ زرقی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جعفر طیار رضی الله عنہ کے لڑکوں کو بہت جلد نظر بد لگ جاتی ہے، کیا میں ان کے لیے جھاڑ پھونک کراؤں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اس لیے کہ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر سکتی تو اس پر نظر بد ضرور سبقت کرتی“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث «عن أيوب عن عمرو بن دينار عن عروة بن عامر عن عبيد بن رفاعة عن أسماء بنت عميس عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے،

۳- اس باب میں عمران بن حصین اور بریدہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 33 (3510)، (والنسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 15758) (صحیح)»
حدثنا بذلك الحسن بن علي الخلال، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن ايوب بهذا.
اس سند سے بھی اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

فائدہ ۱؎: معلوم ہوا کہ نظر بد کا اثر بے انتہائی نقصان دہ اور تکلیف دہ ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی چیز خلاف تقدیر پیش آ سکتی اور ضرر پہنچا سکتی تو وہ نظر بد ہوتی۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3510)

صحيح مسلم
حدثني عقبة بن مكرم العمي ، حدثنا ابو عاصم ، عن ابن جريج ، قال: واخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله ، يقول: " رخص النبي صلى الله عليه وسلم لآل حزم في رقية الحية، وقال لاسماء بنت عميس: " ما لي ارى اجسام بني اخي ضارعة تصيبهم الحاجة؟، قالت: لا، ولكن العين تسرع إليهم، قال: " ارقيهم "، قالت: فعرضت عليه، فقال: " ارقيهم ".
‏‏‏‏ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی، حزم کے لوگوں کو سانپ کے لیے منتر کرنے کی۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”کیا سبب ہے میں اپنے بھائی کے بچوں کو (یعنی جعفر بن ابوطالب کے لڑکوں کو) دبلا پاتا ہوں کیا وہ بھوکے رہتے ہیں۔“ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں ان کو نظر جلدی لگ جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی دم کر،“ میں نے ایک دم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کر۔“
ترقیم فوادعبدالباقی:2198


صحيح البخاري
حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، قال: حدثني معبد بن خالد، قال: سمعت عبد الله بن شداد، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم او امر ان يسترقى من العين".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے معبد بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن شداد سے سنا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا یا (آپ نے اس طرح بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) حکم دیا کہ نظر بد لگ جانے پر معوذتین سے دم کر لیا جائے۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ نظر لگنے کا برحق ہونا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
قرآن کریم سے بھی نظر کا برحق ہونا اشارتاً ثابت ہے۔


سورۂ یوسف کی آیت نمبر (67)
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ[67] وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا كَانَ يُغْنِي عَنْهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ[68]


[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اور(یعقوب علیہ السلام ) نے کہا اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے داخل نہ ہونا اور الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اللہ کی طرف سے (آنے والی) کوئی چیز نہیں ہٹا سکتا، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں۔ [67] اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے انھیں حکم دیا تھا، وہ ان سے اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو ہٹا نہ سکتا تھا مگر یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جو اس نے پوری کرلی اور بلاشبہ وہ یقینا بڑے علم والا تھا، اس وجہ سے کہ ہم نے اسے سکھایا تھا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ [68]
تفسیر آیت/آیات، 67، 68،

چونکہ اللہ کے نبی نے یعقوب علیہ السلام کو اپنے بچوں پر نظر لگ جانے کا کھٹکا تھا کیونکہ وہ سب اچھے، خوبصورت، تنو مند، طاقتور، مضبوط دیدہ رو نوجوان تھے اس لیے بوقت رخصت ان سے فرماتے ہیں کہ پیارے بچو تم سب شہر کے ایک دروازے سے شہر میں نہ جانا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو کر کے جانا۔ نظر کا لگ جانا حق ہے۔ گھوڑ سوار کو یہ گرا دیتی ہے۔ پھر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ یہ میں جانتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ یہ تدبیر تقدیر میں ہیر پھیر نہیں کر سکتی۔ اللہ کی قضاء کو کوئی شخص کسی تدبیر سے بدل نہیں سکتا۔ اللہ کا چاہا پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ حکم اسی کا چلتا ہے۔ کون ہے جو اس کے ارادے کو بدل سکے؟ اس کے فرمان کو ٹال سکے؟ اس کی قضاء کو لوٹا سکے؟ میرا بھروسہ اسی پر ہے اور مجھ پر ہی کیا موقوف ہے۔ ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہیئے۔

چنانچہ بیٹوں نے باپ کی فرماں برداری کی اور اسی طرح کئی ایک دروازوں میں بٹ گئے اور شہر میں پہنچے۔ اس طرح وہ اللہ کی قضاء کو لوٹا نہیں سکتے تھے ہاں یعقوب علیہ السلام نے ایک ظاہری تدبیر پوری کی کہ اس سے وہ نظر بد سے بچ جائیں۔ وہ ذی علم تھے، الہامی علم ان کے پاس تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:250/7] ‏‏‏‏ ہاں اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے۔
 
Last edited by a moderator:
Top