فاروق رفیع
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 18، 2011
- پیغامات
- 5
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 0
اللہ تعالیٰ کے انسانوں پر بے تحاشا احسانات و اکرامات ہیں۔ جن کا تقاضا ہے کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی اطاعت و عبادت کی جائے۔ اس کی واحدانیت، بڑائی اور کبریائی کو تسلیم کیا جائے، اس کی عنایات و نوازشات کی قدر کی جائے اور انعامات و احسانات پر رب تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا جائے۔ یاد رکھیں نعمتوں کی قدر دانی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور نعمتوں کی بہتات کا ذریعہ ہے جب کہ نعمتوں کی ناقدری اور احسان فراموشی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور نعمتوں اور سہولتوں کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ لہٰذا جو نعمتیں میسر ہیں ان کی قدر دانی کر کے اور احسان کشی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی بھی کر لیں اور نعمتوں میں اضافہ کروا لیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم:۷)
’’اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور دوں گا اور اگر تم نے کفرانِ نعمت کیا تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘
یہ آیت دلیل ہے کہ شکرانِ نعمت سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ، کفرانِ نعمت سے نعمتیں چھِن جاتی ہیں اور ناکامی و ذلت اور اللہ عزوجل کی ناراضگی مقدر ٹھہرتی ہے۔ سو ہر نعمت کے میسر آنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیے۔ اس کی شکر گزاری کو معمول بنائیے ، اپنی اوقات اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل کبھی نہ بھولیے۔ اس سے آپ اللہ تعالیٰ کے مقرب بھی ٹھہریں گے۔ آپ کی جائیداد، اموال محفوظ بھی ہوں گے اور آئے روز ان میں مسلسل اضافہ بھی ہو گا۔ جب کہ نعمتوں کی ناقدری، احسانات سے چشم پوشی، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اعراض آپ کی جائیداد کو تباہ کر دے گا اور آپ کے سہانے مستقبل کے تمام حفاظتی منصوبے خاک میں مل جائیں گے اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ اس کی عملی تفسیر آئندہ حدیث میں مذکور ہے:
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل میں پھلبہری میں مبتلا، اندھا اور گنجا تین آدمی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کا ارادہ کیا۔ سو اس نے ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جو پھلبہری والے شخص کے پاس آیا اور کہا: تمہیں کون سی چیز زیادہ محبوب ہے؟ اس نے کہا: خوبصورت رنگ، دلکش جلد، لوگ (پھلبہری کی وجہ) سے مجھ سے گھِن کھاتے ہیں۔ اس نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا و مرض ختم ہو گیا اور اسے خوبصورت رنگ اور عمدہ ترین جلد عطا کی گئی۔ پھر اس (فرشتے) نے پوچھا: تمہیں کون سا مال زیادہ پسندیدہ ہے؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے اونٹ پسند ہے۔ چنانچہ اسے نوماہ کی حاملہ اونٹنی دی گئی اور اس نے اس کے لئے اس میں برکت کی دعا کی۔ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور بولا: تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: خوبصورت بال اور گنجے پن کا خاتمہ۔ اس وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ اس (فرشتے) نے اس کے (سر پر) ہاتھ پھیرا تو گنجے پن کا خاتمہ ہو گیا اور اسے انتہائی خوبصورت بال دیئے گئے۔ پھر فرشتے نے کہا: تمہیں کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: مجھے گائے (پسند ہے)۔ چنانچہ اس فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے دی اور اس کے لئے اس میں برکت کی دعا کی۔ بعد ازاں وہ نابینےکے پاس آیا اور کہا، تمہیں کون سی چیز زیادہ محبوب ہے؟ اس نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ مجھے میری بینائی لوٹا دے کہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ سو اس نے اس (کی آنکھوں پر) ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔ (اس کے بعد) فرشتے نے پوچھا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے عرض کیا: بکریاں، تو اس نے اسے ایک حاملہ بکری عطا کی۔ پھر ان (اونٹنی، گائے اور بکری) نے بچے جنے اور ایک کی اونٹوں کی وادی، دوسرے کی گائیوں کی وادی اور تیسرے کی بکریوں کی وادی ہو گئی۔ بعد ازاں وہ (فرشتہ) پھلبہری کے مریض کے پاس اسی کی شکل و صورت میں آیا اور عرض پرداز ہوا۔ ایک مسکین شخص ہوں۔ جس کے اسبابِ سفر ختم ہو گئے۔ سو آج اللہ کی مدد کے بغیر پھر تیرے تعاون کے بغیر منزل تک پہنچنے کی کوئی سبیل نہیں۔ میں تجھ سے اس ذات کے وسیلہ سے جس نے تجھے خوبصورت رنگ، عمدہ جلد اور مال سے نوازا ہے۔ ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس پر میں اپنی منزل تک پہنچ سکوں۔ اس نے اس (سائل) سے کہا: ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ اس سائل نے جواب میں اسے کہا: محسوس ہوتا ہے میں تجھے جانتا ہوں۔ کیا تو پھلبہری کا مریض نہ تھا جس سے لوگ گھِن کھاتے تھے؟ کیا تو فقیر نہیں تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تجھے مال سے نوازا؟ اس (رئیس نے جواب دیا: میں تو نسل در نسل رئیس ہوں۔ اس سائل نے کہا: اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا بنا دے۔ جیسا تو تھا۔
پھر وہ گنجے کے پاس آیا اس کی (سابقہ)شکل و صورت میں آیا اور اس سے وہی مطالبہ کیا جو کوڑھی سے کیا تھا اور اس (گنجے) نے بھی اس طرح کا جواب دیا جس طرح کوڑھی نے جواب دیا تھا۔ بعد ازاں وہ نابینے کے پاس اس کی شکل میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مسکین اور مسافر آدمی ہوں، جس کے اسباب سفر معدوم ہو گئے ہیں۔ چنانچہ آج اللہ کی مدد، پھر تیرے تعاون کے بغیر (منزل تک پہنچنے کی) کوئی سبیل نہیں۔ میں تجھ سے اس ذات کے وسیلہ سے جس نے تمہیں تمہاری بینائی لوٹائی ہے۔ ایک بکری کا سوال کرتا ہوں کہ اس کے ذریعے میں اپنے سفر کے مراحل طے کر سکتا ہوں۔ اس (نابینے نے) سائل سے کہا: میں واقعی نابینا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے میری بینائی لوٹائی۔ یقیناً میں فقیر تھا پھر اس نے مجھے مالدار کیا۔ تم (میرے مال سے) جتنا چاہو لے لو۔ اللہ کی قسم! تم اللہ کے لئے جتنا لے لو میں آج کسی بھی چیز کے بدلے اس کے انعامات کا بدلہ نہیں دے سکتا۔ اس (سائل) نے کہا: اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم (تینوں افراد کی) آزمائش کی گئی ہے اور تجھ سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گئے ہیں اور تیرے دونوں ساتھیوں سے وہ ناراض ہے۔ (بخاری: ۳۴۶۴)
فقه الحدیث:
1. اللہ تعالیٰ کے انعامات کی قدر کرنی چاہئے اور فقراء و مساکین اور مانگنے والوں کو خوش دلی سے نوازنا چاہئے۔
2. نعمتوں کی ناقدری سے نعمتیں چھِن جاتی ہیں اور رب تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔
3. نعمتوں کی قدر دانی، انعامات میں اضافےاور رب تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہے۔
4. انسان کو اپنی اوقات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ اوقات سے باہر ہوکر نعمتوں کی بربادی اور لوگوں کی بد دعاؤں کا ہدف نہ بننا چاہئے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم:۷)
’’اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور دوں گا اور اگر تم نے کفرانِ نعمت کیا تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘
یہ آیت دلیل ہے کہ شکرانِ نعمت سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ، کفرانِ نعمت سے نعمتیں چھِن جاتی ہیں اور ناکامی و ذلت اور اللہ عزوجل کی ناراضگی مقدر ٹھہرتی ہے۔ سو ہر نعمت کے میسر آنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیے۔ اس کی شکر گزاری کو معمول بنائیے ، اپنی اوقات اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل کبھی نہ بھولیے۔ اس سے آپ اللہ تعالیٰ کے مقرب بھی ٹھہریں گے۔ آپ کی جائیداد، اموال محفوظ بھی ہوں گے اور آئے روز ان میں مسلسل اضافہ بھی ہو گا۔ جب کہ نعمتوں کی ناقدری، احسانات سے چشم پوشی، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اعراض آپ کی جائیداد کو تباہ کر دے گا اور آپ کے سہانے مستقبل کے تمام حفاظتی منصوبے خاک میں مل جائیں گے اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ اس کی عملی تفسیر آئندہ حدیث میں مذکور ہے:
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل میں پھلبہری میں مبتلا، اندھا اور گنجا تین آدمی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کا ارادہ کیا۔ سو اس نے ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جو پھلبہری والے شخص کے پاس آیا اور کہا: تمہیں کون سی چیز زیادہ محبوب ہے؟ اس نے کہا: خوبصورت رنگ، دلکش جلد، لوگ (پھلبہری کی وجہ) سے مجھ سے گھِن کھاتے ہیں۔ اس نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا و مرض ختم ہو گیا اور اسے خوبصورت رنگ اور عمدہ ترین جلد عطا کی گئی۔ پھر اس (فرشتے) نے پوچھا: تمہیں کون سا مال زیادہ پسندیدہ ہے؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے اونٹ پسند ہے۔ چنانچہ اسے نوماہ کی حاملہ اونٹنی دی گئی اور اس نے اس کے لئے اس میں برکت کی دعا کی۔ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور بولا: تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: خوبصورت بال اور گنجے پن کا خاتمہ۔ اس وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ اس (فرشتے) نے اس کے (سر پر) ہاتھ پھیرا تو گنجے پن کا خاتمہ ہو گیا اور اسے انتہائی خوبصورت بال دیئے گئے۔ پھر فرشتے نے کہا: تمہیں کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: مجھے گائے (پسند ہے)۔ چنانچہ اس فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے دی اور اس کے لئے اس میں برکت کی دعا کی۔ بعد ازاں وہ نابینےکے پاس آیا اور کہا، تمہیں کون سی چیز زیادہ محبوب ہے؟ اس نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ مجھے میری بینائی لوٹا دے کہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ سو اس نے اس (کی آنکھوں پر) ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔ (اس کے بعد) فرشتے نے پوچھا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے عرض کیا: بکریاں، تو اس نے اسے ایک حاملہ بکری عطا کی۔ پھر ان (اونٹنی، گائے اور بکری) نے بچے جنے اور ایک کی اونٹوں کی وادی، دوسرے کی گائیوں کی وادی اور تیسرے کی بکریوں کی وادی ہو گئی۔ بعد ازاں وہ (فرشتہ) پھلبہری کے مریض کے پاس اسی کی شکل و صورت میں آیا اور عرض پرداز ہوا۔ ایک مسکین شخص ہوں۔ جس کے اسبابِ سفر ختم ہو گئے۔ سو آج اللہ کی مدد کے بغیر پھر تیرے تعاون کے بغیر منزل تک پہنچنے کی کوئی سبیل نہیں۔ میں تجھ سے اس ذات کے وسیلہ سے جس نے تجھے خوبصورت رنگ، عمدہ جلد اور مال سے نوازا ہے۔ ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس پر میں اپنی منزل تک پہنچ سکوں۔ اس نے اس (سائل) سے کہا: ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ اس سائل نے جواب میں اسے کہا: محسوس ہوتا ہے میں تجھے جانتا ہوں۔ کیا تو پھلبہری کا مریض نہ تھا جس سے لوگ گھِن کھاتے تھے؟ کیا تو فقیر نہیں تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تجھے مال سے نوازا؟ اس (رئیس نے جواب دیا: میں تو نسل در نسل رئیس ہوں۔ اس سائل نے کہا: اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا بنا دے۔ جیسا تو تھا۔
پھر وہ گنجے کے پاس آیا اس کی (سابقہ)شکل و صورت میں آیا اور اس سے وہی مطالبہ کیا جو کوڑھی سے کیا تھا اور اس (گنجے) نے بھی اس طرح کا جواب دیا جس طرح کوڑھی نے جواب دیا تھا۔ بعد ازاں وہ نابینے کے پاس اس کی شکل میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مسکین اور مسافر آدمی ہوں، جس کے اسباب سفر معدوم ہو گئے ہیں۔ چنانچہ آج اللہ کی مدد، پھر تیرے تعاون کے بغیر (منزل تک پہنچنے کی) کوئی سبیل نہیں۔ میں تجھ سے اس ذات کے وسیلہ سے جس نے تمہیں تمہاری بینائی لوٹائی ہے۔ ایک بکری کا سوال کرتا ہوں کہ اس کے ذریعے میں اپنے سفر کے مراحل طے کر سکتا ہوں۔ اس (نابینے نے) سائل سے کہا: میں واقعی نابینا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے میری بینائی لوٹائی۔ یقیناً میں فقیر تھا پھر اس نے مجھے مالدار کیا۔ تم (میرے مال سے) جتنا چاہو لے لو۔ اللہ کی قسم! تم اللہ کے لئے جتنا لے لو میں آج کسی بھی چیز کے بدلے اس کے انعامات کا بدلہ نہیں دے سکتا۔ اس (سائل) نے کہا: اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم (تینوں افراد کی) آزمائش کی گئی ہے اور تجھ سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گئے ہیں اور تیرے دونوں ساتھیوں سے وہ ناراض ہے۔ (بخاری: ۳۴۶۴)
فقه الحدیث:
1. اللہ تعالیٰ کے انعامات کی قدر کرنی چاہئے اور فقراء و مساکین اور مانگنے والوں کو خوش دلی سے نوازنا چاہئے۔
2. نعمتوں کی ناقدری سے نعمتیں چھِن جاتی ہیں اور رب تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔
3. نعمتوں کی قدر دانی، انعامات میں اضافےاور رب تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہے۔
4. انسان کو اپنی اوقات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ اوقات سے باہر ہوکر نعمتوں کی بربادی اور لوگوں کی بد دعاؤں کا ہدف نہ بننا چاہئے۔