عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
آئین ودستور
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس سے قبل علما کے ۲۲ نکات اور دستور پاکستان ۱۹۷۳ء کا ایک تقابل پیش کیاجا چکاہے۔ اس تقابلی جائزہ سے ظاہر ہے کہ اَب ’ملی مجلس شرعی‘ کی قرار داد میں اِن اُمور کا مطالبہ ہونا چاہئے:
1۔ حکومت کا سیاسی عزم"Political Will"اور مقتدرہ اشخاص کااسلامی ذہن "Mindset" اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے ضروری ہے۔
2۔ علاقائی اور نسلی، قبائلی اور صوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی اور قومی یکجہتی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے قائم کئے جائیں۔
3۔ قومی تعلیمی پالیسی اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دی جائے۔ جس سے طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو اور تعلیم کی اساس: مذہب، زبان اور علاقائی ثقافت پرہو، تاکہ نظریۂ پاکستان کو تقویت ملے۔
4۔ حکومت قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرنے، منکرات کو مٹانے اور شعائر ِ اسلام کے احیا و اعلاء کے لیے ادارے قائم کرے تاکہ تعلیم کے ذریعہ ان اُمور کی ترویج ممکن ہوسکے یعنی آرٹیکل ۳۱ میں جن اُمور کا ذکر ہے، اُن پر عمل ہوسکے۔
5۔ زکوٰۃ وصولی اور تقسیم کے نظام کو بہتر کیا جائے او رایسے ادارے اور ایسی سکیمیں تشکیل دی جائیں جن سے غربت ختم ہو۔
6۔ مسلمانانِ عالم کے رشتۂ اخوت و اتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے اوآئی سی(OIC) کو فعال بنانے میں پاکستان اپنا کردار اداکرے۔ او آئی سی (OIC) مسلمان ممالک کے مابین تنازعات کو پرامن طریقوں سے طے کرنے کے لیے ادارے بنائے اور دیگر تنازعات کے حل کے لیے مسلم ممالک میں دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔
7۔ آرٹیکل ۳۸ دستورِ پاکستان میںدرج عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود سے متعلقہ اُمور کے فروغ کے لیے حکومت فوری اقدامات کرے تاکہ افلاس اور غربت کے مارے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
جسٹس (ر) خلیل الرحمن خاں
نفاذِ شریعت کے رہنما اُصول
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس سے قبل علما کے ۲۲ نکات اور دستور پاکستان ۱۹۷۳ء کا ایک تقابل پیش کیاجا چکاہے۔ اس تقابلی جائزہ سے ظاہر ہے کہ اَب ’ملی مجلس شرعی‘ کی قرار داد میں اِن اُمور کا مطالبہ ہونا چاہئے:
1۔ حکومت کا سیاسی عزم"Political Will"اور مقتدرہ اشخاص کااسلامی ذہن "Mindset" اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے ضروری ہے۔
2۔ علاقائی اور نسلی، قبائلی اور صوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی اور قومی یکجہتی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے قائم کئے جائیں۔
3۔ قومی تعلیمی پالیسی اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دی جائے۔ جس سے طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو اور تعلیم کی اساس: مذہب، زبان اور علاقائی ثقافت پرہو، تاکہ نظریۂ پاکستان کو تقویت ملے۔
4۔ حکومت قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرنے، منکرات کو مٹانے اور شعائر ِ اسلام کے احیا و اعلاء کے لیے ادارے قائم کرے تاکہ تعلیم کے ذریعہ ان اُمور کی ترویج ممکن ہوسکے یعنی آرٹیکل ۳۱ میں جن اُمور کا ذکر ہے، اُن پر عمل ہوسکے۔
5۔ زکوٰۃ وصولی اور تقسیم کے نظام کو بہتر کیا جائے او رایسے ادارے اور ایسی سکیمیں تشکیل دی جائیں جن سے غربت ختم ہو۔
6۔ مسلمانانِ عالم کے رشتۂ اخوت و اتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے اوآئی سی(OIC) کو فعال بنانے میں پاکستان اپنا کردار اداکرے۔ او آئی سی (OIC) مسلمان ممالک کے مابین تنازعات کو پرامن طریقوں سے طے کرنے کے لیے ادارے بنائے اور دیگر تنازعات کے حل کے لیے مسلم ممالک میں دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔
7۔ آرٹیکل ۳۸ دستورِ پاکستان میںدرج عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود سے متعلقہ اُمور کے فروغ کے لیے حکومت فوری اقدامات کرے تاکہ افلاس اور غربت کے مارے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔