• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نفاذ شریعت کا منہج : دعوت وجہاد

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
خروج و قتال
پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کا دوسرارستہ تحریک طالبان پاکستان کاہے جو خروج و قتال کا منہج ہے۔ ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ کتاب وسنت میں قتال کی بنیادی علت ظلم بیان ہوئی ہے اور ظالم حکمران، چاہے مسلمان ہو یا کافر، اس سے قتال جائز ہے۔ لیکن یہ قتال اس صورت جائز ہو گا جبکہ اس کی استطاعت و طاقت موجود ہو۔ پاکستان کے حالات کے پیش نظر ریاستی افواج اور عوامی عسکری گروپس میں نسبت وتناسب نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے اس منہج اور طریق کار کا نتیجہ مخلص مذہبی عناصر سے ہاتھ دھونے اور مسلمانوں کے باہمی لڑائی سے کمزور ہونے اور مزید انتشار ذہنی وفکری بگاڑ کے پھیلنے اور ریاستی ظلم میں اضافے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ آج ہم قتال کے منہج کے ثمرات میں ان تما م نتائج کو بھگت رہے ہیں۔

البتہ اس مسئلے میں خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے والی تحریک 'حزب التحریر' نے جو منہج پیش کیا ہے وہ کسی قدر قابل عمل نظر آتا ہے کہ اگر افواج پاکستان میں سے ہی کچھ مذہبی عناصر، مثلا جرنیل لیول کے، انقلاب لانے کی کوشش کریں تو کامیابی کا امکان ہے۔ ایک ظالمانہ اور کافرانہ نظام کے خاتمہ اور نظام عدل کے قیام کے لیے اگر فوج میں ہی کسی بڑی سطح پر بغاوت پیدا ہوتی ہے اور کسی بڑے پیمانے کی قتل وغارت سے بچتے ہوئے کچھ صالح جرنیل اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں تو ہمارے خیال میں قتال کے منہج میں یہ ایک قابل عمل صورت ہے جس میں مصلحت، سد الذرائع اور عرف وغیرہ جیسے قواعدعامہ کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ جہاں تک چھوٹی سطح کی بغاوت کا معاملہ ہے جیسا کہ کرنل یا بریگیڈیئر لیول پر تو اس سے سوائے ناکامی اور مزید بگاڑ کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے جیسا کہ 'خلافت آپریشن' کا نتیجہ سامنے ہے۔ سیکورٹی فورسز سے سیکورٹی فورسز ہی لڑ سکتی ہیں اورفوج کو فوج ہی قابوکر سکتی ہے جبکہ عوامی عسکری جماعتوں کا ریاست سے مقابلہ کرنا اور اپنے ظلم کا بدلہ لینا ممکن نہیں ہے۔

پس عوامی عسکری جماعتوں اور طالبان تحریک پاکستان کا رخ اس وقت جہاد افغانستان، جہاد عراق اور جہاد فلسطین کی طرف موڑنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ مسلمانوں کے اصل دشمن اور شر کے منبع امریکہ اور اسرائیل کو کمزور کیا جائے۔ ہمارے خیال میں یہ وہ ایک میدان ہے جہاں پاکستان کی عسکری و جہادی تنظیموں کو فِٹ ہو جانا چاہیے اور افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف لڑنے والے طالبان کی جانی و مالی حمایت و نصرت ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے اور بلاشبہ افغانستان کا جہاد 'جہاد' ہے اور اس پر علمائے امت کا تقریباً اتفاق ہے ۔امریکہ اور نیٹوفورسز میں ظلم و کفر دونوں انتہائی درجے میں پائے جاتے ہیں۔ اب بھی ان سے لڑائی اگرجہاد نہ ہو گی تو دنیا میں جہاد پھر کیا ہو گا؟۔

ظالم کفار امریکیوں اور نیٹو فورسز کے ساتھ اعلائے کلمة اللہ کے مقصد کے تحت لڑائی کے جہاد فی سبیل اللہ ہونے میں علماء کے اس اتفاق کے بعد کچھ شاذ آراء کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اعتراض اور اختلاف کا پہلو توہر جگہ نکل ہی آتاہے اور اعتراضات اور اختلافات تو خدا کے وجود پر بھی موجود ہیں۔

ہاں! مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ان سے لڑائی میں اہل علم کے ہاں شدید اختلاف پایا جاتاہے اور اس مسئلے میں اہل علم کی اکثریت ان دونوں کی قائل نہیں ہے۔ افغانستان کا جہاد ہمارے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ جبکہ کشمیر، عراق اور فلسطین کا جہاد، جہاد آزادی ہے کیونکہ ان تینوں مقامات پر جہاد کا اصل مقصود کسی اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ مسلمانوں کی اجتماعیت کو کفار کے اقتدار سے نجات دلانا ہے۔ پس اعلی تر قتال کی صورت جہاد افغانستان کی ہے۔ اور اس کے بعد فلسطین اور عراق کا جہاد ہے۔ اور اس کے بعد کشمیر کا جہاد ہے کیونکہ کشمیر کا موجودہ جہاد ظالم ایجنسیوں کے مقاصد کی تکمیل کے تحت ہو رہاہے۔ جہاں تک پاکستانی حکومت کے خلاف خروج یا قتال کا معاملہ ہے تو اس بارے جمیع مکاتب فکر کے جمہور اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ یہ کوئی جہاد نہیں ہے اور اس بارے بریلوی اور دیوبندی علماء کے سینکڑوں اہل علم کے اجتماعی فتاوی بھی جاری ہو چکے ہیں اگرچہ اہل حدیث اہل علم کی طرف سے اس مسئلہ کے بارے کسی اجتماعی فتوی کے تا حال سلفی پاکستانی نوجوان منتظر ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
تحریک و احتجاج
پاکستان میں نفاذ شریعت اور نظام عدل کے قیام کاتیسرا منہج احتجاج کا ہے جو تنظیم اسلامی، پاکستان کا منہج ہے۔ اس منہج کو پیش کرنے والے ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ تھے۔ اگرچہ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کوئی پختہ عالم دین نہیں تھے لیکن انہوں نے نظام کی تبدیلی کا جو منہج پیش کیا ہے اس میں نبوی منہج 'دعوت و جہاد' میں مصلحت، سد الذرائع اور عرف کا بہت حد تک لحاظ رکھا گیا ہے۔ 'منہج انقلاب نبوی' کے نام سے اپنی کتاب میں ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے اس منہج کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ خمینی کا انقلاب ایران اور پاکستان میں چیف جسٹس کی بحالی کے لیے وکلاء تحریک اور مسلم لیگ (ن) کا لانگ مارچ اس طریقہ کار کی کامیابی کے شواہد کے طور پیش کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں تیونس اور مصر میں عوام الناس کے احتجاج کے ذریعے جو بادشاہتیں گرائی گئی ہیں، یہی منہج، احتجاجی منہج کہلاتا ہے۔

[COLOR=""] اس منہج کے مطابق منظم اور تربیت یافتہ صالح ومخلص افراد کی ایک معتد بہ تعداد پر امن عوامی احتجاج، مظاہروں، دھرنوں، کانفرنسوں، سیمیناروں اور لانگ مارچوں کے ذریعے حکومت وقت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرے گی اور اس مطالبے کے نتیجے میں یا تو حکومت وقت آئینی، دستوری اورقانونی سطح پر اسلام نظام نافذ کر دے یا پھر اقتدار اسلام پسندوں کے لیے چھوڑ دے۔ ہم یہاں یہ پھر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری رائے میں نفاذ شریعت کے متفرق مناہج میں سے بہترین اور قابل حل منہج یہی ہے اور اس طریق کار سے اجتماعی اور قانونی سطح پر تو اسلام نافذ ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں لیکن افراد کے قلوب واذہان پر اسلام کے نفاذ کے لیے اس کے باوجود محنت کی ضرورت باقی رہے گی اور اس کے لیے بہترین منہج دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ہے۔[/COLOR] ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٠٤﴾ ( آل عمران )
''اے مسلمانو! تم میں سے لازماً ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور انہیں معروف کا حکم دے اورمنکر سے منع کرے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔''

اس آیت میں مسلمانوں سے خطاب ہے اور مسلمانوں ہی کی ایک جماعت کو مسلمانوں میں ہی خیر کی دعوت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے باوجود افراد کی اصلاح کے لیے دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت باقی رہتی ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ سورہ آل عمران بالاتفاق مدنی سورت ہے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر نفاذ شریعت کے منہج 'دعوت وجہاد' میں دعوت اور جہاد کے مابین کی ایک اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح میں امر بالمعروف کا زیادہ تعلق 'دعوت' اور نہی عن المنکر کا تعلق 'جہاد' سے جڑتا ہے۔ اس اصطلاح کی وضاحت میں مولانا جلال الدین عمری کی کتاب 'معروف ومنکر' ایک نہایت اہم کتاب ہے۔ علاوہ ازیں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنے ایک رسالے 'امر بالمعروف ونہی عن المنکر' میں اس اصطلاح سے متعلقہ گہری ابحاث پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

احتجاجی سیاست کے اس طریق کار کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ جمیع مسالک او ر مکاتب فکر کے علماء اور اسلامی و جہادی تحریکیں ٢٢ نکات اور قرارداد مقاصد کی روشنی میں ایک بہت بڑی عوامی احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھیں جس کا منشور نظام عدل کا قیام اور ظلم کا خاتمہ ہو۔ یہ تحریک اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جبکہ اس میں اخلاص عمل ،رضائے الہی اور اخروی نجات جیسے مقاصد پیش نظر ہوں اور اگر تومتفرق مسالک، مذہبی جماعتوں اوراسلامی تحریکوںکا اس احتجاجی تحریک میں شمولیت کا مقصد وزارتوں اور عہدوں کی بندر بانٹ میں اپنا حصہ لینا اور اقتدار کی بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھونا ہو گاتو پھر ایم۔ایم۔اے ( متحدہ مجلس عمل ) کا سرحد میں لایا ہوا اسلام سب کے سامنے رہنا چاہیے۔

علاوہ ازیں راقم دل کی گہرائی سے یہ احساس رکھتا ہے کہ پاکستان میں احتجاجی سیاست کے ذریعے انقلاب لانے کے لیے ایک ایسے نئے اور نوجوان خون کی ضرورت ہے کہ جس میں ابھی تک جماعتی تعصب،مسلکی فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کے جراثیم اور وائرس داخل نہ ہوئے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top