• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نقل کفر، کفر نہ باشد

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ایک عام کلیہ ہے کہ کفریہ و شرکیہ الفاظ کو نقل کرنا کفر اور شرک نہیں ہے۔ خود قرآن و حدیث میں بھی کفار و مشرکین کے کفریہ و شرکیہ کلمات نقل کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں علمائے کرام اور دینی اسکالرز بھی اپنی تحریروں اور تقریروں میں، جہاں انہیں ضرورت محسوس ہو، کفریہ و شرکیہ کلمات و خیالات کو ”نقل“ کرتے ہیں۔ یہی کام ادیب و شاعر بھی کرتے ہیں۔ لیکن دونوں کا انداز الگ الگ ہے۔
علماء اور اسکالرز کی تحریریں سادہ اور بیانیہ ہوتی ہیں۔ اور وہ جب بھی کسی کفری و شرکیہ خیالات و کلمات کو ”نقل“ کرتے ہیں تو ”صاف صاف“ لکھ دیتے ہیں کہ یہ اُن کے نہیں بلکہ فلاں اور فلاں کے خیالات ہیں۔ اس کے برعکس ادیب و شاعر کا نقلِ کفر و شرک بہ انداز دگر ہوتا ہے۔
ادیب و شاعر کی تحریریں ”تمثیلی“ انداز لئے ہوتی ہیں۔ اکثر ادبی تحریریں ”کہانیوں“ کے گرد گھومتی ہیں۔افسانہ ہو، ناول ہو، ڈرامہ ہو، یا خودسادہ کہانی، ہر ایک میں ”کہانی“ نمایاں یا غیر نمایاں طور پر ”موجود“ ضرور ہوتی ہے۔ اور جہاں کہانی ہوگی، وہاں ”کردار“ بھی ضرور ہوں گے۔ یہ ”کردار“ مثبت بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی۔ ایک ادیب یا شاعر منفی و مثبت دونوں قسم کے ”کرداروں“ کو تخلیق کرتا ہے۔ ادیب یہ کردار انسانی معاشرے ہی سے مستعار لے کر انہیں ”رنگ و روغن“ کرکے ”نمایاں“ کرکے پیش کرتا ہے۔ اسی لئے ادیبوں کے ”کردار“ میں ”مبالغہ آرائی تو ہوتی ہے، مگر ”خلاف واقعہ“ ہر گز نہیں ہوتے۔
ادب کے مختلف ”اصناف“ میں ” کہانی کے کردار مختلف انداز میں ”بولتے“ ہیں۔ اور انہیں زبان ادیب یا شاعر فراہم کرتا ہے۔ کسی ادبی شہ پارے میں کردار جو کچھ بولتے ہیں، وہ شاعر یا ادیب کے ذاتی نظریات و خیالات ہوتے بھی ہیں اور نہیں بھی ہوتے۔ اس کا انحصار ادیب و شاعر کی اپنی ”شخصیت“ پر ہوتا ہے۔ اور اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ ”اپنی پیش کردہ کہانی“ کے ذریعہ منفی کرداروں کو پروموٹ کرتا ہے یا مثبت کرداروں کو۔ اگر جوش ملیح آبادی، حضرت غالب، منٹو، عصمت چغتائی کی تحریروں میں منفی کردار موجود ہوتے ہیں تو یہ منفی کردار، مثبت کرداروں پر غالب ہوتے ہیں۔اور قارئین ان کرداروں کے خیالات سے قربت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی دین سے دور، بد کرداروں، شرابی و کبابی ادباء و شعرائ کے ”فن“ کا کمال ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب ایک دین پسند دیندار ادیب و شاعر اپنی کہانی میں ”منفی کرداروں“ کو پیش کرتا ہے تو بین السطور ان سے نفرت کرنا بھی سکھلاتا ہے یا مثبت کرداروں کو ان پر غالب کرکے دکھلاتا ہے۔ علامہ اقبال کا شکوہ بھی ایک ”منفی انسان یا مایوس مسلمان“ کے جذبات و خیالات کی ”ترجمانی“ کرتا ہے۔ اگر اس ترجمانی میں انہوں نے ”ایسے لوگوں کے خیالات و احساسات کو ”نقل“ کیا ہے تو کیا یہ نقل ”کفر“ کے مترادف ہے۔ بالخصوص جب انہوں نے ”جواب شکوہ“ بھی پیش کرکے ایسے تمام ” فاسد خیالات“ کا رَد بھی پیش کردیا ہو۔ اگر کسی عالم دین نے اپنی کسی تحریر میں کفر یہ و شرکیہ الفاظ نقل کرکے اس کا ”جواب“لکھا ہو تو کیا ایسے عالم پر بھی اپنے قلم سے ”کفریہ و شرکیہ کلام لکھنے“ کا الزام لگایا جائے گا ؟ جی ہاں! برصغیر پاک و ہند میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ ناروا طور پر بھی ”ناپسندیدہ علمائے کرام“ کی کتابوں سے سیاق و سباق سے جدا کرکے ”قابل اعتراض“ تحریروں پر ”اعتراض“ کرنے لگتے ہیں۔ اور کئی جگہوں پر تو میں نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ لکھنے والے نے ”غیر اسلامی ، کفریہ یا شرکیہ اعمال و خیالات“ کو کہیں سے نقل کرکے اس کا رَد لکھا اور ”معترض“ نے سیاق و سباق کو جان بوجھ کر چھوڑ کر ”مطلوبہ منفی مواد“ کو ہائی لائیٹ کرکے صاحب تحریر کو مورد الزام ٹھہرا دیا کہ دیکھو صاحب! فلاں نے فلاں فلاں کتاب کے فلاں فلاں صفحہ پر یہ یہ لکھا ہے۔ کیسا مردود و خبیث شخص ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
خودمسلمان کہلوانے والےاردو کے مشہور و معروف شعراء کی ذاتی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ صاف نظرآئے گاکہ ان میں سے بیشتر کےعقائد و اعمال اسلامی تعلیمات سے بہت دور ہیں۔ شراب و شباب ان کی زندگیوں کا معمول ہوتاہے اور وہ انہی دو اقسام کے ”نشے“ میں دُھت ہو کر وہ شاعری کیا کرتے ہیں۔ یہ نماز روزہ جیسے بنیادی فرائض سے بالعموم بہت دور ہوا کرتے ہیں۔ چچا غالب تو ”فخریہ“ خود کو ”آدھا مسلمان“ کہا کرتے تھے کہ شراب تو پیتا ہوں، لیکن سؤر کا گوشت نہیں کھاتا۔ حالانکہ موصوف نماز روزہ کے بھی تارک ہی نہیں بلکہ قائل بھی نہ تھے۔ اور ان کے جملہ دینی عقائد بھی نرم سے نرم الفاظ میں ”مشکوک“ ہی رہے ہیں۔ دیکھئے موصوف کس طرح جنت کا مذاق اڑاتے ہیں اور توہین رسالت کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے اللہ جواب کہ تم ہمیں نہیں دیکھ سکتے کی تردید کرتے ہیں۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آﺅ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی​
یہاں یہ واضح رہے کہ یہ دونوں خیالات چچا غالب نے اپنی شاعری میں ”کسی دوسرے کردار“ کی زبانی ادا نہیں کروائے کہ خود ”بری الذمہ“ ہوجائیں۔ لیکن غالب کے ان سب معمولات و اشعار کی موجودگی کے باوجود کسی بھی مفتی صاحب نے موصوف پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا۔ ہے نا حیرت کی بات! مفتیوں کو اردو شعراء کی فوج ظفر موج میں صرف علامہ اقبال ایسا نظر آیا جس پر کفر کا فتویٰ لگاسکیں کہ وہ ”داڑھی منڈا“ تھا اور اس کی شاعری (کی کہانی میں) موجود منفی کردار منفی خیالات (کفریہ و شرکیہ جملوں) کا اظہار کیا کرتے ہیں اور اس بات کو دانستہ یا نادانستہ نظرانداز کردیتے ہیں کہ اقبال کی شاعری میں ایسے تمام منفی خیالات کا جواب بھی موجود ہے۔ واضح رہے جب ابتدا میں اقبال کی نظم شکوہ شائع ہوئی تھی تو کفر کےان فتاویٰ کی کسی حد تک سمجھ آتی تھی۔ جواب شکوہ کے بعد اکثر علماء نے اپنی اولین رائے سے رجوع بھی کر لیا تھا۔ لیکن ادب و شاعری سے قطعی ناواقف علماء پہلے بھی اور آج بھی ایسا لگتا ہے کہ علامہ کو تختہ مشق بنانے ہی میں اپنی ”اُخروی نجات“ سمجھتے ہیں۔ اور خود کو مسلمان کہلوانے والے بقیہ فاسق و فاجر شعراء سے چشم پوشی نہ جانے کیا سمجھ کر کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایسے فاسق و فاجر شعراء کی فاسق و فاجر شاعری ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کے تعلیم اداروں کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ لیکن آج تک پاکستانی علماء نے کبھی بھی پاکستانی مسلمان بچوں کو پڑھائی جانے والی ایسی شاعری کے خلاف کوئی قابل ذکر مہم نہیں چلائی تاکہ ان نصاب کو ایسے ”خرافات“ سے پاک کروایا جاسکے۔
یہاں اس بات کا ”موقع“ نہیں کہ میں علامہ اقبال کی اُن خدمات کا ذکر کروں جو انہوں نے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے سر انجام دیں۔ آج ہم جس ”مملکت خدا داد پاکستان“ میں اسلامی نظام کے نفاذ کی (جیسی بھی) کوشش کررہے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال اسی مملکت کے ”بانیوں میں سر فہرست“ ہیں۔ علامہ کی اپنی ذاتی زندگی فسق و فجور سے دور تھی۔ گو چہرے پر داڑھی نہ تھی مگر وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ اور قرآن کا مطالعہ سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ آپ کے اکثر کلام میں قرآنی تعلیمات کی جھلک جابجا ملتی ہے۔ برصغیر کے بیشتر شعلہ بیاں خطیب اپنی تقریروں کو علامہ ہی کے اشعار سے سجانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ میں یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ علامہ کی سو فیصد شاعری ”قرآن و سنت“ کی بنیاد پر ہے۔ ایسا تو کوئی بڑے سے بڑا عالم دین بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی ”سو فیصد تحریر و تقاریر“ قرآن و سنت پر سو فیصد پوری اترتی ہے۔ پھر ایک شاعر سے ایسی توقع کیوں کی جاتی ہے۔ جو بہر حال اپنی برادری میں دوسروں سے بہتر مسلمان ہے اور جس کی شاعری اکثر و بیشتر اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ ایک ایسے ”مومن شاعر “کی ذات و شاعری میں کیڑے نکالنے والے ذرا اپنے اپنے گریبانوں تو جھانک کر دیکھیں کہ کیا ان کی ذات ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے اور انہوں نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے فروغ میں حصہ لے کر علامہ و قائد اعظم کے حاصل کردہ مملکت کو انہوں نے کس درجہ تک ”اسلامی“ بنا لیا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم کئے جانے والے بھاری اکثریتی مسلم مملکت کو اسلامی ڈھانچے میں تبدیل کرنا تو درکنار، ہم اس مملکت کو دو لخت ہونے سے بچانے میں بھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکے۔ آج بھی اس مملکت کو ایسے ہی خطرات کا سامنا ہے۔ مگر پاکستان کے ہر محلہ گلی کوچے میں موجود مولوی صاحبان سو فیصد ”پاکستانیوں“ کو یہ باور کرانے میں سراسر ناکام ہیں کہ ہمارا مفاد پاکستان کو قائم رکھنے میں ہے، اسے توڑنے میں نہیں۔ بنے بنائے مملکت کو ہم مذہب عوام کی مدد سے قائم رکھنا آسان کام ہے یا ایک ہندو اکثریتی ریاست متحدہ ہندوستان میں حاکم کافر قوم سے مسلمانوں کے لئے ایک مسلم اکثریتی مملکت حاصل کرنا آسان کام ہے۔ علامہ و قائد اعظم نے جو عظیم کارنامہ کر دکھا ہے، اس کی اہمیت ان کی ذات کے عیوب کی تشہیر کر کے کم نہیں کی جاسکتی۔ اور روز حشر اس جوابدہی سے نہیں بچا جاسکتا کہ ”داڑھی منڈوں“ نے تو تم مسلمانوں کے لئے ایک عظیم اسلامی مملکت قائم کرکے تمہارے حوالہ کردیا تھا ۔ تم لوگ اسے قائم و دائم رکھنے میں اور اس میں اسلامی نظام کے قائم کرنے میں کس حد تک ”کامیاب“ رہے۔ اللہ ہم سب کو وسعت نظری سے سرفراز کرے آمین ثم آمین
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا یوسف ثانی بھائی۔
آپ نے شاعری میں مثبت و منفی کرداروں کی تخلیق اور نقل کفر والی جو بات کی ہے۔ میں خود جو دوسرے دھاگے میں علامہ اقبال کے ایک شعر پر معترض تھا، اس بات کا اعتراف کرنے میں باک نہیں محسوس کرتا، کہ اس تشریح کے بعد وہ اعتراض غلط معلوم ہوتا ہے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
ایک ایسے ”مومن شاعر “کی ذات و شاعری میں کیڑے نکالنے والے ذرا اپنے اپنے گریبانوں تو جھانک کر دیکھیں کہ کیا ان کی ذات ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے اور انہوں نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے فروغ میں حصہ لے کر علامہ و قائد اعظم کے حاصل کردہ مملکت کو انہوں نے کس درجہ تک ”اسلامی“ بنا لیا ہے۔
:)
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا

 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
سچی بات تو یہ ہے کہ اگر بہ فرض محال مجھے شکوہ اور جواب شکوہ میں سے کسی ایک پر ”اعتراض“ کرنا پڑے تو مَیں تو ”جواب شکوہ“ پر کروں گا۔ ”شکوہ “ پر اعتراض اس لئے ”فضول“ ہے کہ اس میں حضرت اقبال نے مسلمانوں کے جس کم فہم گروہ کی ”ترجمانی“ کی ہے۔ ”اس قسم کے مسلمان“ ایسی ہی ”پست معیار“ کی گفتگو کرتے ہیں۔ علامہ نے ”جواب شکوہ“ میں اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے ”در جواب آں غزل“ پیش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص مکالمہ (شکوہ) کا اتنا طویل منظوم جواب لکھنا بہت ہی ”حساس معاملہ“ ہے۔ کیوں کہ (الف) شرعی اعتبار سے ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ”ایسی بات“ منسوب نہیں کر سکتے جس سے ”مشابہ کوئی بات“ قرآن اور صحیح احادیث میں موجود نہ ہو ۔ واضح رہے کہ میں نے یہاں یہ نہیں کہا ہے کہ ۔۔۔ (ب) شرعی اعتبار سے ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ”ایسی بات“ منسوب نہیں کر سکتے جو قرآن اور صحیح احادیث کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ ۔۔۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس ” ب “ طرز کی گفتگو کرنا تو نسبتاً بہت آسان ہے۔ جبکہ کسی تمثیل میں، بالخصوص منظوم تمثیل میں اللہ کی طرف سے ”الف“ طرز کی گفتگو کرنا، ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے لئے تلوار کی تیز دھار پر چلنے سے بھی مشکل کام ہے۔۔۔ اور علامہ اقبال کی قادرالکلامی نے اس تیز دھار کی تلوار پر اس طرح چل کر دکھا یا ہے کہ کسی بھی عالم دین کی طرف سے ”جوابِ شکوہ“ پر کوئی ”اعتراض“ سامنے نہیں آیا۔ حالانکہ کلیہ (الف) کو سامنے رکھ کر ”جوابِ شکوہ“ پر اعتراض کے مقامات ”تلاش“ کئے جاسکتے ہیں۔ اور اس اعتراض کی حیثیت بھی محض ایک علمی اعتراض یا تنقید جیسی ہوتی، جس سے کلیہ (ب) کی رو سےاختلاف بھی ممکن ہے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
بہت خوب ، ماشاءاللہ۔ کیا نکتہ آفرینی ہے۔ ہم چند دوست احباب بھی کچھ ایسا ہی سوچتے رہے ہیں مگر الفاظ کے روپ میں اسے بیان کرنا ۔۔۔ یہ تو آپ ہی کا کمال ہے۔ :)
بہت خوب !!
 
Top