- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
ایک عام کلیہ ہے کہ کفریہ و شرکیہ الفاظ کو نقل کرنا کفر اور شرک نہیں ہے۔ خود قرآن و حدیث میں بھی کفار و مشرکین کے کفریہ و شرکیہ کلمات نقل کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں علمائے کرام اور دینی اسکالرز بھی اپنی تحریروں اور تقریروں میں، جہاں انہیں ضرورت محسوس ہو، کفریہ و شرکیہ کلمات و خیالات کو ”نقل“ کرتے ہیں۔ یہی کام ادیب و شاعر بھی کرتے ہیں۔ لیکن دونوں کا انداز الگ الگ ہے۔
علماء اور اسکالرز کی تحریریں سادہ اور بیانیہ ہوتی ہیں۔ اور وہ جب بھی کسی کفری و شرکیہ خیالات و کلمات کو ”نقل“ کرتے ہیں تو ”صاف صاف“ لکھ دیتے ہیں کہ یہ اُن کے نہیں بلکہ فلاں اور فلاں کے خیالات ہیں۔ اس کے برعکس ادیب و شاعر کا نقلِ کفر و شرک بہ انداز دگر ہوتا ہے۔
ادیب و شاعر کی تحریریں ”تمثیلی“ انداز لئے ہوتی ہیں۔ اکثر ادبی تحریریں ”کہانیوں“ کے گرد گھومتی ہیں۔افسانہ ہو، ناول ہو، ڈرامہ ہو، یا خودسادہ کہانی، ہر ایک میں ”کہانی“ نمایاں یا غیر نمایاں طور پر ”موجود“ ضرور ہوتی ہے۔ اور جہاں کہانی ہوگی، وہاں ”کردار“ بھی ضرور ہوں گے۔ یہ ”کردار“ مثبت بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی۔ ایک ادیب یا شاعر منفی و مثبت دونوں قسم کے ”کرداروں“ کو تخلیق کرتا ہے۔ ادیب یہ کردار انسانی معاشرے ہی سے مستعار لے کر انہیں ”رنگ و روغن“ کرکے ”نمایاں“ کرکے پیش کرتا ہے۔ اسی لئے ادیبوں کے ”کردار“ میں ”مبالغہ آرائی تو ہوتی ہے، مگر ”خلاف واقعہ“ ہر گز نہیں ہوتے۔
ادب کے مختلف ”اصناف“ میں ” کہانی کے کردار مختلف انداز میں ”بولتے“ ہیں۔ اور انہیں زبان ادیب یا شاعر فراہم کرتا ہے۔ کسی ادبی شہ پارے میں کردار جو کچھ بولتے ہیں، وہ شاعر یا ادیب کے ذاتی نظریات و خیالات ہوتے بھی ہیں اور نہیں بھی ہوتے۔ اس کا انحصار ادیب و شاعر کی اپنی ”شخصیت“ پر ہوتا ہے۔ اور اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ ”اپنی پیش کردہ کہانی“ کے ذریعہ منفی کرداروں کو پروموٹ کرتا ہے یا مثبت کرداروں کو۔ اگر جوش ملیح آبادی، حضرت غالب، منٹو، عصمت چغتائی کی تحریروں میں منفی کردار موجود ہوتے ہیں تو یہ منفی کردار، مثبت کرداروں پر غالب ہوتے ہیں۔اور قارئین ان کرداروں کے خیالات سے قربت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی دین سے دور، بد کرداروں، شرابی و کبابی ادباء و شعرائ کے ”فن“ کا کمال ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب ایک دین پسند دیندار ادیب و شاعر اپنی کہانی میں ”منفی کرداروں“ کو پیش کرتا ہے تو بین السطور ان سے نفرت کرنا بھی سکھلاتا ہے یا مثبت کرداروں کو ان پر غالب کرکے دکھلاتا ہے۔ علامہ اقبال کا شکوہ بھی ایک ”منفی انسان یا مایوس مسلمان“ کے جذبات و خیالات کی ”ترجمانی“ کرتا ہے۔ اگر اس ترجمانی میں انہوں نے ”ایسے لوگوں کے خیالات و احساسات کو ”نقل“ کیا ہے تو کیا یہ نقل ”کفر“ کے مترادف ہے۔ بالخصوص جب انہوں نے ”جواب شکوہ“ بھی پیش کرکے ایسے تمام ” فاسد خیالات“ کا رَد بھی پیش کردیا ہو۔ اگر کسی عالم دین نے اپنی کسی تحریر میں کفر یہ و شرکیہ الفاظ نقل کرکے اس کا ”جواب“لکھا ہو تو کیا ایسے عالم پر بھی اپنے قلم سے ”کفریہ و شرکیہ کلام لکھنے“ کا الزام لگایا جائے گا ؟ جی ہاں! برصغیر پاک و ہند میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ ناروا طور پر بھی ”ناپسندیدہ علمائے کرام“ کی کتابوں سے سیاق و سباق سے جدا کرکے ”قابل اعتراض“ تحریروں پر ”اعتراض“ کرنے لگتے ہیں۔ اور کئی جگہوں پر تو میں نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ لکھنے والے نے ”غیر اسلامی ، کفریہ یا شرکیہ اعمال و خیالات“ کو کہیں سے نقل کرکے اس کا رَد لکھا اور ”معترض“ نے سیاق و سباق کو جان بوجھ کر چھوڑ کر ”مطلوبہ منفی مواد“ کو ہائی لائیٹ کرکے صاحب تحریر کو مورد الزام ٹھہرا دیا کہ دیکھو صاحب! فلاں نے فلاں فلاں کتاب کے فلاں فلاں صفحہ پر یہ یہ لکھا ہے۔ کیسا مردود و خبیث شخص ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
علماء اور اسکالرز کی تحریریں سادہ اور بیانیہ ہوتی ہیں۔ اور وہ جب بھی کسی کفری و شرکیہ خیالات و کلمات کو ”نقل“ کرتے ہیں تو ”صاف صاف“ لکھ دیتے ہیں کہ یہ اُن کے نہیں بلکہ فلاں اور فلاں کے خیالات ہیں۔ اس کے برعکس ادیب و شاعر کا نقلِ کفر و شرک بہ انداز دگر ہوتا ہے۔
ادیب و شاعر کی تحریریں ”تمثیلی“ انداز لئے ہوتی ہیں۔ اکثر ادبی تحریریں ”کہانیوں“ کے گرد گھومتی ہیں۔افسانہ ہو، ناول ہو، ڈرامہ ہو، یا خودسادہ کہانی، ہر ایک میں ”کہانی“ نمایاں یا غیر نمایاں طور پر ”موجود“ ضرور ہوتی ہے۔ اور جہاں کہانی ہوگی، وہاں ”کردار“ بھی ضرور ہوں گے۔ یہ ”کردار“ مثبت بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی۔ ایک ادیب یا شاعر منفی و مثبت دونوں قسم کے ”کرداروں“ کو تخلیق کرتا ہے۔ ادیب یہ کردار انسانی معاشرے ہی سے مستعار لے کر انہیں ”رنگ و روغن“ کرکے ”نمایاں“ کرکے پیش کرتا ہے۔ اسی لئے ادیبوں کے ”کردار“ میں ”مبالغہ آرائی تو ہوتی ہے، مگر ”خلاف واقعہ“ ہر گز نہیں ہوتے۔
ادب کے مختلف ”اصناف“ میں ” کہانی کے کردار مختلف انداز میں ”بولتے“ ہیں۔ اور انہیں زبان ادیب یا شاعر فراہم کرتا ہے۔ کسی ادبی شہ پارے میں کردار جو کچھ بولتے ہیں، وہ شاعر یا ادیب کے ذاتی نظریات و خیالات ہوتے بھی ہیں اور نہیں بھی ہوتے۔ اس کا انحصار ادیب و شاعر کی اپنی ”شخصیت“ پر ہوتا ہے۔ اور اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ ”اپنی پیش کردہ کہانی“ کے ذریعہ منفی کرداروں کو پروموٹ کرتا ہے یا مثبت کرداروں کو۔ اگر جوش ملیح آبادی، حضرت غالب، منٹو، عصمت چغتائی کی تحریروں میں منفی کردار موجود ہوتے ہیں تو یہ منفی کردار، مثبت کرداروں پر غالب ہوتے ہیں۔اور قارئین ان کرداروں کے خیالات سے قربت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی دین سے دور، بد کرداروں، شرابی و کبابی ادباء و شعرائ کے ”فن“ کا کمال ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب ایک دین پسند دیندار ادیب و شاعر اپنی کہانی میں ”منفی کرداروں“ کو پیش کرتا ہے تو بین السطور ان سے نفرت کرنا بھی سکھلاتا ہے یا مثبت کرداروں کو ان پر غالب کرکے دکھلاتا ہے۔ علامہ اقبال کا شکوہ بھی ایک ”منفی انسان یا مایوس مسلمان“ کے جذبات و خیالات کی ”ترجمانی“ کرتا ہے۔ اگر اس ترجمانی میں انہوں نے ”ایسے لوگوں کے خیالات و احساسات کو ”نقل“ کیا ہے تو کیا یہ نقل ”کفر“ کے مترادف ہے۔ بالخصوص جب انہوں نے ”جواب شکوہ“ بھی پیش کرکے ایسے تمام ” فاسد خیالات“ کا رَد بھی پیش کردیا ہو۔ اگر کسی عالم دین نے اپنی کسی تحریر میں کفر یہ و شرکیہ الفاظ نقل کرکے اس کا ”جواب“لکھا ہو تو کیا ایسے عالم پر بھی اپنے قلم سے ”کفریہ و شرکیہ کلام لکھنے“ کا الزام لگایا جائے گا ؟ جی ہاں! برصغیر پاک و ہند میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ ناروا طور پر بھی ”ناپسندیدہ علمائے کرام“ کی کتابوں سے سیاق و سباق سے جدا کرکے ”قابل اعتراض“ تحریروں پر ”اعتراض“ کرنے لگتے ہیں۔ اور کئی جگہوں پر تو میں نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ لکھنے والے نے ”غیر اسلامی ، کفریہ یا شرکیہ اعمال و خیالات“ کو کہیں سے نقل کرکے اس کا رَد لکھا اور ”معترض“ نے سیاق و سباق کو جان بوجھ کر چھوڑ کر ”مطلوبہ منفی مواد“ کو ہائی لائیٹ کرکے صاحب تحریر کو مورد الزام ٹھہرا دیا کہ دیکھو صاحب! فلاں نے فلاں فلاں کتاب کے فلاں فلاں صفحہ پر یہ یہ لکھا ہے۔ کیسا مردود و خبیث شخص ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون