• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازى مسجد كے باہر نماز ادا كر رہے ہوں اور بجلى منقطع ہو جائے تو كيا حكم ہے ؟

شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
دلیل اس سوال کے جواب میں ہی موجود ہے اگر آپ غور سے پڑھ لیتے تو اس کی دلیل کے لئے مجھ ناقص علم کی طرف رجوع نہیں کرنا پڑتا لیجئے میں ہائی لائٹ کرکے پیش کردیتا ہوں تاکہ آپ کے لئے آسانی رہے

اب میں بھی آپ سے اس بات کی دلیل مانگنے میں حق بجانب ہوں کہ نماز کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال سنت ہے بدعت نہیں مہربانی فرما کر دلیل عنایت فرمادیں شکریہ
پہلے جواب دو تو پھر جواب مانگنا ، خود تو جواب مانگنے پر بھاگتے ہو
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ کے سوال کا جواب میں نے محمد وقاص گل صاحب کے اقتباس کے ذریعہ عرض کردیا ہے مگر آپ کو حسب سابق وہ نظر نہیں آیا ہوگا
دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
آپ کے سوال کا جواب میں نے محمد وقاص گل صاحب کے اقتباس کے ذریعہ عرض کردیا ہے مگر آپ کو حسب سابق وہ نظر نہیں آیا ہوگا
دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
جواب نہیں تو اب جھوٹ پر اتر آئے ہو ، تم پر اتنے سوال ہیں کس کا جواب تم نے دیا ؟
دروغ گو را حافضہ نباشد
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
کیا مساجد میں نماز کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ترک نہیں کیا جاسکتا ؟
کیا کی اس کی وجہ سے مکبر والی سنت ترک نہیں ہوتی ہے ؟
السلام علیکم ،
علی بہرام بھائی مکبر والی سنت کس حدیث سے واضح ہے؟ اسے بیان کر دیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
السلام علیکم ،
علی بہرام بھائی مکبر والی سنت کس حدیث سے واضح ہے؟ اسے بیان کر دیں
وعلیکم السلام
یہ جواب اس دھاگہ کی اولین پوسٹ میں ہی ہے جو کہ مجموع فتاوى ابن باز سے ماخوذ ہے جس کا اقتباس ایک بار پھر لگا کر ہائی لائٹ کردیا ہے کہ جب امام کی اقتداء میں دشواری ہو تو امام کے قریب والے مقتدی کےلئے بلند آواز سے تکبیر کہنا مشروع ہے یعنی مکبر ہونا شریعت میں جائز ہے اور ابن باز کا کہنا ہے امید ہے اب اس کے لئے دلیل کا مطالبہ ابن باز سے کیا جائے گا
امام كى اقتدا كرنا مشكل ہو جائے تو اس صورت ميں مسجد كے قريب والے مقتدى كے ليے بلند آواز سے تكبير كہنى مشروع ہے، تا كہ مسجد سے باہر والے لوگ سن سكيں اور ان كے ليے امام كى اقتدا ممكن ہو.
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن باز ( 12 / 331 ).
واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/minorities/83009
 
  • پسند
Reactions: Dua

mabid.bilkhair

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2013
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
19
دلیل اس سوال کے جواب میں ہی موجود ہے اگر آپ غور سے پڑھ لیتے تو اس کی دلیل کے لئے مجھ ناقص علم کی طرف رجوع نہیں کرنا پڑتا لیجئے میں ہائی لائٹ کرکے پیش کردیتا ہوں تاکہ آپ کے لئے آسانی رہے

اب میں بھی آپ سے اس بات کی دلیل مانگنے میں حق بجانب ہوں کہ نماز کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال سنت ہے بدعت نہیں مہربانی فرما کر دلیل عنایت فرمادیں شکریہ
علی بہرام صاحب اور دیگر احباب السلام و علیکم

بدعت کا معنی ھیں دین میں کمی یا زیادتی - لاؤڈ اسپیکر کا استعمال دین نہیں یہ دنیاوی معملات ھیں۔ اللہ مجھے اور آپ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے- اٰمین

جزاک اللہ خیرا
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
وعلیکم السلام
یہ جواب اس دھاگہ کی اولین پوسٹ میں ہی ہے جو کہ مجموع فتاوى ابن باز سے ماخوذ ہے جس کا اقتباس ایک بار پھر لگا کر ہائی لائٹ کردیا ہے کہ جب امام کی اقتداء میں دشواری ہو تو امام کے قریب والے مقتدی کےلئے بلند آواز سے تکبیر کہنا مشروع ہے یعنی مکبر ہونا شریعت میں جائز ہے اور ابن باز کا کہنا ہے امید ہے اب اس کے لئے دلیل کا مطالبہ ابن باز سے کیا جائے گا


دروغ گوئی اور کذب بیانی میں اہل تشیع کا کوئی ثانی نہیں۔۔۔

کہاں کی عبارت کہاں لگا دی؟؟؟؟؟
نا تو یہ عبارت جو آپ نے لگائی یہ شیخ ابن باز رح کی ہے اور نا ہی پوسٹ میں آپ سے مطلوب دلیل کا ذکر ہے۔۔
مسئلہ کوئی اتنا گمبھیر نہیں بس آپ کو صرف شرارت اور فساد میں مزا آتا ہے۔۔

اگر دلیل کا یہاں ذکر بھہ ہو تو میں نے آپ سے دلیل مانگی ہے نا کہ اپنی پوسٹ کو کھنگھالنے کا کہا؟
ابن باز رح کی دلیل سے آپ کا کیا کام؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
دروغ گوئی اور کذب بیانی میں اہل تشیع کا کوئی ثانی نہیں۔۔۔

کہاں کی عبارت کہاں لگا دی؟؟؟؟؟
نا تو یہ عبارت جو آپ نے لگائی یہ شیخ ابن باز رح کی ہے اور نا ہی پوسٹ میں آپ سے مطلوب دلیل کا ذکر ہے۔۔
مسئلہ کوئی اتنا گمبھیر نہیں بس آپ کو صرف شرارت اور فساد میں مزا آتا ہے۔۔

اگر دلیل کا یہاں ذکر بھہ ہو تو میں نے آپ سے دلیل مانگی ہے نا کہ اپنی پوسٹ کو کھنگھالنے کا کہا؟
ابن باز رح کی دلیل سے آپ کا کیا کام؟؟؟
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا
لیجئے میں آپ کی پہلی پوسٹ کو پیش کیئے دیتا ہوں ان نقاط کو ہائی کرکے جن پر آپ کذب بیانی کا الزام لگا رہیں ہیں امید ہے آپ کی تسلی پھر بھی نہیں ہوگی
مجھے نماز عشاء ميں تاخير ہو گى، اور مسجد كے اندر جگہ نہ مل سكى چنانچہ ہم نے مسجد كے باہر نماز ادا كى، آخرى ركعت ميں بجلى منقطع ہو گئى اور سپيكروں كى آواز ختم ہونے كى بنا پر ہم امام كى آواز نہ سكے، اس حالت ميں ہميں كيا كرنا چاہيے ؟
الحمد للہ:
اگر كچھ نمازى مسجد سے باہر نماز ادا كر رہے ہوں اور بجلى چلى جانے كى بنا پر امام كى اقتدا كرنا مشكل ہو جائے تو اس صورت ميں مسجد كے قريب والے مقتدى كے ليے بلند آواز سے تكبير كہنى مشروع ہے، تا كہ مسجد سے باہر والے لوگ سن سكيں اور ان كے ليے امام كى اقتدا ممكن ہو.
اور اگر ايسا نہ كرے تو پھر انہيں دو چيزوں ميں سے ايك اختيار كرنے كا حق حاصل ہے:
يا تو وہ انفرادى طور پر نماز مكمل كرليں، اور يا ان ميں سے كوئى شخص آگے بڑھ كر بطور جماعت نماز مكمل كروائے، اور اولى اور بہتر بھى يہى ہے، تا كہ امام كى آواز منقطع ہونے كے باعث نمازى اضطراب ميں نہ پڑيں.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
مسجد كے گراونڈ فلور پر نماز جمعہ ادا كر رہے تھے كہ بجلى منقطع ہو گئى اور مقتدى امام كى آواز نہ سن سكے، چنانچہ ايك مقتدى نے آگے بڑھ كر انہيں نماز مكمل كروائى، چنانچہ اس نماز كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں ركھيں كہ نماز جمعہ كى نماز تھى ؟
اور اگر كوئى شخص آگے بڑھ كر نماز مكمل نہ كرواتا تو پھر كيا حكم تھا، كيا ہر ايك شخص انفرادى طور پر نماز مكمل كرے؟
اور اگر ايسا كرنا جائز ہے تو كيا وہ ظہر كى نماز مكمل كرے، يا كہ نماز جمعہ سمجھ كر ہى، كيونكہ اس نے امام كا خطبہ سنا اور امام كے ساتھ نماز شروع كر كے ايك ركعت ادا بھى كر لى تھى ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اگر واقعہ ايسا ہى ہو جيسا كہ سوال ميں بيان كيا گيا ہے تو ان سب كى نماز صحيح ہے؛ كيونكہ جس نے نماز جمعہ كى ايك ركع پالى اس نے نماز جمعہ پا ليا، جيسا كہ صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے.
اور اگر كوئى مقتدى آگے بڑھ كر انہيں نماز مكمل نہ بھى كرواتا اور ان سب سے انفرادى طور پر آخرى ركعت مكمل كر لى ہوتى تو بھى كفائت كر جاتا، جيسا كہ امام كے ساتھ ايك ركعت ادا كرنے والا شخص اٹھ كر ايك ركعت انفرادى طور پرادا كرتا ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" جس نے نماز كى ايك ركعت پالى اس نے نماز پالى " انتہى
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن باز ( 12 / 331 ).
واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/minorities/83009
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
قصور آپ کا بھی نہیں فقط عادت سے مجبور ہین۔۔
ابن باز رح کی بات کہاں سے سٹارٹ ہو رہی ہے عینک لگا کے دیکھیں۔۔
مجھے نماز عشاء ميں تاخير ہو گى، اور مسجد كے اندر جگہ نہ مل سكى چنانچہ ہم نے مسجد كے باہر نماز ادا كى، آخرى ركعت ميں بجلى منقطع ہو گئى اور سپيكروں كى آواز ختم ہونے كى بنا پر ہم امام كى آواز نہ سكے، اس حالت ميں ہميں كيا كرنا چاہيے ؟

الحمد للہ:
اگر كچھ نمازى مسجد سے باہر نماز ادا كر رہے ہوں اور بجلى چلى جانے كى بنا پر امام كى اقتدا كرنا مشكل ہو جائے تو اس صورت ميں مسجد كے قريب والے مقتدى كے ليے بلند آواز سے تكبير كہنى مشروع ہے، تا كہ مسجد سے باہر والے لوگ سن سكيں اور ان كے ليے امام كى اقتدا ممكن ہو.
اور اگر ايسا نہ كرے تو پھر انہيں دو چيزوں ميں سے ايك اختيار كرنے كا حق حاصل ہے:
يا تو وہ انفرادى طور پر نماز مكمل كرليں، اور يا ان ميں سے كوئى شخص آگے بڑھ كر بطور جماعت نماز مكمل كروائے، اور اولى اور بہتر بھى يہى ہے، تا كہ امام كى آواز منقطع ہونے كے باعث نمازى اضطراب ميں نہ پڑيں.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
مسجد كے گراونڈ فلور پر نماز جمعہ ادا كر رہے تھے كہ بجلى منقطع ہو گئى اور مقتدى امام كى آواز نہ سن سكے، چنانچہ ايك مقتدى نے آگے بڑھ كر انہيں نماز مكمل كروائى، چنانچہ اس نماز كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں ركھيں كہ نماز جمعہ كى نماز تھى ؟
اور اگر كوئى شخص آگے بڑھ كر نماز مكمل نہ كرواتا تو پھر كيا حكم تھا، كيا ہر ايك شخص انفرادى طور پر نماز مكمل كرے؟
اور اگر ايسا كرنا جائز ہے تو كيا وہ ظہر كى نماز مكمل كرے، يا كہ نماز جمعہ سمجھ كر ہى، كيونكہ اس نے امام كا خطبہ سنا اور امام كے ساتھ نماز شروع كر كے ايك ركعت ادا بھى كر لى تھى ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اگر واقعہ ايسا ہى ہو جيسا كہ سوال ميں بيان كيا گيا ہے تو ان سب كى نماز صحيح ہے؛ كيونكہ جس نے نماز جمعہ كى ايك ركع پالى اس نے نماز جمعہ پا ليا، جيسا كہ صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے.
اور اگر كوئى مقتدى آگے بڑھ كر انہيں نماز مكمل نہ بھى كرواتا اور ان سب سے انفرادى طور پر آخرى ركعت مكمل كر لى ہوتى تو بھى كفائت كر جاتا، جيسا كہ امام كے ساتھ ايك ركعت ادا كرنے والا شخص اٹھ كر ايك ركعت انفرادى طور پرادا كرتا ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" جس نے نماز كى ايك ركعت پالى اس نے نماز پالى " انتہى
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن باز ( 12 / 331 ).
واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/minorities/83009
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
قصور آپ کا بھی نہیں فقط عادت سے مجبور ہین۔۔
ابن باز رح کی بات کہاں سے سٹارٹ ہو رہی ہے عینک لگا کے دیکھیں۔۔
لیکن یہ سب لکھا ہوا آپ ہی کی پوسٹ میں ہے اگر یہ موقف ابن باز کا نہیں تو آپ کا یقینا ہے اور آپ ہی اپنے لکھی ہوئی بات سے انکار فرمارہیں ہیں یہ کیسی عادت ہے اور اس کو کیا نام دیا جائے ؟؟؟؟؟
 
Top