• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازِ عید کی زائد چھہ تکبیرات کے دلائل

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
(تکبیراتِ عیدین پر مختلف روایات کتبِ احادیث میں موجود ہیں، دنیا میں موجود مسلمانوں کی اکثریت "احناف" کا جن پر عمل ہیں وہ ذکر کی جاتی ہیں) عید الفطر اور عید الأضحى کی دو رکعات نماز جو چھہ زائد تکبیرات سے ادا کی جاتی ہے. پہلی رکعت میں ثنا کے بعد قرأت سے پہلے تین (٣) زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں، اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین (٣) زائد تکبیرات کہہ کر رکوع کی تکبیر کہتے رکوع میں چلے جاتے ہیں.

پہلی رکعت میں تین (٣) زائد تکبیرات چونکہ تکبیرِ تحریمہ کہہ کر ثناء کے متصل بعد کہی جاتی ہیں اور دوسری رکعت میں یہ تکبیرات کہہ کر متصل رکوع کی تکبیر کہی جاتی ہے، اس لئے اس اتصال کی وجہ سے پہلی رکعت میں رکوع کی تکبیر سے مل کر چار. گویا ہر رکعت میں چار تکبیرات شمار ہوں گی.

پہلی روایات میں پہلی رکعت میں تکبیرِ تحریمہ تین زائد تکبیرات اور رکوع کی تکبیر کو ملا کر پانچ (٥) اور دوسری رکعت میں تین زائد تکبیرات اور رکوع کی تکبر ملا کر چار بتایا گیا ہے اور مجموئی طور پر نو (٩) تکبیرات شمار کی گئی ہیں.

1) أَنَّ الْقَاسِمَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " صَلَّى بِنَا ، النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، وَأَرْبَعًا ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ حِينَ انْصَرَفَ ، قَالَ : لا تَنْسَوْا ، كَتَكْبِيرِ الْجَنَائِزِ ، وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ ، وَقَبَضَ إِبْهَامَهُ " .

[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الزِّيَادَاتِ » بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا ...، رقم الحديث: 4820]

خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
[نخب الافكار (العيني) -الصفحة أو الرقم: 16/440 ، السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 6/1259 : 2997]

ترجمہ : ابو عبدالرحمٰن قاسم فرماتے ہیں کہ مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھائی تو چار چار (4،4) تکبیریں کہیں، جب نماز سے فارغ ہوۓ تو ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا : بھول نہ جانا عید کی تکبیرات جنازہ کی طرح (چار) ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں کا اشارہ فرمایا اور انگوٹھا بند کرلیا.
[شرح معانی الآثار، لطحاوی : ٢/٣٧١، بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا]

تخريج الحديث

م

طرف الحديث

الصحابي

اسم الكتاب

أفق

العزو

المصف

سنة الوفاة

1

صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم عيد فكبر أربعا وأربعا ثم أقبل علينا بوجهه حين انصرف قال لا تنسوا كتكبير الجنائز وأشار بأصابعه وقبض إبهامه

اسم مبهم

شرح معاني الآثار للطحاوي

4820

4829

الطحاوي

321

2

يصلي بالناس إذ مرت بهمة أو عناق ليجيز أمامه فجعل يدنو من السارية ويدنو حتى سبقها فألصق بطنه بالسارية فمرت بينه وبين الناس فلم يأمر الناس بشيء

اسم مبهم

مصنف عبدالرزاق

2245

2321

عبدالرزاق الصنعاني

211
حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں تکبیراتِ جنازہ کے چار (٤) ہونے پر تمام صحابہِ کرام کا "اتفاق (یعنی اجماع) ہوا. حديث کے الفاظ ہیں : فَأَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ عَلَى أَنْ يَجْعَلُوا التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَائِزِ ، مِثْلَ التَّكْبِيرِ فِي الأَضْحَى وَالْفِطْرِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ ، فَأُجْمِعَ أَمْرُهُمْ عَلَى ذَلِكَ " .
[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الْجَنَائِزِ » بَابُ التَّكْبِيرِ عَلَى الْجَنَائِزِ كَمْ هُوَ ؟ ..., رقم الحديث: 1810]

ترجمہ : تو انہوں نے اس پر اتفاق کیا کہ نماز عید الأضحى اور عید الفطر کی چار تکبیروں کی طرح جنازہ کی بھی چار تکبیریں ہیں.

=======================-
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
2) عَنْ مَكْحُولٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو عَائِشَةَ جَلِيسٌ لِأَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ سَأَلَ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ ، وَحُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ : كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ ؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَى : " كَانَ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا تَكْبِيرَهُ عَلَى الْجَنَائِزِ " ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ : صَدَقَ ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : كَذَلِكَ كُنْتُ أُكَبِّرُ فِي الْبَصْرَةِ حَيْثُ كُنْتُ عَلَيْهِمْ ، وقَالَ أَبُو عَائِشَةَ : وَأَنَا حَاضِرٌ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ .
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ » بَاب التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ، رقم الحديث: 975]

خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة] تخريج مشكاة المصابيح (ابن حجر العسقلاني) - الصفحة أو الرقم: 2/121

السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 6/1260 صحيح أبي داود (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 1153

ترجمہ : حضرت مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ہم نشین ابوعائشہ نے بتایا کہ میں نے حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح تکبیر کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ (ہر رکعت میں) چار تکبیریں کہتے تھے جیسا کہ آپ نماز جنازہ میں کہتے تھے۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں. حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے (مزید) بتایا کہ جب میں بصرہ والوں پر حاکم (گورنر) بنایا گیا تو میں وہاں بھی اسی طرح تکبیریں کہا کرتا تھا. ابوعائشہ نے کہا کہ (اس سوال و جواب کے موقع پر) سعید بن العاص کے ساتھ موجود تھا۔
[سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر 1150، نماز کا بیان : عیدین کی تکبیرات کا بیان]
تخريج الحديث
م طرف الحديث الصحابي اسم الكتاب أفق العزو المصنف سنة الوفاة
1 يكبر أربعا تكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل مسند أحمد بن حنبل 19294 19234 أحمد بن حنبل 241
2 كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى أربعا كتكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل شرح معاني الآثار للطحاوي 4821 4830 الطحاوي 321
3 في التكبير على الجنائز خمسا حذيفة بن حسيل إتحاف المهرة 4125 --- ابن حجر العسقلاني 852
4 يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى كان يكبر أربع تكبيرات كتكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل مسند أبي حنيفة لابن يعقوب 579 --- عبد الله بن محمد بن يعقوب بن البخاري 340
5 يكبر في الأضحى والفطر أربعا كتكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل مسند الشاميين للطبراني 3526 3573 سليمان بن أحمد الطبراني 360
6 يكبر أربعا تكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل السنن الكبرى للبيهقي 5707 3:289 البيهقي 458
7 الصلاة في العيدين كالتكبير على الجنائز أربع وأربع سوى تكبيرة الافتتاح والركوع حذيفة بن حسيل معرفة السنن والآثار للبيهقي 1694 1901 البيهقي 458
8 كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الفطر والأضحي فقال أبو موسى كان يكبر أربع تكبيرات تكبيرة على الجنائز وصدقه حذيفة حذيفة بن حسيل تاريخ دمشق لابن عساكر 25895 67 : 26 ابن عساكر الدمشقي 571
9 كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى كان يكبر أربعا تكبيره على الجنائز وصدقه حذيفة حذيفة بن حسيل تاريخ دمشق لابن عساكر 25896 67 : 26 ابن عساكر الدمشقي 571
10 كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى أربعا كتكبيره على الجنائز فصدقه حذيفة حذيفة بن حسيل تاريخ دمشق لابن عساكر 25897 67 : 27 ابن عساكر الدمشقي 571
=========================
3) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، " أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي الْعِيدِ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ، ثُمَّ قَامَ فِي الثَّانِيَةِ فَقَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ ثَلاثًا ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ " . حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، مِثْلَهُ .
[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الزِّيَادَاتِ » بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا ..., رقم الحديث: 4825]
خلاصة حكم المحدث: [ورد] من طريقين صحيحين [نخب الافكار (العيني) - الصفحة أو الرقم:16/447]

ترجمہ : حضرت عبدالله بن حارث رح نے حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کے پیچھے نماز پڑھی. حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ نے پہلے چار تکبیریں کہیں، پھر قرأت کی، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا. پھر جب آپ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوۓ تو پہلے قرأت کی پھر تین تکبیریں کہیں، پھر (چوتھی) تکبیر کہہ کر رکوع کیا.[سنن الطحاوی]
كبَّرَ ابنُ عبَّاسٍ يومَ العيدِ في الرَّكعَةِ الأولى أربعَ تَكْبيراتٍ ، ثمَّ قرأَ ثمَّ رَكَعَ ، ثمَّ قامَ فقَرأَ ثمَّ كبَّرَ ثلاثَ تَكْبيراتٍ سِوى تَكْبيرةِ الصَّلاةِ
الراوي: عبدالله بن الحارث بن نوفل المحدث: ابن حزم - المصدر: المحلى - الصفحة أو الرقم: 5/83
خلاصة حكم المحدث: إسناده في غاية الصحة
المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الدراية - الصفحة أو الرقم: 1/220
[إرواء الغليل (لألباني) - الصفحة أو الرقم: 3/111 ، السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 6/1262]

ترجمہ : تکبیر کہتے حضرت ابن عباس عید کے دن پہلی رکعت میں (پہلی تکبیر تحریمہ کے ساتھ) چار تکبیرات ، پھر (قرآن کی) قرأت کرتے پھر رکوع کرتے ، پھر (جب دوسری رکعت کو) کھڑے ہوتے تو (پہلے قرآن کی) قرأت کرتے پھر تکبیر کہتے تین تکبیرات سواۓ نماز کی (بقیہ) تکبیرات کے.
تشریح : یعنی رکوع و سجدہ کو جاتے اور اٹھتے وقت کی تکبیرات علیحدہ ہوتیں.
===========================
4) عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَالِسًا ، وَعِنْدَهُ حُذَيْفَةُ ، وَأَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ ، فَسَأَلَهُمَا سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ عَنِ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى ، فَجَعَلَ هَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، وَهَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ : سَلْ هَذَا ، لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، فَسَأَلَهُ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ " يُكَبِّرُ أَرْبَعًا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُومُ فِي الثَّانِيَةِ فَيَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا بَعْدَ الْقِرَاءَةِ " .
[مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِرقم الحديث: 5528] خلاصة حكم المحدث: إسناده في غاية الصحة
[المحلى (ابن حزم) - الصفحة أو الرقم: 5/83 ، السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم:6/1261]

ترجمہ : علقمہ اور اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ بیٹھے ہوۓ تھے، ان کے پاس حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابو موسیٰؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے. تو ان سے حضرت سعید بن العاصؓ نے عید الفطر اور عید الأضحى کے متعلق سوال کیا، حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ نے کہا : ان (حضرت حذیفہؓ) سے پوچھو، پھر حضرت حذیفہؓ نے کہا : یہ مسئلہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ سے پوچھو، چناچہ انہوں نے پوچھا تو حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا : نمازی چار تکبیریں (ایک تکبیرِ تحریمہ اور تین تکبیراتِ زائد کہے، پھر قرأت کرے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرے، دوسری رکعت میں تکبیر کہے، پھر قرأت کرے، پھر قرأت کے بعد چار تکبیریں کہے. (تین تکبیراتِ زائد اور ایک تکبیر رکوع کے لئے)
[المعجم الکبیر للطبرانی : ٤/٥٩٣، رقم : ٩٤٠٢؛ مصنف عبد الرزاق : ٣/١٦٧، باب تكبير في الصلاة يوم العيد، رقم : ٥٧٠٤]
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد » أبواب العيدين » باب التكبير في العيد والقراءة فيه, مسألة: 3249]

فتح القدير » كتاب الصلاة » باب صلاة العيدين, ص: 75- 76
المحلى بالآثار » الأعمال المستحبة في الصلاة وليست فرضا » صلاة العيدين » مسألة العمل والبيع في العيدين, ص: 296
نصب الراية في تخريج أحاديث الهداية » كتاب الصلاة » باب صلاة العيدين, ص: 257

===========================
5) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ: " فِي الأُولَى خَمْسَ تَكْبِيرَاتٍ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ ، وَبِتَكْبِيرَةِ الاسْتِفْتَاحِ ، وَفِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى أَرْبَعَةٌ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ " .

[ مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِ , رقم الحديث: 5526 ]
ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نمازِ عید کی پہلی رکعت میں رکوع اور تحریمہ کی تکبیر کو ملاکر پانچ (٥) تکبیریں ہوتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع والی تکبیر کو ملاکر چار (٤) تکبیریں بنتی ہیں. [خلاصہ یہ کہ ہر رکعت میں زائد تکبیروں کی تعداد تین (٣) ہے]
عن ابنِ مسعودٍ : أنَّه كان يعلِّمهُم التَّكبيرَ في العيدَينِ تِسعَ تكبيراتٍ : خمسٌ في الأولَى ، وأربعٌ في الثَّانية ، ويُوالي بين القراءتَينِ الراوي: - المحدث: ابن عبدالبر - المصدر: الاستذكار - الصفحة أو الرقم: 2/384 خلاصة حكم المحدث: ثابت
==================
6) عن أنسِ بنِ مالِكٍ أنه قالَ: تِسعُ تَكْبيراتٍ، خَمسٌ في الأولى، وأربعٌ في الآخرةِ، معَ تَكْبيرةِ الصَّلاةِ
الراوي: محمد المحدث: العيني - المصدر: نخب الافكار - الصفحة أو الرقم: 16/454 خلاصة حكم المحدث: طريقه صحيح
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ : نو (٩) تکبیرات، پانچ (٥) پہلی میں ، اور چار (٤) دوسری میں ، تکبیرات_نماز کے ساتھ
تشریح : یعنی نماز کی پہلی تکبیر_تحریمہ اور رکوع کی تکبیر کے ساتھ زائد تین (٣) تکبیرات سے پہلی رکعت میں پانچ (٥) تکبیرات ہوں ، اور دوسری رکعت میں زاید تین (٣) تکبیرات کے ساتھ نماز کی دوسری رکعت میں رکوع میں جانے والی تکبیر کے ساتھ دوسری رکعت میں چار
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور ہماری 12 تکبیرات جو عیدین کی نماز کے ہیں اسکی دلیل کیا ہے وہ بھی بتادیں بھائ۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مسند الامام احمد اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ :
عن عمرو بن شعیب عن ابیه ون جده ان النبی ﷺ کبر فی عید ثنتی عشرة تکبیرة سبعا فی الاولی و خمسا فی الاخرة ولم یصل قبلها ولا بعدها ۔ ( مسند احمد ، 6688 بتحقیق احمد شاکر ،، ابن ماجه مترجم ج ۱ کتاب اقامة الصلوة باب ماجاء فی کم یکبر الامام فی الصلوة العیدین ص ۶۳۴ رقم الحدیث ۱۳۷۷)
حضرت عبد اللہ عمرو ؓ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عید میں بارہ تکبریں کہیں ’پہلی رکعت میں سات اور آخری رکعت میں پانچ اور نماز سے پہلے اور بعد آپﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔
اور مسند امام احمد میں اس حدیث کے امام احمدؒ کے بیٹے جناب عبد اللہ بن احمد فرماتے ہیں :
[قال عبد الله بن أحمد]: قال أبي: وأنا أذهب إلى هذا."
میرے والد گرامی امام احمد فرماتے ہیں کہ میرا بھی یہی مذہب ہے
اس کے حاشیہ میں مصر کے مشہور محقق عالم جناب احمد شاکر لکھتے ہیں :
إسناده صحيح، عبد الله بن عبد الرحمن بن يعلى بن كعب الثقفي الطائفي: ثقة: وثقه ابن المديني والعجلي

اور علامہ نووی " المجموع " میں لکھتے ہیں :واحتج أصحابنا بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " كبر في الأولى سبعا وفي الثانية خمسا " رواه أبو داود وغيره وصححوه كما سبق بيانه وعن جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله رواه أبو داود
ہمارے شافعی فقہاء نے نماز عید میں بارہ تکبروں کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمرو کی حدیث سے لی ہے ،جس میں صآف مروی ہے کہ نبی کریم پہلی رکعت میں سات ، اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ، اس کو ابوداود اور دیگر محدثین نے نقل فرمایا ہے ،اور اس کو صحیح کہا ہے ،اور کئی ایک صحابہ کرام نے یہی بات رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے "
اور علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ التلخیص الحبیر میں فرماتے ہیں :ورواه أحمد وأبو داود وابن ماجه والدارقطني من حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده وصححه أحمد وعلي والبخاري فيما حكاه الترمذي
یعنی اس حدیث کو امام احمد ؒ اور علی بن مدینی ؒ اور امام بخاری ؒ نے صحیح کہا ہے جیسا کہ ترمذیؒ نے نقل کیا ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ترمذی ؒ بارہ تکبیرات کی ایک حدیث لکھنے کے بعد فرماتے ہیں :
"وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ،
یعنی اہل مدینہ کا یہی قول ہے ، امام مالک ، امام شافعی ؒ ،امام احمد بن حنبلؒ، اور امام اسحاق بن راھویہ ؒ کا بھی یہی قول ہے (کہ نماز عید میں بارہ تکبیریں زائد کہی جائیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور ہماری 12 تکبیرات جو عیدین کی نماز کے ہیں اسکی دلیل کیا ہے وہ بھی بتادیں بھائ۔۔
امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اپنی مصنف میں روایت نقل فرمائی ہے کہ :
عن جعفر بن محمد، عن أبيه قال: «علي يكبر في الأضحى والفطر والاستسقاء سبعا في الأولى، وخمسا في الأخرى، ويصلي قبل الخطبة ويجهر بالقراءة»
قال: «وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر وعثمان يفعلون ذلك»

یعنی جناب علی رضی اللہ عنہ عید الاضحی اور عید الفطر اور نماز استسقاء میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں ، اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ، اور نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے ، اور نماز میں جہری قراءت کرتے تھے ،
اور کہتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ اور سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ،اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم ایسے ہی کرتے تھے ؛

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مسند الامام احمد اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ :
عن عمرو بن شعیب عن ابیه ون جده ان النبی ﷺ کبر فی عید ثنتی عشرة تکبیرة سبعا فی الاولی و خمسا فی الاخرة ولم یصل قبلها ولا بعدها ۔ ( مسند احمد ، 6688 بتحقیق احمد شاکر ،، ابن ماجه مترجم ج ۱ کتاب اقامة الصلوة باب ماجاء فی کم یکبر الامام فی الصلوة العیدین ص ۶۳۴ رقم الحدیث ۱۳۷۷)
حضرت عبد اللہ عمرو ؓ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عید میں بارہ تکبریں کہیں ’پہلی رکعت میں سات اور آخری رکعت میں پانچ اور نماز سے پہلے اور بعد آپﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔
اور مسند امام احمد میں اس حدیث کے امام احمدؒ کے بیٹے جناب عبد اللہ بن احمد فرماتے ہیں :
[قال عبد الله بن أحمد]: قال أبي: وأنا أذهب إلى هذا."
میرے والد گرامی امام احمد فرماتے ہیں کہ میرا بھی یہی مذہب ہے
اس کے حاشیہ میں مصر کے مشہور محقق عالم جناب احمد شاکر لکھتے ہیں :
إسناده صحيح، عبد الله بن عبد الرحمن بن يعلى بن كعب الثقفي الطائفي: ثقة: وثقه ابن المديني والعجلي

اور علامہ نووی " المجموع " میں لکھتے ہیں :واحتج أصحابنا بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " كبر في الأولى سبعا وفي الثانية خمسا " رواه أبو داود وغيره وصححوه كما سبق بيانه وعن جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله رواه أبو داود
ہمارے شافعی فقہاء نے نماز عید میں بارہ تکبروں کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمرو کی حدیث سے لی ہے ،جس میں صآف مروی ہے کہ نبی کریم پہلی رکعت میں سات ، اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ، اس کو ابوداود اور دیگر محدثین نے نقل فرمایا ہے ،اور اس کو صحیح کہا ہے ،اور کئی ایک صحابہ کرام نے یہی بات رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے "
اور علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ التلخیص الحبیر میں فرماتے ہیں :ورواه أحمد وأبو داود وابن ماجه والدارقطني من حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده وصححه أحمد وعلي والبخاري فيما حكاه الترمذي
یعنی اس حدیث کو امام احمد ؒ اور علی بن مدینی ؒ اور امام بخاری ؒ نے صحیح کہا ہے جیسا کہ ترمذیؒ نے نقل کیا ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ترمذی ؒ بارہ تکبیرات کی ایک حدیث لکھنے کے بعد فرماتے ہیں :
"وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ،
یعنی اہل مدینہ کا یہی قول ہے ، امام مالک ، امام شافعی ؒ ،امام احمد بن حنبلؒ، اور امام اسحاق بن راھویہ ؒ کا بھی یہی قول ہے (کہ نماز عید میں بارہ تکبیریں زائد کہی جائیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/QUOTE

IMG-20160829-WA0031.jpg
IMG-20160829-WA0030.jpg


لیکن شیخ اس روایت کے دو راویوں پر تدلیس کی جرح ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
لیکن شیخ اس روایت کے دو راویوں پر تدلیس کی جرح ہے؟
محترم بھائی
" عمرو بن شعیب عن ابیہ " کی سند بالکل صحیح اور متصل ہے
امام ابن عبد البرؒ " الاستذکار " میں امام علی بن مدینیؒ کا قول نقل فرماتے ہیں :
عمرو بن شُعيبٍ عن أبيه عن جدِّه صحيحٌ متَّصِلٌ.jpg

اور
اسی فورم پر عمرو بن شعیب کے طریق کے متعلق مستقل تھریڈ موجود ہے ، جس میں شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے اس کی صحت ثابت کی ہے

عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده کا طریق بالکل صحیح ہے جمہور محدثین کی یہی تحقیق ہے ، بلکہ بعض محدثین نے تو اس طریق کے دفاع میں رسالے بھی تالیف کئے ہیں۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
رأيت احمد بن حنبل وعلي بن المديني وإسحاق بن راهويه والحميدي وأبا عبيد، وعامة أصحابنا يحتجون بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، ما تركه أحد من المسلمين [تهذيب التهذيب لابن حجر: 24/ 49 وانظرالتاريخ الكبير للبخاري : 6/ 343]۔

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)نے کہا:
وَأَمَّا أَئِمَّةُ الْإِسْلَامِ وَجُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ فَيَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ إذَا صَحَّ النَّقْلُ إلَيْهِ[مجموع الفتاوى: 18/ 8]۔

امام مزي رحمه الله (المتوفى742)نے کہا:
فدل ذلك على أن حديث عَمْرو بن شعيب عَن أبيه ، عن جده صحيح متصل إذا صح الاسناد إليه ، وأن من ادعى فيه خلاف ذلك ، فدعواه مردودة[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 536]۔

امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
وَأَكْثَرُ النَّاسِ يَحْتَجُّ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ إذَا كَانَ الرَّاوِي عَنْهُ ثِقَةٌ [نصب الراية للزيلعي: 1/ 58]۔

امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى:804)نے کہا:
وَلَكِن الْجُمْهُور وَالْأَكْثَرُونَ عَلَى الِاحْتِجَاج بِهِ ، كَمَا قَالَه الشَّيْخ تَقِيّ الدَّين بن الصّلاح فِي كَلَامه عَلَى الْمُهَذّب ، وَهُوَ كَمَا قَالَ ، فقد قَالَ البُخَارِيّ : رَأَيْت أَحْمد بن حَنْبَل وَعلي بن الْمَدِينِيّ وَإِسْحَاق بن رَاهَوَيْه يحتجون بِحَدِيث عَمْرو بن شُعَيْب عَن أَبِيه عَن جده . قَالَ البُخَارِيّ : مَن النَّاس بعدهمْ ؟ .[البدر المنير لابن الملقن: 2/ 148]۔

معلوم ہواکہ جمہورمحدثین کے نزدیک یہ طریق بالکل صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
اسی فورم پر عمرو بن شعیب کے طریق کے متعلق مستقل تھریڈ موجود ہے ، جس میں شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے اس کی صحت ثابت کی ہے
ھم اسے پڑھنا چاھتے ھیں. محترم شیخ ھماری مدد فرمائیں. کیونکہ ھم نے اس کے بارے میں اور ابن لہیعۃ کے بارے میں بہت سنا ھے.
 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
207
پوائنٹ
82
اسحاق سلفی اگر حنفی امام کی پیچھے نماز عید ادا کر رہے ہوں اور وہ تو چھ تکبیریں ہی پڑھتے ہیں تو کیا نماز ہو جاتی ہے چھ والوں کے پیچھے بھی ؟
 
Top