• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز اور معاملات خانگی۔ تفسیر السراج۔۔ پارہ:2

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا عَرَّضْتُمْ بِہٖ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَاۗءِ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ عَلِمَ اللہُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَہُنَّ وَلٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا اِلَّآ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝۰ۥۭ وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّكَاحِ حَتّٰي يَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَہٗ۝۰ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِىْٓ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْہُ۝۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝۲۳۵ۧ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَۃً۝۰ۚۖ وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۝۰ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۝۰ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِنِيْنَ۝۲۳۶ وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِيْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ يَّعْفُوْنَ اَوْ يَعْفُوَا الَّذِيْ بِيَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّكَاحِ۝۰ۭ وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۭ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۲۳۷ حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى۝۰ۤ وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِيْنَ۝۲۳۸ فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا۝۰ۚ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللہَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝۲۳۹
اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ کنایۃً(اشارہ سے ) عورتوں کو نکاح کا پیغام دو یا اپنے دل میں چھپارکھو۔ خدا جانتا ہے کہ البتہ تم ان کا ذکر کروگے مگر تم ان سے خفیہ وعدہ نہ کررکھو۔ ہاں حسب دستور کوئی بات کہہ دو (کوئی حرج نہیں) اورنکاح کا ارادہ نہ کرو جب تک خدا کا حکم اپنی مدت کو نہ پہنچے اور جان لو کہ جو تمہارے دل میں ہے ، اللہ کو معلوم ہے سو اس سے ڈرو اور جانو کہ اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔(۲۳۵)اگرتم نے عورتوں کو ان کے ساتھ ہم بستر ہونے سے پہلے طلاق دے دی یا ان کا مہر مقرر نہیں کیا اور طلاق دے دی تو تم پر کچھ گناہ نہیں(مہرلازم نہیں) اور چاہیے کہ غنی اور تنگدست آدمی اپنی اپنی حیثیت کے موافق ان کو خرچ دیں جیسے خرچ کا دستور ہو۔ یہ نیکوکاروں پر حق ہے ۔(۲۳۶) اور اگر ہم بستر ہونے سے پہلے ان کو طلاق دو اور ان کا مہر تم مقرر کرچکے ہوتو جو تم نے مقرر کیا ہے اس کا نصف دینا چاہیے مگر جب کہ وہ عورتیں یا وہ شخص جس کے ہاتھ نکاح کی گرہ تھی معاف کردے اور تم مرد اگر معاف کرو تو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور آپس میں احسان کرنا نہ بھلادو۔ بیشک جو تم کرتے ہو خدا دیکھتا ہے۔(۲۳۷)نمازوں۱؎ سے اور بیچ والی نماز سے خبردار رہو اور اللہ کے آگے ادب سے کھڑے ہوا کرو۔(۲۳۸)پھر اگر تم کو خوف ہوتو پیادہ یا سوار ہی نماز پڑھ لو۔ پھرجب امن میں آجاؤ توخدا کو یاد کرو جیسا کہ اس نے تم کو وہ باتیں سکھلائیں جو تم نہ جانتے تھے۔(۲۳۹)
نماز اور معاملات خانگی
۱؎ ان آیات میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ نکاح وطلاق کے عین درمیان نماز کا ذکر ہے ۔ اس سیاق کا فلسفہ کیا ہے ؟ نکاح وطلاق کے مسائل جو یکسر خانگی معاملات ہیں، نماز سے کیا تعلق وربط رکھتے ہیں جو خالص روحانی عبادت ہے اور کیوں نماز کو عین ان مسائل کے درمیان بیان کیا۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قرآن حکیم مضامین کے بیان کرنے میں کسی اکتسابی اسلوب بیان کا محتاج نہیں۔ اس کا انداز بیان اپنا ہے اورفطری ہے ۔جس طرح انسان سوچتے وقت کسی خاص منطقی طریق کا پابند نہیں ہوتا اور خیالات تنوع کے ساتھ دماغ میں آتے ہیں،اسی طرح قرآن حکیم کے مضامین اپنے اندر ایک عجیب تنوع لیے ہوئے ہیں۔ جن میں گو مصنوعی ترتیب نہیں ہوتی مگر قدرتی ربط اس نوع کا ہوتا ہے کہ پڑھنے میں دلچسپی قائم رہتی ہے ۔

دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بتانا یہ مقصود ہے کہ نماز ومعاملات میں ایک گہرا ربط ہے۔وہ لوگ جو نماز تو پڑھتے ہیں مگر معاملات خانگی میں اچھے ثابت نہیں ہوتے، وہ نماز کا مفہوم نہیں سمجھتے۔نماز ایک خاص نوع کی روحانی ریاضت ہی کا نام نہیں، بلکہ اس کا تعلق اعمال کے ساتھ ہے اور اس حد تک ہے کہ وہ لوگ جو حقوق الناس کا خیال نہیں رکھتے، صحیح معنوں میں عبادالرحمن نہیں۔ نماز کے معنی ایک ذہنی عملی انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے ہیں جو نمازی میں پیدا ہوجاتا ہے ۔ یعنی نماز پڑھنے سے نمازی کا ہر حصہ زندگی متاثر ہوتا ہے بلکہ بدلتا ہے ۔اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ کا یہی مفہوم ہے۔

صلوٰۃ وسطی سے مراد بہتر، زیادہ مراتب ودرجات کی حامل نماز کے ہیں، اس لیے کہ لفظ وَسَطٌ جس کے معنی درمیان کے ہوتے ہیں اس سے تفضیل کا صیغہ مشتق نہیں ہوتا۔پھراس کے مصدوق میں اختلاف ہے ۔ زیادہ قرین صحت یہ ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے ۔نماز کی تاکید اس قدر زیادہ ہے کہ حالت جنگ میں بھی اسے ترک نہیں کیا جاسکتا۔ اگر سواری کی صورت میں ممکن ہو تو سواری پر پڑھ لے ورنہ کھڑے کھڑے ادا کرلے۔ بہرحال معاف نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ یہی تو وہ چیز ہے جس سے فرائض کا احساس ہوتا رہتا ہے اور جس سے مسلمانوں کی فلاح وبہبود وابستہ ہے۔
حل لغات
{عَرَّضْتُم} مصدر تعریض۔ پیش کرنا{قٰنتین}خشوع وخضوع۔مادہ قنوت۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا۝۰ۚۖ وَّصِيَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ۝۰ۚ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْ مَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ۝۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۴۰ وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ۝۲۴۱ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۲۴۲ۧ
اور جو لوگ تم میں مرجاویں اورعورتیں چھوڑ جاویں وہ ایک سال تک ان کے خرچ دینے کی وصیت ۱؎کرجائیں نہ یہ کہ نکال دی جائیں۔ پھر اگر وہ آپ نکل جائیں تو تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں ۔ جو وہ اپنے حق میں دستور کے مطابق(تجویز) کریں اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔(۲۴۰) اورطلاق یافتہ۲؎عورتوں کو حسب دستور خرچ دینا چاہیے۔ یہ پرہیز گاروں پر لازم ہے۔(۲۴۱)خدا یوں اپنی آیتیں تمہارے لیے بیان کرتا ہے ۔ شاید تم سمجھو۔(۲۴۲)
۱؎ ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ اگر بیوہ عورتوں کے متعلق ان کے خاوند وصیت کرجائیں کہ انھیں ایک سال تک مکان سے نہ نکالاجائے تو اس پر عمل کیا جائے ۔

اگر وہ خود اس عرصہ میں نکلنا چاہیں تومضائقہ نہیں۔

سلف میں اس آیت کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ منسوخ ہے یا محکم۔ اکثریت کی رائے ہے کہ منسوخ ہے آیت وصیت کی وجہ سے اور آیت عدت کی وجہ سے مگر ان آیات میں تطبیق بھی ممکن ہے۔ آیت وصیت وعدت میں احکام ہیں اور اس آیت میں فوق الاحکام ،حسن سلوک۔ یعنی اگر کوئی شخص حقوق سے زیادہ کچھ دینا چاہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۲؎ وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌ کے معنی ہیں کہ طلاق محض اختلاف رائے کا نتیجہ ہے ۔ کسی بغض وعناد کا نتیجہ نہیں یعنی اگر طلاق دوتو اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ تم بعض وجوہ کی بناپر اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ نہ یہ کہ مطلقہ حسن سلوک کی مستحق نہیں رہی۔

قرآن حکیم کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان بہرحال اخلاق عالیہ کا مظاہرہ کرے اور کسی حالت میں بھی حسن سلوک کی فضیلت کو فراموش نہ کرے۔
 
Top