ابوالوفا محمد حماد اثری
مبتدی
- شمولیت
- جون 01، 2017
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 20
بیس تراویح کے دلائل کا جائزہ
تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری
بیس تراویح کو مسنون قرار دینا درست نہیں، اس کے دلائل کا علمی وتحقیقی، مختصر، مگر جامع جائزہ پیش خدمت ہے :
1 سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 294/2، السّنن الکبرٰی للبیہقي : 496/2، المعجم الکبیر للطّبراني : 393/11)
تبصرہ :
سخت ''ضعیف'' ہے، ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان ''متروک الحدیث'' ہے۔ جمہور نے اسے 'ضعیف'' کہا ہے۔
اسے امام احمد بن حنبل، امام یحی بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام بخاری، امام ابن حبان، امام ابن عدی اور امام دارقطنی رحمہم اللہ وغیرہم نے ضعیف ومتروک کہا ہے۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ومن اتفق ہولاء الائمۃ علی تضعیفہ، لا یحل الاحتجاج بحدیثہ ۔
جس راوی کی تضعیف پر ان ائمہ کا اتفاق ہو جائے، ایسے کی حدیث سے دلیل لینا حلال نہیں۔
(المصابیح فی صلاۃ التراویح)
علامہ قدوری (368۔428ھ)نے ''کذاب''کہا ہے۔ (التجرید للقدوري : 203/1)
علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:
وَہُوَ مَعْلُولٌ بِأَبِي شَیْبَۃَ إبْرَاہِیمَ بْنِ عُثْمَانَ، جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَکْرِ ابْنِ أَبِي شَیْبَۃَ، وَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ، وَلَیَّنَہُ ابْنُ عَدِيٍّ فِي الْکَامِلِ، ثُمَّ إِنَّہ، مُخَالِفٌ لِّلْحَدِیثِ الصَّحِیحِ عَنْ أَبِي سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہ، سَأَلَ عَائِشَۃَ : کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ قَالَتْ : مَا کَانَ یَزِیدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَیْرِہٖ عَلٰی إحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً .
''یہ روایت ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے معلول (ضعیف)ہے، جو کہ امام ابو بکر بن ابو شیبہ کا دادا ہے۔ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل میں اسے کمزور قرار دیا ہے۔ نیز یہ روایت اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، جس میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیا تھی،تو فرمایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔''
(نصب الرّایۃ في تخریج احادیث الہدایۃ : 153/2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
واسنادہ ضعیف ویعارضہ قول عائشۃ رضی اللہ عنھا : ما کان یزید فی رمضان وفی غیرہ علی احدٰی عشرۃ رکعۃ متفق علیہ۔
اس کی سند ضعیف ہے اور یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی متفق علیہ حدیث کے معارض ومخالف بھی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ (الدرایۃ تخریخ احادیث الھدایۃ : 1/302)
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کی فصل می ذکر کیا ہے۔ (خلاصۃ الاحکام : 1/579)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے منکر کہا ہے۔ (میزان الاعتدال : 1/48)
ابو شیبہ کی روایت اور علمائے احناف :
(ا) علامہ انور شاہ کشمیری صاحب لکھتے ہیں :
أَمَّا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَصَحَّ عَنْہُ ثَمَانُ رَکْعَاتٍ، وَأَمَّا عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً، فَھُوْ عَنْہُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِسَنَدٍ ضَعِیفٍ وَعَلٰی ضَعْفِہِ اتِّفَاقٌ .
''آٹھ تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور بیس کی روایت ضعیف ہے، اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔''
(العَرف الشّذي : 166/1)
بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث کے ہوتے ،ایسی روایت پیش کرنا جس کے ضعف پر اجماع واقع ہوچکا ہو،دلائل سے تہی دستی کی واضح دلیل ہے۔
(ب) مولاناعبدالشکور فاروقی صاحب نے اسے ''ضعیف'' قرار دیا ہے۔ (علم الفقہ، ص 198)
(ج) مفتی دارالعلوم دیوبند ،جناب عزیز الرحمان صاحب لکھتے ہیں:
''ہاں اس میں شک نہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔''
(فتاوی دارالعلوم دیوبند : 249/1)
(د) ابن عابدین شامی رحمہ اللہ (1252ھ) لکھتے ہیں:
فَضَعِیْفٌ بِأَبِي شَیْبَۃَ، مَتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ، مَعَ مُخَالِفَتہٖ لِلصَّحِیحِ .
''حدیث ضعیف ہے، ابو شیبہ (ابراہیم بن عثمان) بالاتفاق ضعیف ہے، نیز یہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے۔''
(منحۃ الخالق : 66/2)
یہی بات ، ابن ہمام حنفی (فتح القدیر : 46/81)، علامہ عینی حنفی (عمدۃ القاري : 17/1777)، ابن نجیم (البحر الرائق : 6/62)، ابن عابدین شامی (رد المحتار : 1/521)، ابو الحسن شرنبلالی (مراقي الفلاح : 442)، طحطاوی (حاشیۃ الطّحطاوي علی الدر المختار : 1/295) وغیرہم نے بھی کہی ہے۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ (911ھ) لکھتے ہیں:
ھٰذَا الْحَدِیثُ ضَعِیْفٌ جِدًّا، لَّا تُقُومُ بِہٖ حُجَّۃٌ .
''یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے، اس سے حجت و دلیل قائم نہیں ہو سکتی۔''
(المصابیح في صلاۃ التّراویح : 17)
تنبیہ :
جناب احمد یار خان گجراتی صاحب اپنی کتاب ''جاء الحق'' (2/2433) میں ''نمازِ جنازہ میں الحمد شریف تلاوت نہ کرو۔'' کی بحث میں امامِ ترمذی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ منکر ِ حدیث ہے۔''
لیکن اپنی اسی کتاب (1/4477) کے ضمیمہ میں مندرج رسالہ ''لمعات المصابیح علی رکعات التراویح'' میں اس کی حدیث کو بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ اسی لیے انصاف کو ان سے شکایت ہے کہ وہ اس کا ساتھ نہیں دیتے۔
نیز اس روایت میں حکم بن عتیبہ مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
2 سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رمضان میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام کو چوبیس رکعت اور تین وتر پڑھائے۔
(تاریخ جرجان لأبي قاسم حمزۃ بن یوسف السہمي، ص 275)
تبصرہ :
جھوٹ ہے:
1 عمر بن ہارون بلخی ''متروک و کذاب'' ہے۔ جمہور نے اسے ''ضعیف'' قرار دیا ہے۔
اسے امام احمد بن حنبل، امام عبد الرحمن بن مہدی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام عجلی، امام علی ابن مدینی، امام نسائی، امام دارقطنی، امام ابن حبان اورامام ابوحاتم رازی رحمہم اللہ وغیرہم نے مجروح اور غیر ثقہ قرار دیا ہے۔
حافظ ابو علی نیشاپوری رحمہ اللہ نے متروک کہا ہے۔
امام یحی بن معین اور امام صالح جزرہ رحمہما اللہ نے کذاب کہا ہے۔
امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الناس ترکوا حدیثہ ۔ محدثین کرام نے اس کی حدیث کو متروک کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : 6/141)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اجمع علی ضعفہ ۔ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ (تلخیص المستدرک : 848)
2 محمد بن حمید رازی جمہور کے نزدیک ''ضعیف'' ہے،
3 ابراہیم بن مختار جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
علامہ زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
دعویٰ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی بھم فی تلک ا للیلۃ عشرین رکعۃ لم یصح ۔
یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات صحابہ کرام کو بیس رکعت پڑھائی تھیں، صحیح نہیں۔
(المصابیح فی صلاۃ التراویح للسیوطی)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فالحاصل ان العشرین رکعۃ لم تثبت من فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بیس رکعت تراویح پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
(المصابیح فی صلاۃ التراویح)
تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری
بیس تراویح کو مسنون قرار دینا درست نہیں، اس کے دلائل کا علمی وتحقیقی، مختصر، مگر جامع جائزہ پیش خدمت ہے :
1 سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 294/2، السّنن الکبرٰی للبیہقي : 496/2، المعجم الکبیر للطّبراني : 393/11)
تبصرہ :
سخت ''ضعیف'' ہے، ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان ''متروک الحدیث'' ہے۔ جمہور نے اسے 'ضعیف'' کہا ہے۔
اسے امام احمد بن حنبل، امام یحی بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام بخاری، امام ابن حبان، امام ابن عدی اور امام دارقطنی رحمہم اللہ وغیرہم نے ضعیف ومتروک کہا ہے۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ومن اتفق ہولاء الائمۃ علی تضعیفہ، لا یحل الاحتجاج بحدیثہ ۔
جس راوی کی تضعیف پر ان ائمہ کا اتفاق ہو جائے، ایسے کی حدیث سے دلیل لینا حلال نہیں۔
(المصابیح فی صلاۃ التراویح)
علامہ قدوری (368۔428ھ)نے ''کذاب''کہا ہے۔ (التجرید للقدوري : 203/1)
علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:
وَہُوَ مَعْلُولٌ بِأَبِي شَیْبَۃَ إبْرَاہِیمَ بْنِ عُثْمَانَ، جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَکْرِ ابْنِ أَبِي شَیْبَۃَ، وَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ، وَلَیَّنَہُ ابْنُ عَدِيٍّ فِي الْکَامِلِ، ثُمَّ إِنَّہ، مُخَالِفٌ لِّلْحَدِیثِ الصَّحِیحِ عَنْ أَبِي سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہ، سَأَلَ عَائِشَۃَ : کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ قَالَتْ : مَا کَانَ یَزِیدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَیْرِہٖ عَلٰی إحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً .
''یہ روایت ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے معلول (ضعیف)ہے، جو کہ امام ابو بکر بن ابو شیبہ کا دادا ہے۔ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل میں اسے کمزور قرار دیا ہے۔ نیز یہ روایت اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، جس میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیا تھی،تو فرمایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔''
(نصب الرّایۃ في تخریج احادیث الہدایۃ : 153/2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
واسنادہ ضعیف ویعارضہ قول عائشۃ رضی اللہ عنھا : ما کان یزید فی رمضان وفی غیرہ علی احدٰی عشرۃ رکعۃ متفق علیہ۔
اس کی سند ضعیف ہے اور یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی متفق علیہ حدیث کے معارض ومخالف بھی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ (الدرایۃ تخریخ احادیث الھدایۃ : 1/302)
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کی فصل می ذکر کیا ہے۔ (خلاصۃ الاحکام : 1/579)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے منکر کہا ہے۔ (میزان الاعتدال : 1/48)
ابو شیبہ کی روایت اور علمائے احناف :
(ا) علامہ انور شاہ کشمیری صاحب لکھتے ہیں :
أَمَّا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَصَحَّ عَنْہُ ثَمَانُ رَکْعَاتٍ، وَأَمَّا عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً، فَھُوْ عَنْہُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِسَنَدٍ ضَعِیفٍ وَعَلٰی ضَعْفِہِ اتِّفَاقٌ .
''آٹھ تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور بیس کی روایت ضعیف ہے، اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔''
(العَرف الشّذي : 166/1)
بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث کے ہوتے ،ایسی روایت پیش کرنا جس کے ضعف پر اجماع واقع ہوچکا ہو،دلائل سے تہی دستی کی واضح دلیل ہے۔
(ب) مولاناعبدالشکور فاروقی صاحب نے اسے ''ضعیف'' قرار دیا ہے۔ (علم الفقہ، ص 198)
(ج) مفتی دارالعلوم دیوبند ،جناب عزیز الرحمان صاحب لکھتے ہیں:
''ہاں اس میں شک نہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔''
(فتاوی دارالعلوم دیوبند : 249/1)
(د) ابن عابدین شامی رحمہ اللہ (1252ھ) لکھتے ہیں:
فَضَعِیْفٌ بِأَبِي شَیْبَۃَ، مَتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ، مَعَ مُخَالِفَتہٖ لِلصَّحِیحِ .
''حدیث ضعیف ہے، ابو شیبہ (ابراہیم بن عثمان) بالاتفاق ضعیف ہے، نیز یہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے۔''
(منحۃ الخالق : 66/2)
یہی بات ، ابن ہمام حنفی (فتح القدیر : 46/81)، علامہ عینی حنفی (عمدۃ القاري : 17/1777)، ابن نجیم (البحر الرائق : 6/62)، ابن عابدین شامی (رد المحتار : 1/521)، ابو الحسن شرنبلالی (مراقي الفلاح : 442)، طحطاوی (حاشیۃ الطّحطاوي علی الدر المختار : 1/295) وغیرہم نے بھی کہی ہے۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ (911ھ) لکھتے ہیں:
ھٰذَا الْحَدِیثُ ضَعِیْفٌ جِدًّا، لَّا تُقُومُ بِہٖ حُجَّۃٌ .
''یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے، اس سے حجت و دلیل قائم نہیں ہو سکتی۔''
(المصابیح في صلاۃ التّراویح : 17)
تنبیہ :
جناب احمد یار خان گجراتی صاحب اپنی کتاب ''جاء الحق'' (2/2433) میں ''نمازِ جنازہ میں الحمد شریف تلاوت نہ کرو۔'' کی بحث میں امامِ ترمذی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ منکر ِ حدیث ہے۔''
لیکن اپنی اسی کتاب (1/4477) کے ضمیمہ میں مندرج رسالہ ''لمعات المصابیح علی رکعات التراویح'' میں اس کی حدیث کو بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ اسی لیے انصاف کو ان سے شکایت ہے کہ وہ اس کا ساتھ نہیں دیتے۔
نیز اس روایت میں حکم بن عتیبہ مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
2 سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رمضان میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام کو چوبیس رکعت اور تین وتر پڑھائے۔
(تاریخ جرجان لأبي قاسم حمزۃ بن یوسف السہمي، ص 275)
تبصرہ :
جھوٹ ہے:
1 عمر بن ہارون بلخی ''متروک و کذاب'' ہے۔ جمہور نے اسے ''ضعیف'' قرار دیا ہے۔
اسے امام احمد بن حنبل، امام عبد الرحمن بن مہدی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام عجلی، امام علی ابن مدینی، امام نسائی، امام دارقطنی، امام ابن حبان اورامام ابوحاتم رازی رحمہم اللہ وغیرہم نے مجروح اور غیر ثقہ قرار دیا ہے۔
حافظ ابو علی نیشاپوری رحمہ اللہ نے متروک کہا ہے۔
امام یحی بن معین اور امام صالح جزرہ رحمہما اللہ نے کذاب کہا ہے۔
امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الناس ترکوا حدیثہ ۔ محدثین کرام نے اس کی حدیث کو متروک کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : 6/141)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اجمع علی ضعفہ ۔ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ (تلخیص المستدرک : 848)
2 محمد بن حمید رازی جمہور کے نزدیک ''ضعیف'' ہے،
3 ابراہیم بن مختار جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
علامہ زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
دعویٰ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی بھم فی تلک ا للیلۃ عشرین رکعۃ لم یصح ۔
یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات صحابہ کرام کو بیس رکعت پڑھائی تھیں، صحیح نہیں۔
(المصابیح فی صلاۃ التراویح للسیوطی)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فالحاصل ان العشرین رکعۃ لم تثبت من فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بیس رکعت تراویح پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
(المصابیح فی صلاۃ التراویح)
Last edited by a moderator: